ہم صرف دعا ہی کر سکتے ہیں
یوں پیپلز پارٹی تو دباؤکے آگے گھٹنے ٹیکنے کا اپنا ٹریک ریکارڈ برقرار رکھے ہوئے ہے۔۔۔۔
WARSAW:
پچھلے دنوں لاہور میں پیپلزپارٹی کے 49 ویں یوم تاسیس کے جشن کے دوران ایک موقع پر قمر الزماں کائرہ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ بھٹو نے جمعے کی تعطیل کا فیصلہ علمائے کرام کے دباؤکے تحت کیا تھا۔ اب یہ بات تو پرانی ہوچکی مگر سندھ حکومت کی مذہبی جماعتوں کے احتجاج پر اپنے ہی منظورکرائے ہوئے تبدیلی مذہب کے بل پر نظرثانی کے لیے آمادگی ابھی کل کی بات ہے۔
یہی نہیں صوبائی سطح پراسلامی نظریاتی کونسل قائم کرنے کے لیے سمری بھی وزیراعلیٰ کو ارسال کردی گئی تھی اور سندھ اسمبلی کے پاس کردہ تبدیلی مذہب کے بل سمیت دینی اورشرعی امور سے متعلق تمام بلزنظرثانی کے لیے کونسل کو بھیجنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا، مگر مذہبی جماعتوں کی کل جماعتی کانفرنس نے ان حکومتی اقدامات کو یکسر مسترد کردیا اورصوبائی اسمبلی کا منظورکردہ تبدیلی مذہب کا بل یکطرفہ طور پر منسوخ کرنے کے لیے حکومت کو پندرہ دن کا الٹی میٹم دے دیا۔
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ پیپلزپارٹی ہی کی صوبائی حکومت نے اپنے مشیر مذہبی امورکے ذریعے علماء اور دینی جماعتوں سے رابطے کرکے تبدیلی مذہب کے متنازعہ بل پر نظرثانی کے لیے عبوری کمیٹی قائم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یوں پیپلز پارٹی تو دباؤکے آگے گھٹنے ٹیکنے کا اپنا ٹریک ریکارڈ برقرار رکھے ہوئے ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کیا کرتی ہے،آیا وہ مذہبی حلقوں کے دباؤکا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی یا مفاہمت کی پالیسی کے زیراثر پیپلزپارٹی کے نقش قدم پرچلنے کو ترجیح دے گی۔
حکومت پر مذہبی حلقوں کے متوقع دباؤکا خطرہ اس فیصلے کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے جس کے تحت ایک تاریخی ناانصافی کا ازالہ کرنے کے لیے پاکستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ ماہرطبیعات، پروفیسر عبدالسلام کے گرانقدرکارناموں کا اعتراف کرتے ہوئے قومی مرکز برائے طبیعات (نیشنل سینٹر فارفزکس ) کو ان کے نام سے منسوب کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔
تعلیمی ماہرین اوراس کے حق میں مہم چلانے والے طویل عرصے سے کسی یونیورسٹی یا تحقیقی ادارے کو ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے جن کا تعلق قادیانی فرقے سے تھا۔ اب تک کسی حکومت کو یہ ہمت نہیں ہوئی تھی کہ وہ مذہبی حلقوں کی مخالفت کا خطرہ مول لے کر انھیں اس اعزاز سے نوازسکے، جن کے کارناموں کی ایک دنیا معترف ہے۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے قومی مرکز برائے طبیعات کو ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کرنے کی اصولی منظوری دیتے ہوئے تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کی وفاقی وزارت کو ہدایت کی ہے کہ وہ صدر ممنون حسین کی منظوری کے لیے انھیں باقاعدہ سمری ارسال کرے۔
وزیر اعظم نے مشہور بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی معرفت طبیعات میں پی ایچ ڈی کرنے والے پاکستانی طلبا کو سالانہ پانچ فیلوشپس دینے کی بھی منظوری دی۔ اس پروگرام کو بھی پروفیسر عبدالسلام فیلو شپ کا نام دیا گیا ہے ۔ قائداعظم یونیورسٹی کے قریب واقع یہ مرکزایک خود مختار ادارہ ہے، جس کی مالی معاونت حکومت پاکستان کرتی ہے۔
اس مرکزکے قیام کا خواب ڈاکٹر عبد السلام نے 1976 میں دیکھا تھا۔ وہ پاکستان میں ایک ایسا نیشنل سینٹر آف ایکسیلینس قائم کرنا چاہتے تھے جہاں سائنسدان طبیعات کے شعبے میں بین الاقوامی سائنسدانوں کے ساتھ ملکرکام کرسکیں، مگر پچھلی حکومتوں اور مذہبی حلقوں کی مخالفت نے انھیں ملک چھوڑکر اٹلی میں جا بسنے پر مجبورکردیا جہاں انھوں نے ٹرائیسٹ کے مقام پر نظری طبیعات کے بین الاقوامی مرکز (انٹر نیشنل سینٹر فارتھیوریٹیکل فزکس یا آئی سی ٹی پی )کی بنیاد رکھی۔
قومی مرکز برائے طبیعات 2000 میں پروفیسر ڈاکٹر ریاض الدین مرحوم اور جوہری سائنسدان ڈاکٹر اشفاق احمد نے ڈاکٹرعبدالسلام کی آرزو پوری کرتے ہوئے قائم کیا تھا۔ وزیراعظم نے اس موقعے پرکہا کہ یہ فیصلہ قابل فخر پاکستانی ماہرطبیعات ڈاکٹر عبدالسلام کی بیش بہا خدمات کے اعتراف میں کیا گیا ہے ۔ وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ قومی مرکز برائے طبیعات کو ڈاکٹر عبدالسلام مرکز برائے طبیعات کے نئے نام سے موسوم کرنے کا فیصلہ بھی انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کیا گیا ہے ۔
ڈاکٹرعبدالسلام کی خدمات وکارہائے نمایاں کا اعتراف کرنے اورانھیں قومی ہیروتسلیم کرنے کے لیے طویل عرصے سے جدوجہدکرنے والی علمی شخصیات اور سیاسی کارکنوں نے حکومت کے اس فیصلے کو سراہا ہے۔
ماہرطبیعات پرویز ہود بھائی کے بقول این سی پی کو اے ایس سی پی کا نیا نام دینے کا حکومتی فیصلہ ظاہرکرتا ہے کہ پاکستان اب اپنے شہریوں کے مذہبی عقائد سے قطع نظر، سائنسی کارناموں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس سے دنیا میں پاکستان کا امیج بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔ایسے وقت جب ہمیں برداشت سے عاری اور دہشتگرد ہونے کے طعنے دیے جاتے ہیں، اس قسم کے فیصلے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ ہود بھائی کا کہنا تھا کہ سائنس کے نقطہ نظر سے ڈاکٹرعبد السلام کی خدمات وکارہائے نمایاں کے ہمارے اعتراف سے نوجوان پاکستانیوں کی سائنس میں کیریئر بنانے کے لیے حوصلہ افزائی ہوگی۔
انڈیا میں بہت سے رول ماڈل ہیں، جب کہ پاکستان میں اب تک ایک ہی ہے۔ حکومت کی جانب سے بہت پہلے یہ اعتراف آنا چاہیے تھا کیونکہ عبدالسلام کے کام کی بدولت پاکستان پہلے ہی دنیا کے سائنسی نقشے پر نمودار ہوچکا تھا اور سب تعجب کرتے تھے کہ ان کی خدمات کو ان کے اپنے ملک میں تسلیم نہیں کیا جاتا۔اس لحاظ سے دیکھا جائے توایک تاریخی نا انصافی کا ازالہ کرنے پر حکومت مبارکباد کی مستحق ہے۔
سنا ہے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالث بن کر مسئلہ کشمیر حل کرانے پر آمادگی کا حکومت مخالف سیاستدانوں ہی نے نہیں، جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے اسلام سمیت مذہبی حلقوں نے بھی خیرمقدم کیا ہے، اگر یہ سچ ہے تو انھیں یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی ڈاکٹر عبدالسلام کی طرح غیر مسلم ہیں، لہذا ان کی پیشکش سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ان کی طرف سے اسے سختی سے مسترد کرنے کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔ یاد رہے کہ مستقبل میں واحد سپر پاور کے صدرکی حیثیت سے دنیا پر حکمرانی کے ارادے رکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیر اعظم نواز شریف کی تہنیتی فون کال وصول کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی تھی۔
بھارت کی درپردہ کوششوں سے فون پر ہونے والی گفتگو کو متنازعہ بنائے جانے کے بعد امریکا کے نو منتخب نائب صدر مائیک پنس نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں اسی بات کو دہرا کرگویا حکومت مخالفین کے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔ انھوں نے کہا کہ ٹرمپ مسئلہ کشمیر حل کرانے کے لیے تیار ہیں اوراگر پاکستان اور بھارت چاہیں تو نو منتخب امریکی صدر ان دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان معاملات طے کراسکتے ہیں۔ مسٹر پنس نے کہا امریکا مسئلہ کشمیر حل کروانے میں سنجیدہ ہے اور نو منتخب صدر مسائل حل کرنے کی غیر معمولی مہارت بھی رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عبد السلام کے کارناموں کے اعتراف کا برا منانے والوں کو چاہیے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پیشکش بھی ٹھکرادیں اور امریکا کو بتادیں کہ وہ دہلی کے لال قلعہ پر سبز ہلالی پرچم لہراکرخود بھی مسئلہ کشمیر حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اللہ انھیں ہدایت دے ، ہم بس دعا ہی کرسکتے ہیں۔
پچھلے دنوں لاہور میں پیپلزپارٹی کے 49 ویں یوم تاسیس کے جشن کے دوران ایک موقع پر قمر الزماں کائرہ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ بھٹو نے جمعے کی تعطیل کا فیصلہ علمائے کرام کے دباؤکے تحت کیا تھا۔ اب یہ بات تو پرانی ہوچکی مگر سندھ حکومت کی مذہبی جماعتوں کے احتجاج پر اپنے ہی منظورکرائے ہوئے تبدیلی مذہب کے بل پر نظرثانی کے لیے آمادگی ابھی کل کی بات ہے۔
یہی نہیں صوبائی سطح پراسلامی نظریاتی کونسل قائم کرنے کے لیے سمری بھی وزیراعلیٰ کو ارسال کردی گئی تھی اور سندھ اسمبلی کے پاس کردہ تبدیلی مذہب کے بل سمیت دینی اورشرعی امور سے متعلق تمام بلزنظرثانی کے لیے کونسل کو بھیجنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا، مگر مذہبی جماعتوں کی کل جماعتی کانفرنس نے ان حکومتی اقدامات کو یکسر مسترد کردیا اورصوبائی اسمبلی کا منظورکردہ تبدیلی مذہب کا بل یکطرفہ طور پر منسوخ کرنے کے لیے حکومت کو پندرہ دن کا الٹی میٹم دے دیا۔
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ پیپلزپارٹی ہی کی صوبائی حکومت نے اپنے مشیر مذہبی امورکے ذریعے علماء اور دینی جماعتوں سے رابطے کرکے تبدیلی مذہب کے متنازعہ بل پر نظرثانی کے لیے عبوری کمیٹی قائم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یوں پیپلز پارٹی تو دباؤکے آگے گھٹنے ٹیکنے کا اپنا ٹریک ریکارڈ برقرار رکھے ہوئے ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کیا کرتی ہے،آیا وہ مذہبی حلقوں کے دباؤکا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی یا مفاہمت کی پالیسی کے زیراثر پیپلزپارٹی کے نقش قدم پرچلنے کو ترجیح دے گی۔
حکومت پر مذہبی حلقوں کے متوقع دباؤکا خطرہ اس فیصلے کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے جس کے تحت ایک تاریخی ناانصافی کا ازالہ کرنے کے لیے پاکستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ ماہرطبیعات، پروفیسر عبدالسلام کے گرانقدرکارناموں کا اعتراف کرتے ہوئے قومی مرکز برائے طبیعات (نیشنل سینٹر فارفزکس ) کو ان کے نام سے منسوب کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔
تعلیمی ماہرین اوراس کے حق میں مہم چلانے والے طویل عرصے سے کسی یونیورسٹی یا تحقیقی ادارے کو ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے جن کا تعلق قادیانی فرقے سے تھا۔ اب تک کسی حکومت کو یہ ہمت نہیں ہوئی تھی کہ وہ مذہبی حلقوں کی مخالفت کا خطرہ مول لے کر انھیں اس اعزاز سے نوازسکے، جن کے کارناموں کی ایک دنیا معترف ہے۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے قومی مرکز برائے طبیعات کو ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کرنے کی اصولی منظوری دیتے ہوئے تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کی وفاقی وزارت کو ہدایت کی ہے کہ وہ صدر ممنون حسین کی منظوری کے لیے انھیں باقاعدہ سمری ارسال کرے۔
وزیر اعظم نے مشہور بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی معرفت طبیعات میں پی ایچ ڈی کرنے والے پاکستانی طلبا کو سالانہ پانچ فیلوشپس دینے کی بھی منظوری دی۔ اس پروگرام کو بھی پروفیسر عبدالسلام فیلو شپ کا نام دیا گیا ہے ۔ قائداعظم یونیورسٹی کے قریب واقع یہ مرکزایک خود مختار ادارہ ہے، جس کی مالی معاونت حکومت پاکستان کرتی ہے۔
اس مرکزکے قیام کا خواب ڈاکٹر عبد السلام نے 1976 میں دیکھا تھا۔ وہ پاکستان میں ایک ایسا نیشنل سینٹر آف ایکسیلینس قائم کرنا چاہتے تھے جہاں سائنسدان طبیعات کے شعبے میں بین الاقوامی سائنسدانوں کے ساتھ ملکرکام کرسکیں، مگر پچھلی حکومتوں اور مذہبی حلقوں کی مخالفت نے انھیں ملک چھوڑکر اٹلی میں جا بسنے پر مجبورکردیا جہاں انھوں نے ٹرائیسٹ کے مقام پر نظری طبیعات کے بین الاقوامی مرکز (انٹر نیشنل سینٹر فارتھیوریٹیکل فزکس یا آئی سی ٹی پی )کی بنیاد رکھی۔
قومی مرکز برائے طبیعات 2000 میں پروفیسر ڈاکٹر ریاض الدین مرحوم اور جوہری سائنسدان ڈاکٹر اشفاق احمد نے ڈاکٹرعبدالسلام کی آرزو پوری کرتے ہوئے قائم کیا تھا۔ وزیراعظم نے اس موقعے پرکہا کہ یہ فیصلہ قابل فخر پاکستانی ماہرطبیعات ڈاکٹر عبدالسلام کی بیش بہا خدمات کے اعتراف میں کیا گیا ہے ۔ وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ قومی مرکز برائے طبیعات کو ڈاکٹر عبدالسلام مرکز برائے طبیعات کے نئے نام سے موسوم کرنے کا فیصلہ بھی انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کیا گیا ہے ۔
ڈاکٹرعبدالسلام کی خدمات وکارہائے نمایاں کا اعتراف کرنے اورانھیں قومی ہیروتسلیم کرنے کے لیے طویل عرصے سے جدوجہدکرنے والی علمی شخصیات اور سیاسی کارکنوں نے حکومت کے اس فیصلے کو سراہا ہے۔
ماہرطبیعات پرویز ہود بھائی کے بقول این سی پی کو اے ایس سی پی کا نیا نام دینے کا حکومتی فیصلہ ظاہرکرتا ہے کہ پاکستان اب اپنے شہریوں کے مذہبی عقائد سے قطع نظر، سائنسی کارناموں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس سے دنیا میں پاکستان کا امیج بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔ایسے وقت جب ہمیں برداشت سے عاری اور دہشتگرد ہونے کے طعنے دیے جاتے ہیں، اس قسم کے فیصلے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ ہود بھائی کا کہنا تھا کہ سائنس کے نقطہ نظر سے ڈاکٹرعبد السلام کی خدمات وکارہائے نمایاں کے ہمارے اعتراف سے نوجوان پاکستانیوں کی سائنس میں کیریئر بنانے کے لیے حوصلہ افزائی ہوگی۔
انڈیا میں بہت سے رول ماڈل ہیں، جب کہ پاکستان میں اب تک ایک ہی ہے۔ حکومت کی جانب سے بہت پہلے یہ اعتراف آنا چاہیے تھا کیونکہ عبدالسلام کے کام کی بدولت پاکستان پہلے ہی دنیا کے سائنسی نقشے پر نمودار ہوچکا تھا اور سب تعجب کرتے تھے کہ ان کی خدمات کو ان کے اپنے ملک میں تسلیم نہیں کیا جاتا۔اس لحاظ سے دیکھا جائے توایک تاریخی نا انصافی کا ازالہ کرنے پر حکومت مبارکباد کی مستحق ہے۔
سنا ہے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالث بن کر مسئلہ کشمیر حل کرانے پر آمادگی کا حکومت مخالف سیاستدانوں ہی نے نہیں، جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے اسلام سمیت مذہبی حلقوں نے بھی خیرمقدم کیا ہے، اگر یہ سچ ہے تو انھیں یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی ڈاکٹر عبدالسلام کی طرح غیر مسلم ہیں، لہذا ان کی پیشکش سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ان کی طرف سے اسے سختی سے مسترد کرنے کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔ یاد رہے کہ مستقبل میں واحد سپر پاور کے صدرکی حیثیت سے دنیا پر حکمرانی کے ارادے رکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیر اعظم نواز شریف کی تہنیتی فون کال وصول کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی تھی۔
بھارت کی درپردہ کوششوں سے فون پر ہونے والی گفتگو کو متنازعہ بنائے جانے کے بعد امریکا کے نو منتخب نائب صدر مائیک پنس نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں اسی بات کو دہرا کرگویا حکومت مخالفین کے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔ انھوں نے کہا کہ ٹرمپ مسئلہ کشمیر حل کرانے کے لیے تیار ہیں اوراگر پاکستان اور بھارت چاہیں تو نو منتخب امریکی صدر ان دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان معاملات طے کراسکتے ہیں۔ مسٹر پنس نے کہا امریکا مسئلہ کشمیر حل کروانے میں سنجیدہ ہے اور نو منتخب صدر مسائل حل کرنے کی غیر معمولی مہارت بھی رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عبد السلام کے کارناموں کے اعتراف کا برا منانے والوں کو چاہیے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پیشکش بھی ٹھکرادیں اور امریکا کو بتادیں کہ وہ دہلی کے لال قلعہ پر سبز ہلالی پرچم لہراکرخود بھی مسئلہ کشمیر حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اللہ انھیں ہدایت دے ، ہم بس دعا ہی کرسکتے ہیں۔