روایت کا حُسن لیے سرما کا ایک لذیذ مشروب ’کشمیری چائے‘
اس کی گلابی خوش نما رنگت کی وجہ سے ہر چھوٹے بڑے اس کی طرف راغب ہوتے ہیں۔
ISLAMABAD:
چائے دنیا بھر کے چند پسند یدہ مشروبات کی فہرست میں نمایاں مقام کی حامل ہے۔ بعض لوگ اسے بغیر دودھ کے بھی استعمال کرتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ اس میں دودھ شامل کر کے اس کا لطف دوبالا کرتے ہیں۔
چائے کو مختلف زبانوں میں مختلف ناموں سے پکارا جاتاہے۔ مثلا اردو، ترکی، چینی اور روس میں اس کو چائے ہی کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ فارسی میں چائے خطائی، پنجابی میں چاء، سندھی میں چانھ، پشتو میں ساؤ، عربی میں شائی انگریزی میں ٹی(Tea) اور لاطینی میں کوملیا تھیفرا (commllia thafera) کہتے ہیں۔
چائے، دراصل ایک جھاڑی نما پودے کی پتیاں ہیں، جس کی اونچائی ایک گز یا اس سے کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا پودا بڑی حفاظت اور احتیاط کے ساتھ پرورش پاتا ہے۔ اس کے پودوں کو پہلے گملوں میں بویا جاتا ہے، چھے ماہ بعد جب پنیری تیار ہو جاتی ہے، تو بڑے بڑے قطعات زمین پر قطار در قطار بو دیا جاتا ہے۔ اس کی کاشت سطح سمندر سے پانچ ہزار فٹ بلند ایسی پہاڑی ڈھلوانوں پر کی جاتی ہے، جہاں بارش کی اوسط 56،60 انچ سالانہ ہو۔ اس کی پتیاں منہدی یا انار کے پتوں جیسی ہوتی ہیں، جن کے کناروں پر چھوٹے چھوٹے دندانے ہوتے ہیں۔ شروع میں ان کا رنگ بھورا ہوتا ہے، جو پختہ ہونے پر سبز ہو جاتا ہے۔ اس کا پھول سفید رنگ کا ہوتا ہے اور اتنا خوش بو دار کہ میلوں تک اس کی مہک جاتی ہے۔ اس کے پتوں میں تلخی ہوتی ہے، لیکن ابالنے سے زائل ہو جاتی ہے۔ چائے کی پتیاں تین سال بعد چننا شروع کی جاتی ہیں اور سال میں تین بار توڑی جاتی ہیں۔
چائے میں موجود کیفین کی مقدار پینے والے کو تازہ دم کرتی ہے، تھکان دور ہونے کا احساس فراہم کرتی ہے۔ دنیامیں سب سے زیادہ چائے کی کاشت بھارت، چین اور سری لنکا میں ہوتی ہے۔ اس کی مختلف اقسام ہیں۔ سفید، سبز، پیلی، کالی اور کشمیری چائے۔
سردیوں کی ہر دل عزیز کشمیری چائے، جو ذائقے اور افادیت کے اعتبار سے بہت ہی اہمیت کی حامل ہے۔ موسم سرما میں جاڑے کی سرد ہواؤں میں کشمیری چائے کی گرماگرم بھاپ اڑاتی ہوئی ایک پیالی، بھولی بِسری پرانی یادوں کو دوبالا کر دیتا ہے۔
اکثر ہماری خواتین کو یہ شکایت رہتی ہے کہ پتا نہیں کیوں کشمیری چائے گھر میں ویسی نہیں بنتی جیسی بازار اور ریستوران سے پیتے ہیں۔ اگر اس کے تمام اجزا اور مقدار ساتھ میں طریقہ کار کو ہم ٹھیک طرح سے ذہن میں رکھیں، تو ہم بازار اور ریستوران کا ذائقہ گھر میں ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ کشمیری چائے کی بے حد آسان اور مختصر ترکیب کچھ اس طرح ہے
اجزا:
سبز چائے کی پتیاں (ایک کھانے کا چمچا)
لونگ (چار عدد )
دار چینی (ایک بڑا ٹکرا)
بادیان کا پھول (ایک عدد)
چھوٹی الائچی (چار پانچ عدد)
کھانے کا سوڈا (ایک چٹکی)
نمک (ایک چٹکی)
شکر (حسب ذائقہ )
دودھ (ایک کلو )
پانی (چار پیالی)
بادام اور پستہ (حسب ذائقہ)
ترکیب:
ایک بڑے سوس پین میں پانی ڈالیں، اس کے بعد اس میں سبز چائے کی پتیاں، لونگ، دار چینی، بادیان کا پھول، الائچی اور نمک ڈال کر ابال لیں۔
جب پانی ابلنے لگے، تو اس میں سوڈا ڈال کر اچھی طرح پھینٹ لیں، یہاں تک کہ پانی کا رنگ سرخ ہو جائے، پھر اس کو اتنا پکائیں کہ پانی خشک ہو کر ایک پیالی رہ جائے۔ اس کے بعد اس میں دودھ اور چینی شامل کر کے پکائیں اور بادام اور پستے پیس کر اس میں شامل کردیں اور گرما گرم مزے دار کشمیری چائے کا لطف اٹھائیں۔
دودھ پسند نہ کرنے والے افراد بھی کشمیری چائے کی صورت میں اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ لونگ چین اور بر صغیر میں قدیم زمانے سے استعمال ہو رہا ہے۔ لونگ میں بہت سی طبی خوبیاں ہیں۔ لونگ بادی پن دور کرتا ہے۔ اس میں ایسے اجزا پائے جاتے ہیں، جو خون کی گردش کو متوازن کرتے ہیں، جسم میں درجہ حرارت کو برقرار رکھتے ہیں۔ لونگ سے گلے کی خارش کو بھی افاقہ ہوتا ہے اور کھانسی میں مفید ہے، حلق کی سوزش بھی اس سے دور ہوتی ہے۔
الائچی کی بھی بڑی اور چھوٹی دو اقسام پائی جاتی ہیں۔ ہم نے اپنی چائے میں چھوٹی الائچی شامل کی ہے۔ اس کی خوش بو چائے کے ذائقے کو بڑھا دیتی ہے۔ اس سے بھی سانس کی نالی کی صفائی ہوتی ہے۔ چھوٹی الائچی سے جسم کو طاقت ملتی ہے اور ذہن ترو تازہ ہو جاتا ہے۔
بادیان کے پھول کو انگریزی میں اینس اسٹار (anise star) بھی کہا جاتا ہے، جو چائے کی لذت کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
دارچینی جسے ہندی میں دال چینی اور انگریزی میں سینا مون (Cinnamon) کہتے ہیں یہ ایک درخت کی چھال ہے، جس کی رنگت سرخی مائل یا ہلکی سیاہی مائل ھوتی ہے ذائقہ قدرے شیریں اور تلخی لیے ہوتاہے۔ اس کی کاشت زیادہ تر ہندوستان، سری لنکا اور چین میں کی جاتی ہے۔ دار چینی ہمارے جسم کے لیے مفید اور سردیوں کی بہت سی بیماریوں سے پیشگی تحفظ کا باعث ہے۔
بادام ایک من پسند میوہ ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں زیادہ تر موسم سرما میں استعمال کیا جاتاہے۔ اس کی تاثیر گرم تر ہوتی ہے، جو دماغ کو طاقت اور نظر کو تیز کرتا ہے، یادشت بڑھاتا ہے اور کھانوں کی کئی اقسام میں یہ بہت ہی مفید اور فائدے مند ہے۔
پستہ بھی دوسرے میوہ جات کی طرح ایک قیمتی اور افادیت سے بھرپور میوہ ہے۔ اس کا مزاج بھی گرم تر ہوتا ہے۔ یہ بھی یادداشت بڑھانے میں مدد دیتا ہے اور دماغ کے لیے انتہائی بہتر ہے۔
یہ تمام اجزا ایک پیالی کشمیری چائے میں شامل ہوکر اس کی افادیت اور غذائیت کو بڑھا دیتے ہیں۔ اس کی گلابی خوش نما رنگت کی وجہ سے ہر چھوٹے بڑے اس کی طرف راغب ہوتے ہیں، اسی بنا پر اسے سردیوں کا ایک اہم مشروب شمار کیا جاتا ہے۔
چائے دنیا بھر کے چند پسند یدہ مشروبات کی فہرست میں نمایاں مقام کی حامل ہے۔ بعض لوگ اسے بغیر دودھ کے بھی استعمال کرتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ اس میں دودھ شامل کر کے اس کا لطف دوبالا کرتے ہیں۔
چائے کو مختلف زبانوں میں مختلف ناموں سے پکارا جاتاہے۔ مثلا اردو، ترکی، چینی اور روس میں اس کو چائے ہی کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ فارسی میں چائے خطائی، پنجابی میں چاء، سندھی میں چانھ، پشتو میں ساؤ، عربی میں شائی انگریزی میں ٹی(Tea) اور لاطینی میں کوملیا تھیفرا (commllia thafera) کہتے ہیں۔
چائے، دراصل ایک جھاڑی نما پودے کی پتیاں ہیں، جس کی اونچائی ایک گز یا اس سے کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا پودا بڑی حفاظت اور احتیاط کے ساتھ پرورش پاتا ہے۔ اس کے پودوں کو پہلے گملوں میں بویا جاتا ہے، چھے ماہ بعد جب پنیری تیار ہو جاتی ہے، تو بڑے بڑے قطعات زمین پر قطار در قطار بو دیا جاتا ہے۔ اس کی کاشت سطح سمندر سے پانچ ہزار فٹ بلند ایسی پہاڑی ڈھلوانوں پر کی جاتی ہے، جہاں بارش کی اوسط 56،60 انچ سالانہ ہو۔ اس کی پتیاں منہدی یا انار کے پتوں جیسی ہوتی ہیں، جن کے کناروں پر چھوٹے چھوٹے دندانے ہوتے ہیں۔ شروع میں ان کا رنگ بھورا ہوتا ہے، جو پختہ ہونے پر سبز ہو جاتا ہے۔ اس کا پھول سفید رنگ کا ہوتا ہے اور اتنا خوش بو دار کہ میلوں تک اس کی مہک جاتی ہے۔ اس کے پتوں میں تلخی ہوتی ہے، لیکن ابالنے سے زائل ہو جاتی ہے۔ چائے کی پتیاں تین سال بعد چننا شروع کی جاتی ہیں اور سال میں تین بار توڑی جاتی ہیں۔
چائے میں موجود کیفین کی مقدار پینے والے کو تازہ دم کرتی ہے، تھکان دور ہونے کا احساس فراہم کرتی ہے۔ دنیامیں سب سے زیادہ چائے کی کاشت بھارت، چین اور سری لنکا میں ہوتی ہے۔ اس کی مختلف اقسام ہیں۔ سفید، سبز، پیلی، کالی اور کشمیری چائے۔
سردیوں کی ہر دل عزیز کشمیری چائے، جو ذائقے اور افادیت کے اعتبار سے بہت ہی اہمیت کی حامل ہے۔ موسم سرما میں جاڑے کی سرد ہواؤں میں کشمیری چائے کی گرماگرم بھاپ اڑاتی ہوئی ایک پیالی، بھولی بِسری پرانی یادوں کو دوبالا کر دیتا ہے۔
اکثر ہماری خواتین کو یہ شکایت رہتی ہے کہ پتا نہیں کیوں کشمیری چائے گھر میں ویسی نہیں بنتی جیسی بازار اور ریستوران سے پیتے ہیں۔ اگر اس کے تمام اجزا اور مقدار ساتھ میں طریقہ کار کو ہم ٹھیک طرح سے ذہن میں رکھیں، تو ہم بازار اور ریستوران کا ذائقہ گھر میں ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ کشمیری چائے کی بے حد آسان اور مختصر ترکیب کچھ اس طرح ہے
اجزا:
سبز چائے کی پتیاں (ایک کھانے کا چمچا)
لونگ (چار عدد )
دار چینی (ایک بڑا ٹکرا)
بادیان کا پھول (ایک عدد)
چھوٹی الائچی (چار پانچ عدد)
کھانے کا سوڈا (ایک چٹکی)
نمک (ایک چٹکی)
شکر (حسب ذائقہ )
دودھ (ایک کلو )
پانی (چار پیالی)
بادام اور پستہ (حسب ذائقہ)
ترکیب:
ایک بڑے سوس پین میں پانی ڈالیں، اس کے بعد اس میں سبز چائے کی پتیاں، لونگ، دار چینی، بادیان کا پھول، الائچی اور نمک ڈال کر ابال لیں۔
جب پانی ابلنے لگے، تو اس میں سوڈا ڈال کر اچھی طرح پھینٹ لیں، یہاں تک کہ پانی کا رنگ سرخ ہو جائے، پھر اس کو اتنا پکائیں کہ پانی خشک ہو کر ایک پیالی رہ جائے۔ اس کے بعد اس میں دودھ اور چینی شامل کر کے پکائیں اور بادام اور پستے پیس کر اس میں شامل کردیں اور گرما گرم مزے دار کشمیری چائے کا لطف اٹھائیں۔
دودھ پسند نہ کرنے والے افراد بھی کشمیری چائے کی صورت میں اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ لونگ چین اور بر صغیر میں قدیم زمانے سے استعمال ہو رہا ہے۔ لونگ میں بہت سی طبی خوبیاں ہیں۔ لونگ بادی پن دور کرتا ہے۔ اس میں ایسے اجزا پائے جاتے ہیں، جو خون کی گردش کو متوازن کرتے ہیں، جسم میں درجہ حرارت کو برقرار رکھتے ہیں۔ لونگ سے گلے کی خارش کو بھی افاقہ ہوتا ہے اور کھانسی میں مفید ہے، حلق کی سوزش بھی اس سے دور ہوتی ہے۔
الائچی کی بھی بڑی اور چھوٹی دو اقسام پائی جاتی ہیں۔ ہم نے اپنی چائے میں چھوٹی الائچی شامل کی ہے۔ اس کی خوش بو چائے کے ذائقے کو بڑھا دیتی ہے۔ اس سے بھی سانس کی نالی کی صفائی ہوتی ہے۔ چھوٹی الائچی سے جسم کو طاقت ملتی ہے اور ذہن ترو تازہ ہو جاتا ہے۔
بادیان کے پھول کو انگریزی میں اینس اسٹار (anise star) بھی کہا جاتا ہے، جو چائے کی لذت کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
دارچینی جسے ہندی میں دال چینی اور انگریزی میں سینا مون (Cinnamon) کہتے ہیں یہ ایک درخت کی چھال ہے، جس کی رنگت سرخی مائل یا ہلکی سیاہی مائل ھوتی ہے ذائقہ قدرے شیریں اور تلخی لیے ہوتاہے۔ اس کی کاشت زیادہ تر ہندوستان، سری لنکا اور چین میں کی جاتی ہے۔ دار چینی ہمارے جسم کے لیے مفید اور سردیوں کی بہت سی بیماریوں سے پیشگی تحفظ کا باعث ہے۔
بادام ایک من پسند میوہ ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں زیادہ تر موسم سرما میں استعمال کیا جاتاہے۔ اس کی تاثیر گرم تر ہوتی ہے، جو دماغ کو طاقت اور نظر کو تیز کرتا ہے، یادشت بڑھاتا ہے اور کھانوں کی کئی اقسام میں یہ بہت ہی مفید اور فائدے مند ہے۔
پستہ بھی دوسرے میوہ جات کی طرح ایک قیمتی اور افادیت سے بھرپور میوہ ہے۔ اس کا مزاج بھی گرم تر ہوتا ہے۔ یہ بھی یادداشت بڑھانے میں مدد دیتا ہے اور دماغ کے لیے انتہائی بہتر ہے۔
یہ تمام اجزا ایک پیالی کشمیری چائے میں شامل ہوکر اس کی افادیت اور غذائیت کو بڑھا دیتے ہیں۔ اس کی گلابی خوش نما رنگت کی وجہ سے ہر چھوٹے بڑے اس کی طرف راغب ہوتے ہیں، اسی بنا پر اسے سردیوں کا ایک اہم مشروب شمار کیا جاتا ہے۔