گوادر پاکستان کے افق پر روشن ستارہ
پاکستان اللہ پاک کی عظیم و عالیشان نعمتوں سے بھری ہوئی ایک سرزمین ہے
SHABQADAR:
پاکستان اللہ پاک کی عظیم و عالیشان نعمتوں سے بھری ہوئی ایک ایسی سرزمین ہے، جہاں ہم رہتے ہوئے جتنا شکر ادا کریں اتنا کم ہے۔ کیا کچھ ہمارے پاس ہے اور کیسی کیسی زبردست معدنیات سے لدا پھندا یہ ملک سونا چاندی اگلنے کو ہر دم تیار ہے۔ CPEC کے منصوبے نے دنیا کی آنکھیں خیرہ کردی ہیں۔ یہ ایک ایسا عظیم منصوبہ ہے جو پاک فوج کی زیر نگرانی پھل پھول رہا ہے۔
گوادر کا نیلا شفاف سمندر، صاف ستھری ہوائیں، ایک ایسے شہر کے بسنے کی آواز لگاتا ہے جو نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہوگا۔ گوادر کوسٹل ہائی وے ایک ایسا سفر ہے جس میں پریوں کے دیس والے پہاڑ جابجا اپنی خوبصورتی بکھیر رہے ہیں۔ اس طویل سفر پر روانہ کوئی بھی شخص پورا نہیں ہوسکتا کہ قدرت کی رعنائیاں بے انتہا خوبصورتی کے ساتھ ہم سفر ہیں۔
انتہائی طویل سفر بھی خوبصورت اور یادگار بن جاتا ہے، جب سفر گوادر کوسٹل ہائی وے پر رواں دواں ہو۔ ابھی کیونکہ یہ شہر اپنے ابتدائی درجے پر ہے مگر جس طرح کی پلاننگ اور جس طرح سیکیورٹی کے ایشوز کو ہینڈل کیا جا رہا ہے اس سے لگتا تو یہ ہے کہ جلد ازجلد یہ شہر ایک اسمارٹ شہر بن کر دنیا کے خطے پر چمکے گا۔ کہتے ہیں دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں مگر گوادر جاکر ایسا لگتا ہے کہ شاید یہ ڈھول اس شہر میں آکر اور بھی سہانے ہوگئے ہیں۔
گوادر پورٹ اور چینی مینجمنٹ ایک بے انتہا کمال کی صورتحال ہے، اس پورٹ میں کھڑے ہوکر لگتا ہی نہیں کہ ہم اپنے ملک کے پورٹ میں کھڑے ہیں۔ بے انتہا منظم اور بے انتہا لگن کے ساتھ تمام مدارج طے کیے جا رہے ہیں۔ گو کہ چینیوں کے حوالے سے گوادر کے مقامی لوگ کچھ تحفظات کا شکار بھی ہے۔ ان کو محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان کے مواقع یہ چینی حاصل کر چکے ہیں، مگر جس طرح گوادر شہر کی پلاننگ کی جا رہی ہے اور مقامی لوگوں کے لیے اسکول، کالجز، یونیورسٹی، اسکالرشپ اور ان کے حالات بہتر بنانے کے لیے جو اقدامات پلاننگ کا حصہ ہیں، اگر یہ اسی طرح نافذ بھی ہوئے اور ہوتے رہے تو شاید گوادر کا مقامی کچھ سکون محسوس کرے۔ مقامی لوگوں کو چینی زبان بھی سکھائی جا رہی ہے، 40 سال کے لیے ملک چین کو دی گئی گوادر کی باگ ڈور میں ایک عام ان پڑھ پاکستانی کیسے اپنا شیئر ڈالے گا اور کیسے اپنے حال اور مستقبل کو روشن کرے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
گوادر شہر جانے والی کوسٹل ہائی وے گوکہ بہت زیادہ پہاڑوں کی خوبصورتی سے سجی ہوئی ہے مگر اس طویل شاہراہ کو مزید ٹورزم کے حوالے سے بہترین بنایا جا سکتا ہے۔ قدرت کی رعنائی سے بھرے ہوئے یہ پہاڑ بہترین اسکیچ کا حصہ محسوس ہوتے ہیں۔ کراچی سے ڈھائی سوکلو میٹر پر کند ملیر کا ساحل اور اس کا سبز و نیلا سمندر بے انتہا شاندار ساحل سمندر ہے، جہاں ویک اینڈ پر بے انتہا رش کی صورتحال ہوتی ہے۔
پھر اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اس طرح کے نایاب بیچ Beach کو جدید سہولتوں سے آراستہ کیا جائے۔ بہترین رہنے کے لیے ریسٹورنٹ کی موجودگی ٹورزم کو فروغ دینے کا باعث بنے گی۔ نہ جانے کیوں ہم اللہ کی نایاب نعمتوں کی اتنی قدر و قیمت نہیں کرتے، جتنا ان کا حق ہوتا ہے۔ یہی beach اگر کسی اور ملک میں ہو تو وہ لاکھوں زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ بہرحال جیسے جیسے CPEC کا منصوبہ آگے بڑھتا جائے گا سفر اور تفریح کی جگہیں بھی ترقی پائیں گی۔
گوادر کی ترقی اور پورٹ کے حوالے سے انڈسٹری کے حوالے سے 2005ء سے جو شروعات ہوئیں پھر درمیان میں رک گئیں مگر اب پھر سے تیزی کے ساتھ وہاں انڈسٹریل ایریا تیار ہو رہا ہے، ہاں وہاں انڈسٹری لگانے والوں کی ایک ڈیمانڈ ضرور ہے کہ حکومت ان کو 20 سال کے لیے ٹیکس فری زون بنا دے، تاکہ وہ اس شہر کی انڈسٹری کو مضبوطی سے جماسکیں۔ میدان میں کھڑے پہاڑوں کو گرانا، زمین کو ہموار بنانا، گیس، بجلی، پانی ان تمام بنیادی ضرورتوں کا حصول ہی اس انڈسٹری کو جما سکتا ہے۔
مقامی باشندوں کو مختلف مراعات اور ان کی زمین کے بدلے بہتر زمین اور رقم بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ جو زمینیں حاصل کی جا رہی ہیں ان کی بہترین پلاننگ بھی پائپ لائن میں ہے۔ ابھی جو صورتحال گوادر میں ہے کہ پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے، جس کے لیے ہنگامی طور پر پلانٹ لگائے جانے چاہئیں، بنیادی ضروریات کی بغیر رکے فراہمی کی اس شہر کو تیزی سے ترقی دلا سکتی ہے۔ صفائی و ستھرائی کا مکمل نظام ابھی سے بنانے کی بھی شدید ضرورت ہے۔
گوادر کا مقامی ماہی گیر بھی بہت پرامید نظر آتا ہے کہ جیسے جیسے سی پیک کا منصوبہ آگے بڑھے، جیسے جیسے گوادر پورٹ فنکشنل ہو گا، تو بڑی بڑی انڈسٹریوں کی صورت میں گوادر سے Sea Food ایکسپورٹ ہو سکے گا۔ یہ شہر بس جائے تو یہاں زبردست فوڈ اسٹریٹ کا قیام بھی لاجواب ہو گا۔ بے انتہا شاندار ڈیزائننگ کی جا رہی ہے، روڈ کے ساتھ ساتھ گوادر کو مختلف شہروں سے ٹرین کے ذریعے اور فیری سروسز کے ذریعے بھی جوڑا جائے گا جو یقیناً تفریح کا باعث بھی ہو گا۔ پاکستان کے مختلف شہروں سے بلکہ دنیا کے مختلف ممالک سے لوگوں کی دلچسپی اس شہر سے بڑھتی جا رہی ہے۔ چائنیز اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کر رہے ہیں۔ ایک نیا ٹرمینل بھی زیر تعمیر ہے۔
PC جیسا شاندار ہوٹل بھی اس شہر کے اونچے پہاڑ، مہندی پہاڑ پر اپنی سروسز دے رہا ہے۔ سیکیورٹی کا کوئی ایشو نظر نہیں آتا، پرسکون اور پر فضا یہ شہر منتظر ہے کہ اس میں بہترین سوجھ بوجھ کے ساتھ کام کیا جائے، پاکستانی اور چائنیز دونوں اپنی محنت و لگن سے اس شہر کو دنیا کے لیے مثال بنا سکتے ہیں اور ایسا ہی نظر آتا ہے بلوچستان کے لوگ بھی شادآباد ہو جائیں اور ان کو بھی بہترین مواقع فراہم کیے جائیں۔ مقامی آبادی اور بلوچستان کے لوگ کچھ تحفظات اس طرح بھی رکھتے ہیں کہ کہیں ملازمتوں کے مواقع ان سے چھن کر چائنیز کے ہاتھوں میں نہ چلے جائیں اور وہ منہ تکتے نہ رہ جائیں، اور اقلیت بن جائیں، مگر اسکول، کالجز کا قیام اس بات کی علامت ہے کہ اب اس مقامی آبادی کو بھی کھلے ذہن کے ساتھ اپنی سوچوں کو پھیلانا ہو گا اور زبردست طریقے سے تعلیم کا حصول اور مختلف ٹریننگ کا حصول ہی مفید ہو گا۔
خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے شدید جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب ہم سب ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے تھامیں ایک دوسرے کو دھکا نہ دیجیے بلکہ مضبوطی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر چلیے کہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں۔
پاکستان اللہ پاک کی عظیم و عالیشان نعمتوں سے بھری ہوئی ایک ایسی سرزمین ہے، جہاں ہم رہتے ہوئے جتنا شکر ادا کریں اتنا کم ہے۔ کیا کچھ ہمارے پاس ہے اور کیسی کیسی زبردست معدنیات سے لدا پھندا یہ ملک سونا چاندی اگلنے کو ہر دم تیار ہے۔ CPEC کے منصوبے نے دنیا کی آنکھیں خیرہ کردی ہیں۔ یہ ایک ایسا عظیم منصوبہ ہے جو پاک فوج کی زیر نگرانی پھل پھول رہا ہے۔
گوادر کا نیلا شفاف سمندر، صاف ستھری ہوائیں، ایک ایسے شہر کے بسنے کی آواز لگاتا ہے جو نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہوگا۔ گوادر کوسٹل ہائی وے ایک ایسا سفر ہے جس میں پریوں کے دیس والے پہاڑ جابجا اپنی خوبصورتی بکھیر رہے ہیں۔ اس طویل سفر پر روانہ کوئی بھی شخص پورا نہیں ہوسکتا کہ قدرت کی رعنائیاں بے انتہا خوبصورتی کے ساتھ ہم سفر ہیں۔
انتہائی طویل سفر بھی خوبصورت اور یادگار بن جاتا ہے، جب سفر گوادر کوسٹل ہائی وے پر رواں دواں ہو۔ ابھی کیونکہ یہ شہر اپنے ابتدائی درجے پر ہے مگر جس طرح کی پلاننگ اور جس طرح سیکیورٹی کے ایشوز کو ہینڈل کیا جا رہا ہے اس سے لگتا تو یہ ہے کہ جلد ازجلد یہ شہر ایک اسمارٹ شہر بن کر دنیا کے خطے پر چمکے گا۔ کہتے ہیں دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں مگر گوادر جاکر ایسا لگتا ہے کہ شاید یہ ڈھول اس شہر میں آکر اور بھی سہانے ہوگئے ہیں۔
گوادر پورٹ اور چینی مینجمنٹ ایک بے انتہا کمال کی صورتحال ہے، اس پورٹ میں کھڑے ہوکر لگتا ہی نہیں کہ ہم اپنے ملک کے پورٹ میں کھڑے ہیں۔ بے انتہا منظم اور بے انتہا لگن کے ساتھ تمام مدارج طے کیے جا رہے ہیں۔ گو کہ چینیوں کے حوالے سے گوادر کے مقامی لوگ کچھ تحفظات کا شکار بھی ہے۔ ان کو محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان کے مواقع یہ چینی حاصل کر چکے ہیں، مگر جس طرح گوادر شہر کی پلاننگ کی جا رہی ہے اور مقامی لوگوں کے لیے اسکول، کالجز، یونیورسٹی، اسکالرشپ اور ان کے حالات بہتر بنانے کے لیے جو اقدامات پلاننگ کا حصہ ہیں، اگر یہ اسی طرح نافذ بھی ہوئے اور ہوتے رہے تو شاید گوادر کا مقامی کچھ سکون محسوس کرے۔ مقامی لوگوں کو چینی زبان بھی سکھائی جا رہی ہے، 40 سال کے لیے ملک چین کو دی گئی گوادر کی باگ ڈور میں ایک عام ان پڑھ پاکستانی کیسے اپنا شیئر ڈالے گا اور کیسے اپنے حال اور مستقبل کو روشن کرے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
گوادر شہر جانے والی کوسٹل ہائی وے گوکہ بہت زیادہ پہاڑوں کی خوبصورتی سے سجی ہوئی ہے مگر اس طویل شاہراہ کو مزید ٹورزم کے حوالے سے بہترین بنایا جا سکتا ہے۔ قدرت کی رعنائی سے بھرے ہوئے یہ پہاڑ بہترین اسکیچ کا حصہ محسوس ہوتے ہیں۔ کراچی سے ڈھائی سوکلو میٹر پر کند ملیر کا ساحل اور اس کا سبز و نیلا سمندر بے انتہا شاندار ساحل سمندر ہے، جہاں ویک اینڈ پر بے انتہا رش کی صورتحال ہوتی ہے۔
پھر اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اس طرح کے نایاب بیچ Beach کو جدید سہولتوں سے آراستہ کیا جائے۔ بہترین رہنے کے لیے ریسٹورنٹ کی موجودگی ٹورزم کو فروغ دینے کا باعث بنے گی۔ نہ جانے کیوں ہم اللہ کی نایاب نعمتوں کی اتنی قدر و قیمت نہیں کرتے، جتنا ان کا حق ہوتا ہے۔ یہی beach اگر کسی اور ملک میں ہو تو وہ لاکھوں زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ بہرحال جیسے جیسے CPEC کا منصوبہ آگے بڑھتا جائے گا سفر اور تفریح کی جگہیں بھی ترقی پائیں گی۔
گوادر کی ترقی اور پورٹ کے حوالے سے انڈسٹری کے حوالے سے 2005ء سے جو شروعات ہوئیں پھر درمیان میں رک گئیں مگر اب پھر سے تیزی کے ساتھ وہاں انڈسٹریل ایریا تیار ہو رہا ہے، ہاں وہاں انڈسٹری لگانے والوں کی ایک ڈیمانڈ ضرور ہے کہ حکومت ان کو 20 سال کے لیے ٹیکس فری زون بنا دے، تاکہ وہ اس شہر کی انڈسٹری کو مضبوطی سے جماسکیں۔ میدان میں کھڑے پہاڑوں کو گرانا، زمین کو ہموار بنانا، گیس، بجلی، پانی ان تمام بنیادی ضرورتوں کا حصول ہی اس انڈسٹری کو جما سکتا ہے۔
مقامی باشندوں کو مختلف مراعات اور ان کی زمین کے بدلے بہتر زمین اور رقم بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ جو زمینیں حاصل کی جا رہی ہیں ان کی بہترین پلاننگ بھی پائپ لائن میں ہے۔ ابھی جو صورتحال گوادر میں ہے کہ پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے، جس کے لیے ہنگامی طور پر پلانٹ لگائے جانے چاہئیں، بنیادی ضروریات کی بغیر رکے فراہمی کی اس شہر کو تیزی سے ترقی دلا سکتی ہے۔ صفائی و ستھرائی کا مکمل نظام ابھی سے بنانے کی بھی شدید ضرورت ہے۔
گوادر کا مقامی ماہی گیر بھی بہت پرامید نظر آتا ہے کہ جیسے جیسے سی پیک کا منصوبہ آگے بڑھے، جیسے جیسے گوادر پورٹ فنکشنل ہو گا، تو بڑی بڑی انڈسٹریوں کی صورت میں گوادر سے Sea Food ایکسپورٹ ہو سکے گا۔ یہ شہر بس جائے تو یہاں زبردست فوڈ اسٹریٹ کا قیام بھی لاجواب ہو گا۔ بے انتہا شاندار ڈیزائننگ کی جا رہی ہے، روڈ کے ساتھ ساتھ گوادر کو مختلف شہروں سے ٹرین کے ذریعے اور فیری سروسز کے ذریعے بھی جوڑا جائے گا جو یقیناً تفریح کا باعث بھی ہو گا۔ پاکستان کے مختلف شہروں سے بلکہ دنیا کے مختلف ممالک سے لوگوں کی دلچسپی اس شہر سے بڑھتی جا رہی ہے۔ چائنیز اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کر رہے ہیں۔ ایک نیا ٹرمینل بھی زیر تعمیر ہے۔
PC جیسا شاندار ہوٹل بھی اس شہر کے اونچے پہاڑ، مہندی پہاڑ پر اپنی سروسز دے رہا ہے۔ سیکیورٹی کا کوئی ایشو نظر نہیں آتا، پرسکون اور پر فضا یہ شہر منتظر ہے کہ اس میں بہترین سوجھ بوجھ کے ساتھ کام کیا جائے، پاکستانی اور چائنیز دونوں اپنی محنت و لگن سے اس شہر کو دنیا کے لیے مثال بنا سکتے ہیں اور ایسا ہی نظر آتا ہے بلوچستان کے لوگ بھی شادآباد ہو جائیں اور ان کو بھی بہترین مواقع فراہم کیے جائیں۔ مقامی آبادی اور بلوچستان کے لوگ کچھ تحفظات اس طرح بھی رکھتے ہیں کہ کہیں ملازمتوں کے مواقع ان سے چھن کر چائنیز کے ہاتھوں میں نہ چلے جائیں اور وہ منہ تکتے نہ رہ جائیں، اور اقلیت بن جائیں، مگر اسکول، کالجز کا قیام اس بات کی علامت ہے کہ اب اس مقامی آبادی کو بھی کھلے ذہن کے ساتھ اپنی سوچوں کو پھیلانا ہو گا اور زبردست طریقے سے تعلیم کا حصول اور مختلف ٹریننگ کا حصول ہی مفید ہو گا۔
خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے شدید جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب ہم سب ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے تھامیں ایک دوسرے کو دھکا نہ دیجیے بلکہ مضبوطی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر چلیے کہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں۔