ایران اورحماس تعلقات مسلح روڈ میپ پہلا حصہ
ایران وہ واحد ملک تھا جس نے فلسطینی وزیراعظم کا بھرپور ساتھ دیا اور فلسطینی وزیراعظم کو مالی امداد فراہم کی.
دسمبر2012 ء میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے اپنا 25 واں یوم تاسیس متعدد مناسبتوں کے ساتھ منایا جس میں خصوصی طور پر غزہ کے 6 سالہ اسرائیلی محاصرے کا خاتمہ، غزہ پر مسلط کی جانے والی 8 روزہ اسرائیلی جنگ میں فلسطینیوں کی فتح اور اسی طرح حماس کی تاسیس یعنی 9 دسمبر 1985 سے 9 دسمبر 2012 تک 25 سالہ مزاحمتی و جہادی سفر۔
گزشتہ کچھ عرصے میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے بارے میں کچھ چہ میگوئیاں سننے میں آئی جس میں کہا جا رہا تھا کہ اسلامی مزاحمتی تحریک حماس مستقبل میں شاید اپنے رویہ کو برقرار نہ رکھ پائے گی۔ حالیہ ہونے والی تبدیلیوں جس میں ماہ دسمبر میں اسرائیل کے ساتھ ہونے والی آٹھ روزہ جنگ میں حماس کی مزاحمت اور دیگر مزاحمتی گروپوں کے ساتھ تعاون اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حماس نے ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ مزاحمت کے راستے کو ترک نہیں کرے گی۔ اگرچہ شام کی صورتحال کے حوالے سے حماس اور ایران کے موقف الگ الگ ہیں لیکن حالیہ تبدیلی کے بعد دیکھا گیا ہے کہ حماس ایران کے قریب ہوتی جارہی ہے۔
غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ کے بعد حزب اﷲ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراﷲ نے اپنے تمام اہم ترین کمانڈرز اور ذمے داران کو جمع کرتے ہوئے ایک اجلاس میں ایک مرتبہ پھر اسی پرانے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے ہدایات جاری کیں کہ حماس کو اسلحے کی فراہمی جاری رکھی جائے اور غزہ پر اسرائیلی حملے کے خلاف غزہ کے مظلوموں کی بھرپور مدد جاری رکھتے ہوئے حماس کو زیادہ سے زیادہ اسلحہ پہنچایا جائے تاکہ غاصب صہیونی جارح اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔
حزب اﷲ کے سربراہ سید حسن نصراﷲ کا یہ بیان اس وقت منظر عام پر آیا تھا جب حماس کے ایک اہم ترین رہنما اور مجاہد کمانڈر عماد العلمی نے ایران کا دورہ کیا۔ اس دورے کے نتیجے میں ایران نے حماس کے لیے مالی و مسلح معاونت کے لیے راستے کھولنے کا مزید اعلان کیا اور جس کے نتیجے میں ایرانی ساختی میزائلوں کو غزہ تک پہنچایا گیا جس کے بعد اسلامی مزاحمتی تحریک نے سیکڑوں میزائل اسرائیل کی طرف داغے۔
اسی طرح حزب اﷲ نے ایک اور جاری ہونے والی ہدایات میں حزب اﷲ کے اراکین کی ذمے داری عائد کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے والے عناصر پر کڑی نظر رکھی جائے۔ یقیناً اس وقت حماس ایک چھلانگ لگا کر ایران کے پہلو میں نہیں بیٹھنا چاہتی تھی لیکن غزہ پر حملے اور جنگ کے دوران ہونے والی ہولناک تباہی کے بعد عربوں کی طرف سے مجرمانہ خاموشی کو دیکھتے ہوئے حماس نے جو فیصلہ کیا وہ درست بھی تھا اور بر وقت بھی۔ اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ غزہ پر حالیہ اسرائیلی وحشت گری کے بعد جو باتیں منظر عام پر آئیں کہ ایران نے حماس کو اسلحہ دیا اور راکٹ بھی، تو یہ باتیں درست ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں نے حماس اور ایران کے تعلقات میں حائل ہونے کے لیے ایک مخصوص پروپیگنڈا شروع کر دیا اور کہنا شروع کیا کہ اب ایران کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اب عربوں کے موقف کا زمانہ ہے، عرب خود فلسطین کے لیے جدوجہد کرلیں گے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران نے کبھی اپنی مالی امداد کے بدلے فلسطینیوں سے کچھ واپس مانگا ہے؟ یقیناً نہیں؟ حتیٰ کہ ایران نے تو شاید یہ بھی نہیں کہا کہ آج جنگ کرو اور کل بند کردو۔
ان ہی مخصوص حالات کے پیدا ہونے سے لبنان میں 18 دسمبر کو فلسطینی تحریکوں اور دیگر رہنمائوں سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے حزب اﷲ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اﷲ نے کہا کہ ''آج کل یہ تجزیے بہت گردش کر رہے ہیں کہ اسلامی تحریک مزاحمت فلسطین خاص حماس ایران اور حزب اﷲ کے موقف کو چھوڑ کر عربوں کے ساتھ ہوگئی ہے۔ عرب اب فلسطینی مسئلے کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اسی طرح کی اور باتیں کی جا رہی ہیں۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ اس طرح کی لکھی جانے والی باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔''
حزب اﷲ کے سربراہ سید حسن نصر اﷲ نے کہا ''مجھے یہاں فلسطین اور ایران کے بارے میں دو جملے کہنے ہیں، جب اسلامی جمہوریہ ایران فلسطینی عوام اور حماس کی مدد کرتا ہے اور کررہا ہے تو درحقیقت وہ اپنے مذہبی، عقیدتی، انسانی و اخلاقی فرائض کو ادا کررہا ہے۔'' انھوں نے جلسے میں بیٹھے تمام فلسطینی تحریکوں کے رہنمائوں کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھاکہ ''یہاں جلسے میں بیٹھے ہوئے فلسطینی تحریکوں کے رہنمائوں میں سے کوئی ایک کھڑا ہو کر یہ بتائے کہ، اسلامی جمہوریہ ایران نے گزشتہ بیس یا تیس سال میں ہم سے کوئی مطالبہ کیا ہو۔ ایران نے کبھی (فلسطینی) سیاسی موقف میں مداخلت کی ہو؟ ایران نے کبھی کہا ہو جنگ کرو یا بند کردو؟ ایران نے کہا ہو کہ مدد کرو یا نہ کرو، یا کہا ہو کہ دھمکی دو یا نہ دو؟ ایران نے کہا ہو کہ صلح کرلو یا نہ کرو، ایران نے کبھی فلسطینی اندرونی امور میں مداخلت کی ہو؟ ہر گز نہیں۔ اگر کوئی ہے تو اٹھے اور کہہ دے کہ یہ غلط ہے۔''
یہ بات بھی واضح ہے کہ شام کے مسئلے پر حماس اور ایران کے موقف میں واضح اختلاف ہے تاہم شامی صدر بشار الاسد ایران حکومت کے ایک اہم اتحادی بھی ہیں۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود انسانیت کے دشمن اور غزہ پر حملہ آور درندے اسرائیل کو سبق سکھانے کے لیے حماس اور ایران نے جو روڈ میپ تیار کیا ہے وہ یقیناً لائق تحسین ہے اور عربوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ایران تاحال اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سیاسی شعبے سے رابطے کر رہا ہے تاکہ حماس کو مزید مالی معاونت کے ساتھ مسلح معاونت فراہم کی جاسکے۔
دوسری جانب حماس کے ایک اہم عہدیدار نے کہا ہے کہ حماس اور ایران کے تعلقات مضبوط اور دیرپا ہیں اور اختلافات کی باتیں امریکی و اسرائیلی زیر اثر میڈیا کے ذرایع اڑاتے ہیں تاکہ عوام کو اصل حقائق سے دور کریں۔ انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ ایران کی جانب سے ہمیشہ مالی معاونت کے ساتھ ساتھ مسلح معاونت ملتی رہی ہے جو ابھی تک جاری ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق، حماس کی اس وقت مستحکم پوزیشن کا ضامن صرف اور صرف ایران ہے کہ جس کی مالی امداد کے ساتھ ساتھ مسلح مدد نے حماس کو سرخرو کردیا ہے اور ایسے وقت میں جب دنیا بھر کے ممالک نے صرف زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔
2008 کے بعد انتخابات میں کامیابی کے بعد جب اسماعیل ہنیہ فلسطین میں حماس کی حکومت بنانے جارہے تھے تو اس وقت امریکا سمیت عرب ممالک کی طرف سے شدید کھینچا تانی کا شکار تھے لیکن اس وقت ایران وہ واحد ملک اور حکومت تھی جس نے فلسطینی وزیراعظم کا بھرپور ساتھ دیا اور فلسطینی وزیراعظم کو مالی امداد فراہم کی تاکہ حکومتی معاملات کو چلایا جاسکے۔ فلسطینی وزیراعظم اسماعیل ہنیہ نے ایران کی معاونت اور امداد کا مثبت انداز میں جواب دیا اور وزیراعظم کی حیثیت میں پہلا سرکاری دورہ تہران کا کیا۔ اس وقت انھوں نے کسی بھی عرب ملک کا دورہ نہیں کیا تھا کیونکہ عرب ممالک نے اسماعیل ہنیہ کو خوش آمدید کرنے سے منع کر دیا تھا۔
(جاری ہے)
گزشتہ کچھ عرصے میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے بارے میں کچھ چہ میگوئیاں سننے میں آئی جس میں کہا جا رہا تھا کہ اسلامی مزاحمتی تحریک حماس مستقبل میں شاید اپنے رویہ کو برقرار نہ رکھ پائے گی۔ حالیہ ہونے والی تبدیلیوں جس میں ماہ دسمبر میں اسرائیل کے ساتھ ہونے والی آٹھ روزہ جنگ میں حماس کی مزاحمت اور دیگر مزاحمتی گروپوں کے ساتھ تعاون اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حماس نے ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ مزاحمت کے راستے کو ترک نہیں کرے گی۔ اگرچہ شام کی صورتحال کے حوالے سے حماس اور ایران کے موقف الگ الگ ہیں لیکن حالیہ تبدیلی کے بعد دیکھا گیا ہے کہ حماس ایران کے قریب ہوتی جارہی ہے۔
غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ کے بعد حزب اﷲ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراﷲ نے اپنے تمام اہم ترین کمانڈرز اور ذمے داران کو جمع کرتے ہوئے ایک اجلاس میں ایک مرتبہ پھر اسی پرانے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے ہدایات جاری کیں کہ حماس کو اسلحے کی فراہمی جاری رکھی جائے اور غزہ پر اسرائیلی حملے کے خلاف غزہ کے مظلوموں کی بھرپور مدد جاری رکھتے ہوئے حماس کو زیادہ سے زیادہ اسلحہ پہنچایا جائے تاکہ غاصب صہیونی جارح اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔
حزب اﷲ کے سربراہ سید حسن نصراﷲ کا یہ بیان اس وقت منظر عام پر آیا تھا جب حماس کے ایک اہم ترین رہنما اور مجاہد کمانڈر عماد العلمی نے ایران کا دورہ کیا۔ اس دورے کے نتیجے میں ایران نے حماس کے لیے مالی و مسلح معاونت کے لیے راستے کھولنے کا مزید اعلان کیا اور جس کے نتیجے میں ایرانی ساختی میزائلوں کو غزہ تک پہنچایا گیا جس کے بعد اسلامی مزاحمتی تحریک نے سیکڑوں میزائل اسرائیل کی طرف داغے۔
اسی طرح حزب اﷲ نے ایک اور جاری ہونے والی ہدایات میں حزب اﷲ کے اراکین کی ذمے داری عائد کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے والے عناصر پر کڑی نظر رکھی جائے۔ یقیناً اس وقت حماس ایک چھلانگ لگا کر ایران کے پہلو میں نہیں بیٹھنا چاہتی تھی لیکن غزہ پر حملے اور جنگ کے دوران ہونے والی ہولناک تباہی کے بعد عربوں کی طرف سے مجرمانہ خاموشی کو دیکھتے ہوئے حماس نے جو فیصلہ کیا وہ درست بھی تھا اور بر وقت بھی۔ اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ غزہ پر حالیہ اسرائیلی وحشت گری کے بعد جو باتیں منظر عام پر آئیں کہ ایران نے حماس کو اسلحہ دیا اور راکٹ بھی، تو یہ باتیں درست ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں نے حماس اور ایران کے تعلقات میں حائل ہونے کے لیے ایک مخصوص پروپیگنڈا شروع کر دیا اور کہنا شروع کیا کہ اب ایران کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اب عربوں کے موقف کا زمانہ ہے، عرب خود فلسطین کے لیے جدوجہد کرلیں گے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران نے کبھی اپنی مالی امداد کے بدلے فلسطینیوں سے کچھ واپس مانگا ہے؟ یقیناً نہیں؟ حتیٰ کہ ایران نے تو شاید یہ بھی نہیں کہا کہ آج جنگ کرو اور کل بند کردو۔
ان ہی مخصوص حالات کے پیدا ہونے سے لبنان میں 18 دسمبر کو فلسطینی تحریکوں اور دیگر رہنمائوں سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے حزب اﷲ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اﷲ نے کہا کہ ''آج کل یہ تجزیے بہت گردش کر رہے ہیں کہ اسلامی تحریک مزاحمت فلسطین خاص حماس ایران اور حزب اﷲ کے موقف کو چھوڑ کر عربوں کے ساتھ ہوگئی ہے۔ عرب اب فلسطینی مسئلے کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اسی طرح کی اور باتیں کی جا رہی ہیں۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ اس طرح کی لکھی جانے والی باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔''
حزب اﷲ کے سربراہ سید حسن نصر اﷲ نے کہا ''مجھے یہاں فلسطین اور ایران کے بارے میں دو جملے کہنے ہیں، جب اسلامی جمہوریہ ایران فلسطینی عوام اور حماس کی مدد کرتا ہے اور کررہا ہے تو درحقیقت وہ اپنے مذہبی، عقیدتی، انسانی و اخلاقی فرائض کو ادا کررہا ہے۔'' انھوں نے جلسے میں بیٹھے تمام فلسطینی تحریکوں کے رہنمائوں کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھاکہ ''یہاں جلسے میں بیٹھے ہوئے فلسطینی تحریکوں کے رہنمائوں میں سے کوئی ایک کھڑا ہو کر یہ بتائے کہ، اسلامی جمہوریہ ایران نے گزشتہ بیس یا تیس سال میں ہم سے کوئی مطالبہ کیا ہو۔ ایران نے کبھی (فلسطینی) سیاسی موقف میں مداخلت کی ہو؟ ایران نے کبھی کہا ہو جنگ کرو یا بند کردو؟ ایران نے کہا ہو کہ مدد کرو یا نہ کرو، یا کہا ہو کہ دھمکی دو یا نہ دو؟ ایران نے کہا ہو کہ صلح کرلو یا نہ کرو، ایران نے کبھی فلسطینی اندرونی امور میں مداخلت کی ہو؟ ہر گز نہیں۔ اگر کوئی ہے تو اٹھے اور کہہ دے کہ یہ غلط ہے۔''
یہ بات بھی واضح ہے کہ شام کے مسئلے پر حماس اور ایران کے موقف میں واضح اختلاف ہے تاہم شامی صدر بشار الاسد ایران حکومت کے ایک اہم اتحادی بھی ہیں۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود انسانیت کے دشمن اور غزہ پر حملہ آور درندے اسرائیل کو سبق سکھانے کے لیے حماس اور ایران نے جو روڈ میپ تیار کیا ہے وہ یقیناً لائق تحسین ہے اور عربوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ایران تاحال اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سیاسی شعبے سے رابطے کر رہا ہے تاکہ حماس کو مزید مالی معاونت کے ساتھ مسلح معاونت فراہم کی جاسکے۔
دوسری جانب حماس کے ایک اہم عہدیدار نے کہا ہے کہ حماس اور ایران کے تعلقات مضبوط اور دیرپا ہیں اور اختلافات کی باتیں امریکی و اسرائیلی زیر اثر میڈیا کے ذرایع اڑاتے ہیں تاکہ عوام کو اصل حقائق سے دور کریں۔ انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ ایران کی جانب سے ہمیشہ مالی معاونت کے ساتھ ساتھ مسلح معاونت ملتی رہی ہے جو ابھی تک جاری ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق، حماس کی اس وقت مستحکم پوزیشن کا ضامن صرف اور صرف ایران ہے کہ جس کی مالی امداد کے ساتھ ساتھ مسلح مدد نے حماس کو سرخرو کردیا ہے اور ایسے وقت میں جب دنیا بھر کے ممالک نے صرف زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔
2008 کے بعد انتخابات میں کامیابی کے بعد جب اسماعیل ہنیہ فلسطین میں حماس کی حکومت بنانے جارہے تھے تو اس وقت امریکا سمیت عرب ممالک کی طرف سے شدید کھینچا تانی کا شکار تھے لیکن اس وقت ایران وہ واحد ملک اور حکومت تھی جس نے فلسطینی وزیراعظم کا بھرپور ساتھ دیا اور فلسطینی وزیراعظم کو مالی امداد فراہم کی تاکہ حکومتی معاملات کو چلایا جاسکے۔ فلسطینی وزیراعظم اسماعیل ہنیہ نے ایران کی معاونت اور امداد کا مثبت انداز میں جواب دیا اور وزیراعظم کی حیثیت میں پہلا سرکاری دورہ تہران کا کیا۔ اس وقت انھوں نے کسی بھی عرب ملک کا دورہ نہیں کیا تھا کیونکہ عرب ممالک نے اسماعیل ہنیہ کو خوش آمدید کرنے سے منع کر دیا تھا۔
(جاری ہے)