محبت فاتح عالم
جھوٹ، فریب، مکر اور حسد نے ہمارے معاشرے میں پنجے گاڑے ہیں
جھوٹ، فریب، مکر اور حسد نے جس طرح ہمارے معاشرے میں پنجے گاڑے ہیں، اس کی جھلک سیاست اور بیوروکریسی میں تو ملتی ہی ہے، لیکن عام آدمی بھی اس میں اتنا ہی ملوث ہے جتنے ہمارے لیڈر۔ بالخصوص وہ لوگ جو خود کو بہت زیادہ مذہبی ظاہر کرتے ہیں، کہ گھر میں ٹی وی نہ ہو، شادی بیاہ کی تقریبات میں ڈھولک نہ بجے، مایوں، مہندی نہ ہو، تیجہ، چالیسواں نہ ہو، وہ بڑے اطمینان اور فخر سے کسی ماں کو اس کی اولاد سے جدا کردیتے ہیں۔
جہاں حدیث نبویؐ دہراتے ان کی زبانیں تالو سے چپک جاتی ہیں، وہیں جلن اور حسد میں ڈوبے ہوئے الفاظ اور رویے اختیار کرتے وقت انھیں ذرا بھی ڈر نہیں لگتا۔ جہاں مایوں میں ڈھولک بجانے سے یہ کانپتے ہیں، وہیں یہ بھول جاتے ہیں کہ حضورؐ نے ماں کے بارے میں کیا حکم دیا ہے کہ ''اگر نماز کے لیے نیت باندھ لی ہے اور ماں نے آواز دی ہے تو نیت توڑ کر پہلے ماں کی طرف جاؤ، پھر دوبارہ نیت باندھو، ماں دوبارہ آواز دے تو دوبارہ نیت توڑ کر اس کی بات سنو''۔ ایک اور حدیث میں فرمایا ہے کہ:''اگر 70 سال تک خانہ کعبہ کا طواف کرکے اس کی نیکیاں اپنے ماں باپ کو ہدیہ کرتے رہو تب بھی تم اس آنسو کا بوجھ ہلکا نہیں کرسکتے جو دل دکھانے پر ماں باپ کی آنکھ سے ٹپکا ہو''۔
ایک اور حدیث میں فرمایا : ''اپنی زبان کی تیزی اس ماں پر مت چلاؤ جس نے تمھیں بولنا سکھایا''۔ جنت میں جانے کا راستہ اولاد کو یہ بتایا ہے: ''اگر جنت میں جانا ہے تو جیتے جی اپنے والدین کو راضی کرلو۔ دونوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ ہے تو اس کا دل نہ دکھاؤ''۔
آج مجھے ماں کے حوالے سے احادیث اس لیے یاد آرہی ہیں کہ ایک بیٹا عمرہ ادا کرنے گیا ہے، اس نے سب رشتے داروں کو (سسرالی) فون کیا لیکن ماں کو بھولے سے بھی یاد نہیں کیا۔ ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ بتارہی تھیں کہ ان کی آرزو تھی کہ بیٹا بہو اور پوتا پوتی کے ساتھ عمرے کی سعادت حاصل کرے، اخراجات کے ذمے داری بھی وہ خود ہی اٹھانا چاہتی تھیں لیکن بیٹے نے تو اطلاع دینا بھی گوارا نہیں کیا کیونکہ اس بیٹے کی حیثیت وہی ہے جو جنگل میں دشمنوں کی سنگینوں اور بھالے برچھوں کے درمیان پھنسے ہوئے کسی انسان کی ہوتی ہے۔ وہ دشمنوں کی ہر بات ماننے کے لیے مجبور ہوتا ہے ورنہ وہ اسے زندہ نہیں چھوڑینگے۔ اپنی جان بچانے کے لیے وہ دشمنوں کا مذہب، ان کی رسمیں، ریت رواج اور بہت کچھ ماننے پہ مجبور ہوتا ہے۔
کیسی حیرت کی بات ہے کہ بزعم خود بہت زیادہ مذہبی کہلانے والے مندرجہ بالا احادیث کو کبھی یاد نہیں رکھتے۔ جن میں والدین کے حقوق کی بات کی گئی ہو جس طرح ہماری مذہبی جماعتیں صرف خود کو ہی مسلمان سمجھتی ہیں اسی طرح یہ منافقین بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پنج وقتہ نماز ادا کر کے انھیں ہر ایک کی دل آزاری کا ٹھیکا مل گیا ہے۔ انھیں شاید اﷲ نے بتادیا ہے کہ تم جنتی ہو، جتنا جی چاہو کسی ماں باپ کا دل دکھاؤ اور فساد پھیلاؤ اور وہ علامہ حضرات و خواتین بھی برابر کے شریک ہیں کہ وہ بھی فساد پھیلانے اور شر پھیلانے والوں کے حمایتی بن کر سامنے کھڑے ہیں اور ناحق کا ساتھ دیکر خود بھی گنہگار بن رہے ہیں۔ جنھیں نشانہ بنایا جارہا ہے وہ خاموش ہیں کہ ''ایک عدالت اور بھی ہے''۔
میں نے اپنے ایک کالم میں ذکر کیا تھا کہ تقسیم سے سب سے زیادہ نقصان معاشرتی رویوں اور سماجی رابطوں کو ہوا ہے، جس میں سرفہرست رشتوں میں دراڑیں پڑنا ہے۔ پیسے کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ انسانیت، محبت اور رواداری بالکل ختم ہوتی جارہی ہے۔ پہلے بزرگوں اور بڑوں کا لحاظ اس حد تک کیا جاتا تھا کہ محلے کے بزرگ بھی اگر ڈانٹ ڈپٹ کردیتے تھے تو بچے اور جوان سر جھکا کر سن لیا کرتے تھے کیونکہ گھر سے ہی تہذیب ملی تھی لیکن آج آپ کسی نوجوان کو ہارن بجانے سے، تیز رفتاری سے یا گٹکا کھانے سے منع کرکے دیکھے۔ آپ کو کیا جواب ملے گا۔ صرف اسی پر بس نہیں، اگر آپ نے کسی کی بیٹی یا بیٹے کی کوئی غلط بات نوٹ کی یا اسے کسی غلط جگہ دیکھا اور حق ہمسائیگی یا حق دوستی نبھانے کے حوالے سے والدین کو خبردار کیا تو الٹا وہ آپ کے سر ہوجائیں گے کہ آپ غلط ہیں اور ہماری اولاد صحیح۔ اس لیے اب لوگوں کی اکثریت سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی آنکھیں بند کرلیتی ہے کہ ناحق برا کون بنے؟ اپنے کالموں میں اکثر میں نے کالج کی طالبات اور طلبا کے رویوں کا ذکر کیا ہے۔
والدین کے ساتھ ساتھ استاد کا ادب بھی اب ماضی کی بات بن گئی۔ لیکن والدین یہ نہیں سمجھتے کہ جب بچوں نے استاد کی شکایت کی تو آپ فوراً اسکول یا کالج پہنچ گئے اور استاد کی خبر لے لی کہ اب استاد صرف ایک ملازم ہے۔ جب ان ہی بچوں نے والدین کی نافرمانی شروع کی تو پھر آپ کس منہ سے استاد کے پاس شکایت لے کر پہنچے کہ ''بچے ہمارا کہنا نہیں مانتے''۔ ہمت تو آپ نے ہی دی کہ چاہے استاد ہو یا آس پاس والے سب کی بے ادبی کرنے کا انھیں حق حاصل ہے۔سوسائٹی کسی ایک فرد سے نہیں بنتی، معاشرہ گروہی تہذیب کا تقاضا کرتا ہے۔ جب تہذیبی رویوں میں نفرت اور حسد پیدا ہوجائے تو سازشیں جنم لیتی ہیں۔ سازشیں اور حسد رشتوں میں نفرت کی دراڑیں ڈال دیتے ہیں۔
یاد رکھیے اﷲ تعالیٰ نے حقوق العباد کو اہمیت دی ہے۔ مذہب کا ٹھیکیدار بن کر کسی کو اولاد سے جدا کردینا، بھائی بھائی کو دشمن بنادینا، بھائی بہنوں میں نفرت پیدا کردینا، ان تمام رویوں سے نفرتیں بڑھتی ہیں۔موجودہ سماجی رویوں میں ہر سطح پر ہمیں درگزر، مفاہمت، خلوص اور محبت کی اشد ضرورت ہے۔ محبت کو اقبال نے ''فاتح عالم'' کہا ہے۔ کہتے ہیں کہ تلوار کا زخم بھرجاتا ہے لیکن زبان کا گھاؤ نہیں بھرتا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ خواہ لیڈر ہوں یا عام آدمی سب سے زیادہ زبان کے گھاؤ ہی لگارہے ہیں۔ کسی نے یونہی تو نہیں کہہ دیا کہ:
زبان شیریں، ملک گیری
زبان کڑوی ملک بانکا
اگر محبت اور پیار کی پالیسی بھارت اور پاکستان بھی اپنالیں تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ کچھ نادیدہ طاقتوں کو دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت اور محبت کی پالیسی کا ایجنڈا سوٹ نہیں کرتا۔ اسی طرح دو خاندانوں کے درمیان بھی محبت اور پیار کا رشتہ بعض لوگوں کو پسند نہیں ہوتا۔ اسی لیے نفرتیں بڑھتی جاتی ہیں اور زندگیاں تلخ ہوتی جاتی ہیں، مائیں روتی رہتی ہیں، باپ سوگوار رہتے ہیں اور ''نادیدہ قوتیں'' نفرتوں کی دیواروں کو اونچا کرنے میں مگن رہتے ہیں۔ کاش انھیں بھی کوئی بتائے کہ محبت کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ انسان دنیا ہی میں جنت پالیتا ہے۔
جہاں حدیث نبویؐ دہراتے ان کی زبانیں تالو سے چپک جاتی ہیں، وہیں جلن اور حسد میں ڈوبے ہوئے الفاظ اور رویے اختیار کرتے وقت انھیں ذرا بھی ڈر نہیں لگتا۔ جہاں مایوں میں ڈھولک بجانے سے یہ کانپتے ہیں، وہیں یہ بھول جاتے ہیں کہ حضورؐ نے ماں کے بارے میں کیا حکم دیا ہے کہ ''اگر نماز کے لیے نیت باندھ لی ہے اور ماں نے آواز دی ہے تو نیت توڑ کر پہلے ماں کی طرف جاؤ، پھر دوبارہ نیت باندھو، ماں دوبارہ آواز دے تو دوبارہ نیت توڑ کر اس کی بات سنو''۔ ایک اور حدیث میں فرمایا ہے کہ:''اگر 70 سال تک خانہ کعبہ کا طواف کرکے اس کی نیکیاں اپنے ماں باپ کو ہدیہ کرتے رہو تب بھی تم اس آنسو کا بوجھ ہلکا نہیں کرسکتے جو دل دکھانے پر ماں باپ کی آنکھ سے ٹپکا ہو''۔
ایک اور حدیث میں فرمایا : ''اپنی زبان کی تیزی اس ماں پر مت چلاؤ جس نے تمھیں بولنا سکھایا''۔ جنت میں جانے کا راستہ اولاد کو یہ بتایا ہے: ''اگر جنت میں جانا ہے تو جیتے جی اپنے والدین کو راضی کرلو۔ دونوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ ہے تو اس کا دل نہ دکھاؤ''۔
آج مجھے ماں کے حوالے سے احادیث اس لیے یاد آرہی ہیں کہ ایک بیٹا عمرہ ادا کرنے گیا ہے، اس نے سب رشتے داروں کو (سسرالی) فون کیا لیکن ماں کو بھولے سے بھی یاد نہیں کیا۔ ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ بتارہی تھیں کہ ان کی آرزو تھی کہ بیٹا بہو اور پوتا پوتی کے ساتھ عمرے کی سعادت حاصل کرے، اخراجات کے ذمے داری بھی وہ خود ہی اٹھانا چاہتی تھیں لیکن بیٹے نے تو اطلاع دینا بھی گوارا نہیں کیا کیونکہ اس بیٹے کی حیثیت وہی ہے جو جنگل میں دشمنوں کی سنگینوں اور بھالے برچھوں کے درمیان پھنسے ہوئے کسی انسان کی ہوتی ہے۔ وہ دشمنوں کی ہر بات ماننے کے لیے مجبور ہوتا ہے ورنہ وہ اسے زندہ نہیں چھوڑینگے۔ اپنی جان بچانے کے لیے وہ دشمنوں کا مذہب، ان کی رسمیں، ریت رواج اور بہت کچھ ماننے پہ مجبور ہوتا ہے۔
کیسی حیرت کی بات ہے کہ بزعم خود بہت زیادہ مذہبی کہلانے والے مندرجہ بالا احادیث کو کبھی یاد نہیں رکھتے۔ جن میں والدین کے حقوق کی بات کی گئی ہو جس طرح ہماری مذہبی جماعتیں صرف خود کو ہی مسلمان سمجھتی ہیں اسی طرح یہ منافقین بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پنج وقتہ نماز ادا کر کے انھیں ہر ایک کی دل آزاری کا ٹھیکا مل گیا ہے۔ انھیں شاید اﷲ نے بتادیا ہے کہ تم جنتی ہو، جتنا جی چاہو کسی ماں باپ کا دل دکھاؤ اور فساد پھیلاؤ اور وہ علامہ حضرات و خواتین بھی برابر کے شریک ہیں کہ وہ بھی فساد پھیلانے اور شر پھیلانے والوں کے حمایتی بن کر سامنے کھڑے ہیں اور ناحق کا ساتھ دیکر خود بھی گنہگار بن رہے ہیں۔ جنھیں نشانہ بنایا جارہا ہے وہ خاموش ہیں کہ ''ایک عدالت اور بھی ہے''۔
میں نے اپنے ایک کالم میں ذکر کیا تھا کہ تقسیم سے سب سے زیادہ نقصان معاشرتی رویوں اور سماجی رابطوں کو ہوا ہے، جس میں سرفہرست رشتوں میں دراڑیں پڑنا ہے۔ پیسے کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ انسانیت، محبت اور رواداری بالکل ختم ہوتی جارہی ہے۔ پہلے بزرگوں اور بڑوں کا لحاظ اس حد تک کیا جاتا تھا کہ محلے کے بزرگ بھی اگر ڈانٹ ڈپٹ کردیتے تھے تو بچے اور جوان سر جھکا کر سن لیا کرتے تھے کیونکہ گھر سے ہی تہذیب ملی تھی لیکن آج آپ کسی نوجوان کو ہارن بجانے سے، تیز رفتاری سے یا گٹکا کھانے سے منع کرکے دیکھے۔ آپ کو کیا جواب ملے گا۔ صرف اسی پر بس نہیں، اگر آپ نے کسی کی بیٹی یا بیٹے کی کوئی غلط بات نوٹ کی یا اسے کسی غلط جگہ دیکھا اور حق ہمسائیگی یا حق دوستی نبھانے کے حوالے سے والدین کو خبردار کیا تو الٹا وہ آپ کے سر ہوجائیں گے کہ آپ غلط ہیں اور ہماری اولاد صحیح۔ اس لیے اب لوگوں کی اکثریت سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی آنکھیں بند کرلیتی ہے کہ ناحق برا کون بنے؟ اپنے کالموں میں اکثر میں نے کالج کی طالبات اور طلبا کے رویوں کا ذکر کیا ہے۔
والدین کے ساتھ ساتھ استاد کا ادب بھی اب ماضی کی بات بن گئی۔ لیکن والدین یہ نہیں سمجھتے کہ جب بچوں نے استاد کی شکایت کی تو آپ فوراً اسکول یا کالج پہنچ گئے اور استاد کی خبر لے لی کہ اب استاد صرف ایک ملازم ہے۔ جب ان ہی بچوں نے والدین کی نافرمانی شروع کی تو پھر آپ کس منہ سے استاد کے پاس شکایت لے کر پہنچے کہ ''بچے ہمارا کہنا نہیں مانتے''۔ ہمت تو آپ نے ہی دی کہ چاہے استاد ہو یا آس پاس والے سب کی بے ادبی کرنے کا انھیں حق حاصل ہے۔سوسائٹی کسی ایک فرد سے نہیں بنتی، معاشرہ گروہی تہذیب کا تقاضا کرتا ہے۔ جب تہذیبی رویوں میں نفرت اور حسد پیدا ہوجائے تو سازشیں جنم لیتی ہیں۔ سازشیں اور حسد رشتوں میں نفرت کی دراڑیں ڈال دیتے ہیں۔
یاد رکھیے اﷲ تعالیٰ نے حقوق العباد کو اہمیت دی ہے۔ مذہب کا ٹھیکیدار بن کر کسی کو اولاد سے جدا کردینا، بھائی بھائی کو دشمن بنادینا، بھائی بہنوں میں نفرت پیدا کردینا، ان تمام رویوں سے نفرتیں بڑھتی ہیں۔موجودہ سماجی رویوں میں ہر سطح پر ہمیں درگزر، مفاہمت، خلوص اور محبت کی اشد ضرورت ہے۔ محبت کو اقبال نے ''فاتح عالم'' کہا ہے۔ کہتے ہیں کہ تلوار کا زخم بھرجاتا ہے لیکن زبان کا گھاؤ نہیں بھرتا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ خواہ لیڈر ہوں یا عام آدمی سب سے زیادہ زبان کے گھاؤ ہی لگارہے ہیں۔ کسی نے یونہی تو نہیں کہہ دیا کہ:
زبان شیریں، ملک گیری
زبان کڑوی ملک بانکا
اگر محبت اور پیار کی پالیسی بھارت اور پاکستان بھی اپنالیں تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ کچھ نادیدہ طاقتوں کو دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت اور محبت کی پالیسی کا ایجنڈا سوٹ نہیں کرتا۔ اسی طرح دو خاندانوں کے درمیان بھی محبت اور پیار کا رشتہ بعض لوگوں کو پسند نہیں ہوتا۔ اسی لیے نفرتیں بڑھتی جاتی ہیں اور زندگیاں تلخ ہوتی جاتی ہیں، مائیں روتی رہتی ہیں، باپ سوگوار رہتے ہیں اور ''نادیدہ قوتیں'' نفرتوں کی دیواروں کو اونچا کرنے میں مگن رہتے ہیں۔ کاش انھیں بھی کوئی بتائے کہ محبت کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ انسان دنیا ہی میں جنت پالیتا ہے۔