چیف جسٹس کیخلاف پروپیگنڈے کا مقصد اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے خواجہ آصف
دوسروں کو بدنام کرنے والے حلقے اب اعلیٰ عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں، وزیردفاع
وزیردفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے خلاف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کا مقصد اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔
سوشل میڈیا پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی تعیناتی سے متعلق سوالات اٹھنے پر وزیردفاع خواجہ آصف کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی تعیناتی میں حکومت یا وزیراعظم کا کوئی کردار نہیں جب کہ سوشل میڈیا پر جسٹس ثاقب نثار کی تعیناتی کے خلاف پروپیگنڈے کا مقصد اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے، دوسروں کو بدنام کرنے والے حلقے اب اعلیٰ عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں واضح ہے کہ سپریم کورٹ کا سینئرترین جج چیف جسٹس ہو گا اس لئے کسی اور شخص کی بطور چیف جسٹس تعیناتی غیر آئینی ہوتی۔
وزیردفاع کا کہنا تھا کہ الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کے بعد ایگزیکٹو پر چیف جسٹس کی ایڈوائس لازم تھی جس کے تحت جسٹس ثاقب نثار کی ہائی کورٹ میں مستقلی صدر مشرف نے چیف جسٹس کی سفارش پر کی اور اس کے بعد صدر آصف زرداری نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سفارش پر انہیں سپریم کورٹ میں تعینات کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلاشبہ جسٹس ثاقب نثار سیکرٹری قانون رہے ہیں اوران کی تعیناتی تین وجوہات پر کی گئی تھی، اس وقت کے وزیرقانون خالد انور نے ان کا بطور سیکرٹری قانون انتخاب کیا جب کہ اٹھارویں ترمیم ،الجہاد ٹرسٹ اور سجاد علی شاہ کیس میں یہ طے ہو چکا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی کے لئے ملک کے ایگزیکٹو پر چیف جسٹس آف پاکستان کی ایڈوائز لازم ہے۔
سوشل میڈیا پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی تعیناتی سے متعلق سوالات اٹھنے پر وزیردفاع خواجہ آصف کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی تعیناتی میں حکومت یا وزیراعظم کا کوئی کردار نہیں جب کہ سوشل میڈیا پر جسٹس ثاقب نثار کی تعیناتی کے خلاف پروپیگنڈے کا مقصد اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے، دوسروں کو بدنام کرنے والے حلقے اب اعلیٰ عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں واضح ہے کہ سپریم کورٹ کا سینئرترین جج چیف جسٹس ہو گا اس لئے کسی اور شخص کی بطور چیف جسٹس تعیناتی غیر آئینی ہوتی۔
وزیردفاع کا کہنا تھا کہ الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کے بعد ایگزیکٹو پر چیف جسٹس کی ایڈوائس لازم تھی جس کے تحت جسٹس ثاقب نثار کی ہائی کورٹ میں مستقلی صدر مشرف نے چیف جسٹس کی سفارش پر کی اور اس کے بعد صدر آصف زرداری نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سفارش پر انہیں سپریم کورٹ میں تعینات کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلاشبہ جسٹس ثاقب نثار سیکرٹری قانون رہے ہیں اوران کی تعیناتی تین وجوہات پر کی گئی تھی، اس وقت کے وزیرقانون خالد انور نے ان کا بطور سیکرٹری قانون انتخاب کیا جب کہ اٹھارویں ترمیم ،الجہاد ٹرسٹ اور سجاد علی شاہ کیس میں یہ طے ہو چکا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی کے لئے ملک کے ایگزیکٹو پر چیف جسٹس آف پاکستان کی ایڈوائز لازم ہے۔