ٹریفک بدنظمی کے ذمے دار

کراچی میں ٹریفک جام رہنا اب معمول بن گیا ہے

کراچی میں ٹریفک جام رہنا اب معمول بن گیا ہے۔ وی وی آئی پی موومنٹ ہو یا کوئی جلسہ و جلوس شہری ٹریفک جام کے باعث عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ شہریوں کے معمولات بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور ٹریفک جام میں پھنسے شہریوں کوگھنٹوں کی تاخیرکے بعد اپنے گھر، دفاتر یا تقاریب میں پہنچنا نصیب ہوتا ہے۔ ہر بڑے شہر میں ٹریفک کا نظم و ضبط برقرار اور رواں رکھنے کے لیے ٹریفک پولیس موجود ہے۔

کراچی میں پہلے ایک ڈی آئی جی ٹریفک ہوتا تھا جس کے بعد اب ایڈیشنل آئی جی ٹریفک کا تقررکر دیا گیا ہے اور محکمہ پولیس میں ٹریفک پولیس کی نوکری کو آرام دہ اور کمائی کی نوکری سمجھا جاتا ہے، جہاں ٹریفک اہلکاروں کی ڈیوٹی کے اوقات مقرر ہیں۔ ان کی کمائی سے متعلق اتنی شکایات بھی نہیں ہوتیں جتنی کراچی پولیس کی رشوت ستانی اور مظالم کی ہوتی ہیں اور ان کی ڈیوٹی بھی ٹریفک اہلکاروں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے اور انھیں ان کے مقررہ کاموں کے علاوہ افسران کمائی کے لیے دیگر خصوصاً بلدیاتی معاملات میں استعمال کرتے ہیں۔

کراچی کے ہر ضلع میں ایس ایس پی ٹریفک اور بے شمار ڈی ایس پی ٹریفک بھی موجود ہیں جب کہ مختلف علاقوں میں ٹریفک سیکشن بنائے گئے ہیں، جہاں انسپکٹر سطح کا ایس او ٹریفک تعینات ہے اور اگر سیاسی سفارش یا اعلیٰ افسرکا من پسند ہو تو سب انسپکٹر بھی سیکشن افسر بنا دیا جاتا ہے۔ ٹریفک قوانین کا وجود کراچی میں بہت کم نظر آتا ہے جس کی وجہ سے لوگ بھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے عادی ہو چکے ہیں اور اکثر جان بوجھ کر سگنل توڑتے ہیں۔ غلط سمت کا شارٹ کٹ استعمال کرتے ہیں جن میں زیادہ اکثریت موٹر سائیکل چلانے والوں کی ہوتی ہے جب کہ رکشے والے من مانی اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اپنا حق سمجھتے ہیں۔

کراچی میں کبھی رکشا میں میٹر لازمی ہوا کرتے تھے جو ملک بھرکی طرح اب متروک ہو چکے ہیں۔ سابق ڈی آئی جی ٹریفک نے رکشا والوں کو میٹر لگوانے کی مہلت دی تھی جن کا تبادلہ ہو گیا اور میٹر نہ لگا کر مسافروں کو لوٹنے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ عوام کے مسائل پر حکومت تو توجہ دیتی نہیں پہلے عدالت عظمیٰ اور اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس سوموٹو ایکشن کبھی کبھی عوام کی شکایات یا اخباری خبروں اور کبھی لوگوں سے ملنے والی درخواستوں پر لے لیا کرتے تھے اور لوگوں کی دادرسی ہو جایا کرتی تھی مگر اب وہ چیف جسٹس نہیں رہے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے بڑھتے ہوئے مسائل ہوں یا ٹریفک جام کا عذاب کوئی ایکشن لینے والا نہیں ہے۔

کوچ کنڈکٹر مسافروں کی تذلیل کرتے اور ضعیف اور خواتین سواریوں کو چلتی بس سے اتار دیتے ہیں، کراچی میں ٹرانسپورٹ ایک مافیا کے طور پر موجود رہی ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سالوں نہیں عشروں پرانی، کھٹارا بسیں، منی بسیں اور پرانے رکشے شامل رہے ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ پر ان لوگوں کا راج ہے جنھوں نے قرضوں اور قسطوں پرگاڑیاں لے کر چلانا شروع کی تھیں جو بعد میں ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے مالک بن گئے اور عوام کو تنگ رکھنا اور لوٹنا ہی ان کا فرض اولین رہا۔ بسیں نہ صرف اندر سے فل ہوں گیٹ پر مسافر لٹک کر یا چھت پر بیٹھ کر سفرکریں اور کھڑے رہنے دھکے کھانے کا کرایہ مقررہ سے بھی زیادہ دیں مگر ٹرانسپورٹ والوں کا نقصان کا رونا کبھی نہیں جاتا۔ بسوں میں ٹکٹ پیسوں کے دور میں ہوتے تھے اب سکوں کا نہیں نوٹوں کا دور ہے۔


کراچی شہر میں اندرون شہر چلنے والی بسوں کے مالک اب کما کما کر ٹرانسپورٹ کمپنیاں بنا چکے ہیں ان کی کھٹارا بسیں کما کما کر اسکریپ بن گئیں اورمالکوں نے کراچی میں نئی بسیں چلانے کی بجائے بین الصوبائی روٹوں پر اے سی اور نان اے سی بڑی بسیں چلا رکھی ہیں۔

کراچی میں کھٹارا بسوں کا خلا چنگ چی، چھ سیٹر اور نو سیٹر سی این جی رکشوں نے پورا کرنے کی کوشش کی تو ٹریفک جام کے مسائل مزید بڑھ گئے ہیں۔ ان رکشوں نے چھوٹی اندرونی سڑکوں سے ابتدا کی اور اہم شاہراہوں تک پہنچ گئے جس سے لوگوں کو بسوں میں کھڑے ہوکر سفر سے نجات ملی جن کے کرائے بسوں سے کم اور بیٹھنے کی بھی سہولت میسر تھی مگر لاتعداد رکشوں سے ٹریفک جام کے مسائل مزید الجھ گئے ہیں۔

سیکڑوں ناکارہ بسیں اور سٹی حکومت کراچی کے زیر انتظام چلائی جانے والی بڑی بسیں بند ہو گئیں یا کراچی سے دوسرے شہروں کو منتقل ہوئیں تو ان کی جگہ ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر آجانے والے چنگ چی اور سی این جی بڑے رکشوں نے لے لی جس سے سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی ضرورت تو پوری ہوئی اور لوگوں کو باعزت سفر کا ذریعہ بھی میسر آیا مگر منصوبہ بندی نہ ہونے سے سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد بہت بڑھ گئی اور ٹریفک جام ہونے کے واقعات تشویشناک صورتحال اختیارکرگئے۔ جس سے ٹریفک پولیس کو فائدہ اور شہریوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اورمنٹوں کا سفرگھنٹوں میں طے ہو رہا ہے جس کے ذمے دارکراچی ٹریفک پولیس کے اعلیٰ افسران ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ جلدباز شہری جو اپنی ذاتی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر شہر میں سفرکرتے ہیں وہ بھی ٹریفک جام کے ذمے دار ہیں جنھیں ذاتی مفاد عزیز ہوتا ہے اور جلد بازی کرکے وہ دوسروں کی مشکلات بڑھا دیتے ہیں اور دوسروں کے آگے آکر ان کے سفر کو سلب کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں جس کے نتیجے میں گاڑیاں بری طرح پھنس کر رہ جاتی ہیں۔ بائیک والے ایسے موقعوں پر ممنوعہ راستوں اور فٹ پاتھوں پر چڑھ جاتے ہیں مگر بڑی گاڑیوں والے گاڑی پھنس جانے کے بعد آگے پیچھے بھی نہیں ہو سکتے۔ ہر بڑے شہرکی طرح کراچی میں گاڑیاں چلانے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ، پڑھے لکھے اور ان پڑھ سب ہی ہوتے ہیں جن میں ٹریفک قوانین کی پابندی والے کم اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے عادی زیادہ ہوتے ہیں۔

ٹریفک قوانین پرجان بوجھ کر عمل نہیں کرتے اور جلد بازی کے لیے ہارن بجا بجا کر دوسروں کو بھی ٹریفک کی خلاف ورزی پر مجبور کرتے ہیں جس سے ٹریفک بد ترین جام ہو جاتا ہے۔ قیوم آباد چورنگی خطرناک ہوگئی ہے، اسے کراس کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے، کراچی میں ٹریفک سگنل اکثر خراب رہتے ہیں اور جہاں سگنل ٹھیک ہوں وہاں عمل تو ویسے ہی نہیں ہوتا اور بدترین ٹریفک جام میں ٹریفک اہلکار خود سگنل بند کرادیتے ہیں۔ مزید صورتحال خراب دیکھ کر لوگوں کو سمجھانے میں ناکامی کے بعد غائب ہوجاتے ہیں۔ ٹریفک جام کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی نہ ہونا بھی ٹریفک جام کی اہم وجہ ہے۔

ناقص منصوبہ بندی بھی ٹریفک جام کی وجہ ہے۔ پولیس افسران دفتر میں بیٹھ کر اہم موقعوں کے لیے جو ٹریفک پلان بناتے ہیں وہ غیرحقیقی اور ناقابل عمل ہوتا ہے۔گزشتہ نمائش میں دیکھا گیا کہ سڑک کے دونوں ٹریکوں پر ٹریفک چل رہا ہے مگر یوٹرن پر ٹرک کھڑے کر کے یو ٹرن بند کر دیا جاتا ہے جس سے لوگوں کی پریشانی بڑھ جاتی ہے پھر وہ بھی گرین بیلٹ پھلانگ کر راستہ بنا لیتے ہیں جس سے ٹریفک مزید جام ہو جاتا ہے اور رواں ٹریفک بھی رک جاتا ہے۔
Load Next Story