فتح علی خان کلاسیکی موسیقی کا خورشید بجھ گیا
فتح علی خان نے آغاز میں اپنے بڑے بھائی امانت علی خان کے ساتھ جوڑی میں گایا
پٹیالہ گھرانے کے عظیم گائیک استاد فتح علی خان بھی انتقال کرگئے اور ان کے ساتھ برصغیر کی کلاسیکی موسیقی کا ایک عہد ختم ہوگیا۔ فتح علی خان نے آغاز میں اپنے بڑے بھائی امانت علی خان کے ساتھ جوڑی میں گایا، جس میں ان کے تان کہنے کے منفرد اور منجھے ہوئے انداز نے بڑے بڑوں سے داد لی۔ 1974ء میں امانت علی خان کا جلد رخصت ہوجانا ان کے لیے سانحہ جانکاہ تھا، مگر اس سانحے کے بعد ان کے فن نے جھٹکا نہیں کھایا اور انھوں نے جوڑی کے بغیر اکیلے گانے میں بھی اپنا لوہا منوایا اور پٹیالہ گھرانہ جس نے ان سے پہلے استاد عاشق علی خان اور بڑے غلام علی خان جیسے عظیم گویے پیدا کیے تھے۔
ان عظیم گلوکاروں میں اپنے نام کو بھی شامل کردیا۔ ولمبت خیال ہو یا درت، الاپ ہو یا ترانہ، کلاسیکی گائیکی کے ہر حصے پر ان کا فن قادر تھا۔ خیال کے علاوہ ٹھمری کی گائیکی بھی ان کی بے نظیر تھی۔ کوئی بھی راگ راگنی ہو، استاد فتح علی خان کی نشیلی اور اتھاہ گہرائی رکھنے والی آواز اور سرتال پر ان کی کامل دسترس سامعین پر الگ سا ہی سرور طاری کرتی تھی اور راگ کی تمام کیفیات اور اس کا تمام حسن نمایاں کردیتی تھی۔ جونپوری ہو کہ درباری، میگھ ہو کہ شاہانہ، بیراگی ہو، بھوپالی ہو یا پہاڑی، ہر کیفیت اور انداز کا راگ استاد فتح علی خان کی آواز میں کھل اٹھتا تھا۔ مرحوم نے فلموں میں بھی کلاسیکی طرز کے گیت گائے، جن میں راگ گوڑ ملہار میں گایا ہوا فلم کوئل کا شاہکار ٹائٹل گیت بھی شامل ہے۔
انھوں نے دنیا بھر میں اپنے فن کا جادو جگایا اور کئی شاگردوں میں اپنا علم اور فن تقسیم کیا۔ ان کے شاگردوں میں نہ صرف ان کے گھرانے کے افراد ہیں بلکہ گھرانے سے باہر حتی کہ غیرملکی بھی شامل ہیں۔ بلاشبہ وہ اس وقت پاکستان میں کلاسیکی گائیکی کا سب سے محترم نام تھے اور ان کی رحلت کلاسیکی موسیقی کے پرستاروں کے لیے بڑا صدمہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے ۔ ان کا فن قابل رشک ہے۔مرحوم اور ان جیسے دیگر فنکاروں کا فن ہماری تہذیب کا ایسا حصہ ہے جس کو اگر نظرانداز کردیا جائے تو ہماری شناخت کی تشکیل ادھوری رہ جاتی ہے۔ ہماری اجتماعی ذمے داری ہے کہ ہم کلاسیکی موسیقی کو زندہ رکھیں اور اپنی نئی نسل میں استاد فتح علی خان جیسوں کی گائیکی پر فخر کرنے کا شعور اور اس سے لطف اندوز ہونے کا ذوق پیدا کریں، جو کہ ہماری جمالیاتی حس کی تسکین کا بے بہا ذریعہ ہے۔
ان عظیم گلوکاروں میں اپنے نام کو بھی شامل کردیا۔ ولمبت خیال ہو یا درت، الاپ ہو یا ترانہ، کلاسیکی گائیکی کے ہر حصے پر ان کا فن قادر تھا۔ خیال کے علاوہ ٹھمری کی گائیکی بھی ان کی بے نظیر تھی۔ کوئی بھی راگ راگنی ہو، استاد فتح علی خان کی نشیلی اور اتھاہ گہرائی رکھنے والی آواز اور سرتال پر ان کی کامل دسترس سامعین پر الگ سا ہی سرور طاری کرتی تھی اور راگ کی تمام کیفیات اور اس کا تمام حسن نمایاں کردیتی تھی۔ جونپوری ہو کہ درباری، میگھ ہو کہ شاہانہ، بیراگی ہو، بھوپالی ہو یا پہاڑی، ہر کیفیت اور انداز کا راگ استاد فتح علی خان کی آواز میں کھل اٹھتا تھا۔ مرحوم نے فلموں میں بھی کلاسیکی طرز کے گیت گائے، جن میں راگ گوڑ ملہار میں گایا ہوا فلم کوئل کا شاہکار ٹائٹل گیت بھی شامل ہے۔
انھوں نے دنیا بھر میں اپنے فن کا جادو جگایا اور کئی شاگردوں میں اپنا علم اور فن تقسیم کیا۔ ان کے شاگردوں میں نہ صرف ان کے گھرانے کے افراد ہیں بلکہ گھرانے سے باہر حتی کہ غیرملکی بھی شامل ہیں۔ بلاشبہ وہ اس وقت پاکستان میں کلاسیکی گائیکی کا سب سے محترم نام تھے اور ان کی رحلت کلاسیکی موسیقی کے پرستاروں کے لیے بڑا صدمہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے ۔ ان کا فن قابل رشک ہے۔مرحوم اور ان جیسے دیگر فنکاروں کا فن ہماری تہذیب کا ایسا حصہ ہے جس کو اگر نظرانداز کردیا جائے تو ہماری شناخت کی تشکیل ادھوری رہ جاتی ہے۔ ہماری اجتماعی ذمے داری ہے کہ ہم کلاسیکی موسیقی کو زندہ رکھیں اور اپنی نئی نسل میں استاد فتح علی خان جیسوں کی گائیکی پر فخر کرنے کا شعور اور اس سے لطف اندوز ہونے کا ذوق پیدا کریں، جو کہ ہماری جمالیاتی حس کی تسکین کا بے بہا ذریعہ ہے۔