شامی مہاجرین مشرق سے مغرب تک اہم ترین موضوع رہے
نسل پرست مغربی سیاست دانوں نے پناہ گزینوں کے مسئلہ کودہشت گردی کے ساتھ نتھی کرکے اپنی سیاست چمکائی۔
اکیس سالہ یسریٰ ماردینی اُن ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد شامی مہاجرین میں سے تھی جنہیں خانہ جنگی کی وجہ سے اپنی جنت چھوڑنی پڑی۔ یسریٰ کا تعلق دمشق کے ایک خو شحال خاندان سے تھا، وہ جمناسٹک کلب کی ممبر ہونے کے علاوہ بہت اچھی تیراک بھی تھی۔
پھر2011ء کی عرب بہار کے بعد شام میں خانہ جنگی چھڑگئی اور یسریٰ کی جنت تیزی سے دوزخ میں بدلنے لگی۔ آخر کار یسریٰ اور اسکی بہن کو شام چھوڑ کر جرمنی میں پناہ لینا پڑی۔ تھنک ٹینک'پیو ریسرچ سینٹر' کی ایک رپورٹ کے مطابق2011 ء میں شامی صدر بشار الاسد کے خلاف احتجاج کے آغاز سے اب تک ہر 10 میں سے 6 شامیوں کو لڑائی کے سبب اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ کسی ایک ملک کی آبادی کے اس قدر بڑی تعداد میں بے گھر ہونے کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
ان بے گھر افراد میں سے74 لاکھ افراد اپنے ہی ملک کے دوسرے علاقوں میں جبکہ تقریباً48 لاکھ مہاجرین پڑوسی ممالک میں منتقل ہوئے، جن میں ترکی میں 27 لاکھ جبکہ لبنان، اردن، مصر اورعراق میں مجموعی طور پر 21 لاکھ مقیم ہیں۔
اس طرح تقریباً 50لاکھ سے زائد شامی مشرق وسطیٰ ہی کے مختلف ملکوں میں پناہ گزین کے طور پر رجسٹرڈ ہیں۔ غیر رجسٹرڈ مہاجرین بھی بڑی تعداد میں انہی ملکوں میں ٹہرے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف مسلم دنیا کے امیر ترین ممالک سعودی عرب، کویت، قطر، عرب امارات اور عمان نے ان کے لیے اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں۔تاہم سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کا دعویٰ ہے کہ چالیس لاکھ شامی مہاجرین سعودی عرب میں مقیم ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ براے مہاجرین(UNHCR)ہی کے اعدادوشمار کے مطابق اپریل 2011 ء سے اکتوبر2016 ء تک یورپ کے37 ملکوں میں پناہ کی درخو است دینے والے شامی مہاجرین کی تعداد آٹھ لاکھ84ہزار461 یعنی ایک ملین سے بھی کم ہے۔ یہ شامی مہاجرین کی مجموعی تعداد کا 10 فیصد سے بھی کم ہے مگر بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا اصل مرکز عموماً مغربی منظر نامہ ہی ہے اور مغربی دنیا کی سیاست بھی فی الو قت بڑی حد پناہ گزین مسئلہ کے گرد گھوم رہی ہے، آئیے میڈیا کے بیانات اور ہسٹیریا سے ہٹ کر اعداد و شمار اور حقائق کی روشنی میں پناہ گزین مسئلہ کا جائزہ لیں۔
گزشتہ سال جب کینیڈا میں پہلا فوجی جہاز 163 شامی مہاجرین کو لے کر ٹورنٹو کے پیرسن انٹرنیشنل ائرپورٹ پر اترا تو مسافروں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ملک کا نومنتخب وزیر اعظم بنفس نفیس شدید برف باری کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آدھی رات کو ان کے استقبال کے لئے موجود ہوگا۔ خصوصاً ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلم اور پناہ گزین مخالف بیانات کی وجہ سے جواں سال کینیڈین رہنما جسٹن ٹروڈو کے اس اقدام کو ساری دنیا میں سراہا گیا۔ اُس وقت پیرس اور بیلجیم کے بعد امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان برنارڈینو میں ہونے والی دہشت گردی سے مغربی دنیا صدمے کی حالت میں تھی اور وہاں مقیم مسلمان دم بخود تھے۔ ایک عرب صحافی کے بقول ائر پورٹ پر شامی مہاجرین کے فقید المثال استقبال کا منظر دیکھ کر انسانیت پر میرا ایمان پھر تازہ ہوگیا۔
کینیڈا میں شامی مہاجرین کے رشتے داروں کے علاوہ بے شمار سفید فام خاندانوں نے کثیر رقم خرچ کر انہیں سپانسر کیا۔ 25000 شامی مہاجرین کو کینیڈا میں آباد کرنا لبرل پارٹی کے انتخابی وعدوں میں تھا جسے اس نے جیتنے کے بعد بھی اپنی ترجیحات میں شامل رکھا. لبرلز کے مقابلے میں کنزرویٹو پارٹی نے نقاب پر پابندی لگا کر امیگرینٹس کے خلاف سفید فام کارڈ کھیلنے کی کوشش کی مگر اس کے انتخابی نعروں کو ،جو عموماً تقسیم اور ڈر کی سیاست پر مبنی تھے پذیرائی نہ مل سکی۔
کینیڈا کے برعکس پناہ گزینوں ہی کے مسئلہ پر جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل کو شدید سیاسی دباؤ برداشت کرنا پڑا۔ مرکل یورپ کی ان سیاستدانوں کی نمائندہ تھیں جو بظاہر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مگر در حقیقت یورپی ملکوں میں آبادی کے بحران پر قابو پانے کے لیے بڑی تعداد میں مہاجرین کو اپنے ملک میں آباد کرنے میں سنجیدہ تھے۔ تاہم دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں پناہ گزین مخالف جذبات کی نمائندگی کر رہی تھیں۔ابتداء میں ان کے مہاجر مخالف جلسوں میں حاضری نہ ہونے کے برابر تھی اور یورپ کے عوام عمومی طور پر پناہ گزینوں کی مدد کے متمنی تھے۔
پناہ گزین مخالف جماعتوں کو اصل پذیرائی اس وقت حاصل ہوئی جب2015 ء کے آغاز میں فرانس کے رسالے چارلی ہیبڈوکے دفتر پر حملہ ہوا جس میں اس کے ایڈیٹر سمیت سٹاف کے 15 افراد ہلاک ہوئے۔ اس حملے نے پناہ گزینوں سے متعلق مغربی دنیا کے خیر سگالی کے جذبات کو کسی حد تک منافرت اور نسل پرستی میں بدل دیا۔چارلی ہیبڈو کے بعد پیرس اور بیلجیم حملے سے یورپ کی رائے عامہ کا دل عمومی طور پر مہاجرین کے لیے سخت ہوتا چلا گیا۔
سن 2016ء کے نصف آخر میں فرانس کے شہر نیس پر ٹرک کے ذریعہ دہشت گرد حملے کے بعد جرمنی کے مختلف شہروں میں دھشتگردی کی پے درپے چار وارداتیں ہوئیں۔ ان کا اصل فائدہ مرکل کے سیاسی مخالفین اور پناہ گزینوں کے خلاف تنظیموںکو پہنچا۔ جرمن اخبار دیراسپیگل کے مطابق ''پناہ گزین مخالف تنظیم پگیڈا مہاجرین کے خلاف کھلم کھلا نازی نعرے استعمال کر رہی ہے''، مگر دائیں بازو کی جماعتیں اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں کہ ماضی میں اس سوچ سے جرمنی کو کتنا نقصان ہوا ۔ یہ تنظیمیں پناہ گزینوں کے علاوہ پولیس پر بھی حملوں میں ملوث ہیں۔
امیگریشن پالیسی کو تبدیل کرنے سے انکار پر مرکل کی پارٹی کو رواں سال کے ضمنی الیکشن میں واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک دلچسپ صورتحال اس وقت سامنے آئی جب مسلمانوں کی حمایت کے الزام کے طور پر الیکٹرونک میڈیا اورمہاجر مخالف جلسوں میں مرکل کی برقعہ میں ملبوس تصاویر سامنے آئیں۔ مرکل کے خلاف سیاسی دباؤ اس قدر بڑھا کہ مرکل کو بھی نقاب اور امیگریشن پر پابندی کی بات کرنی پڑی۔
اِن حملوں کی دہشت کو دائیں بازو کی جماعتیں مہاجر مخالف پروپیگنڈے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ بائیں بازو کا آزاد لبرل میڈیا برملا اس رائے کا اظہار کر رہا ہے کہ پچھلے دو برسوں سے ہونے والے پے در پے دہشت گرد حملے دراصل جعلی حملے ہیں جن کا مقصد یوروپی رائے عامہ کو پناہ گزینوں کے خلاف ابھارنا ہے اور اس کی وجہ اسلاموفوبیا کے علاوہ یہ خوف بھی پھیلا کہ یہ مہاجرین کہیں یورپ کا ثقافتی منظر نامہ تبدیل نہ کر دیں۔.
امریکی اخبار' وال سٹریٹ جرنل' کے سابق اسسٹنٹ ایڈیٹر پال کریگ رابرٹس کا کہنا ہے کہ پیرس، جرمنی، بیلجیم اور امریکا میں ہونے والے حملے سرد جنگ کے دوران نیٹو کے خفیہ آپریشن گلیڈ یو Gladio Operation سے قریبی مماثلت رکھتے ہیں جن میں نیٹو اور سی آئی اے نے بعض یورپی حکومتوں کے ساتھ مل کر ان کے شہریوں پر عام مقامات پر حملے کیے اور ان کا الزام کمیونسٹوں پر ڈال دیا۔ یہ جعلی حملے جو مغربی یورپ کو کمیونسٹ خطرے سے بچانے کے عظیم اور مقدس مقصد کو سامنے رکھ کر کیے گئے اب کوئی راز نہیں رہے۔ حکومتی سطح پر اٹلی کے سابق وزیراعظم گیلیوآندریوٹی نے اٹلی کی حکومت کے گلیڈیو آپریشن اور جعلی حملوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔
عام طور سے سیاستدان اور میڈیا دونوں اس حقیقت کو بے نقاب نہیں کرتے کہ پناہ گزینوں کو آباد کرنا دراصل انسانی ہمدردی سے زیادہ آبادی کے تناسب کو برقرار رکھنے کے لیے مغربی ممالک کی مجبوری ہے۔ مثلاً اس وقت جرمنی میں پیدائش کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے اور کام کرنے والی عمر کے جوانوں کے مقابلے میں پینشنر بوڑھوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ جرمنی جیسے تیزی سے ترقی کرتے صنعتی ملکوں کی معیشت کے لیے بہت تشویشناک مسئلہ ہے۔ جرمن ریسرچ اداروں کے مطابق ملکی صنعت کو لاکھوں ہنر مند اور غیر ہنر مند افراد کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کینیڈا کو اپنی آبادی میں توازن قائم رکھنے کے لیے ہر سال تقریباً ایک سے ڈھائی لاکھ نئے مہاجرین کو آباد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مہاجرین ان ملکوں کی معیشت کے لئے تازہ خون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مرکل یا ٹروڈو کا معاشی مہاجرین اور پناہ گزینوں کی حوصلہ افزائی کوئی خیرات نہیں بلکہ اپنے ملکوں کے مستقبل کے لیے سرمایہ کاری ہے۔ کینیڈین اخبار 'گلوب اینڈ میل' کے صحافی ڈاگ سینڈرز کے مطابق ''یورپ کو آج ماضی کی نسبت ورکرز کی زیادہ ضرورت ہے۔ صرف جرمنی کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت کو کام کرنے والی عمر کے 70لاکھ افراد کی ضرورت ہے۔''
جرمنی کے بعد ہنگری میں بھی شدید پناہ گزین مخالف رحجانات دیکھنے میں آئے جب ستمبر 2016ء میں آبادی کی اکثریت نے مہاجرین کی آباد کاری کے خلاف ووٹ دیا۔ یاد رہے کہ اس ریفرنڈم سے پہلے ہنگری کی حکمران جماعت نے بذات خود بل بورڈز کے ذریعہ پناہ گزینوں کے خلاف مہم چلائی جس میں عوام کو یقین دلایا گیا کہ یورپ میں دہشت گرد ی کرنے والے دراصل مہاجرین ہی ہیں جبکہ جرمن اخبار DW کے مطابق رواں سال ہنگری کی لیبر مارکٹ 35000افراد کار کی کمی کا شکار رہی۔'' اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ہنگری کے صنعت کاروں کی کنفیڈریشن کے وائس پریزیڈنٹ فرنیس کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے امیگریشن انتہائی اہم ہے، ہماری افرادی قوت ہر سال 40 سے 50 ہزار کم ہو جاتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اگلے دس سال میں ہمیں پانچ لاکھ ورکرز کی کمی کا سامنا ہو گا۔'' یادرہے کہ ہنگری کی آبادی بہت تیزی سے گررہی ہے۔
مغربی میڈیا کا رویہ بھی سیاست دانوں جیسا ہی ہے۔ ذرائع ابلاغ مہاجر مسئلہ کو 'انسانی المیہ' کے طور پر پیش کرتا ہے اور با اختیار اداروں اور حکومتوں سے انسانی ہمدردی کی اپیل بھی کرتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ ہر دہشت گردی کی واردات کے بعد تحقیقات سے پہلے ہی پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے بیانات کو دہراتا بھی رہتا ہے جبکہ صحافتی اصولوں کے مطابق میڈیا کو واقعات کی آزادانہ تحقیقات کرنی چاہیں، سرکاری بیانات اور موقف کو چیلنج بھی کرنا چاہئے۔ مغرب کو درپیش آبادی کے مسئلے سے عوام کو پوری طرح آگاہ کرنے کی کوشش نہیں کیاجاتا اور نہ ہی ان اعداد و شمار کو سامنے لایا جاتا ہے جن کے مطابق مہاجرین یورپ کے مستقبل کے لیے ناگزیر ہیں۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ شامی تنازع کے آغاز سے ہی میں مشرق وسطہ میں 48 لاکھ پناہ گزینوں کی موجودگی کے باوجود یورپ کے برعکس یہاں ان کے خلاف ایک مظاہرہ بھی نہیں ہوا نہ ہی کسی نے ان کے خلاف نفرت بھڑکا کر اپنی سیاست چمکائی۔
مہاجر مسئلہ، دہشت گردی اور مغربی سیاست کے ساتھ خلط ملط ہوکر نسل پرستی کو فروغ دے رہا ہے اور دنیا تیزی سے تہذیبوں کے تصادم کی طرف بڑھ اور گلوبلا ئز یشن سے دور ہو رہی ہے۔ مہاجرین کے مسئلہ پر خلیجی ممالک کے رویہ پر تمام مسلم دنیا کو مورد الزام ٹھرایا جا سکتا ہے نہ ہی ڈونلڈ ٹرمپ اور جرمنی کی پرو نازی تنظیموں کے رویہ پر تمام مغربی دنیا کو۔ اس کرہ ارض پر لبنان، پاکستان، ایران اور ترکی جیسے ملک بھی موجود ہیں جن کا شمار خود تیسری دنیا کے جنگ یا تنازع سے متاثرہ ملکوں میں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود طویل عرصہ سے فلسطینی، افغانی اور اب لاکھوں کی تعداد میں شامی مہاجرین کا بار خاموشی سے اٹھائے ہوئے ہیں اسی دنیامیں کینیڈا جیسے ملک بھی موجود ہیں جہاں اگر ایک فرد شامی مہاجرین پر مرچوں کا اسپرے کر دے تو ملک کا وزیراعظم خود ٹویٹر پر اس کی معافی مانگتا ہے اور مرکل جیسے سیاستدان بھی ہیں جو طویل عرصہ تک پناہ گزین مسئلہ پر سیاسی نقصانات برداشت کرتی رہیں لیکن اپنے اصولی موقف سے پیچھے نہ ہٹیں۔
امریکا کی جنگ مخالف سیاسی کارکن سنڈی شیھان کا کہنا ہے کہ ''پناہ گزین مسئلہ کا اصل حل ان حالات کو ختم کرنا ہے جن کی وجہ سے انہیں ہجرت کرنا پڑی اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک بڑی طاقتیں مشرق وسطیٰ میں تنازع کا شکار فریقین کی حوصلہ افزائی کرکے اپنی پروکسی لڑائیاں لڑنا بند نہیں کریں گی''۔
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں پیو ریسرچ سینٹر، انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائگریشن ، اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے امیگریشن کے اعداد و شمارکے علاوہ جرمن اخبار دیر اسیپگل اور ڈی ڈبلیو، کینیڈین اخبار گلوب اینڈ میل اور برطانوی اخبار گارڈین سے استفادہ کیا گیا۔ امریکی سیاسی کارکن سنڈی شیھان کے ریمارکس سکا ئپ پر ان سے لئے گئے انٹرویو پر مبنی ہیں۔
پھر2011ء کی عرب بہار کے بعد شام میں خانہ جنگی چھڑگئی اور یسریٰ کی جنت تیزی سے دوزخ میں بدلنے لگی۔ آخر کار یسریٰ اور اسکی بہن کو شام چھوڑ کر جرمنی میں پناہ لینا پڑی۔ تھنک ٹینک'پیو ریسرچ سینٹر' کی ایک رپورٹ کے مطابق2011 ء میں شامی صدر بشار الاسد کے خلاف احتجاج کے آغاز سے اب تک ہر 10 میں سے 6 شامیوں کو لڑائی کے سبب اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ کسی ایک ملک کی آبادی کے اس قدر بڑی تعداد میں بے گھر ہونے کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
ان بے گھر افراد میں سے74 لاکھ افراد اپنے ہی ملک کے دوسرے علاقوں میں جبکہ تقریباً48 لاکھ مہاجرین پڑوسی ممالک میں منتقل ہوئے، جن میں ترکی میں 27 لاکھ جبکہ لبنان، اردن، مصر اورعراق میں مجموعی طور پر 21 لاکھ مقیم ہیں۔
اس طرح تقریباً 50لاکھ سے زائد شامی مشرق وسطیٰ ہی کے مختلف ملکوں میں پناہ گزین کے طور پر رجسٹرڈ ہیں۔ غیر رجسٹرڈ مہاجرین بھی بڑی تعداد میں انہی ملکوں میں ٹہرے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف مسلم دنیا کے امیر ترین ممالک سعودی عرب، کویت، قطر، عرب امارات اور عمان نے ان کے لیے اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں۔تاہم سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کا دعویٰ ہے کہ چالیس لاکھ شامی مہاجرین سعودی عرب میں مقیم ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ براے مہاجرین(UNHCR)ہی کے اعدادوشمار کے مطابق اپریل 2011 ء سے اکتوبر2016 ء تک یورپ کے37 ملکوں میں پناہ کی درخو است دینے والے شامی مہاجرین کی تعداد آٹھ لاکھ84ہزار461 یعنی ایک ملین سے بھی کم ہے۔ یہ شامی مہاجرین کی مجموعی تعداد کا 10 فیصد سے بھی کم ہے مگر بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا اصل مرکز عموماً مغربی منظر نامہ ہی ہے اور مغربی دنیا کی سیاست بھی فی الو قت بڑی حد پناہ گزین مسئلہ کے گرد گھوم رہی ہے، آئیے میڈیا کے بیانات اور ہسٹیریا سے ہٹ کر اعداد و شمار اور حقائق کی روشنی میں پناہ گزین مسئلہ کا جائزہ لیں۔
گزشتہ سال جب کینیڈا میں پہلا فوجی جہاز 163 شامی مہاجرین کو لے کر ٹورنٹو کے پیرسن انٹرنیشنل ائرپورٹ پر اترا تو مسافروں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ملک کا نومنتخب وزیر اعظم بنفس نفیس شدید برف باری کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آدھی رات کو ان کے استقبال کے لئے موجود ہوگا۔ خصوصاً ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلم اور پناہ گزین مخالف بیانات کی وجہ سے جواں سال کینیڈین رہنما جسٹن ٹروڈو کے اس اقدام کو ساری دنیا میں سراہا گیا۔ اُس وقت پیرس اور بیلجیم کے بعد امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان برنارڈینو میں ہونے والی دہشت گردی سے مغربی دنیا صدمے کی حالت میں تھی اور وہاں مقیم مسلمان دم بخود تھے۔ ایک عرب صحافی کے بقول ائر پورٹ پر شامی مہاجرین کے فقید المثال استقبال کا منظر دیکھ کر انسانیت پر میرا ایمان پھر تازہ ہوگیا۔
کینیڈا میں شامی مہاجرین کے رشتے داروں کے علاوہ بے شمار سفید فام خاندانوں نے کثیر رقم خرچ کر انہیں سپانسر کیا۔ 25000 شامی مہاجرین کو کینیڈا میں آباد کرنا لبرل پارٹی کے انتخابی وعدوں میں تھا جسے اس نے جیتنے کے بعد بھی اپنی ترجیحات میں شامل رکھا. لبرلز کے مقابلے میں کنزرویٹو پارٹی نے نقاب پر پابندی لگا کر امیگرینٹس کے خلاف سفید فام کارڈ کھیلنے کی کوشش کی مگر اس کے انتخابی نعروں کو ،جو عموماً تقسیم اور ڈر کی سیاست پر مبنی تھے پذیرائی نہ مل سکی۔
کینیڈا کے برعکس پناہ گزینوں ہی کے مسئلہ پر جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل کو شدید سیاسی دباؤ برداشت کرنا پڑا۔ مرکل یورپ کی ان سیاستدانوں کی نمائندہ تھیں جو بظاہر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مگر در حقیقت یورپی ملکوں میں آبادی کے بحران پر قابو پانے کے لیے بڑی تعداد میں مہاجرین کو اپنے ملک میں آباد کرنے میں سنجیدہ تھے۔ تاہم دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں پناہ گزین مخالف جذبات کی نمائندگی کر رہی تھیں۔ابتداء میں ان کے مہاجر مخالف جلسوں میں حاضری نہ ہونے کے برابر تھی اور یورپ کے عوام عمومی طور پر پناہ گزینوں کی مدد کے متمنی تھے۔
پناہ گزین مخالف جماعتوں کو اصل پذیرائی اس وقت حاصل ہوئی جب2015 ء کے آغاز میں فرانس کے رسالے چارلی ہیبڈوکے دفتر پر حملہ ہوا جس میں اس کے ایڈیٹر سمیت سٹاف کے 15 افراد ہلاک ہوئے۔ اس حملے نے پناہ گزینوں سے متعلق مغربی دنیا کے خیر سگالی کے جذبات کو کسی حد تک منافرت اور نسل پرستی میں بدل دیا۔چارلی ہیبڈو کے بعد پیرس اور بیلجیم حملے سے یورپ کی رائے عامہ کا دل عمومی طور پر مہاجرین کے لیے سخت ہوتا چلا گیا۔
سن 2016ء کے نصف آخر میں فرانس کے شہر نیس پر ٹرک کے ذریعہ دہشت گرد حملے کے بعد جرمنی کے مختلف شہروں میں دھشتگردی کی پے درپے چار وارداتیں ہوئیں۔ ان کا اصل فائدہ مرکل کے سیاسی مخالفین اور پناہ گزینوں کے خلاف تنظیموںکو پہنچا۔ جرمن اخبار دیراسپیگل کے مطابق ''پناہ گزین مخالف تنظیم پگیڈا مہاجرین کے خلاف کھلم کھلا نازی نعرے استعمال کر رہی ہے''، مگر دائیں بازو کی جماعتیں اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں کہ ماضی میں اس سوچ سے جرمنی کو کتنا نقصان ہوا ۔ یہ تنظیمیں پناہ گزینوں کے علاوہ پولیس پر بھی حملوں میں ملوث ہیں۔
امیگریشن پالیسی کو تبدیل کرنے سے انکار پر مرکل کی پارٹی کو رواں سال کے ضمنی الیکشن میں واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک دلچسپ صورتحال اس وقت سامنے آئی جب مسلمانوں کی حمایت کے الزام کے طور پر الیکٹرونک میڈیا اورمہاجر مخالف جلسوں میں مرکل کی برقعہ میں ملبوس تصاویر سامنے آئیں۔ مرکل کے خلاف سیاسی دباؤ اس قدر بڑھا کہ مرکل کو بھی نقاب اور امیگریشن پر پابندی کی بات کرنی پڑی۔
اِن حملوں کی دہشت کو دائیں بازو کی جماعتیں مہاجر مخالف پروپیگنڈے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ بائیں بازو کا آزاد لبرل میڈیا برملا اس رائے کا اظہار کر رہا ہے کہ پچھلے دو برسوں سے ہونے والے پے در پے دہشت گرد حملے دراصل جعلی حملے ہیں جن کا مقصد یوروپی رائے عامہ کو پناہ گزینوں کے خلاف ابھارنا ہے اور اس کی وجہ اسلاموفوبیا کے علاوہ یہ خوف بھی پھیلا کہ یہ مہاجرین کہیں یورپ کا ثقافتی منظر نامہ تبدیل نہ کر دیں۔.
امریکی اخبار' وال سٹریٹ جرنل' کے سابق اسسٹنٹ ایڈیٹر پال کریگ رابرٹس کا کہنا ہے کہ پیرس، جرمنی، بیلجیم اور امریکا میں ہونے والے حملے سرد جنگ کے دوران نیٹو کے خفیہ آپریشن گلیڈ یو Gladio Operation سے قریبی مماثلت رکھتے ہیں جن میں نیٹو اور سی آئی اے نے بعض یورپی حکومتوں کے ساتھ مل کر ان کے شہریوں پر عام مقامات پر حملے کیے اور ان کا الزام کمیونسٹوں پر ڈال دیا۔ یہ جعلی حملے جو مغربی یورپ کو کمیونسٹ خطرے سے بچانے کے عظیم اور مقدس مقصد کو سامنے رکھ کر کیے گئے اب کوئی راز نہیں رہے۔ حکومتی سطح پر اٹلی کے سابق وزیراعظم گیلیوآندریوٹی نے اٹلی کی حکومت کے گلیڈیو آپریشن اور جعلی حملوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔
عام طور سے سیاستدان اور میڈیا دونوں اس حقیقت کو بے نقاب نہیں کرتے کہ پناہ گزینوں کو آباد کرنا دراصل انسانی ہمدردی سے زیادہ آبادی کے تناسب کو برقرار رکھنے کے لیے مغربی ممالک کی مجبوری ہے۔ مثلاً اس وقت جرمنی میں پیدائش کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے اور کام کرنے والی عمر کے جوانوں کے مقابلے میں پینشنر بوڑھوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ جرمنی جیسے تیزی سے ترقی کرتے صنعتی ملکوں کی معیشت کے لیے بہت تشویشناک مسئلہ ہے۔ جرمن ریسرچ اداروں کے مطابق ملکی صنعت کو لاکھوں ہنر مند اور غیر ہنر مند افراد کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کینیڈا کو اپنی آبادی میں توازن قائم رکھنے کے لیے ہر سال تقریباً ایک سے ڈھائی لاکھ نئے مہاجرین کو آباد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مہاجرین ان ملکوں کی معیشت کے لئے تازہ خون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مرکل یا ٹروڈو کا معاشی مہاجرین اور پناہ گزینوں کی حوصلہ افزائی کوئی خیرات نہیں بلکہ اپنے ملکوں کے مستقبل کے لیے سرمایہ کاری ہے۔ کینیڈین اخبار 'گلوب اینڈ میل' کے صحافی ڈاگ سینڈرز کے مطابق ''یورپ کو آج ماضی کی نسبت ورکرز کی زیادہ ضرورت ہے۔ صرف جرمنی کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت کو کام کرنے والی عمر کے 70لاکھ افراد کی ضرورت ہے۔''
جرمنی کے بعد ہنگری میں بھی شدید پناہ گزین مخالف رحجانات دیکھنے میں آئے جب ستمبر 2016ء میں آبادی کی اکثریت نے مہاجرین کی آباد کاری کے خلاف ووٹ دیا۔ یاد رہے کہ اس ریفرنڈم سے پہلے ہنگری کی حکمران جماعت نے بذات خود بل بورڈز کے ذریعہ پناہ گزینوں کے خلاف مہم چلائی جس میں عوام کو یقین دلایا گیا کہ یورپ میں دہشت گرد ی کرنے والے دراصل مہاجرین ہی ہیں جبکہ جرمن اخبار DW کے مطابق رواں سال ہنگری کی لیبر مارکٹ 35000افراد کار کی کمی کا شکار رہی۔'' اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ہنگری کے صنعت کاروں کی کنفیڈریشن کے وائس پریزیڈنٹ فرنیس کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے امیگریشن انتہائی اہم ہے، ہماری افرادی قوت ہر سال 40 سے 50 ہزار کم ہو جاتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اگلے دس سال میں ہمیں پانچ لاکھ ورکرز کی کمی کا سامنا ہو گا۔'' یادرہے کہ ہنگری کی آبادی بہت تیزی سے گررہی ہے۔
مغربی میڈیا کا رویہ بھی سیاست دانوں جیسا ہی ہے۔ ذرائع ابلاغ مہاجر مسئلہ کو 'انسانی المیہ' کے طور پر پیش کرتا ہے اور با اختیار اداروں اور حکومتوں سے انسانی ہمدردی کی اپیل بھی کرتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ ہر دہشت گردی کی واردات کے بعد تحقیقات سے پہلے ہی پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے بیانات کو دہراتا بھی رہتا ہے جبکہ صحافتی اصولوں کے مطابق میڈیا کو واقعات کی آزادانہ تحقیقات کرنی چاہیں، سرکاری بیانات اور موقف کو چیلنج بھی کرنا چاہئے۔ مغرب کو درپیش آبادی کے مسئلے سے عوام کو پوری طرح آگاہ کرنے کی کوشش نہیں کیاجاتا اور نہ ہی ان اعداد و شمار کو سامنے لایا جاتا ہے جن کے مطابق مہاجرین یورپ کے مستقبل کے لیے ناگزیر ہیں۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ شامی تنازع کے آغاز سے ہی میں مشرق وسطہ میں 48 لاکھ پناہ گزینوں کی موجودگی کے باوجود یورپ کے برعکس یہاں ان کے خلاف ایک مظاہرہ بھی نہیں ہوا نہ ہی کسی نے ان کے خلاف نفرت بھڑکا کر اپنی سیاست چمکائی۔
مہاجر مسئلہ، دہشت گردی اور مغربی سیاست کے ساتھ خلط ملط ہوکر نسل پرستی کو فروغ دے رہا ہے اور دنیا تیزی سے تہذیبوں کے تصادم کی طرف بڑھ اور گلوبلا ئز یشن سے دور ہو رہی ہے۔ مہاجرین کے مسئلہ پر خلیجی ممالک کے رویہ پر تمام مسلم دنیا کو مورد الزام ٹھرایا جا سکتا ہے نہ ہی ڈونلڈ ٹرمپ اور جرمنی کی پرو نازی تنظیموں کے رویہ پر تمام مغربی دنیا کو۔ اس کرہ ارض پر لبنان، پاکستان، ایران اور ترکی جیسے ملک بھی موجود ہیں جن کا شمار خود تیسری دنیا کے جنگ یا تنازع سے متاثرہ ملکوں میں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود طویل عرصہ سے فلسطینی، افغانی اور اب لاکھوں کی تعداد میں شامی مہاجرین کا بار خاموشی سے اٹھائے ہوئے ہیں اسی دنیامیں کینیڈا جیسے ملک بھی موجود ہیں جہاں اگر ایک فرد شامی مہاجرین پر مرچوں کا اسپرے کر دے تو ملک کا وزیراعظم خود ٹویٹر پر اس کی معافی مانگتا ہے اور مرکل جیسے سیاستدان بھی ہیں جو طویل عرصہ تک پناہ گزین مسئلہ پر سیاسی نقصانات برداشت کرتی رہیں لیکن اپنے اصولی موقف سے پیچھے نہ ہٹیں۔
امریکا کی جنگ مخالف سیاسی کارکن سنڈی شیھان کا کہنا ہے کہ ''پناہ گزین مسئلہ کا اصل حل ان حالات کو ختم کرنا ہے جن کی وجہ سے انہیں ہجرت کرنا پڑی اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک بڑی طاقتیں مشرق وسطیٰ میں تنازع کا شکار فریقین کی حوصلہ افزائی کرکے اپنی پروکسی لڑائیاں لڑنا بند نہیں کریں گی''۔
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں پیو ریسرچ سینٹر، انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائگریشن ، اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے امیگریشن کے اعداد و شمارکے علاوہ جرمن اخبار دیر اسیپگل اور ڈی ڈبلیو، کینیڈین اخبار گلوب اینڈ میل اور برطانوی اخبار گارڈین سے استفادہ کیا گیا۔ امریکی سیاسی کارکن سنڈی شیھان کے ریمارکس سکا ئپ پر ان سے لئے گئے انٹرویو پر مبنی ہیں۔