خوش فہمی

ہم لوگ جتنے خوش فہم ہیں دنیا میں شاید ہی ہم جیسے لوگ کہیں اور مل سکیں

usmandamohi@yahoo.com

ہم لوگ جتنے خوش فہم ہیں دنیا میں شاید ہی ہم جیسے لوگ کہیں اور مل سکیں۔ ہماری خوش فہمی دیگر معاملات تک تو چل سکتی ہے مگر جب ہم اپنے وطن کے کھلے غداروں کے بارے میں خوش فہمی کا اظہار کرتے ہیں تو پھر ہمیں یہ خوش فہمی مہنگی پڑ جاتی ہے۔ ابھی چند دن قبل سقوط ڈھاکہ کی خون کے آنسو رلانے والی 16 دسمبر کی تاریخ گزری ہے۔

ہمارے تجزیہ کاروں نے اس دن کی مناسبت سے بہت سے مضامین تحریر کیے ہیں جو اخباروں اور رسالوں کی زینت بنے ہیں۔ ان میں سے بعض مضامین ایسے بھی تھے جن میں سانحہ مشرقی پاکستان کے اصل کردار مجیب الرحمن کو محب وطن ظاہر کیا گیا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ اگر انھیں اقتدار سونپ دیا جاتا تو ملک دولخت نہ ہوتا۔ یہ غلط فہمی دراصل اصل حالات کے ہم تک نہ پہنچنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ بھٹو نے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد کہا تھا کہ پاکستان بچ گیا۔ پھر اس کا ثبوت فوری طور پر ہی مل گیا تھا کہ مجیب نے رہا ہونے کے بعد پاکستان سے لندن پہنچتے ہی وہاں جو پہلا بیان دیا تھا وہ تھا "No link with Pakistan"، یعنی اب بنگال کا پاکستان کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں رہا۔

اگر مجیب میں حب الوطنی کی ذرا بھی رمق ہوتی تو پھر اس کا بیان اس طرح ہوتا۔ ''میں نے پاکستان کے اتحاد کو بچانے کی پوری کوشش کی مگر بدقسمتی سے میں کامیاب نہ ہوسکا۔'' مجیب کی بیٹی موجودہ وزیراعظم بنگلہ دیش، حسینہ واجد نے کچھ عرصہ قبل یہ سنسنی خیز انکشاف کیا تھا کہ ان کے والد مجیب الرحمن بہت پہلے سے بھارت کے رابطے میں تھے، اگرتلہ سازش کیس جو ایوب خان کے دور میں چلا تھا وہ حقیقت پر مبنی تھا۔

انھوں نے مزید بتایا کہ میرے والد اس وقت کے ''را'' کے چیف اور لندن میں متعین بھارت کے سفیر کے درمیان لندن میں ایک اہم میٹنگ ہوئی تھی، جس میں بنگلہ دیش کے قیام کے پورے معاملے پر غور و خوض کر کے اسے حتمی شکل دی گئی تھی۔ بھارت کی جانب سے اس سلسلے میں مدد دینے اور مجیب کی طرف سے پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے کے بارے میں ضروری کاغذات پر باقاعدہ دستخط کیے گئے تھے۔ حسینہ کا کہنا تھا کہ اس تاریخی میٹنگ میں انھوں نے میزبانی کے فرائض انجام دیے تھے۔

1962ء میں ڈھاکہ میں متعین بھارتی اسسٹنٹ ہائی کمشنر این جے ڈکشٹ نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب "Liberation of Beyond Indo Bangla Desh Relations" میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ایک رات مجیب الرحمن اور ان کے کچھ ساتھی ان سے ملاقات کرنے آئے اور انھوں نے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے کے لیے بھارت سے مدد مانگی تھی اس بات پر انھیں بہت حیرت ہوئی کہ وہ کس سفاکی سے اپنے وطن کو توڑنے کی باتیں کر رہے تھے، مگر حیرت سے زیادہ خوشی ہوئی کہ بھارت مشرقی پاکستان کو شروع دن سے ہتھیانے کی جو کوشش کر رہا تھا اب اس کی تکمیل کی گھڑی آ پہنچی تھی، مگر پھر خوف بھی آیا کہ یہ کہیں کوئی سازش تو نہیں کیونکہ اس سے پہلے جنرل چوہدری کے ذریعے مشرقی پاکستان کو ہتھیانے کی کوشش کو ایوب خان نے ناکام بنا دیا تھا۔

تمام حملہ آور فوجیوں کو مارنے کے ساتھ جنرل چوہدری کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ بہرحال انھوں نے مجیب کی اس پیشکش کے بارے میں ایک رپورٹ نئی دہلی بھیج دی۔ بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو جو جنرل چوہدری کے حشر سے اب تک خوفزدہ تھے، نے مجیب کی آفر کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا مگر بعد میں مجیب کے اصرار پر اس کی پیشکش کو قبول کر لیا گیا۔


تو یہ بات واضح ہو گئی کہ پاکستان توڑنے کا سلسلہ مجیب نے 1962ء سے ہی شروع کر دیا تھا، حالانکہ وہ عوامی لیگ کا جنرل سیکریٹری بھی تھا اور حسین شہید سہر وردی کا دست راست بھی کہا جاتا تھا۔ تاہم سہروردی ایک سچے محب وطن پاکستانی تھے ان کا تحریک پاکستان میں بھی اہم کردار تھا۔ کلکتہ میں 1946ء میں ہندو مسلم فساد میں انھوں نے ہندو غنڈوں کی سرکوبی کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ وہ اس وقت بنگال کے وزیراعلیٰ تھے۔

مجیب کے پراگندہ خیالات کا مرحوم سہروردی کو بھی پتہ نہیں چل سکا تھا اور پھر ان کے انتقال کے بعد وہ کھل کر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہو گیا تھا اور عوامی لیگ کو ایک انتہاپسند اور متعصب جماعت بنا ڈالا تھا۔ اس کے بعد عوامی لیگ نے اپنا کام صرف مشرقی پاکستان تک محدود رکھا اور مغربی پاکستان میں یہ جماعت غیر فعال ہو گئی تھی۔ مجیب کی اس پالیسی سے بھی پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے علیحدگی کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایسا کیا تھا۔

وہ بھارتی ہدایت کے مطابق پورے صوبے میں مغربی پاکستان کے خلاف عوام میں نفرت پھیلاتے رہے۔ اس میں شک نہیں کہ مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ کچھ زیادتیاں ہو رہی تھیں مگر اس کا مطلب وطن سے غداری نہیں ہوتا۔ بہرحال غربت سے تنگ لوگ مجیب کے بھارت نواز فلسفے سے متاثر ہونے لگے۔ مجیب نے علیحدگی کی تحریک کو مستحکم کرنے کے لیے غربت، بنگلہ زبان اور غیر مقامی لوگوں کی وہاں موجودگی کو خوب اچھالا۔ کالجوں اور یونیورسٹی کی سطح پر طلبا میں پاکستان مخالف پروپیگنڈا تیز کر کے انھیں وفاق مخالف بنا دیا۔

بنگلہ اور اردو کا مسئلہ ایک دائمی نزاعی مسئلہ بنا دیا گیا۔ ڈھاکہ میں بنگلہ زبان کے حق میں نکلنے والے ایک جلوس میں پاکستان مخالف نعرے بازی پر پولیس کو ایکشن لینا پڑا جس میں کچھ طلبا مارے گئے۔ اسے ایک اہم مسئلہ بنا کر بنگالیوں کو اردو اور پاکستان کے خلاف لاکھڑا کیا گیا۔ مغربی پاکستان میں مجیب کی پاکستان مخالف پالیسی کو نہ سمجھا گیا۔ ہمارے خوش فہم سیاستدانوں نے اسے علاقائی مسئلہ سمجھا۔ اگر اس وقت حالات کی سنگینی کو سمجھ لیا جاتا اور مجیب کی گمراہ کن سرگرمیوں پر نظر رکھی جاتی تو شاید مجیب حد سے آگے نہ جاتا اور بات علیحدگی تک نہ پہنچتی۔

اگرتلہ سازش کیس میں ایوب خان نے اسے حراست میں لے لیا تھا مگر ہمارے خوش فہم سیاست دانوں نے اسے ایوب خان کی مجیب دشمنی قرار دے کر اسے رہا کرا دیا، اس کے بعد وہ ایک جنونی ہاتھی کی طرح چنگھاڑنے لگا اور کھلم کھلا بنگلہ دیش بنانے کی باتیں کرنے لگا۔ اس کے چھ نکات کھلم کھلا پاکستان سے علیحدگی کا اعلان تھے۔

ایوب خان کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان کے ہر شہر میں مجیب کے لوگ علیحدگی کے نعرے لگانے اور بھارتی ''را'' کی مدد سے پنجابیوں اور بہاریوں کا قتل عام کرنے لگے۔ پھر 1970ء کے الیکشن میں مجیب کا منصوبہ کامیاب ہوگیا۔ عوامی لیگ نے وہاں کی قومی اسمبلی کی ساری نشستیں جیت لیں۔ تمام جیتنے والے بنگلہ دیش کے ایجنڈے پر متفق تھے اب اگر ایسے میں قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں منعقد ہو جاتا اور سارے بنگالی ممبران علیحدگی کے حق میں اٹھ کھڑے ہوتے تب پاکستان کا وجود خطرے میں نہ پڑ جاتا؟ چنانچہ بھٹو نے جو کہا تھا کہ پاکستان بچ گیا، وہ غلط نہ تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ ہماری خوش فہمی کب تک چلے گی اور جن خوش فہموں نے بنگلہ دیش کی آزادی (یعنی پاکستان ٹوٹنے) کی خوشی میں حسینہ واجد سے ایوارڈ وصول کیے تھے، وہ انھیں کب واپس کریں گے اور قوم سے معافی مانگیں گے؟
Load Next Story