چند تاثرات

نئے سال کے بارے میں سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ یہ سال گزشتہ کے مقابلے میں زیادہ ہنگامہ خیز ہوسکتا ہے

muqtidakhan@hotmail.com

جس روز یہ اظہاریہ شائع ہوگا، 2017 کے سورج کو طلوع ہوئے 24 گھنٹے ہوچکے ہوں گے۔ نئے سال کے بارے میں سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ یہ سال گزشتہ کے مقابلے میں زیادہ ہنگامہ خیز ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مئی 2018 میں اگلے انتخابات متوقع ہیں، اس لیے تمامتر سیاسی جوڑ توڑ اسی برس ہونا ہیں۔ بہرحال اگلے برس جو ہوگا، وہ دیکھا جائے گا۔ لیکن اس حقیقت کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ مستقبل کی کڑیاں حال سے جڑی ہوتی ہیں، جب کہ حال کے معاملات ماضی میں پیوست ہوتے ہیں۔ قابل اجمیری مرحوم نے کہا تھاکہ

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

لہٰذا آج ہم جس سیاسی اور سماجی صورتحال کا شکار ہیں، اس کی جڑیں ماضی بعید کے فیصلوں اور ماضی قریب کے اقدامات میں پیوست ہیں۔ اگر دیگر ایشوز سے وقتی طور پر صرف نظر کرتے ہوئے اپنی توجہ صرف سال گزشتہ کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا اجمالی جائزہ لینے کی کوشش کریں تو بہت سے تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریاستی مقتدرہ یا تو فیصلہ کی جرات نہیں کر پا رہی، جو سرد جنگ کے زمانے میں ترتیب دیے گئے بیانیہ (Narrative) میں کسی قسم کی تبدیلی لانے کے لیے درکار ہے یا پھر دانستہ طور پر ایسا کرنے سے گریزاں ہے۔ اسباب خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوں، پاکستانی ریاست ان فرسودہ تصورات سے جان چھڑانے میں ناکام ہے، جو کئی دہائیوں سے قومی سلامتی کے لیے بہت بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔

پاکستان میں حکومتی سطح پر یہ تسلیم تو ضرور کیا جاتا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ عقیدے کے نام پر ہونے والی دہشت گردی ہے، لیکن اس عفریت سے نمٹنے کی حکمت عملی بنانے اور اس پر موثر عملدرآمد میں پس وپیش سے کام لیا جاتا ہے۔ اس کا سبب شاید یہ ہے کہ ریاستی منصوبہ ساز آج بھی اسی بیانیہ کے تسلسل پر اصرار کررہے ہیں، جسے سرد جنگ کے زمانے میں تشکیل دیا گیا اور افغان جنگ کے دوران اور اس کے بعد مزید تقویت دی گئی۔

حالانکہ یہ بیانیہ نہ صرف بری طرح ناکام ہوچکا ہے، بلکہ ملک کی سول سوسائٹی کی واضح اکثریت بھی اسے مکمل طور پر رد کرچکی ہے۔ اس لیے اس پر اصرار کا کوئی منطقی جواز سمجھ میں نہیں آتا۔ اس صورتحال کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ 8 اگست 2016 کو کوئٹہ سول اسپتال میں ہونے والے سانحہ کی تفتیشی رپورٹ میں جسٹس فائز عیسیٰ نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مذہبی دہشت گردی کے خاتمے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔

دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد حکومت نے پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے تعاون سے جو چند کلیدی فیصلے کیے تھے، ان میں نیشنل ایکشن پلان (NAP) کی تشکیل، دو برس کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام اور سات برس سے معطل سزائے موت کی بحالی شامل تھی۔ لیکن دو برسوں کے دوران جن افراد کو سزائے موت دی گئی، ان میں مذہبی شدت پسندی میں ملوث افراد کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہے، جب کہ NAP کی بیشتر شقوں پر عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے۔

نیکٹا تقریباً غیر فعال ہے۔ مروجہ عدالتی نظام میں بہتری اور اس کی فعالیت میں اضافے کے بجائے فوجی اور خصوصی عدالتوں کے ذریعے سنگین جرائم کے مقدمات نمٹانے کی کوشش کی گئی۔ یہ ایک متوازی عدالتی نظام ہے، جو انصاف کی فراہمی میں بعض نئی پیچیدگیوں کا سبب بنا ہوا ہے۔ اب سننے میں آرہا ہے کہ حکومت ان فوجی عدالتوں کو مستقل کرنے کے لیے قانون سازی کرنے کے بارے میں غور کررہی ہے، جو کسی جمہوری معاشرے کے لیے ناقابل قبول فیصلہ ہوتا ہے۔


دوسری طرف زیر حراست ملزمان کے ساتھ ایذا رسانی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ حالانکہ پاکستان 2010 میں اقوام متحدہ کی جانب سے ہونے والے ''زیر حراست ایذا رسانی کے کنونشن'' پر دستخط کرچکا ہے۔ مگر اس کنونشن کو قانونی شکل دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مطلوبہ افراد کو بغیر وارنٹ گرفتار کرنا، اکثراوقات انھیں سادہ لباس اہلکار اغوا کرکے لے جاتے ہیں، جن کی اکثر لاشیں ملتی ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے متعدد سیاسی کارکن اس صورتحال کا شکار ہوکر اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔

اس کے علاوہ بغیر کسی قانونی وجوہ، سیاسی شخصیات کو نظربند رکھنے اور ان کی گرفتاری کی بے وزن تاویلات پیش کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ خاص طور پر فلسفہ کے استاد ڈاکٹر حسن ظفر عارف، سابق طالب علم رہنما مومن خان مومن اور سیاسی کارکن امجد اللہ جس انداز میں قید ہیں، وہ جمہوری حکومت کی انتظامی کمزوریوں اور نادیدہ قوتوں کے سامنے بے بسی کا واضح اظہار ہے۔

اب جہاں تک ذرائع ابلاغ کا تعلق ہے تو اس کا کردار بھی ماضی کی طرح گزشتہ برس بھی خاصا حد تک مایوس کن رہا۔ قومی سلامتی کے معاملات، مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے حقوق اور صوبائی خودمختاری کے مسائل پر حقیقت پسندانہ اظہار سے اس لیے گریز کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ امور ریاستی اور غیر ریاستی ایکٹروں کی ناپسندیدگی کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا منیجرز اور مدیران کی اپنی ترجیحات اور پسند و ناپسند کی وجہ سے انسانی حقوق کی بعض سنگین خلاف ورزیوں کے بارے میں عوام کو صحیح طور پر آگہی حاصل نہیں ہوسکی۔

خاص طور پر کراچی میں جاری آپریشن کے بارے میں ذرائع ابلاغ کا رویہ اور طرز عمل روز اول ہی سے غیر ذمے دارانہ رہا۔ اس نے مختلف نقطہ ہائے نظر اور شہری سندھ کے عوام کی جانب سے اٹھنے والے بعض تحفظات کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے موقف کو مشتہر کیا۔ جس کی وجہ سے مختلف نوعیت کی بدگمانیوں نے جنم لیا اور عوام کے درمیان لسانی اور قومیتی بنیادوں پر خلیج میں اضافہ ہوا۔

دوسری طرف غیر مسلموں اور اقلیتی عقائد رکھنے والی کمیونٹیز کے ساتھ صرف مذہبی تنظیموں کا رویہ معاندانہ نہیں ہے، بلکہ ریاستی مقتدرہ بھی ان کے مسائل کے حل میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہے، جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ سندھ اسمبلی نے جبری تبدیلی مذہب کے خلاف قانون سازی کی مخالفت میں مذہبی جماعتوں نے مجتمع ہوکر دباؤ ڈالا، تو پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اس قانون کے مندرجات پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوگئی۔ اس سے قبل صنفی امتیازات کے حوالے سے پنجاب اسمبلی میں ہونے والی قانون سازی کا غیر ریاستی ایکٹروں سمیت بعض سیاسی جماعتوں نے بھی راستہ روکنے کی کوشش کی۔ جس کی وجہ سے اس قانون پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے۔

لیکن اس دوران بعض خوش کن اقدامات بھی سامنے آئے۔ جس کی واضح مثال یہ ہے کہ وزیراعظم نے تمامتر دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے 37 برس بعد ملک کے نامور سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام مرحوم کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ طبیعیات کو ان کے نام سے موسوم کردیا۔ دوسرے بھارت کے معاندانہ رویوں اور ملک کے اندر مختلف حلقوں کی مخالفت کو نظر انداز کرتے ہوئے افغانستان کے بارے میں امرتسر میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کا جرأتمندانہ فیصلہ کیا گیا۔ جس کے عالمی سطح پر خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے اور پاکستان کے موقف کو پذیرائی ملی۔

جہاں تک نظم حکمرانی کا معاملہ ہے تو اس میں پائے جانے والے اسقام اور خرابیوں کو دور کرنے پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ نہیں دی گئی۔ کرپشن، جو بری حکمرانی کے نتیجے میں جنم لیتی ہے، وہ ایک بڑی عفریت کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ پاناما کا معاملہ ہو، یا ٹیکس چوری ہو یا پولیس سمیت سرکاری محکموں میں ہونے والی بدعنوانیاں ہوں، نظم حکمرانی کی فرسودگی اور کمزوریوں کے باعث ان پر قابو پانا مشکل ہورہا ہے۔

دوسری طرف وفاقی اور صوبائی حکومتیں اقتدار واختیار کی نچلی سطح تک منتقلی میں بھی سنجیدہ نہیں ہیں، جس کی وجہ سے عوامی مسائل کے حل میں دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں حقوق انسانی کی صورتحال سالہائے گزشتہ کی طرح ابتری کا شکار رہی۔

جمہوریت اور جمہوری نظام کے دعوے بہت کیے گئے، لیکن عوام کی اکثریت اپنے جمہوری، شہری اور انسانی حقوق سے محروم رہی۔ اس پورے منظرنامے کو دیکھتے ہوئے اس نئے سال میں کسی بڑی پیش رفت کی توقع تو نہیں کی جاسکتی، لیکن میاں نواز شریف کی حکومت آہستگی کے ساتھ جو اقدامات کررہی ہے، اس کی وجہ سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اس برس سال گزشتہ کے مقابلے میں معاملات شاید کسی حد تک بہتری کی طرف جائیں۔
Load Next Story