دیکھا تیرا امریکا بارہویں قسط

بڑے اخبارات کے دفاتر بھی نیویارک میں ہیں۔ یہ امریکہ کی مالیاتی شہ رگ ہے یہیں صنعت و تجارت اورکاروبار کےعالمی مراکز ہیں

نیویارک خوبیوں اور خامیوں کا مظہر شہر ہے۔ یہ اپنی طرز کا انوکھا علاقہ ہے۔ یہاں دولت بھی بے شمار ہے اور غربت بھی۔

KARACHI:
 

نیویارک


 

نیو یارک یا نیو نیدر لینڈ


عدیل نے گاڑی '95 i' پر ڈال دی، ساتھ ہی کہنے لگا یہ انٹر اسٹیٹ ہائی وے ہے۔ میری لینڈ سے نیویارک تک اس پر جو ریاستیں پہلے آئیں گی وہ واشنگٹن، ڈیلاویئر، پینسیلونیا اور نیو جرسی ہیں، جبکہ آخر میں نیویارک آئے گا۔ ویسے تو اور بہت سی ریاستوں کے بائی باس رستے میں آئیں گے لیکن یہ وہ ریاستیں ہیں جن میں سے ہوتے ہوئے ہم نیویارک پہنچیں گے بلکہ یوں کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ببلی بھائی (شعیب پیرزادہ) کے پاس بروکلین، نیویارک پہنچیں گے۔

دیکھا تیرا امریکا (پہلی قسط)
دیکھا تیرا امریکا (دوسری قسط)

دیکھا تیرا امریکا (تیسری قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چوتھی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (پانچویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چھٹی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (ساتویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (آٹھویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (نویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (دسویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (گیارہویں قسط)

نیویارک اور نیو جرسی کو دریائے ہڈسن ملاتا ہے۔ اِس پر بناء، پٹنزی برج، تین میل لمبا ہے۔ دریا یہاں سبک خرامی سے بہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے خاموش دریا ہو، اِس کے دونوں کناروں کی ڈھلوانوں پر نیچے تک مکان بنے ہوئے ہیں۔ رات کے وقت اِس پل پر سے گزرنے کا اپنا ہی مزا ہے۔ مکانوں میں جلنے والی بتیوں کی پانی میں جھلملاہٹ عجیب نظارہ پیش کرتی ہے۔ اِسی طرح شعیب پیرزادہ کے بروکلین میں گھر کے نزدیک، وریزونا برج کی لائیٹنگ بھی دل کو موہ لیتی ہے۔

شعیب پیرزادہ، ہماری بیگم کا ماموں زاد بھائی ہے۔ ہم ابھی پاکستان سے چلے بھی نہیں تھے کہ اُس کا فون آگیا کہ اِس بار میرے پاس رہنے کے لئے زیادہ وقت نکال کر آئیے گا۔ ہم نے وعدہ کرلیا تھا اور اِسی وعدے کو ایفا کرنے اور گھومنے کی نیت سے نیویارک جا رہے تھے۔


امریکہ میں جا بجا بنے یہ برج اپنی جگہ عجائبات ہیں۔ اِن پلوں کی خصوصیت یہ ہے کہ دونوں کناروں پر تھوڑی دور اندر تک ستون ہیں جن پر یہ پل کھڑے ہیں باقی حصہ بغیر ستونوں کے ہے۔ اربوں ٹن لوہے سے بنے یہ پل جن پر ہر لمحہ ٹریفک چلتی رہتی ہے اور کوئی ارتعاش بھی پیدا نہیں ہوتا کہ خوف آئے۔

نیویارک بہت بڑا شہر ہے، ٹوکیو کے بعد یہ دنیا کا سب سے بڑا شہر ہے، اتنا طویل و عریض ہے کہ اِسے باآسانی کسی ملک کے برابر کہا جاسکتا ہے۔ صرف نیویارک سٹی ہی تقریباََ تین سو مربع میل پر محیط ہے، اضافی بستیاں اِس کے علاوہ ہیں۔ یہ شہر پانچ علاقوں، مین ہاٹن، بروکلین، دی برونکس، کوئنز اور اسٹیٹن آئی لینڈ پر مشتمل ہے۔

سن 1670ء میں لندن میں چھپنے والی ڈینل ڈین ٹن نے اپنی کتاب ''اے بریف ڈسکرپشن آف نیویارک'' میں اسے ''نیو نیدرلینڈ'' کے نام سے پکارا ہے۔ وہ لکھتا ہے۔

'نیدر لینڈ کہلانے والا یہ خطہ، امریکہ کے شمالی حصوں، بسٹوکسٹ، نیو انگلینڈ اور ورجینیا میں میری لینڈ تک پھیلا ہوا تھا، یہ علاقہ اِس وقت تک ابھی دریافت نہیں ہوا تھا لیکن اِس کی وسعت کا اندازہ تین سو میل لگایا گیا تھا۔ اِس خطے میں بہنے والے بنیادی دریا، دریائے ہڈسن، دریائے راریٹن اور دریائے ڈیلے ور بے تھے اور اِس علاقے کے مرکزی جزیروں میں مین ہاٹن کے ساتھ دو اور جزیرے شمال کی جانب لونگ آئرلینڈ اور مغرب کی جانب سٹیٹن آئر لینڈ متصل ہیں۔ آج تقریباََ ساڑھے تین سو سال پہلے مورخ ڈینل ڈین ٹن نے نیویارک کو نیو نیدر لینڈ کے نام سے تین جزائر پر مشتمل بتایا تھا۔ آج کا نیویارک پانچ علاقوں پر مشتمل ہے، اُس وقت جو گوشے بے نقاب نہیں ہوئے تھے وہ بھی سامنے آچکے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ الگ الگ شہر تھے لیکن پلوں، سڑکوں اور ٹنلوں کے ذریعے ایک ہی شہر بنا دیا گیا ہے۔

نیویارک اپنی طرز کا انوکھا اور منفرد شہر ہے۔ یہاں دنیا کے مختلف ممالک کے لوگ بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اِس کی آبادی میں اگر اضافی بستیوں کو بھی ملا لیا جائے تو دو کروڑ سے بھی زیادہ ہوگی۔ یہ شہر عمودی بھی ہے اور افقی بھی۔۔

نیویارک سٹی کے بارہ ایونیو ہیں جنہیں متوازی سڑکیں کاٹتی چلی جاتی ہیں۔ ایونیو بھی متوازی ہیں اور سڑکیں بے شمار۔ یہاں پتہ تلاش کرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ فلاں ایونیو کی سٹریٹ نمبر فلاں پر چلے جائیں۔ ایونیوز اور اسٹریٹس کے متوازی ہونے سے بہت بڑے بڑے چوراہے بن جاتے ہیں۔

سڑکوں پر ٹریفک بے تحاشہ ہوتی ہے، پیدل چلنے والوں کے لئے ٹریک بنے ہوئے ہیں جہاں پیدل چلنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔

نیویارک خوبیوں اور خامیوں کا مظہر شہر ہے۔ یہ اپنی طرز کا انوکھا علاقہ ہے۔ یہاں دولت بھی بے شمار ہے اور غربت بھی۔ اکثر فٹ پاتھوں پر مرد، عورتیں بیٹھے نظر آئیں گے جنہوں نے پلے کارڈ پکڑے ہوتے ہیں، یہاں یہ بھی مانگنے کا ایک ڈھنگ ہے۔

نیویارک کی سڑکیں میل ہا میل لمبی ہیں۔ اِس کا ساحل سمندر تقریباََ اٹھارہ میل پر محیط ہے۔ اِس گنجان آباد شہر میں پارکوں کی بھی کمی نہیں۔ نیویارک میں کوئی گیارہ سو کے لگ بھگ پارک ہیں، سینکڑوں کھیلوں کے میدان ہیں، چار سو کے قریب تھیٹر، بے شمار میوزیم، آرٹ گیلریاں، ہزاروں اسکول کالجز اور یونیورسٹیاں ہیں۔

شہر میں نئے پرانے تین چار ہزار گرجا گھر بھی ہیں۔ نیویارک جتنا بڑا شہر ہے اُس میں اتنی ہی بڑی بڑی چیزیں ہیں، سو سے زیادہ سکائی اسکریپرز ہیں جو آسمان سے باتیں کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ انڈر گراونڈ سب وے کا جال بچھا ہے۔ 1863ء میں لندن میں شروع ہونے والی سب وے ریلوے کے بعد نیویارک میں پہلی سب وے 1904ء میں چلائی گئی۔ اُس وقت اس کا ٹریک صرف نو میل لمبا تھا مگر اب نیویارک کا سب وے دنیا میں سب سے بڑا ہے۔ انڈر گراونڈ ریلوے ٹریک اب میلوں پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا ریلوے کا نظام ہے جس پر روزانہ چالیس سے پچاس لاکھ افراد سفر کرتے ہیں۔ ٹیکسیوں، بسوں اور کاروں سے آنے والے افراد کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ اِس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ نیویارک کتنا بڑا اور کتنا مصروف شہر ہے۔

مین ہاٹن کا درمیانی علاقہ قابلِ دید مقامات کا مرکز ہے۔ یہاں بڑے بڑے ہوٹل ہیں، اقوامِ متحدہ کے صدر دفاتر ہیں، گراونڈ سنٹرل ریلوے اسٹیشن، نیویارک پبلک لائبریری، راک فیلر سینٹر، چینل گارڈن، واشنگٹن اسکوائر، ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ جیسی چیزیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ کسی زمانے میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر بھی دیکھنے کی جگہ تھی لیکن نائن الیون کے واقعہ کے بعد ٹریڈ سنٹر دوبارہ بنانے کی بجائے اس جگہ کو میموریل پارک بنا دیا گیا ہے اور اس جگہ کو گراونڈ زیرو کا نام دیا گیا ہے۔

ٹائم اسکوائر اور براڈ وے کے نام پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ یہ علاقے 42 سے47 اسٹریٹ کے درمیان ہیں۔ ٹائم اسکوائر تھیٹر، سینما اور شوبز کے لئے مشہور ہے۔ یہاں کی رات اتنی روشن ہوتی ہے کہ دن کی روشنی اُس کے آگے شرماتی ہے۔

بڑے بڑے بینک، انشورنس کمپنیاں، پرشکوہ عمارتیں اور اسکائی اسکریپرز براڈ وے کی وال اسٹریٹ میں ہیں۔ بڑے بڑے اخبارات کے دفاتر بھی یہیں ہیں۔ یہ امریکہ کی مالیاتی شہ رگ ہے یہاں صنعت و تجارت اور کاروبار کے عالمی مراکز ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story