قائداعظم… شخصیت اور کارنامے
قائد نے ببانگ دہل جواب دیا ’’مسلمان ایک قوم ہیں‘‘
نئے سال کا سورج طلوع ہو گیا۔ دکھیاروں کو یقین دلانے کے لیے کہ:
ہوگا طلوع کوہ کے پیچھے سے آفتاب
شب مستقل رہے گی، کبھی یہ نہ سوچیے
25 دسمبر کے دن قائد پیدا ہوئے تھے، اور اسی شہر کراچی کی بلڈنگ وزیر مینشن میں۔ قائد کب یاد نہیں آتے۔ خصوصاً ڈھاکہ کھو جانے کے بعد ہمارے حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے، دشمنوں نے وہ تباہی مچائی کہ غریب کے پلے ککھ بھی نہ رہا اور ظالموں کی ہوگئی بلے بلے۔
اس وقت میرے سامنے قائد کے حوالے سے ایک کتاب پڑی ہے۔ نام ہے ''قائداعظم محمد علی جناح' شخصیت اور کارنامے''۔ اس نایاب کتاب کے مصنف ہیں حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی، اور اسے ترتیب دیا ہے حکیم راحت نسیم سوہدروی نے۔ جو حکیم عنایت اللہ نسیم کے صاحبزادے ہیں اور خود بھی کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ 350 صفحات پر مشتمل کتاب قائد کے افکار اور کردار پر بھرپور روشنی ڈالتی ہے۔ قائد کی پیدائش، تعلیم، بطور وکیل عملی زندگی کا آغاز، شادی، آزادی ہند کی تحریک میں شمولیت، پھر اقبال کے خواب کی حقیقی تعبیر کے لیے مسلمانوں کے آزاد، خودمختار، سب کے لیے مساوی حقوق، دنیا کے نقشے پر ابھرتا ہوا ہر لحاظ سے ایک خوبصورت ملک۔ مسلم لیگ کا قیام، پورے ہندوستان کے طوفانی دورے، قیام پاکستان کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔
پاکستان مخالف نے کہا ''مسلمان ہندوستان میں اقلیت ہیں'' قائد نے ببانگ دہل جواب دیا ''مسلمان ایک قوم ہیں'' 1937ء کے تاریخی انتخابات اور اسی سال مسلم لیگ کا بنیادی اجلاس لکھنو، مسلم لیگ کا اجلاس پٹنہ، مسلم لیگ کا قیام پاکستان سے قبل آخری اہم اجلاس لاہور 1940ء، سندھ اسمبلی کا مطالبہ پاکستان، شملہ کانفرنس، قائداعظم کا نثری خطاب، باؤنڈری کمیشن، جوناگڑھ، نوزائیدہ مملکت کے مسائل، آخری ایام، قائداعظم کی وصیت۔ یہ چند عنوانات ہیں جن کا مختصراً اظہاریہ نقل کروں گا۔ تفصیل کے لیے تاریخ پاکستان اور قائداعظم کی شخصیت میں دلچسپی رکھنے والوں کو کتاب سے رجوع ضروری ہے۔
15 سے 18 اکتوبر 1937ء کو لکھنو میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا، جو مسلم لیگ کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندوؤں نے اس اجلاس کو ناکام بنانے کے لیے پوری سعی کی۔ اس غرض سے چند مسلمانوں کو بھی تیار کیا کہ پنڈال جلا کر خاکستر کردیا جائے۔ یوپی کی کانگریس حکومت نے افواہیں پھیلائیں، خوفزدہ کیا کہ محمد علی جناح پر بم پھینکا جائے گا۔ مگر مسلمانوں کے عزم کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔ راجہ صاحب محمود آباد صدر مجلس استقبالیہ تھے، انھوں نے جس طرح محنت اور خلوص سے کام کیا، اس کی مثال کم ملتی ہے۔
قائداعظم کو ایک باوقار، منظم اور پرشکوہ جلوس کی صورت اجلاس میں لایا گیا۔ مسلمانوں کا ایک سمندر تھا جو چار گھنٹے میں قائداعظم کی رہائش گاہ ''قیصر باغ'' پہنچا۔ راجہ صاحب محمودآباد جلوس کے ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ اس اجلاس میں قائداعظم نے مسلمانوں کا موقف بڑی وضاحت سے بیان کیا۔ لکھنو کے اجلاس میں بنگال کے وزیراعلیٰ اے کے فضل الحق شیر بنگال نے مسلم لیگ کے لیے اپنی خدمات پیش کیں اور پنجاب کے وزیراعلیٰ سکندر حیات نے بھی مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا۔
آل انڈیا مسلم لیگ کا اگلا سالانہ اجلاس پٹنہ میں 26 تا 29 دسمبر 1938ء منعقد ہوا، جس میں تقریباً 50 ہزار مسلمانوں نے شرکت کی، جن میں خواتین بھی کثیر تعداد میں موجود تھیں، اس اجلاس میں سندھ نیشنل گارڈز کا ترانہ ''مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ'' پڑھا گیا اور یہ ترانہ قائداعظم نے بھی پڑھا۔ قائداعظم نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا ''مجھے مولانا شوکت علی کی ملی خدمات کا اعتراف ہے۔ آپ اسلام کے نڈر سپاہی تھے'' اس کے ساتھ قائد نے علامہ اقبال اور کمال اتاترک کے انتقال پر بھی اظہار تعزیت فرمایا۔
قائد نے فلسطین کے متعلق کہا کہ ''فلسطین کے سرفروشوں کو باغی کہا جاتا ہے مگر وہ شہید اور غازی ہیں'' مسلم لیگ لاہور کے رہنما میاں فیروز دین نے مسلمانان ہند کی ترجمانی کرتے ہوئے قائد کے لیے قائداعظم کا لقب تجویز کیا جو اتنا مناسب تھا اور مقبول ہوا کہ پھر ہر مسلمان کی زبان پر قائداعظم جاری ہوگیا۔
26 جولائی 1943ء کے دن قائداعظم کی رہائش گاہ بمبئی میں رفیق صابر نامی خاکسار جس کا تعلق لاہور سے تھا، نے چاقو سے قائد پر حملہ کردیا۔ قائد نے اس کی کلائی مضبوطی سے پکڑلی، قائداعظم کے سیکریٹری مطلوب الحسن سید اور ایک گارڈ نے قاتل پر قابو پالیا۔ قاتلانہ حملے پر پورے ہندوستان میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ اسی سال کے آغاز میں سندھ اسمبلی میں جی ایم سید صاحب نے قیام پاکستان کے حق میں قرارداد پیش کی جسے کثرت رائے سے منظور کیا گیا۔
کتاب میں درج ہے 3 جون کا دن قیام پاکستان میں اہم ترین حیثیت کا حامل ہے۔ اس دن آل انڈیا ریڈیو سے چار تقریریں نشر کی گئیں۔ سب سے پہلے برطانوی شاہی خاندان کے فرد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پاکستان اور ہندوستان دو علیحدہ علیحدہ ملکوں کی آزادی اور قیام کا اعلان کیا۔ پھر پنڈت جواہر لعل نہرو نے خطاب کیا، تیسرا خطاب بلدیو سنگھ کا تھا اور آخر میں قائداعظم محمد علی جناح کا خطاب نشر کیا گیا۔ ان خطابات کی تفصیل تاریخی ہے۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا ''کسی بڑے علاقے کی اقلیت کو اس کی مرضی کے خلاف اکثریت کے رحم و کرم پر نہیں رکھا گیا، چنانچہ اس کا واحد حل تقسیم کے سوا کوئی اور نہ ہوسکا'' پنڈت نہرو نے کہا ''ہم نے ہندوستانی مسائل کے تصفیے کے لیے ملک معظم کی حکومت کی تجاویز قبول کرلی ہیں اور اپنی وسیع قوم سے سفارش کرتے ہیں کہ وہ بھی انھیں قبول کرلیں'' پنڈت جی نے خطاب کے اختتام پر ''جئے ہند'' کا نعرہ لگایا۔
قائداعظم نے اپنے خطاب میں کہا ''میں آل انڈیا ریڈیو دہلی کے ذریعے آپ لوگوں سے براہ راست کچھ کہنے کا موقع حاصل کرکے خوش ہوا ہوں، کیونکہ ریڈیائی تقریر بہ نسبت اخباروں کی سرد تحریروں کے زیادہ زندگی اور حرارت کی حامل ہوتی ہے۔ ہندوستانی لیڈروں کے کندھوں پر انتہائی نازک ذمے داری کا بوجھ ہے، اس لیے ہمیں اپنی تمام قوتیں مجتمع کرکے یہ دیکھنا ہے کہ اختیارات کا انتقال مکمل پرامن اور حفظ قانون کے تحت انجام پا جائے۔'' قائداعظم نے اپنے خطاب کا اختتام پاکستان زندہ باد کے نعرے کے ساتھ کیا۔
حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی نے کتاب ہٰذا لکھ کر بڑا کام کیا ہے۔ قیام پاکستان کی جدوجہد پر مشتمل کتب میں یہ کتاب بھی گراں قدر اضافہ ہے۔ حکیم صاحب کے صاحبزادے حکیم راحت نسیم سوہدروی نے اپنے والد محترم کی کتاب کو ترتیب دے کر شایع کیا اور تاریخ پاکستان سے دلچسپی رکھنے والوں اور تحقیق کرنے والوں کے لیے بڑا احسن کام کیا ہے۔ پاکستان کے قابل قدر محقق اور دانشور پروفیسر محمد منور سابق ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی لاہور نے کتاب ہٰذا کا دیباچہ تحریر فرما کر، کتاب کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے۔
پروفیسر صاحب نے یہ دیباچہ 2 مئی 1992ء کے دن تحریر کیا تھا۔ اس مختصر کالم میں اتنا ہی لکھا جاسکتا ہے، ورنہ کتاب کے بہت سے اہم مندرجات کا ذکر بھی بہت ضروری تھا۔ کتاب کے آخری صفحات میں قائداعظم کی وصیت کا اندراج ہے جو بہت اہم دستاویز ہے، کتاب کے حصول کے لیے حکیم راحت نسیم سوہدروی سے اس نمبر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے (0300-4896184)۔
ہوگا طلوع کوہ کے پیچھے سے آفتاب
شب مستقل رہے گی، کبھی یہ نہ سوچیے
25 دسمبر کے دن قائد پیدا ہوئے تھے، اور اسی شہر کراچی کی بلڈنگ وزیر مینشن میں۔ قائد کب یاد نہیں آتے۔ خصوصاً ڈھاکہ کھو جانے کے بعد ہمارے حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے، دشمنوں نے وہ تباہی مچائی کہ غریب کے پلے ککھ بھی نہ رہا اور ظالموں کی ہوگئی بلے بلے۔
اس وقت میرے سامنے قائد کے حوالے سے ایک کتاب پڑی ہے۔ نام ہے ''قائداعظم محمد علی جناح' شخصیت اور کارنامے''۔ اس نایاب کتاب کے مصنف ہیں حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی، اور اسے ترتیب دیا ہے حکیم راحت نسیم سوہدروی نے۔ جو حکیم عنایت اللہ نسیم کے صاحبزادے ہیں اور خود بھی کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ 350 صفحات پر مشتمل کتاب قائد کے افکار اور کردار پر بھرپور روشنی ڈالتی ہے۔ قائد کی پیدائش، تعلیم، بطور وکیل عملی زندگی کا آغاز، شادی، آزادی ہند کی تحریک میں شمولیت، پھر اقبال کے خواب کی حقیقی تعبیر کے لیے مسلمانوں کے آزاد، خودمختار، سب کے لیے مساوی حقوق، دنیا کے نقشے پر ابھرتا ہوا ہر لحاظ سے ایک خوبصورت ملک۔ مسلم لیگ کا قیام، پورے ہندوستان کے طوفانی دورے، قیام پاکستان کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔
پاکستان مخالف نے کہا ''مسلمان ہندوستان میں اقلیت ہیں'' قائد نے ببانگ دہل جواب دیا ''مسلمان ایک قوم ہیں'' 1937ء کے تاریخی انتخابات اور اسی سال مسلم لیگ کا بنیادی اجلاس لکھنو، مسلم لیگ کا اجلاس پٹنہ، مسلم لیگ کا قیام پاکستان سے قبل آخری اہم اجلاس لاہور 1940ء، سندھ اسمبلی کا مطالبہ پاکستان، شملہ کانفرنس، قائداعظم کا نثری خطاب، باؤنڈری کمیشن، جوناگڑھ، نوزائیدہ مملکت کے مسائل، آخری ایام، قائداعظم کی وصیت۔ یہ چند عنوانات ہیں جن کا مختصراً اظہاریہ نقل کروں گا۔ تفصیل کے لیے تاریخ پاکستان اور قائداعظم کی شخصیت میں دلچسپی رکھنے والوں کو کتاب سے رجوع ضروری ہے۔
15 سے 18 اکتوبر 1937ء کو لکھنو میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا، جو مسلم لیگ کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندوؤں نے اس اجلاس کو ناکام بنانے کے لیے پوری سعی کی۔ اس غرض سے چند مسلمانوں کو بھی تیار کیا کہ پنڈال جلا کر خاکستر کردیا جائے۔ یوپی کی کانگریس حکومت نے افواہیں پھیلائیں، خوفزدہ کیا کہ محمد علی جناح پر بم پھینکا جائے گا۔ مگر مسلمانوں کے عزم کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔ راجہ صاحب محمود آباد صدر مجلس استقبالیہ تھے، انھوں نے جس طرح محنت اور خلوص سے کام کیا، اس کی مثال کم ملتی ہے۔
قائداعظم کو ایک باوقار، منظم اور پرشکوہ جلوس کی صورت اجلاس میں لایا گیا۔ مسلمانوں کا ایک سمندر تھا جو چار گھنٹے میں قائداعظم کی رہائش گاہ ''قیصر باغ'' پہنچا۔ راجہ صاحب محمودآباد جلوس کے ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ اس اجلاس میں قائداعظم نے مسلمانوں کا موقف بڑی وضاحت سے بیان کیا۔ لکھنو کے اجلاس میں بنگال کے وزیراعلیٰ اے کے فضل الحق شیر بنگال نے مسلم لیگ کے لیے اپنی خدمات پیش کیں اور پنجاب کے وزیراعلیٰ سکندر حیات نے بھی مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا۔
آل انڈیا مسلم لیگ کا اگلا سالانہ اجلاس پٹنہ میں 26 تا 29 دسمبر 1938ء منعقد ہوا، جس میں تقریباً 50 ہزار مسلمانوں نے شرکت کی، جن میں خواتین بھی کثیر تعداد میں موجود تھیں، اس اجلاس میں سندھ نیشنل گارڈز کا ترانہ ''مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ'' پڑھا گیا اور یہ ترانہ قائداعظم نے بھی پڑھا۔ قائداعظم نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا ''مجھے مولانا شوکت علی کی ملی خدمات کا اعتراف ہے۔ آپ اسلام کے نڈر سپاہی تھے'' اس کے ساتھ قائد نے علامہ اقبال اور کمال اتاترک کے انتقال پر بھی اظہار تعزیت فرمایا۔
قائد نے فلسطین کے متعلق کہا کہ ''فلسطین کے سرفروشوں کو باغی کہا جاتا ہے مگر وہ شہید اور غازی ہیں'' مسلم لیگ لاہور کے رہنما میاں فیروز دین نے مسلمانان ہند کی ترجمانی کرتے ہوئے قائد کے لیے قائداعظم کا لقب تجویز کیا جو اتنا مناسب تھا اور مقبول ہوا کہ پھر ہر مسلمان کی زبان پر قائداعظم جاری ہوگیا۔
26 جولائی 1943ء کے دن قائداعظم کی رہائش گاہ بمبئی میں رفیق صابر نامی خاکسار جس کا تعلق لاہور سے تھا، نے چاقو سے قائد پر حملہ کردیا۔ قائد نے اس کی کلائی مضبوطی سے پکڑلی، قائداعظم کے سیکریٹری مطلوب الحسن سید اور ایک گارڈ نے قاتل پر قابو پالیا۔ قاتلانہ حملے پر پورے ہندوستان میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ اسی سال کے آغاز میں سندھ اسمبلی میں جی ایم سید صاحب نے قیام پاکستان کے حق میں قرارداد پیش کی جسے کثرت رائے سے منظور کیا گیا۔
کتاب میں درج ہے 3 جون کا دن قیام پاکستان میں اہم ترین حیثیت کا حامل ہے۔ اس دن آل انڈیا ریڈیو سے چار تقریریں نشر کی گئیں۔ سب سے پہلے برطانوی شاہی خاندان کے فرد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پاکستان اور ہندوستان دو علیحدہ علیحدہ ملکوں کی آزادی اور قیام کا اعلان کیا۔ پھر پنڈت جواہر لعل نہرو نے خطاب کیا، تیسرا خطاب بلدیو سنگھ کا تھا اور آخر میں قائداعظم محمد علی جناح کا خطاب نشر کیا گیا۔ ان خطابات کی تفصیل تاریخی ہے۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا ''کسی بڑے علاقے کی اقلیت کو اس کی مرضی کے خلاف اکثریت کے رحم و کرم پر نہیں رکھا گیا، چنانچہ اس کا واحد حل تقسیم کے سوا کوئی اور نہ ہوسکا'' پنڈت نہرو نے کہا ''ہم نے ہندوستانی مسائل کے تصفیے کے لیے ملک معظم کی حکومت کی تجاویز قبول کرلی ہیں اور اپنی وسیع قوم سے سفارش کرتے ہیں کہ وہ بھی انھیں قبول کرلیں'' پنڈت جی نے خطاب کے اختتام پر ''جئے ہند'' کا نعرہ لگایا۔
قائداعظم نے اپنے خطاب میں کہا ''میں آل انڈیا ریڈیو دہلی کے ذریعے آپ لوگوں سے براہ راست کچھ کہنے کا موقع حاصل کرکے خوش ہوا ہوں، کیونکہ ریڈیائی تقریر بہ نسبت اخباروں کی سرد تحریروں کے زیادہ زندگی اور حرارت کی حامل ہوتی ہے۔ ہندوستانی لیڈروں کے کندھوں پر انتہائی نازک ذمے داری کا بوجھ ہے، اس لیے ہمیں اپنی تمام قوتیں مجتمع کرکے یہ دیکھنا ہے کہ اختیارات کا انتقال مکمل پرامن اور حفظ قانون کے تحت انجام پا جائے۔'' قائداعظم نے اپنے خطاب کا اختتام پاکستان زندہ باد کے نعرے کے ساتھ کیا۔
حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی نے کتاب ہٰذا لکھ کر بڑا کام کیا ہے۔ قیام پاکستان کی جدوجہد پر مشتمل کتب میں یہ کتاب بھی گراں قدر اضافہ ہے۔ حکیم صاحب کے صاحبزادے حکیم راحت نسیم سوہدروی نے اپنے والد محترم کی کتاب کو ترتیب دے کر شایع کیا اور تاریخ پاکستان سے دلچسپی رکھنے والوں اور تحقیق کرنے والوں کے لیے بڑا احسن کام کیا ہے۔ پاکستان کے قابل قدر محقق اور دانشور پروفیسر محمد منور سابق ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی لاہور نے کتاب ہٰذا کا دیباچہ تحریر فرما کر، کتاب کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے۔
پروفیسر صاحب نے یہ دیباچہ 2 مئی 1992ء کے دن تحریر کیا تھا۔ اس مختصر کالم میں اتنا ہی لکھا جاسکتا ہے، ورنہ کتاب کے بہت سے اہم مندرجات کا ذکر بھی بہت ضروری تھا۔ کتاب کے آخری صفحات میں قائداعظم کی وصیت کا اندراج ہے جو بہت اہم دستاویز ہے، کتاب کے حصول کے لیے حکیم راحت نسیم سوہدروی سے اس نمبر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے (0300-4896184)۔