بیتے ہوئے ماہ و سال

سال گزشتہ خشک پتوں کی مانند موسم خزاں میں ڈھلتا چلا گیا

nasim.anjum27@gmail.com

2016ء کا سورج آخرکار اپنی منزل پر پہنچا، سال گزشتہ خشک پتوں کی مانند موسم خزاں میں ڈھلتا چلا گیا لیکن اپنی بے شمار یادیں، تلخ و شیریں واقعات کو زمانے کی گود میں ڈال گیا، گزرے ماہ و سال میں ضرب عضب کی کامیابیاں سامنے آئیں، راحیل شریف کی عزت و توقیر میں ﷲ رب العزت نے اضافہ فرمایا، دو ہزار سولہ میں وہ رخصت بھی ہوگئے۔ ان کی جگہ آنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اسی عزم صمیم کے ساتھ میدان کار زار میں قدم رکھ دیا ہے، بقول ان کے وہ قوم کو کبھی مایوس نہیں کریںگے اور اپنے حصے کا کام جنرل راحیل شریف کی ہی طرح خلوص نیت کے ساتھ انجام دیںگے اور حالات ہمیں یہ بتارہے ہیں کہ ضرب عضب کا سفر کامیابی سے جاری ہے۔

جنرل راحیل شریف نے ایسے اقدامات بلا خوف و خطر انجام دیے جن کے کرنے سے خوف و ہراس اور ٹارگٹ کلنگ تقریباً ختم ہوگئی۔ گلیوں، بازاروں کی رونقیں لوٹ آئیں۔ عید، بقر عید کے مواقعوں پر مارکیٹوں میں خریداروں کا رش رہا اور دکانیں دیر تک کھلی رہیں اور گاہکوں کا رش بڑھتا رہا، سب کے چہرے خوشیوں سے تمتماتے رہے۔ جب کہ سابقہ دور میں سب کچھ اس کے برعکس تھا، اس مرد مجاہد کو قوم سلام پیش کرتی ہے۔ دبئی جانے والوں کی آمد ہے، ادھر جنرل صاحب رخصت ہوئے اور ادھر جانے والوں نے پاکستان آنے کے لیے پر تولے، اس کی وجہ سے اہل بصیرت واقف ہیں لہٰذا تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔

پاناما لیکس بھی 2016ء میں اپنی مکمل تابانیوں کے ساتھ نمودار ہوا، جن لوگوں کے نام پاناما لیکس میں شامل تھے انھوں نے عزت کے ساتھ استعفیٰ دیا اور گھروں کو چلے گئے، لیکن ہمارے ملک میں سدا ہی سے الٹی گنگا بہہ رہی ہے، کرپشن کو عروج حاصل ہے اور انصاف کو زوال، عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی کوششوں سے ثبوت سامنے آگئے لیکن نتیجہ صفر رہا اور عمران خان کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے ایک موقع پر کہاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے آگیا ہے اور ہم جیت گئے ہیں۔

عمران خان نے اگر اپنی جیت کا دعویٰ کیا تو غلط تو نہیں کیا۔ وہ واقعی ثبوت پیش کرنے میں کامیاب ہوگئے لیکن کیا کیا جائے ہمارے نظام کا، کبھی بھی غیر جانبدارانہ فیصلہ نہیں کیا گیا۔ بات یہ ہے کہ سب کچھ حکومت کا ہے، ادارے بھی اور انصاف کے کٹہرے بھی، جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ اب اگر لاٹھی کا ذکر آہی گیا ہے تو اﷲ کی لاٹھی بے شک بے آواز ہے، ہمیشہ اقتدار میں کوئی نہیں رہتا ہے، ایک نہ ایک دن ایسا ضرور آتا ہے جب اقتدار کی کرسی پاش پاش ہوتی ہے، لیکن مقتدر حضرات آنے والے وقت اور حالات کو یکسر فراموش کردیتے ہیں ۔ یہ جانتے ہوئے بھی وقت بڑے بڑوں کو اپنی سچائیوں کے ساتھ پچھاڑ دیتا ہے۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نڈر، بہادر اور ایک سچے مسلمان ہیں لیکن دولت کے پجاری اور اقتدار کے بھوکے طرح طرح کے الزامات لگانے سے نہیں چوکتے، ایسی گھٹیا باتیں کرتے ہیں جنھیں سن کر شرم آتی ہے کہ دوسرے ملکوں کے لوگ کیا سوچیںگے؟ ایسی باتوں سے انسان کی ذہنیت ضرور سامنے آجاتی ہے۔ مولانا طاہر القادری بارہا حکومت کو یاد دلاتے رہے کہ وہ قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائے اور ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کے ساتھ انصاف کرے لیکن افسوس سب کے کان بند ہیں، سماعت سے محروم، بس انھیں تو اپنے ہی مطلب کی باتیں سمجھ میں آتی ہیں، یہ لوگ اپنے رب سے نہیں ڈرتے، جس نے آزمائش میں مبتلا کیا ہے۔


نواز شریف نے اپنے قطری مہمانوں کی دعوت اور تلور کے شکار کی اجازت دے کر انھیں عزت و مرتبہ اور شرف مہمانی بخشا لیکن بے چارے غربا کے منہ سے رزق حلال چھین لیا، بے شمار لوگ روزگار سے محروم ہوگئے، شہزادے اور بادشاہ سلامت دعوتیں اڑاتے رہے اور محنت کش فاقہ کشی پر مجبور ہوئے۔ قطری شہزادوں اور ان کے اہل خانہ نے جو جو عنایتیں بادشاہ سلامت اور ان کے خاندان پر کیں، کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان نوازشات میں انھیں بھی شریک کرلیتے، تو پھر نہ دھرنا دیا جاتا اور نہ فائرنگ کا واقعہ پیش آتا۔

14 سال تک دور اقتدار میں رہنے والے گورنر سندھ عشرت العباد کی بھی چھٹی کردی گئی۔ عشرت العباد بے ضرر انسان تھے، نہ اچھے میں اور نہ برے میں، خاموشی سے حکومت کرتے رہے، پیپلزپارٹی کو ان کی یہی ادا بھاگئی، ادا تو سابقہ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی بھی پسند آئی، انھوں نے بھی ایک طویل عرصہ حکومت میں گزارا اور صوبائی ذمے داریوں کے بوجھ سے آزاد رہے اسی لیے آج شہر کراچی کوڑا کرکٹ اور بیماریوں کی آماجگاہ بن گیا اور گزرے سال دسمبر 2016ء میں ایک نئی بیماری چکن گنیا سامنے آئی، جس کی وجہ سے دیہی علاقوں کے مکین ان اسپتالوں میں علاج کرانے پر مجبور ہوئے، جہاں طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، ان حالات میں مریض بے حد پریشان اور دل شکستہ ہیں کہ وہ جائیں تو کہاں جائیں؟

چکن گنیا نامی مچھر یا بیماری گندگی کی پیداوار ہے۔ شہر کراچی سالہا سال سے یتیمی کا صدمہ سہہ رہا ہے اس کے والی وارث بے خبر ہیں اور چین کی بانسری بجارہے ہیں۔ پی آئی اے کا ادارہ ہر لحاظ سے خسارے میں چل رہا ہے، انسانی جانوں کے زیاں کے حوالے سے بھی بدنامی میں اپنا جواب نہیں رکھتا، سال کے آخری ماہ دسمبر میں پی آئی کا جہاز گرتا ہے اور 47 مسافر جام شہادت نوش کرلیتے ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ جہاز میں ٹیکنیکل فالٹ تھا، پی آئی اے کے افسران بالا سالہا سال سے انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔

ملکی تاریخ میں 16 فضائی حادثات ہوچکے ہیں، گزرے سانحات سے کوئی سبق نہیں سیکھا، انسانی جانوں کی کوئی وقعت نہیں؟ دو ہزار سولہ میں ہی سیاست دانوں کے چہروں سے نقاب کھسک گیا اور پھر سب کچھ سامنے آگیا اور اس بات کا بھی عوام کو اندازہ ہوا کہ وطن پرست کون ہے؟ اور محب وطن تعداد میں کتنے ہیں؟ عبدالستار ایدھی کی مثال سامنے ہے، اپنی ساری عمر انسانیت کے لیے وقف کردی وہ چلے گئے لیکن ان کی یادوں کے لیمپ، عزت و توقیر کا چراغ ہر دل میں روشن ہے۔ دو ہزار سولہ نے خون کے آنسو بھی رلائے کہ امت مسلمہ ہر محاذ پر پسپا ہوئی، شامی، کشمیری، فلسطینی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، شام میں مسلمانوں کی حالت بہت بری ہے۔

لاکھوں شامی مسلمان زخموں سے چور، ننھے بچوں کے لاشے اٹھائے سانسیں لینے پر مجبور ہیں، مارچ 2011ء سے شروع ہونے والی جنگ میں اب تک تین لاکھ 10 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں، ہزاروں بچے اپنے والدین سے بچھڑگئے ہیں ان کے سینوں پر گولیاں داغی جارہی ہیں، زخمی اور جاں بلب بچے آہ و فریاد کرنا بھی بھول گئے ہیں کہ اس کی طاقت ہی نہیں ہے۔

کشمیر اور فلسطین میں بھی نوجوانوں کو اغوا کیا جارہاہے، موت کے منہ میں دھکیلا جارہا ہے، لاکھوں نوجوان مودی اور اسرائیل کے ہاتھوں کیے گئے تشدد سے سفر شہادت اختیار کرچکے ہیں گھر اجڑ گئے ہیں، گھر کے لوگ بکھر گئے ہیں، جدائی کے ناسور رس رہے ہیں، کوئی زخموں پر مرہم رکھنے والا نہیں، مسلم حکمران تعیشات زندگی میں اسی طرح مبتلا ہیں، جس طرح شاہی سلطنت کے اراکین زندگی کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہ عیش و عشرت میں اس قدر مست ہوگئے تھے کہ انھیں یہ بھی احساس نہیں رہا کہ دشمن قوت (انگریز) نے ملک کی بنیادوں کو کمزور ترین کر دیا ہے، پھر کیا انجام ہوا غفلت بھری زندگی کا۔ آج بھی ایسے ہی حالات ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو گزرے سانحات سے سبق سیکھا جائے تاکہ 2017ء کو امن کا سال قرار دیا جائے۔
Load Next Story