نیا سال پرانی خلیج
یہ سوشل میڈیا کا ذکر ہے، جو دن بہ دن پھیلتا جا رہا ہے
دھند کے پیچھے ایک شہر تھا، جس کے افق پر سورج طلوع ہو رہا تھا۔
2017ء کا اولین دن اُگ آیا۔ اور شہر، جس کا آسمان چند گھنٹوں قبل آتش بازی سے سنہری ہو گیا تھا، جس کی گلیوں میں پٹاخوں کا شور تھا، فضا میں گولیاں گونج رہی تھیں۔۔۔ وہ اب گہری نیند میں تھا۔ جشن نے شہریوں کے اعصاب پہ پرسکون غنودگی طاری کر دی۔ وہ آج دیر تک سونا چاہتے تھے کہ اُنھیں خبر تھی، چیزیں جوں کی توں ہیں۔ کچھ نہیں بدلا۔ انھیں جلد اپنی یکسانیت کی شکار، اکتائی ہوئی زندگیوں کی سمت لوٹنا ہے۔ پھر وہی مسائل، وہی دعوے، وہی وعدے۔ وہی عسکریت پسندی، وہی فرقہ واریت۔ وہی کرپشن۔ ایک دوسرے کو کافر قرار دیتی دیواریں، ٹوٹی ہوئی سڑکیں، کھلے مین ہول، بدترین ٹریفک جام۔ وہ آج دیر تک سونا چاہتے تھے۔ جشن کی جھلکیاں اُن کے خوابوں میں رقصاں تھی۔ نیا سورج انھیں متوجہ کرنے سے قاصر رہا۔ دھند کے پیچھے جو شہر ہے، وہ ہنوز چپ ہے۔
چہل قدمی اور ناشتے کے بعد جب لکھنے کی میز پر بیٹھا، تو ایک جانب چائے کے کپ سے اٹھتا دھواں تھا، جس کے پیچھے بالزاک کا ''بوڑھا گوریو'' اور حسن منظر کا ناول ''حبس'' دکھائی دے رہے تھے، اور دوسری طرف وہ ڈائری تھی، جس میںاِس برس میںاپنے خواب لکھوں گا۔ ایک سمت اسمارٹ فون دھرا ہے، جو رات بھر سال نو کے تہنیتی پیغامات سے جھنجھلاتا رہا، مگر اب خاموش ہے کہ شہر سویا ہوا ہے۔
میں لکھنے کی میز پر بیٹھا ہوں، اور ذہن کے پردے پہ سال گزشتہ کی فلم چل رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے کھنڈرات میںاقبال کا خواب خاک ہوا۔ نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغر مسلمان فرقوں میں بٹ گئے۔ اب ایک ہونے کا امکان نہیں۔ شام راکھ ہوا۔ بے حسی ہے، کشمیر میں کتنی آنکھیں بے نور ہوئیں۔ لاہور کا گلشن اقبال پارک، کوئٹہ کا سول اسپتال، چارسدہ یونیورسٹی؛ ہر سو خون اور لاشیں۔ ہندوستان کے بعد امریکا میں نسل پرستی کے عفریت نے انگڑائی لی۔ ٹرمپ منظر میں ظاہر ہوا۔ پاک بھارت تنازعات۔ پاناما لیکس، اس سے جڑا احتجاج، تحقیقات، بیانات، الزامات۔ کراچی میںایم کیو ایم کی شکست و ریخت۔ کتنا کچھ ماضی ہوا۔ عبدالستار ایدھی، فیڈل کاسترو، محمد علی کلے، انتظار حسین، معراج محمد خاں، آغا ناصر اور بجیا جیسی شخصیات جدا ہوئیں۔
بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ اچھی خبر بھی ملیں۔ ضرب عضب، دہشتگردوں کی پھانسیاں، کراچی کی سنبھلتی صورت حال، جمہوریت کا تسلسل، اداروں کے سربراہاں کی تبدیلی، پاکستان کا ٹیسٹ رینکنگ میں پہلا نمبر، علیم ڈار اور مصباح الحق کے لیے نشان سپاس۔ ملالہ اور شرمین عبید چنائے کو ملنے والے عالمی اعزازات۔
میں لکھنے کی میز پر بیٹھا ہوں، اور ذہن میں سال گزشتہ کی فلم چل رہی ہے ۔۔۔ ایک خیال وقفے وقفے سے پردے پر منعکس ہو رہا ہے، جو 2016ء میںمختلف فورمز پر زیر بحث بھی آیا کہ اب پاکستان میں ایک متوازی یا متبادل میڈیا ابھر رہا ہے۔
یہ سوشل میڈیا کا ذکر ہے، جو دن بہ دن پھیلتا جا رہا ہے۔ خبر، جو چھپائی جاتی ہے، دبائی جاتی ہے، جس پر مرکزی دھارے کا میڈیا خاموش رہتا ہے، سوشل میڈیا پر وہ زور شور سے زیر بحث آتی ہے۔ اعصاب کو جھنجھوڑتی ہے۔ نیوز ویب سائٹس کا رجحان بڑھ رہا ہے، نوجوان بلاگرز رائے عامہ کے نمایندے بن رہے ہیں، مضامین کے ساتھ سمعی اور بصری مواد بھی دستیاب۔ یوٹیوب اور ڈیلی موشن پر، دھیرے دھیرے ہی سہی، سماجی، سیاسی اور ادبی ایشوز کا احاطہ کیا جا رہا ہے۔ (راقم الحروف نے بھی ڈیلی موشن چینل: One Minute Story کے تحت اس عمل میں حصہ ڈالا، اور کتابوں کے ویڈیو تبصروں کی شروعات کی۔)
تو سوشل میڈیا، فیس بک، ٹوئٹر، ویڈیو شیئرنگ سائٹس نے متبادل یا متوازی ذرایع ابلاغ کی شکل اختیار کی۔ ہمخیال لوگ رابطے میں آئے، مختلف نظریات رکھنے والے ایک پلیٹ فورم پر اکٹھے ہوئے، مباحثوں کے پہلو میں کہیں مکالمے کی فضا پیدا ہوئی، فاصلے مٹ گئے، ابلاغ کا حلقہ وسیع ہوا۔ بے شک یہ قابل تعریف، مگر یہ بھی حقیقت کہ سوشل میڈیا اپنی خوبیوں کے ساتھ خامیاں بھی لایا۔ اِس کے باعث لسانی، نظریاتی اور مذہبی تفریق نہ صرف واضح، بلکہ گہری ہوتی گئی۔ پاکستانی مڈل کلاس، جو ترقی اور تبدیلی کے عمل میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے، دو حصوں میں بٹنے لگی۔
پہلے بھی لکھا تھا، یہ مڈل کلاس ہی ہے، جو تبدیلی کا پہیا چلاتی ہے۔ پہلے مرحلے میں نچلا طبقہ غیر متعلقہ ہوتا ہے، اور اشرافیہ لاتعلق۔ (ہاں، بعد میں اِس پہیے کی رفتار محنت کش بڑھاتے ہیں!) نیا ہزاریہ، میڈیا کی آزادی اور انٹرنیٹ نے 80ء اور 90ء کی دہائی کے سماجی جمود پر گہری ضرب لگائی۔ تبدیلی کی خواہش نے انگڑائی لی، وکلا تحریک، انتخابات، سوشل میڈیا کے بڑھتے اثرات نے امکانات کو جنم دیا، مگر پھر حالات بدلنے لگے۔ ایک تقسیم ابھری، اور بڑھتی چلی گئی۔ ممتاز قادری کی پھانسی ہو، ایدھی صاحب کا انتقال، امجد صابری اور قندیل بلوچ کا قتل، ملا منصور پر ڈرون حملہ، ترکی میں ناکام بغاوت، امریکی انتخابات، پوتن کا بڑھتا اثر۔۔۔ ہم نے ہر معاملے میں اِس خلیج کو بڑھتے دیکھا۔
یہ لبرل اور اسلامسٹ کی ہولناک تقسیم ہے، جو فرقہ واریت جتنی گھاتک، جسے بڑھاوا دینے کی ذمے داری شاید ایک حد تک ملک دشمن قوتوں پر بھی عاید ہو، مگر اِسے واضح کرنے میں ہمارے رائے عامہ کے نمایندوں، اینکر پرسنز، کالم نگاروں نے بھی خاصا منفی کردار ادا کیا۔ اختلاف بڑھا، تو بات الزامات سے نکل کر پھبتیاں کسنے اور دشنام طرازی تک جا پہنچی، غداری اور کفر کے فتوے جاری ہوئے۔ یوں کشادگی کا قتل ہوا، ظرف خجل ہوا، عدم برداشت کو شہ ملی۔ ان دو بیانیوں کے پیروکاروں نے دلیل اور منطق سے دامن چھڑا کر اپنے قائدین کا نقطۂ نظر، بنا سوچے سمجھے اپنا لیا۔ سچائی کے کڑے معیارات کو، جن کے لیے لسانی، صنفی، مذہبی اور فکری تعصبات سے اوپر اٹھنا ضروری، یکسر بھلا دیا گیا۔
لبرل اور اسلامسٹ بیانیہ کے علم برداروں میں نیک نیت افراد کی کمی نہیں۔ شاید اُنھوں نے خلوص کے ساتھ سوشل میڈیا کا ہتھیار برتا ہو، مگر اِس کے نتیجے میں اسکالرز کی بیٹھکوں میں ہونے والی سنجیدہ مباحث یکدم شاہراہوں پر چھڑگئی، اور بے وقعت ہوئی۔ اُن حساس ایشوز پر لاحاصل بحث چل نکلی، جن پر بات کرنے کے لیے سماج کا شعوری، عمرانی اور معاشی طور پر ترقی یافتہ ہونا ضروری۔ یوں ہم تقسیم در تقسیم ہوتے گئے، اور معاشرے کا سب سے موثر طبقہ، یعنی مڈل کلاس، اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی۔
اب دھند چھٹ رہی ہے۔ سورج اوپر آ چکا۔ یہ 2017ء کی پہلی صبح ہے۔ شہر جاگنے لگا ہے۔ لوگ اپنی اکتائی ہوئی زندگیوں کی سمت لوٹنے کو ہیں، اور میرے سامنے حسن منظر اور بالزاک کے ناول ہیں۔ لبرل اور اسلامسٹ کی خلیج سے اوپر اٹھ کر ایک نئے سماجی بیانیہ کی تشکیل کے موضوع کو۔۔۔ پھر کسی دھند زدہ صبح پر اٹھا رکھتے ہیں۔
2017ء کا اولین دن اُگ آیا۔ اور شہر، جس کا آسمان چند گھنٹوں قبل آتش بازی سے سنہری ہو گیا تھا، جس کی گلیوں میں پٹاخوں کا شور تھا، فضا میں گولیاں گونج رہی تھیں۔۔۔ وہ اب گہری نیند میں تھا۔ جشن نے شہریوں کے اعصاب پہ پرسکون غنودگی طاری کر دی۔ وہ آج دیر تک سونا چاہتے تھے کہ اُنھیں خبر تھی، چیزیں جوں کی توں ہیں۔ کچھ نہیں بدلا۔ انھیں جلد اپنی یکسانیت کی شکار، اکتائی ہوئی زندگیوں کی سمت لوٹنا ہے۔ پھر وہی مسائل، وہی دعوے، وہی وعدے۔ وہی عسکریت پسندی، وہی فرقہ واریت۔ وہی کرپشن۔ ایک دوسرے کو کافر قرار دیتی دیواریں، ٹوٹی ہوئی سڑکیں، کھلے مین ہول، بدترین ٹریفک جام۔ وہ آج دیر تک سونا چاہتے تھے۔ جشن کی جھلکیاں اُن کے خوابوں میں رقصاں تھی۔ نیا سورج انھیں متوجہ کرنے سے قاصر رہا۔ دھند کے پیچھے جو شہر ہے، وہ ہنوز چپ ہے۔
چہل قدمی اور ناشتے کے بعد جب لکھنے کی میز پر بیٹھا، تو ایک جانب چائے کے کپ سے اٹھتا دھواں تھا، جس کے پیچھے بالزاک کا ''بوڑھا گوریو'' اور حسن منظر کا ناول ''حبس'' دکھائی دے رہے تھے، اور دوسری طرف وہ ڈائری تھی، جس میںاِس برس میںاپنے خواب لکھوں گا۔ ایک سمت اسمارٹ فون دھرا ہے، جو رات بھر سال نو کے تہنیتی پیغامات سے جھنجھلاتا رہا، مگر اب خاموش ہے کہ شہر سویا ہوا ہے۔
میں لکھنے کی میز پر بیٹھا ہوں، اور ذہن کے پردے پہ سال گزشتہ کی فلم چل رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے کھنڈرات میںاقبال کا خواب خاک ہوا۔ نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغر مسلمان فرقوں میں بٹ گئے۔ اب ایک ہونے کا امکان نہیں۔ شام راکھ ہوا۔ بے حسی ہے، کشمیر میں کتنی آنکھیں بے نور ہوئیں۔ لاہور کا گلشن اقبال پارک، کوئٹہ کا سول اسپتال، چارسدہ یونیورسٹی؛ ہر سو خون اور لاشیں۔ ہندوستان کے بعد امریکا میں نسل پرستی کے عفریت نے انگڑائی لی۔ ٹرمپ منظر میں ظاہر ہوا۔ پاک بھارت تنازعات۔ پاناما لیکس، اس سے جڑا احتجاج، تحقیقات، بیانات، الزامات۔ کراچی میںایم کیو ایم کی شکست و ریخت۔ کتنا کچھ ماضی ہوا۔ عبدالستار ایدھی، فیڈل کاسترو، محمد علی کلے، انتظار حسین، معراج محمد خاں، آغا ناصر اور بجیا جیسی شخصیات جدا ہوئیں۔
بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ اچھی خبر بھی ملیں۔ ضرب عضب، دہشتگردوں کی پھانسیاں، کراچی کی سنبھلتی صورت حال، جمہوریت کا تسلسل، اداروں کے سربراہاں کی تبدیلی، پاکستان کا ٹیسٹ رینکنگ میں پہلا نمبر، علیم ڈار اور مصباح الحق کے لیے نشان سپاس۔ ملالہ اور شرمین عبید چنائے کو ملنے والے عالمی اعزازات۔
میں لکھنے کی میز پر بیٹھا ہوں، اور ذہن میں سال گزشتہ کی فلم چل رہی ہے ۔۔۔ ایک خیال وقفے وقفے سے پردے پر منعکس ہو رہا ہے، جو 2016ء میںمختلف فورمز پر زیر بحث بھی آیا کہ اب پاکستان میں ایک متوازی یا متبادل میڈیا ابھر رہا ہے۔
یہ سوشل میڈیا کا ذکر ہے، جو دن بہ دن پھیلتا جا رہا ہے۔ خبر، جو چھپائی جاتی ہے، دبائی جاتی ہے، جس پر مرکزی دھارے کا میڈیا خاموش رہتا ہے، سوشل میڈیا پر وہ زور شور سے زیر بحث آتی ہے۔ اعصاب کو جھنجھوڑتی ہے۔ نیوز ویب سائٹس کا رجحان بڑھ رہا ہے، نوجوان بلاگرز رائے عامہ کے نمایندے بن رہے ہیں، مضامین کے ساتھ سمعی اور بصری مواد بھی دستیاب۔ یوٹیوب اور ڈیلی موشن پر، دھیرے دھیرے ہی سہی، سماجی، سیاسی اور ادبی ایشوز کا احاطہ کیا جا رہا ہے۔ (راقم الحروف نے بھی ڈیلی موشن چینل: One Minute Story کے تحت اس عمل میں حصہ ڈالا، اور کتابوں کے ویڈیو تبصروں کی شروعات کی۔)
تو سوشل میڈیا، فیس بک، ٹوئٹر، ویڈیو شیئرنگ سائٹس نے متبادل یا متوازی ذرایع ابلاغ کی شکل اختیار کی۔ ہمخیال لوگ رابطے میں آئے، مختلف نظریات رکھنے والے ایک پلیٹ فورم پر اکٹھے ہوئے، مباحثوں کے پہلو میں کہیں مکالمے کی فضا پیدا ہوئی، فاصلے مٹ گئے، ابلاغ کا حلقہ وسیع ہوا۔ بے شک یہ قابل تعریف، مگر یہ بھی حقیقت کہ سوشل میڈیا اپنی خوبیوں کے ساتھ خامیاں بھی لایا۔ اِس کے باعث لسانی، نظریاتی اور مذہبی تفریق نہ صرف واضح، بلکہ گہری ہوتی گئی۔ پاکستانی مڈل کلاس، جو ترقی اور تبدیلی کے عمل میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے، دو حصوں میں بٹنے لگی۔
پہلے بھی لکھا تھا، یہ مڈل کلاس ہی ہے، جو تبدیلی کا پہیا چلاتی ہے۔ پہلے مرحلے میں نچلا طبقہ غیر متعلقہ ہوتا ہے، اور اشرافیہ لاتعلق۔ (ہاں، بعد میں اِس پہیے کی رفتار محنت کش بڑھاتے ہیں!) نیا ہزاریہ، میڈیا کی آزادی اور انٹرنیٹ نے 80ء اور 90ء کی دہائی کے سماجی جمود پر گہری ضرب لگائی۔ تبدیلی کی خواہش نے انگڑائی لی، وکلا تحریک، انتخابات، سوشل میڈیا کے بڑھتے اثرات نے امکانات کو جنم دیا، مگر پھر حالات بدلنے لگے۔ ایک تقسیم ابھری، اور بڑھتی چلی گئی۔ ممتاز قادری کی پھانسی ہو، ایدھی صاحب کا انتقال، امجد صابری اور قندیل بلوچ کا قتل، ملا منصور پر ڈرون حملہ، ترکی میں ناکام بغاوت، امریکی انتخابات، پوتن کا بڑھتا اثر۔۔۔ ہم نے ہر معاملے میں اِس خلیج کو بڑھتے دیکھا۔
یہ لبرل اور اسلامسٹ کی ہولناک تقسیم ہے، جو فرقہ واریت جتنی گھاتک، جسے بڑھاوا دینے کی ذمے داری شاید ایک حد تک ملک دشمن قوتوں پر بھی عاید ہو، مگر اِسے واضح کرنے میں ہمارے رائے عامہ کے نمایندوں، اینکر پرسنز، کالم نگاروں نے بھی خاصا منفی کردار ادا کیا۔ اختلاف بڑھا، تو بات الزامات سے نکل کر پھبتیاں کسنے اور دشنام طرازی تک جا پہنچی، غداری اور کفر کے فتوے جاری ہوئے۔ یوں کشادگی کا قتل ہوا، ظرف خجل ہوا، عدم برداشت کو شہ ملی۔ ان دو بیانیوں کے پیروکاروں نے دلیل اور منطق سے دامن چھڑا کر اپنے قائدین کا نقطۂ نظر، بنا سوچے سمجھے اپنا لیا۔ سچائی کے کڑے معیارات کو، جن کے لیے لسانی، صنفی، مذہبی اور فکری تعصبات سے اوپر اٹھنا ضروری، یکسر بھلا دیا گیا۔
لبرل اور اسلامسٹ بیانیہ کے علم برداروں میں نیک نیت افراد کی کمی نہیں۔ شاید اُنھوں نے خلوص کے ساتھ سوشل میڈیا کا ہتھیار برتا ہو، مگر اِس کے نتیجے میں اسکالرز کی بیٹھکوں میں ہونے والی سنجیدہ مباحث یکدم شاہراہوں پر چھڑگئی، اور بے وقعت ہوئی۔ اُن حساس ایشوز پر لاحاصل بحث چل نکلی، جن پر بات کرنے کے لیے سماج کا شعوری، عمرانی اور معاشی طور پر ترقی یافتہ ہونا ضروری۔ یوں ہم تقسیم در تقسیم ہوتے گئے، اور معاشرے کا سب سے موثر طبقہ، یعنی مڈل کلاس، اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی۔
اب دھند چھٹ رہی ہے۔ سورج اوپر آ چکا۔ یہ 2017ء کی پہلی صبح ہے۔ شہر جاگنے لگا ہے۔ لوگ اپنی اکتائی ہوئی زندگیوں کی سمت لوٹنے کو ہیں، اور میرے سامنے حسن منظر اور بالزاک کے ناول ہیں۔ لبرل اور اسلامسٹ کی خلیج سے اوپر اٹھ کر ایک نئے سماجی بیانیہ کی تشکیل کے موضوع کو۔۔۔ پھر کسی دھند زدہ صبح پر اٹھا رکھتے ہیں۔