مشرق وسطیٰ کے بدلتے حالات
درحقیقت یہ امریکا کی پہلی بار مشرق وسطیٰ میں سیاسی شکست تھی، جس کے اثرات امریکا کے حلیف ممالک پر پڑے
آپ کو اگر یاد ہو شام کی جنگ پر اکثر مضامین میں یہ لکھتا رہا کہ اس جنگ کے خاتمے کے بعد کردوں کو اپنا ایک ملک تو مل جائے گا، کیونکہ کردستان کی حامی پارٹیاں 1970 سے اس جدوجہد میں مصروف ہیں۔
اس طویل عرصے میں 1970 کے نوجوان اور بعض طالب علم کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے اور وہ ان دنوں کی طلبہ تحریک خصوصاً این ایس ایف کے لوگوں کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے اور سیاسی معاملات پر گفتگو کرتے تھے، مگر ان دنوں نہ موبائل فون ہوا کرتے تھے نہ انٹرنیٹ اور خال خال پی ٹی سی ایل، اس لیے ان لوگوں سے رابطے نہ رہے۔ اکثر بعض بین الاقوامی خبروں میں کردوں کی سرکوبی کی خبریں آتی تھیں، ان میں عراق، ایران اور ترکی کی حکومتیں، کوئی بھی ان کے حقوق دینے پر تیار نہ تھیں۔ جو طلبا یہاں آتے تھے ان کی اکثریت اردن اور عراق کی ہوا کرتی تھی مگر کرد پاکستان میں تعلیم عموماً حاصل نہیں کرتے تھے۔
اکثریت عرب ممالک سے وابستہ اور خاص طور پر فلسطینی ہوا کرتے تھے، لیکن جو بھی اتفاق سے اس رہ گزر پر ملے ان کے نظریات جمہوری اور سوشلسٹ ہوا کرتے تھے۔ مگر یکم جنوری 2017 کو یہ خبر نمایاں نظر آئی کہ کردوں نے شام سے شمالی علاقے میلان میں آزاد کرد فیڈریشن ریاست قائم کرلی ہے۔ مخالفت میں کسی ملک کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا، البتہ ترکی کے صدر طیب اردگان نے اس ملک کے خلاف فوری بیان دیا اور اپنے بیان میں کہا کہ ترکی اس کی شدید مزاحمت کرے گا۔ کیونکہ ترکی کے سرحدی علاقوں اور ان کے بعض بڑے شہروں میں خاصے کرد رہائش پذیر ہیں اور وہ خاص طور سے پی کے کے (PKK) کے خاصے حامی ہیں، جو ایسی ریاست کے قیام میں پیش پیش ہیں۔
شام کی خانہ جنگی میں جو قوتیں نبرد آزما رہی ہیں ان میں ایک طرف شامی مجاہدین تھے، جن میں سعودی عرب کے حمایت یافتہ اور عرب ریاستوں اور سعودی اتحاد کے رکن ممالک پیش پیش تھے تو دوسری جانب حزب اﷲ، ایران اور عراقی ملیشیا تھی۔ یہ جنگ تقریباً 5 برس چلی۔ عرب مجاہدین کے پس پردہ امریکا اور ایران کی پشت پر روس تھا۔ جو جنگ روس کی حامی فوجوں نے جیت لی، درحقیقت یہ جنگ روس اور امریکا کی پراکسی وار کا نتیجہ تھی، جس سے روس اور امریکا میں شدید قسم کی سرد جنگ شروع ہوگئی، یہاں تک کہ صدر اوباما نے روس کے 35 کے قریب اہم سفارت کاروں کو امریکا بدر کردیا۔ جب کہ ولادی میر پوتن نے جواباً جوابی کارروائی سے گریز کیا۔
درحقیقت یہ امریکا کی پہلی بار مشرق وسطیٰ میں سیاسی شکست تھی، جس کے اثرات امریکا کے حلیف ممالک پر پڑے۔ گو یہ پالیسی امریکا کی ریپبلکن پارٹی کے سابق صدر بش کی پالیسیوں کا تسلسل تھی، جب کہ ظاہری طور پر امریکا کے نئے صدر جو ریپبلکن پارٹی کے حمایت یافتہ تھے وہ یکسر صدر بش کی پالیسیوں سے انحراف کرکے انتخابات جیتے ہیں، جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ملک کے ووٹروں کے جذبات کو تسکین دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ فی الحال ان کو امریکا کے عالمی وقار سے کوئی سروکار نہیں، وہ سیاست کی دنیا میں نو وارد ہیں، اس لیے اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ انتخاب جیتنے کے بعد انھوں نے اسرائیل کے سیاسی رخ پر ایک بار مثبت اور دو بار منفی بیانات دیے، مگر بنیادی طور پر وہ اسرائیل کے حامی ہیں۔
انھوں نے 1983 میں امریکا اور اسرائیل کے تعلقات میں گرمی پیدا کرنے کے لیے حکومت اسرائیل کو ایک خطیر رقم سے نوازا (جیوش نیشنل فنڈ)، ایک اور بڑا ایوارڈ ان کو اسرائیل نوازی پر 2015 میں دیا گیا۔ مگر یہ پہلا موقع تھا کہ بحیثیت صدر مملکت ان کے اقوال دہرائے جارہے ہیں مگر ایک بات قابل غور ہے کہ ان کی کابینہ میں دائیں بائیں جو مشیر رکھے جارہے ہیں وہ یہودی کے بجائے قدامت پرست عیسائی ہیں، یہ وہ عیسائی ہیں جو حضرت خدیجہؓ کا بہت احترام کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کے اعمال سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے فیصلوں اور عقائد میں مضبوط نہیں۔ درحقیقت وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ سے کافی دور رہے ہیں، اس لیے غالباً ابھی وہ سیاست کے امریکی آئینہ کا کردار ادا کرنے سے کوسوں دور ہیں اور جب ان کا سامنا عالمی امور پر ولادی میر پوتن سے پڑے گا تو پھر تضادات سامنے آئیں گے۔
خاص طور سے جب سے روس نے سنوڈن کو روس میں پناہ دی ہے اور سنوڈن کے بیانات نے اوباما کو خاصی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ مثلاً ان کا یہ خیال کہ اسامہ بن لادن زندہ ہیں اور امریکا میں قید ہیں۔ حال میں سنوڈن جو خفیہ معلومات کے ہیرو ہیں، انھوں نے ابوبکر بغدادی کے متعلق کہا ہے کہ داعش کے سربراہ امریکا میں ہیں اور انھی کا ہمشکل موصل میں داعش کے جانبازوں کے ہمراہ ہے، اس لیے امریکا کی عالمی پوزیشن خراب ہورہی ہے۔ موجودہ الیکشن میں سنوڈن کے ذریعے الیکشن نتائج میں مداخلت کا الزام روس پر لگانا اور سنوڈن کا استحصال کس قدر گمراہ کن اعلان ہے جس کو پوتن نے نظر انداز کردیا۔ کیونکہ اس بیان سے ظاہر ہورہا ہے کہ روس فنی اعتبار سے امریکا کو مات دے چکا ہے، خود اوباما رازوں کو طشت ازبام لے آیا ہے۔ اس عمل سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ روس کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں امریکا کو مات دے چکا ہے۔
خود اوباما کو یہ احساس نہیں کہ 15 سال تک بلاشرکت غیرے یونی پولر قوت کا مالک امریکا اب روس کے ہاتھوں شکست کھا رہا ہے۔ اس لیے امریکا پر انحصار کرنے والے ممالک کے لیے یہ کس قدر برا وقت ہے اور امریکا کے نئے صدر بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ روس کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں اور سرد جنگ سے بالکل گریز کریں گے اور وہ رقم جو جنگوں پر خرچ ہوتی ہے وہ انسانی ترقی کے لیے خرچ ہوگی۔
مسٹر ٹرمپ نے شام کے صدر بشارالاسد کے موقف کی بھی حمایت کی جس سے امریکا کی سیاسی حکمت عملی کی تضحیک کی، جو کسی ملک کے وقار کے منافی ہے کہ ماضی کی تاریخ کو ایک مذاق بناکر رکھ دیا۔ خصوصیت کے ساتھ اقوام متحدہ پر ان کے ریمارکس کہ اقوام متحدہ کا ادارہ ایک شراب خانے کا نقشہ کھینچ رہا ہے، جہاں لوگ تفریح طبع کے لیے جاتے ہیں اور وقت برباد کر کے جاتے ہیں۔ انھوں نے دنیا کے 183 ممالک کے نمایندوں کو غور و فکر کرنے والے ادارہ کے بجائے ان کی کس قدر تضحیک کی، مگر دنیا کے کسی بھی گوشے سے اس بیان کی مذمت میں کوئی آواز نہ اٹھی۔ تمام خرابیوں کے باوجود ابھی دنیا میں امن قائم کرنے کا ایک ادارہ تو ہے اگر یہ بھی ختم ہوجائے گا تو کوئی پلیٹ فارم باقی نہ رہے گا اور نہ اجتماعی سوچ کا کوئی راستہ باقی رہے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ جب تک امریکا اپنے اقدامات کا آغاز نہ کرے اس وقت تک ہم یہ خیال کریں کہ ایک ملٹی بلینائر چیف گیسٹ سیاست کے میدان میں اپنی آرا کے اوراق بکھیر رہا ہے۔ مثال کے طور پر کردستان کا ایک نیا مسئلہ مشرق وسطیٰ سے جو اٹھنے والا ہے، اس کا کیا حل نکلے گا۔
ایک طرف ترکی کی مخالفت اور اس کے چند حامیوں کی حمایت، جب کہ دوسری جانب کرد جنگجو جن میں ان کی خواتین رضاکار بھی داعش کے خلاف جنگ میں پیش پیش تھیں اور جس علاقے کو آزاد کرایا اس علاقے پر کس کا استحقاق ہے؟ جب کہ شام تو ایک پستی کی رہ گزر سے نکلا ہے اور کرد ان کے حامی تھے اور وہ روسی ہتھیار استعمال کررہے تھے، اس لیے روس کو ایک بڑی آزمائش سے گزرنا ہوگا۔ ماضی کا سوویت یونین روس قوموں کی آزادی اور خود مختاری کا حامی رہا ہے اور اپنے اسی منطق کے تحت کریمیا اور یوکرین کے استدلال کو انھوں نے عملی جامہ پہنایا تھا، جس پر ایک طویل کشیدگی مغرب اور ان کے اتحادی روس کے خلاف متحد تھے اور یہ مسئلہ آج تک بھی حل نہ ہوا۔ مگر روس کے لیے کردستان ایک امتحان سے کم نہ ہوگا، البتہ امریکا اور عرب ریاستیں کردستان کے خلاف ہی متحد رہیںگی۔ رہ گیا پاکستان کا کیا موقف ہوگا؟ کچھ کہنا مشکل ہے۔
غالب امکان یہی ہے کہ پاکستان یا تو اس کشمکش سے دور رہے گا اور ممکن ہے کہ یہ کردستان کے خلاف ہو، کیونکہ ترکی کا سخت گیر موقف ہوسکتا ہے پاکستان پر اثر دکھائے۔
مگر ترکی نیٹو معاہدے کا ایک رکن ہے، لہٰذا ممکن ہے کہ ترکی کی حمایت میں امریکی موقف ہو۔ مگر امریکی موقف کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہے، اس لیے کہ ترکی نے حالیہ بغاوت کے بعد امریکا سے گولن کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا مگر امریکا نے ایک نہ سنی جب کہ پاکستان میں حکومت نے گولن سے وابستہ اسکولوں پر قدغن لگائی تھی، جس کو عدلیہ نے روکا تھا۔ لہٰذا آنے والے وقت میں ٹرمپ کو مشکلات پیش آئیںگی، کیونکہ وہ روس کے ساتھ جیسے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں امریکن اسٹیبلشمنٹ اس پر ہرگز تیار نہ ہوگی۔ خواہ اس کو کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ ایسے سنگین عالمی حالات پر پاکستان کا موقف کیا ہوگا؟ کیونکہ پاکستان کے سیاسی ناقدین جو کمنٹری کررہے ہیں اس نے پاکستانی عوام کو کنفیوز کر رکھا ہے۔ ہر ٹی وی چینل کی اپنی خود ساختہ سیاسی راہ ہے، جیسے کوئی پیچھے سے ڈور ہلارہا ہے۔ یہ رویہ ملک کے لیے نہایت سنگین ہے۔
اس طویل عرصے میں 1970 کے نوجوان اور بعض طالب علم کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے اور وہ ان دنوں کی طلبہ تحریک خصوصاً این ایس ایف کے لوگوں کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے اور سیاسی معاملات پر گفتگو کرتے تھے، مگر ان دنوں نہ موبائل فون ہوا کرتے تھے نہ انٹرنیٹ اور خال خال پی ٹی سی ایل، اس لیے ان لوگوں سے رابطے نہ رہے۔ اکثر بعض بین الاقوامی خبروں میں کردوں کی سرکوبی کی خبریں آتی تھیں، ان میں عراق، ایران اور ترکی کی حکومتیں، کوئی بھی ان کے حقوق دینے پر تیار نہ تھیں۔ جو طلبا یہاں آتے تھے ان کی اکثریت اردن اور عراق کی ہوا کرتی تھی مگر کرد پاکستان میں تعلیم عموماً حاصل نہیں کرتے تھے۔
اکثریت عرب ممالک سے وابستہ اور خاص طور پر فلسطینی ہوا کرتے تھے، لیکن جو بھی اتفاق سے اس رہ گزر پر ملے ان کے نظریات جمہوری اور سوشلسٹ ہوا کرتے تھے۔ مگر یکم جنوری 2017 کو یہ خبر نمایاں نظر آئی کہ کردوں نے شام سے شمالی علاقے میلان میں آزاد کرد فیڈریشن ریاست قائم کرلی ہے۔ مخالفت میں کسی ملک کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا، البتہ ترکی کے صدر طیب اردگان نے اس ملک کے خلاف فوری بیان دیا اور اپنے بیان میں کہا کہ ترکی اس کی شدید مزاحمت کرے گا۔ کیونکہ ترکی کے سرحدی علاقوں اور ان کے بعض بڑے شہروں میں خاصے کرد رہائش پذیر ہیں اور وہ خاص طور سے پی کے کے (PKK) کے خاصے حامی ہیں، جو ایسی ریاست کے قیام میں پیش پیش ہیں۔
شام کی خانہ جنگی میں جو قوتیں نبرد آزما رہی ہیں ان میں ایک طرف شامی مجاہدین تھے، جن میں سعودی عرب کے حمایت یافتہ اور عرب ریاستوں اور سعودی اتحاد کے رکن ممالک پیش پیش تھے تو دوسری جانب حزب اﷲ، ایران اور عراقی ملیشیا تھی۔ یہ جنگ تقریباً 5 برس چلی۔ عرب مجاہدین کے پس پردہ امریکا اور ایران کی پشت پر روس تھا۔ جو جنگ روس کی حامی فوجوں نے جیت لی، درحقیقت یہ جنگ روس اور امریکا کی پراکسی وار کا نتیجہ تھی، جس سے روس اور امریکا میں شدید قسم کی سرد جنگ شروع ہوگئی، یہاں تک کہ صدر اوباما نے روس کے 35 کے قریب اہم سفارت کاروں کو امریکا بدر کردیا۔ جب کہ ولادی میر پوتن نے جواباً جوابی کارروائی سے گریز کیا۔
درحقیقت یہ امریکا کی پہلی بار مشرق وسطیٰ میں سیاسی شکست تھی، جس کے اثرات امریکا کے حلیف ممالک پر پڑے۔ گو یہ پالیسی امریکا کی ریپبلکن پارٹی کے سابق صدر بش کی پالیسیوں کا تسلسل تھی، جب کہ ظاہری طور پر امریکا کے نئے صدر جو ریپبلکن پارٹی کے حمایت یافتہ تھے وہ یکسر صدر بش کی پالیسیوں سے انحراف کرکے انتخابات جیتے ہیں، جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ملک کے ووٹروں کے جذبات کو تسکین دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ فی الحال ان کو امریکا کے عالمی وقار سے کوئی سروکار نہیں، وہ سیاست کی دنیا میں نو وارد ہیں، اس لیے اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ انتخاب جیتنے کے بعد انھوں نے اسرائیل کے سیاسی رخ پر ایک بار مثبت اور دو بار منفی بیانات دیے، مگر بنیادی طور پر وہ اسرائیل کے حامی ہیں۔
انھوں نے 1983 میں امریکا اور اسرائیل کے تعلقات میں گرمی پیدا کرنے کے لیے حکومت اسرائیل کو ایک خطیر رقم سے نوازا (جیوش نیشنل فنڈ)، ایک اور بڑا ایوارڈ ان کو اسرائیل نوازی پر 2015 میں دیا گیا۔ مگر یہ پہلا موقع تھا کہ بحیثیت صدر مملکت ان کے اقوال دہرائے جارہے ہیں مگر ایک بات قابل غور ہے کہ ان کی کابینہ میں دائیں بائیں جو مشیر رکھے جارہے ہیں وہ یہودی کے بجائے قدامت پرست عیسائی ہیں، یہ وہ عیسائی ہیں جو حضرت خدیجہؓ کا بہت احترام کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کے اعمال سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے فیصلوں اور عقائد میں مضبوط نہیں۔ درحقیقت وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ سے کافی دور رہے ہیں، اس لیے غالباً ابھی وہ سیاست کے امریکی آئینہ کا کردار ادا کرنے سے کوسوں دور ہیں اور جب ان کا سامنا عالمی امور پر ولادی میر پوتن سے پڑے گا تو پھر تضادات سامنے آئیں گے۔
خاص طور سے جب سے روس نے سنوڈن کو روس میں پناہ دی ہے اور سنوڈن کے بیانات نے اوباما کو خاصی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ مثلاً ان کا یہ خیال کہ اسامہ بن لادن زندہ ہیں اور امریکا میں قید ہیں۔ حال میں سنوڈن جو خفیہ معلومات کے ہیرو ہیں، انھوں نے ابوبکر بغدادی کے متعلق کہا ہے کہ داعش کے سربراہ امریکا میں ہیں اور انھی کا ہمشکل موصل میں داعش کے جانبازوں کے ہمراہ ہے، اس لیے امریکا کی عالمی پوزیشن خراب ہورہی ہے۔ موجودہ الیکشن میں سنوڈن کے ذریعے الیکشن نتائج میں مداخلت کا الزام روس پر لگانا اور سنوڈن کا استحصال کس قدر گمراہ کن اعلان ہے جس کو پوتن نے نظر انداز کردیا۔ کیونکہ اس بیان سے ظاہر ہورہا ہے کہ روس فنی اعتبار سے امریکا کو مات دے چکا ہے، خود اوباما رازوں کو طشت ازبام لے آیا ہے۔ اس عمل سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ روس کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں امریکا کو مات دے چکا ہے۔
خود اوباما کو یہ احساس نہیں کہ 15 سال تک بلاشرکت غیرے یونی پولر قوت کا مالک امریکا اب روس کے ہاتھوں شکست کھا رہا ہے۔ اس لیے امریکا پر انحصار کرنے والے ممالک کے لیے یہ کس قدر برا وقت ہے اور امریکا کے نئے صدر بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ روس کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں اور سرد جنگ سے بالکل گریز کریں گے اور وہ رقم جو جنگوں پر خرچ ہوتی ہے وہ انسانی ترقی کے لیے خرچ ہوگی۔
مسٹر ٹرمپ نے شام کے صدر بشارالاسد کے موقف کی بھی حمایت کی جس سے امریکا کی سیاسی حکمت عملی کی تضحیک کی، جو کسی ملک کے وقار کے منافی ہے کہ ماضی کی تاریخ کو ایک مذاق بناکر رکھ دیا۔ خصوصیت کے ساتھ اقوام متحدہ پر ان کے ریمارکس کہ اقوام متحدہ کا ادارہ ایک شراب خانے کا نقشہ کھینچ رہا ہے، جہاں لوگ تفریح طبع کے لیے جاتے ہیں اور وقت برباد کر کے جاتے ہیں۔ انھوں نے دنیا کے 183 ممالک کے نمایندوں کو غور و فکر کرنے والے ادارہ کے بجائے ان کی کس قدر تضحیک کی، مگر دنیا کے کسی بھی گوشے سے اس بیان کی مذمت میں کوئی آواز نہ اٹھی۔ تمام خرابیوں کے باوجود ابھی دنیا میں امن قائم کرنے کا ایک ادارہ تو ہے اگر یہ بھی ختم ہوجائے گا تو کوئی پلیٹ فارم باقی نہ رہے گا اور نہ اجتماعی سوچ کا کوئی راستہ باقی رہے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ جب تک امریکا اپنے اقدامات کا آغاز نہ کرے اس وقت تک ہم یہ خیال کریں کہ ایک ملٹی بلینائر چیف گیسٹ سیاست کے میدان میں اپنی آرا کے اوراق بکھیر رہا ہے۔ مثال کے طور پر کردستان کا ایک نیا مسئلہ مشرق وسطیٰ سے جو اٹھنے والا ہے، اس کا کیا حل نکلے گا۔
ایک طرف ترکی کی مخالفت اور اس کے چند حامیوں کی حمایت، جب کہ دوسری جانب کرد جنگجو جن میں ان کی خواتین رضاکار بھی داعش کے خلاف جنگ میں پیش پیش تھیں اور جس علاقے کو آزاد کرایا اس علاقے پر کس کا استحقاق ہے؟ جب کہ شام تو ایک پستی کی رہ گزر سے نکلا ہے اور کرد ان کے حامی تھے اور وہ روسی ہتھیار استعمال کررہے تھے، اس لیے روس کو ایک بڑی آزمائش سے گزرنا ہوگا۔ ماضی کا سوویت یونین روس قوموں کی آزادی اور خود مختاری کا حامی رہا ہے اور اپنے اسی منطق کے تحت کریمیا اور یوکرین کے استدلال کو انھوں نے عملی جامہ پہنایا تھا، جس پر ایک طویل کشیدگی مغرب اور ان کے اتحادی روس کے خلاف متحد تھے اور یہ مسئلہ آج تک بھی حل نہ ہوا۔ مگر روس کے لیے کردستان ایک امتحان سے کم نہ ہوگا، البتہ امریکا اور عرب ریاستیں کردستان کے خلاف ہی متحد رہیںگی۔ رہ گیا پاکستان کا کیا موقف ہوگا؟ کچھ کہنا مشکل ہے۔
غالب امکان یہی ہے کہ پاکستان یا تو اس کشمکش سے دور رہے گا اور ممکن ہے کہ یہ کردستان کے خلاف ہو، کیونکہ ترکی کا سخت گیر موقف ہوسکتا ہے پاکستان پر اثر دکھائے۔
مگر ترکی نیٹو معاہدے کا ایک رکن ہے، لہٰذا ممکن ہے کہ ترکی کی حمایت میں امریکی موقف ہو۔ مگر امریکی موقف کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہے، اس لیے کہ ترکی نے حالیہ بغاوت کے بعد امریکا سے گولن کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا مگر امریکا نے ایک نہ سنی جب کہ پاکستان میں حکومت نے گولن سے وابستہ اسکولوں پر قدغن لگائی تھی، جس کو عدلیہ نے روکا تھا۔ لہٰذا آنے والے وقت میں ٹرمپ کو مشکلات پیش آئیںگی، کیونکہ وہ روس کے ساتھ جیسے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں امریکن اسٹیبلشمنٹ اس پر ہرگز تیار نہ ہوگی۔ خواہ اس کو کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ ایسے سنگین عالمی حالات پر پاکستان کا موقف کیا ہوگا؟ کیونکہ پاکستان کے سیاسی ناقدین جو کمنٹری کررہے ہیں اس نے پاکستانی عوام کو کنفیوز کر رکھا ہے۔ ہر ٹی وی چینل کی اپنی خود ساختہ سیاسی راہ ہے، جیسے کوئی پیچھے سے ڈور ہلارہا ہے۔ یہ رویہ ملک کے لیے نہایت سنگین ہے۔