اُدهار محبت کی قینچی نہیں
قرض مانگنے سے احتراز کرنا افضل قرار دیا گیا ہے مگر قرض کا لین دین ہر دور کی معیشت اور معاشرت کا اہم جزو رہا ہے۔
لاہور:
اکثر دُکانوں پر لکها نظر آتا ہے
مالدار حضرات کی کثیر تعداد ہمہ وقت اِس خوف میں مبتلا رہتی ہے کہ کوئی قریبی دوست، عزیز یا رشتہ دار اُدهار نہ مانگ لے کیونکہ انکار پر تعلقات خراب ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے اور اگر ہاں کردیں تو اکثر و بیشتر قرض دار رقم ہڑپ کرجاتا ہے یا لڑ، جهگڑ کر چهوٹے چهوٹے بے حیثیت ٹکڑوں میں واپس کرتا ہے۔ جبکہ تعلقات کی پهر بهی کوئی انشورنس نہیں ہوتی۔ آپ اپنے حلقہ احباب میں دائیں بائیں پوچھ کر دیکھ لیں، دس میں سے نو افراد ایسے ضرور مل جائیں گے جو قرض داروں کو رقم دے کر پچھتا رہے ہوں گے۔
یہی وجہ ہے کہ اچهے خاصے متمول گهرانوں کے لوگ قرض کا تقاضا (خواه جائز کیوں نہ ہو) سنتے ہی کچھ یوں اپنی مالی بدحالی بیان فرمانے لگتے ہیں کہ مانگنے والا حیرت اور بے یقینی سے منہ تکتا رہ جاتا ہے کہ اتنے مفلس اور قلاش یہ لگتے تو نہیں۔ بعض اُمراء پر تو قرض داروں کا خوف اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ اپنی مالی آسودگی کو متعلقین سے چهپائے پهرتے ہیں جو کہ اچھا خاصا ٹیکنیکل اور تکلیف دہ کام ہوتا ہے۔
قرض خواہوں سے خوفزدہ رہنا کوئی آج کی بات نہیں بلکہ اس کی تاریخ بہت قدیم ہے. شیخ سعدی ''گلستان سعدی'' میں رقمطراز ہیں،
یہ حکایت اس معاشرتی رویے پر چوٹ کرتی ہے کہ صاحب استعداد قرض دینے سے بهاگتا ہے اور مقروض ادائیگی سے بدکتا ہے۔
اگرچہ قرض مانگنے سے احتراز کرنا افضل قرار دیا گیا ہے مگر قرض کا لین دین ہر دور کی معیشت اور معاشرت کا اہم جزو رہا ہے۔ موجودہ دور میں روز افزوں بڑهتی ہوئی مادہ پرستی اور انفرادی سطح پر بدترین اخلاقی انحطاط نے قرض کو صحیح معنوں میں ایک معاشرتی لعنت بنادیا ہے، حالانکہ اگر افراد کے مابین قرض کا لین دین اسلام کی وضع کردہ بلند درجہ اخلاقیات کے مطابق ہو تو نہ صرف افراد کی مالی مشکلات آسان ہوسکتی ہیں بلکہ باہمی قربتیں بهی پروان چڑھ سکتی ہیں جو کہ ایک صحتمند معاشرے کا خاصہ ہے۔
جب اِس حوالے سے اجتماعی طور پر بنیادی اخلاقیات پامال ہوتی ہیں تو معاشرے میں ایسا کلچر پنپنے لگتا ہے جس میں تنگ دست کو بوقت ضرورت قرض کے حصول میں خاصی دِقت ہوتی ہے، اور بعض اوقات تو اُسے کہیں سے قرض مل ہی نہیں پاتا خواہ کوئی بیمار تڑپ تڑپ کر اسپتال میں جان ہار دے۔ اِن حالات میں ضرورت مند حضرات پرائیویٹ لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انہیں عموماً 10 فیصد شرحِ سود پر قرض دیتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک لاکھ روپے بطورِ قرض دیئے گئے ہیں تو قرض دار ماہانہ 10 ہزار روپے سود کی مد میں ادا کرے گا، جبکہ ایک لاکھ روپے کا قرض برقرار رہے گا۔ یہ سماجی مسئلہ ہمارے پیارے وطن میں بھی پایا جاتا ہے حالانکہ ہم چیریٹی کرنے والے ممالک میں سرِ فہرست ہیں۔
اِس صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے پہلی ذمہ داری قرض لینے والے پر عائد ہوتی ہے کہ چند اخلاقیات کا پابند رہے۔
اگر قرض کے لین دین کی اخلاقیات اتنی بلند ہوجائیں تو قرض کی وجہ سے افراد کے درمیان اختلافات جنم نہیں لیں گے اور باہمی محبتیں کم ہونے کے بجائے مزید بڑهتی چلی جائیں گی۔ بد قسمتی سے اُدهار کو محبت کی قینچی ہم نے خود بنا رکها ہے حالانکہ ادهار محبت کی قینچی نہیں۔
[poll id="1293"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اکثر دُکانوں پر لکها نظر آتا ہے
''ادهار مانگ کر شرمندہ نہ ہوں''
''نقد بڑے شوق سے، اُدهار اگلے چوک سے''
''کشمیر کی آزادی تک اُدھار بند ہے''
مالدار حضرات کی کثیر تعداد ہمہ وقت اِس خوف میں مبتلا رہتی ہے کہ کوئی قریبی دوست، عزیز یا رشتہ دار اُدهار نہ مانگ لے کیونکہ انکار پر تعلقات خراب ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے اور اگر ہاں کردیں تو اکثر و بیشتر قرض دار رقم ہڑپ کرجاتا ہے یا لڑ، جهگڑ کر چهوٹے چهوٹے بے حیثیت ٹکڑوں میں واپس کرتا ہے۔ جبکہ تعلقات کی پهر بهی کوئی انشورنس نہیں ہوتی۔ آپ اپنے حلقہ احباب میں دائیں بائیں پوچھ کر دیکھ لیں، دس میں سے نو افراد ایسے ضرور مل جائیں گے جو قرض داروں کو رقم دے کر پچھتا رہے ہوں گے۔
یہی وجہ ہے کہ اچهے خاصے متمول گهرانوں کے لوگ قرض کا تقاضا (خواه جائز کیوں نہ ہو) سنتے ہی کچھ یوں اپنی مالی بدحالی بیان فرمانے لگتے ہیں کہ مانگنے والا حیرت اور بے یقینی سے منہ تکتا رہ جاتا ہے کہ اتنے مفلس اور قلاش یہ لگتے تو نہیں۔ بعض اُمراء پر تو قرض داروں کا خوف اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ اپنی مالی آسودگی کو متعلقین سے چهپائے پهرتے ہیں جو کہ اچھا خاصا ٹیکنیکل اور تکلیف دہ کام ہوتا ہے۔
قرض خواہوں سے خوفزدہ رہنا کوئی آج کی بات نہیں بلکہ اس کی تاریخ بہت قدیم ہے. شیخ سعدی ''گلستان سعدی'' میں رقمطراز ہیں،
''ایک مرید نے پیر سے کہا کہ میرے پاس لوگ کثرت سے ملنے آتے ہیں اور یہ آمد و رفت میرے لئے تکلیف کا باعث ہے۔ پیر نے کہا کہ ان میں جو فقیر ہیں انہیں کچھ قرض دے دو اور جو تونگر ہیں ان سے کچھ قرض مانگ لو۔ ایک بهی تیرے پاس نہیں آئے گا''۔
یہ حکایت اس معاشرتی رویے پر چوٹ کرتی ہے کہ صاحب استعداد قرض دینے سے بهاگتا ہے اور مقروض ادائیگی سے بدکتا ہے۔
اگرچہ قرض مانگنے سے احتراز کرنا افضل قرار دیا گیا ہے مگر قرض کا لین دین ہر دور کی معیشت اور معاشرت کا اہم جزو رہا ہے۔ موجودہ دور میں روز افزوں بڑهتی ہوئی مادہ پرستی اور انفرادی سطح پر بدترین اخلاقی انحطاط نے قرض کو صحیح معنوں میں ایک معاشرتی لعنت بنادیا ہے، حالانکہ اگر افراد کے مابین قرض کا لین دین اسلام کی وضع کردہ بلند درجہ اخلاقیات کے مطابق ہو تو نہ صرف افراد کی مالی مشکلات آسان ہوسکتی ہیں بلکہ باہمی قربتیں بهی پروان چڑھ سکتی ہیں جو کہ ایک صحتمند معاشرے کا خاصہ ہے۔
جب اِس حوالے سے اجتماعی طور پر بنیادی اخلاقیات پامال ہوتی ہیں تو معاشرے میں ایسا کلچر پنپنے لگتا ہے جس میں تنگ دست کو بوقت ضرورت قرض کے حصول میں خاصی دِقت ہوتی ہے، اور بعض اوقات تو اُسے کہیں سے قرض مل ہی نہیں پاتا خواہ کوئی بیمار تڑپ تڑپ کر اسپتال میں جان ہار دے۔ اِن حالات میں ضرورت مند حضرات پرائیویٹ لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انہیں عموماً 10 فیصد شرحِ سود پر قرض دیتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک لاکھ روپے بطورِ قرض دیئے گئے ہیں تو قرض دار ماہانہ 10 ہزار روپے سود کی مد میں ادا کرے گا، جبکہ ایک لاکھ روپے کا قرض برقرار رہے گا۔ یہ سماجی مسئلہ ہمارے پیارے وطن میں بھی پایا جاتا ہے حالانکہ ہم چیریٹی کرنے والے ممالک میں سرِ فہرست ہیں۔
اِس صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے پہلی ذمہ داری قرض لینے والے پر عائد ہوتی ہے کہ چند اخلاقیات کا پابند رہے۔
- بغیر سخت ضرورت کے تعیشات و اصراف کیلئے قرض مانگنے کا ارادہ نہ کرے۔
- باآسانی قرض حاصل کرنے کی غرض سے جهوٹ بول کر کم مدت میں لوٹانے کا وعدہ نہ کرے بلکہ وہ میعاد طے کرے جس میں واقعی رقم لوٹا سکتا ہو۔
- اگر میعاد پوری ہوجائے اور ساری رقم اکٹهی نہ ہو تو مجرمانہ خاموشی اختیار کرکے چهپتا نہ پهرے بلکہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود رابطہ کرکے پاس موجود رقم ادا کرے اور بقیہ رقم کی ادائیگی کیلئے میعاد میں توسیع کی درخواست کرے۔
- اگر مقررہ میعاد میں پوری رقم اکٹهی ہوجائے تو اسے اپنی تعیشات پر لگانے کی بجائے قرض لوٹانے کو پہلی ترجیح دے لیکن اگر واقعی کوئی نئی ضرورت آن پڑی ہے تو پہلے اجازت لے کر نئی میعاد طے کرے اور پهر رقم خود پر استعمال کرے۔
- کسی دولت مند شخص کو قرض لوٹاتے وقت یہ نیچ سوچ دل میں نہ لائے کہ اتنا امیر ہونے کے باوجود مجھ غریب سے پیسے واپس لیتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ ایسا خیال پرلے درجے کی کم ظرفی اور احسان فراموشی ہے۔
- قرض کی ادائیگی کو خود پر فرض جانے، کیونکہ یہ اتنی بھاری ذمہ داری ہے کہ شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہونے والے شخص کے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں مگر کسی سے لیا گیا قرض پھر بھی اُس کے ذمے رہتا ہے۔ لہذا ایسا اہتمام کئے رکھے کہ اگر وہ اللہ کو پیارا ہوجائے تو اُس کے ورثاء قرض کے واجبات ادا کرسکیں۔
- اپنے محسن کا مشکور رہے اور اُس کے احسان کا بدلہ چکانے کا موقع ضائع نہ جانے دے۔
اسی طرح قرض دینے والے کیلئے بهی چند اخلاقی اقدار کو اپنانا ضروری ہے کہ،
- وسعت ہو تو قرض دینے سے انکار نہ کرے۔
- خالص اللہ کی رضا کیلئے قرض دے اور صلہ کی اُمید صرف اللہ سے رکهے۔
- لوگوں کو بتا بتا کر مقروض کی سفید پوشی کا بهرم نہ توڑے کہ فلاں نے مجھ سے قرض لے رکها ہے۔
- مقروض کو حقارت کی نگاه سے نہ دیکهے اور یہ نہ سمجھے کہ اب اُس پر میری اطاعت واجب ہے۔
- کوئی واقعی مجبور ہو تو اُسے میعاد میں بخوشی ڈهیل دے دے یا معاف کرکے اجر عظیم کا مستحق قرار پائے۔
قرض کے حوالے سے سورہ البقرہ، آیت نمبر 282 میں قرآن پاک واضح حکم دیتا ہے کہ مقررہ میعاد پر قرض کے لین دین کو فریقین لکھ لیں اور اِس تحریری معاہدے پر فریقین کے علاوہ دو گواه بهی دستخط کریں مگر آج کا قرض دار اللہ کے اِس حکم پر عملدرآمد کو اپنی توہین اور خود پر بے اعتباری سمجهتا ہے۔
اگر قرض کے لین دین کی اخلاقیات اتنی بلند ہوجائیں تو قرض کی وجہ سے افراد کے درمیان اختلافات جنم نہیں لیں گے اور باہمی محبتیں کم ہونے کے بجائے مزید بڑهتی چلی جائیں گی۔ بد قسمتی سے اُدهار کو محبت کی قینچی ہم نے خود بنا رکها ہے حالانکہ ادهار محبت کی قینچی نہیں۔
[poll id="1293"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔