شناختی کارڈ بنوانا کسی معرکہ سے کم نہیں
افغان مہاجرین کی آڑ میں مشرقی پاکستان سے ہجرت کرنے والے مہاجرین کے لئے شناختی کارڈ کو گویا پُلِ صراط بنادیا گیا ہے۔
گزشتہ ہفتے قومی شناختی کارڈ پر نظر پڑی تو انکشاف ہوا کہ تاریخِ تنسیخ گزر چکی ہے۔ فوراً یہ طے پایا کہ کسی مسئلے کا شکار ہونے سے قبل ہی تجدید کرالی جائے۔ اِس واسطے ہی آج ہم دفتر سے چھٹی لیکر اپنی دانست میں صبح سویرے نادرا کے مقامی مرکز پہنچ گئے۔ ارشاد ہوا کہ ٹوکن کی قطار اُفق پر سپیدی کے آثار نمودار ہونے سے قبل ہی لگنا شروع ہوجاتی ہے اور روشنی پھیلتے ہی اِس میں شمولیت کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ صبح 9 بجے صاحب آتے ہیں اور 60 خوش نصیب اُمیدواروں کے نام قرعہ فال نکلتا ہے، سو بہتر ہے کہ باقی افراد گھر جائیں اور کل تہجد کے وقت آکر اپنی قسمت آزمائیں۔
نارتھ کراچی اور نئی کراچی کی 15 لاکھ آبادی کیلئے قائم نادرا کا یہ مقامی مرکز دو کاؤنٹرز اور قریب ایک درجن ملازمین پر مختص ہے۔ ہر صبح ٹوکن کے نام پر جو طوفان بدتمیزی برپا ہوتا ہے، اِس کے تھمتے ہی خوش نصیب اُمیدواروں کو ایک ایک کرکے اندر بلایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ قرب و جوار کی مساجد سے اذان ظہر کی آوازیں فضاء میں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ اِس دوران جن کا نمبر آگیا وہ مقدر کے سکندر، جو رہ گئے وہ اگلے روز دوبارہ اسی عذاب سے گزریں گے۔
اندر جانے والے اُمیدوار جب باہر نکلتے ہیں تو اُن کے چہرے کے تاثرات بھی دیدنی ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے خوش و خرم جیسے کشمیر فتح کرلیا ہو اور کچھ بُجھی ہوئی آنکھیں، لٹکے ہوئے چہرے اور بپھرے ہوئے جذبات کے ساتھ یوں بڑبڑاتے ہوئے باہر نکلتے ہیں کہ گویا باقاعدہ ڈکیتی کا معاملہ پیش آیا ہو۔
جس اُمیدوار کی دستاویز پر اعتراض لگ جائے، پریشانی اور ذہنی کوفت مدتوں اُس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ کئی ایسے افراد سے ملاقات ہوئی جو گزشتہ 6 ماہ یا ایک سال سے مسلسل آرہے ہیں۔ اُن میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو شناختی کارڈ کی مستقل تنسیخ کے سبب اپنے دفاتر سے نکالے جاچکے ہیں یا نوٹس پر چل رہے ہیں۔ کئی جائیداد کا سودا کرچکے ہیں لیکن بینک اکاونٹ ڈی اکٹیویٹ ہونے کے سبب اُن کے سودے منسوخ ہورہے ہیں۔ افغان مہاجرین کی آڑ میں مشرقی پاکستان سے ہجرت کرنے والے مہاجرین کے لئے شناختی کارڈ کو گویا پُلِ صراط بنادیا گیا ہے۔ کسی سے 70 کی دہائی سے قبل کے دستاویز منگوائے جاتے ہیں اور کسی سے والدین کا نکاح نامہ طلب کیا جاتا ہے۔ ایک 70 سالہ ضعیف خاتون عمرے پر جانا چاہتی ہے لیکن اُن کے پاسپورٹ کی راہ میں شناختی کارڈ حائل ہے اور شناختی کارڈ کے لئے نکاح نامہ۔
اِدھر گھڑی ایک بجاتی ہے اُدھر دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور باہر انتظار کی سولی پر چڑھے لوگ مایوسی کے ساتھ واپس لوٹ جاتے ہیں۔ اِن میں نہ جانے کتنے ایسے ہوتے ہیں جو دہاڑی کی قربانی دیکر، دکانیں بند کرکے یا بڑی منتیں کرکے ایک دن کی چھٹی لیکر آئے تھے۔ گو کھانے کے بعد کا وقت دفتری امور کے لئے مختص ہے لیکن اِن اوقات میں ایک مختلف تماشہ برپا ہوتا ہے۔ آدھے ملازمین گھروں کو یا آف شور نوکریوں کو روانہ ہوجاتے ہیں اور باقی کا نصف عملہ غیرسرکاری اور ٹائم میں مشغول ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اوور ٹائم غیر سرکاری ہے اِس لئے نرخ بھی غیر سرکاری ہی طے کئے جاتے ہیں۔ عام کیسز کے دو ہزار اور الجھے ہوئے معاملے کے کم از کم 10 ہزار، لیکن یہ چور دروازہ ہر ایک کو میسر نہیں ہوتا، اِس کی کنجی سفارش ہے۔ جتنی بڑی پرچی ہوگی یہ گھناؤنا دروازہ اتنی ہی آسانی سے کھلے گا۔
نادرا کا ادارہ ناقابلِ اصلاح نہیں ہے۔ بس ذرا سی محنت اُسے بہتر کرسکتی ہے۔ شناختی کارڈ کی آن لائن تجدید کا طریقہ کار بھی موجود ہے لیکن ایک تو اُسے ضرورت سے زیادہ پیچیدہ بنادیا گیا ہے، دوسرا 2009ء سے قبل شناختی کارڈ بنوانے والوں کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے۔ نظام کو سہل کرنے کیلئے نجی فرنچائز بھی کھل سکتے ہیں، ہر نوعیت کیلئے مختلف مراکز بھی مختص کئے جاسکتے ہیں اور موجودہ نظام میں بھی انتظامی اصلاحات کرکے بہتری لائی جاسکتی ہے لیکن نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنے؟
پچھلے دنوں مُلا اختر منصور کی جعلی دستاویزات کا کافی شور اُٹھا تو اُس کا سارا نزلہ بے چاری شربت بی بی پر گرا دیا گیا۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ افغان مہاجرین کی بہت بڑی تعداد قومی شناختی کارڈ رکھتی ہے اور اِس معاملے کو ایسے نمائشی اقدامات سے روکا نہیں جاسکتا ہے۔ جو بچہ پاکستان میں پیدا ہوا، اِسی ملک میں پل بڑھ کر جوان ہوا اور یہیں محنت مشقت کرکے اپنے خاندان کا پیٹ پال رہا ہے، اُسے آپ یوں نظر انداز نہیں کرسکتے۔ انسانی بنیادوں پر اِس صورتحال کا جائزہ لینا اور نئی قانون سازی کرنا ناگزیر ہے۔
وزیرِ داخلہ چوہدری نثار مردم شماری، نادرا میں اصلاحات اور شہریت کے قانون میں بہتری ایسے خالص انتظامی اور سول معاملات میں اصلاحات سے اکثر چشم پوشی ہی اختیار کرتے ہیں۔ اے کاش کہ وہ خوامخواہ میں آپریشن ضربِ عضب اور کراچی آپریشن کا کریڈیٹ لینے کے بجائے اپنی وزارت کے سول معاملات پر بھی توجہ دیں۔ اگر اُن کا عملہ بدعنوانی میں ملوث ہے تو اُس کی وجہ وفاقی حکومت کی پالیسی ہے جو کاہلی اور سست روی کا شکار ہے جس کی وجہ کمزور مانیٹرنگ، بدانتظامی، عملے کی کمی اور معاملہ عدم دل چسپی ہے۔ اگر ان معاملات پر تھوڑی بہت توجہ بھی دے دی جائے تو سینکڑوں یا ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کی مشکلات آسان ہوسکتی ہے۔
[poll id="1294"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
نارتھ کراچی اور نئی کراچی کی 15 لاکھ آبادی کیلئے قائم نادرا کا یہ مقامی مرکز دو کاؤنٹرز اور قریب ایک درجن ملازمین پر مختص ہے۔ ہر صبح ٹوکن کے نام پر جو طوفان بدتمیزی برپا ہوتا ہے، اِس کے تھمتے ہی خوش نصیب اُمیدواروں کو ایک ایک کرکے اندر بلایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ قرب و جوار کی مساجد سے اذان ظہر کی آوازیں فضاء میں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ اِس دوران جن کا نمبر آگیا وہ مقدر کے سکندر، جو رہ گئے وہ اگلے روز دوبارہ اسی عذاب سے گزریں گے۔
اندر جانے والے اُمیدوار جب باہر نکلتے ہیں تو اُن کے چہرے کے تاثرات بھی دیدنی ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے خوش و خرم جیسے کشمیر فتح کرلیا ہو اور کچھ بُجھی ہوئی آنکھیں، لٹکے ہوئے چہرے اور بپھرے ہوئے جذبات کے ساتھ یوں بڑبڑاتے ہوئے باہر نکلتے ہیں کہ گویا باقاعدہ ڈکیتی کا معاملہ پیش آیا ہو۔
جس اُمیدوار کی دستاویز پر اعتراض لگ جائے، پریشانی اور ذہنی کوفت مدتوں اُس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ کئی ایسے افراد سے ملاقات ہوئی جو گزشتہ 6 ماہ یا ایک سال سے مسلسل آرہے ہیں۔ اُن میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو شناختی کارڈ کی مستقل تنسیخ کے سبب اپنے دفاتر سے نکالے جاچکے ہیں یا نوٹس پر چل رہے ہیں۔ کئی جائیداد کا سودا کرچکے ہیں لیکن بینک اکاونٹ ڈی اکٹیویٹ ہونے کے سبب اُن کے سودے منسوخ ہورہے ہیں۔ افغان مہاجرین کی آڑ میں مشرقی پاکستان سے ہجرت کرنے والے مہاجرین کے لئے شناختی کارڈ کو گویا پُلِ صراط بنادیا گیا ہے۔ کسی سے 70 کی دہائی سے قبل کے دستاویز منگوائے جاتے ہیں اور کسی سے والدین کا نکاح نامہ طلب کیا جاتا ہے۔ ایک 70 سالہ ضعیف خاتون عمرے پر جانا چاہتی ہے لیکن اُن کے پاسپورٹ کی راہ میں شناختی کارڈ حائل ہے اور شناختی کارڈ کے لئے نکاح نامہ۔
اِدھر گھڑی ایک بجاتی ہے اُدھر دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور باہر انتظار کی سولی پر چڑھے لوگ مایوسی کے ساتھ واپس لوٹ جاتے ہیں۔ اِن میں نہ جانے کتنے ایسے ہوتے ہیں جو دہاڑی کی قربانی دیکر، دکانیں بند کرکے یا بڑی منتیں کرکے ایک دن کی چھٹی لیکر آئے تھے۔ گو کھانے کے بعد کا وقت دفتری امور کے لئے مختص ہے لیکن اِن اوقات میں ایک مختلف تماشہ برپا ہوتا ہے۔ آدھے ملازمین گھروں کو یا آف شور نوکریوں کو روانہ ہوجاتے ہیں اور باقی کا نصف عملہ غیرسرکاری اور ٹائم میں مشغول ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اوور ٹائم غیر سرکاری ہے اِس لئے نرخ بھی غیر سرکاری ہی طے کئے جاتے ہیں۔ عام کیسز کے دو ہزار اور الجھے ہوئے معاملے کے کم از کم 10 ہزار، لیکن یہ چور دروازہ ہر ایک کو میسر نہیں ہوتا، اِس کی کنجی سفارش ہے۔ جتنی بڑی پرچی ہوگی یہ گھناؤنا دروازہ اتنی ہی آسانی سے کھلے گا۔
نادرا کا ادارہ ناقابلِ اصلاح نہیں ہے۔ بس ذرا سی محنت اُسے بہتر کرسکتی ہے۔ شناختی کارڈ کی آن لائن تجدید کا طریقہ کار بھی موجود ہے لیکن ایک تو اُسے ضرورت سے زیادہ پیچیدہ بنادیا گیا ہے، دوسرا 2009ء سے قبل شناختی کارڈ بنوانے والوں کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے۔ نظام کو سہل کرنے کیلئے نجی فرنچائز بھی کھل سکتے ہیں، ہر نوعیت کیلئے مختلف مراکز بھی مختص کئے جاسکتے ہیں اور موجودہ نظام میں بھی انتظامی اصلاحات کرکے بہتری لائی جاسکتی ہے لیکن نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنے؟
پچھلے دنوں مُلا اختر منصور کی جعلی دستاویزات کا کافی شور اُٹھا تو اُس کا سارا نزلہ بے چاری شربت بی بی پر گرا دیا گیا۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ افغان مہاجرین کی بہت بڑی تعداد قومی شناختی کارڈ رکھتی ہے اور اِس معاملے کو ایسے نمائشی اقدامات سے روکا نہیں جاسکتا ہے۔ جو بچہ پاکستان میں پیدا ہوا، اِسی ملک میں پل بڑھ کر جوان ہوا اور یہیں محنت مشقت کرکے اپنے خاندان کا پیٹ پال رہا ہے، اُسے آپ یوں نظر انداز نہیں کرسکتے۔ انسانی بنیادوں پر اِس صورتحال کا جائزہ لینا اور نئی قانون سازی کرنا ناگزیر ہے۔
وزیرِ داخلہ چوہدری نثار مردم شماری، نادرا میں اصلاحات اور شہریت کے قانون میں بہتری ایسے خالص انتظامی اور سول معاملات میں اصلاحات سے اکثر چشم پوشی ہی اختیار کرتے ہیں۔ اے کاش کہ وہ خوامخواہ میں آپریشن ضربِ عضب اور کراچی آپریشن کا کریڈیٹ لینے کے بجائے اپنی وزارت کے سول معاملات پر بھی توجہ دیں۔ اگر اُن کا عملہ بدعنوانی میں ملوث ہے تو اُس کی وجہ وفاقی حکومت کی پالیسی ہے جو کاہلی اور سست روی کا شکار ہے جس کی وجہ کمزور مانیٹرنگ، بدانتظامی، عملے کی کمی اور معاملہ عدم دل چسپی ہے۔ اگر ان معاملات پر تھوڑی بہت توجہ بھی دے دی جائے تو سینکڑوں یا ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کی مشکلات آسان ہوسکتی ہے۔
[poll id="1294"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔