شہر قائد اور قائداعظم حصہ اول
قائداعظم کا یوم پیدائش اور 25 دسمبر ایک ہی ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں
قائداعظم کا یوم پیدائش اور 25 دسمبر ایک ہی ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ دونوں دنوں کی اہمیت مسلم ہے۔ 25 دسمبر کا دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے حوالے سے مسیحی برادری کے لیے مسرتوں کا دن ہے، لیکن اس سال جب مسیحی برادری کی خوشیاں تروتازہ تھیں کہ اچانک ان کے گھروں میں قیامت اتر آئی، ٹوبہ ٹیک سنگھ کے رہائشی کچی شراب پینے کے باعث اپنی جانوں سے گئے، اس سانحے میں تقریباً 42 اموات ہوئیں۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ سالہا سال سے جہلم، بنوں اور دوسرے کئی علاقوں میں زہریلی شراب پینے سے بے شمار متاثرین اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ حکومت نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔
شراب تمام ہی مذاہب میں منع ہے، خاص موقعوں پر پادری حضرات اقرار کرتے ہیں کہ یسوع مسیح (حضرت عیسیٰؑ) نے ان باتوں سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ حقوق العباد کی ادائیگی پر ہم سے زیادہ غیر مسلم پابند ہیں،
25 دسمبر قائداعظم کے یوم ولادت کے حوالے سے محمد یونس کا مضمون بعنوان ''قائداعظم کی یادیں'' میری نگاہوں کے سامنے آکر ٹھہر گیا ہے۔ انھوں نے قائداعظم کی کراچی آمد پر قائد سے عقیدت کو لفظوں کا جامہ بے حد سحر انگیزی کے ساتھ پہنایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ''میری بڑی مشتاقانہ آرزو تھی کہ قائداعظم کے جہاز کو اترتا دیکھ سکوں، ہم ماڑی پور پہنچے تو ایئرپورٹ کے آس پاس بہت ہجوم تھا، وہاں پہنچتے پہنچتے جہاز اتر چکا تھا اور عوام جوش سے بے قابو ہوتے جا رہے تھے، قائداعظم کا جلوس چلا تو ہمارے ڈرائیور نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ موٹر کو گیارہویں نمبر پر ڈال دیا، ہم خوشی اور فخر کے ان جذبات کے ساتھ قائداعظم کی سرکاری قیام گاہ تک پہنچے کہ ہم اپنے بابا کے جلوس میں ان سے گیارہویں نمبر پر ہیں، راستے میں ہر جگہ انسانوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ جمع تھے، چھوٹی چھوٹی بستیوں سے بھی گزرے تو دیکھا عورتیں، بچے، مرد سڑک کے کنارے، مکانوں کی چھتوں اور درختوں پر کھڑے اور بیٹھے ہیں، یہی تھی وہ قوم جسے قائداعظم نے انگریز اور ہندوؤں کی دہری غلامی سے آزاد کرایا تھا۔
14 اگست کا دن بھی ناقابل فراموش بن گیا تھا، اس سے کچھ روز پیشتر ہی مشرقی پنجاب میں قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا، لٹے پٹے مہاجرین پاکستان پہنچنا شروع ہوگئے تھے، اس سے فضا سوگوار ہوگئی تھی مگر اس کے باوجود آزادی کی خوشی اپنے عروج پر تھی، کراچی صبح آزادی کے استقبال کے لیے پوری طرح تیار تھا، قائداعظم برصغیر کے آخری وائسرائے ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر جلوس کی شکل میں سارے شہر سے گزرے، اس روز پہلی بار نیوی کے جوانوں نے ٹرکوں میں اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے رات بھر میں وہ ''انڈین نیوی'' سے ''پاکستان نیوی'' کے جوان بن گئے تھے۔''
اس دن نیوی کے تمام جہاز دلہن کی طرح سجائے گئے تھے جہاں مضمون کے قلم کار محمد یونس اور ان کے ساتھی سمندر کی سیر کرنے آئے تھے ان کے ساتھ ایک بوڑھا شخص بھی تھا جس نے عقیدت و محبت اور قائداعظم کی بلند ہمتی، استقامت و عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ''کوئی اپنی زمین کا ایک چپہ کسی کو نہیں دے سکتا مگر قربان جاؤں اپنے قائداعظم پر جنھوں نے ملک کا ملک ہندوؤں سے بٹوا کر لے لیا۔''
قائداعظم کا بنایا ہوا ملک آج دشمنوں کے نرغے میں ہے۔ اس کا ہر صوبہ متعصبانہ رویوں، نفرتوں و عداوتوں، قتل و غارت اور مفاد پرستی کی آماجگاہ بن چکا ہے، کوئی اپنے ملک، اپنے صوبے اور شہر سے مخلص نہیں ہے۔ قدم قدم پر میر صادق و میر جعفر کے ٹولے ملک کی بنیادوں میں دراڑیں ڈالنے کے لیے اسلحے سے لیس ہیں۔
پاکستان کا دل کراچی جیسے بڑے شہر کے لعل و جواہر کو لوٹ لیا گیا ہے۔ اس کی شاہراہوں کا حسن چھین لیا گیا ہے۔ امن و سکون برباد ہے، لیکن اسی قوم سے ایک بہادر، راسخ العقیدہ مسلمان اٹھا اور اس نے ضرب عضب کے ذریعے ظالموں کے ظلم کو روکنے اور مظلوموں کو تحفظ دینے کے لیے میدان کارزار میں کود گیا اور ایک بار حالات بہتری کی طرف رواں دواں ہیں۔ لیکن آزمائے ہوئے بازی گروں پر اعتماد دوبارہ کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔
کراچی شہر کی تاریخ تقریباً تین سو سال پرانی ہے۔ 1729ء میں موجودہ ٹاور کے علاقے میں ایک مچھیروں کی بستی آباد تھی، اس بستی کے ایک طرف کھارا اور دوسری طرف میٹھا پانی بہتا تھا، اسی حوالے سے یہ علاقے کھارا اور میٹھادر کے ناموں سے مشہور ہوئے اور قائداعظم بھی اسی تاریخی علاقے کھارادر میں 1874ء میں پیدا ہوئے، اسی سال ملکہ برطانیہ وکٹوریہ نے قیصر ہند کا لقب اختیار کیا، اس تاریخی بستی میں مائی کلاچی نام کی ایک عورت بھی سکونت پذیر تھی، شاید یہی وجہ تھی کہ اس بستی کا نام کلاچی پڑ گیا، پھر وقت گزرتا گیا، آبادی بڑھتی گئی اور کلاچی نامی بستی بھی اپنے رقبے کے اعتبار سے پھیلتی گئی اور شہر کی شکل اختیار کر گئی۔
انگریزوں کی کراچی آمد 1843ء میں ہوئی، ان دنوں برصغیر پر قبضہ کرنے کی بھی مہم جاری تھی، اسی دوران انھوں نے شہر کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے نزدیک، بالخصوص ساحل سمندر ہونے کی وجہ سے رہائش اختیار کی اور آبادکاری کا کام بخوبی انجام دیا۔ ''کلفٹن'' نام انھی کا دیا گیا ہے، فریئر ہال بھی 1863ء میں انگریزوں کی کاوشوں سے وجود میں آیا، انھوں نے کراچی سے پشاور تک ریلوے لائن بھی بچھائی، اس سے قبل 1835ء میں کراچی میں حسن علی آفندی نے تعلیمی لحاظ سے بڑا کارنامہ انجام دیا اور سندھ مدرسے کی بنیاد ڈالی، اس مدرسے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسی سے قائداعظم محمد علی جناح نے تعلیم حاصل کی اور آج ہم جو کراچی میں پتھر کی پختہ اور خوبصورت عمارات دیکھتے ہیں وہ سب انگریزوں کی ہی بنائی گئی ہیں۔ ہماری سابقہ اور موجودہ حکومتوں نے فن تعمیر کے اعتبار سے کوئی نمایاں کام انجام نہیں دیا، البتہ نجی اداروں نے ضرور عمارات اور پلازے بنائے۔
انگریزوں کا بنایا ہوا سولجر بازار بھی آج تک موجود ہے لیکن اس کی حالت خستہ ہوچکی ہے۔ اسی طرح ایمپریس مارکیٹ فوجی بیرکیں اور دفاتر بھی وجود میں آئے۔ ڈی جے سائنس کالج بھی اسی دور کی یاد ہے جو آج تک قائم و دائم ہے۔ اس کا شمار معیاری کالجوں میں ہوتا ہے۔ سینٹرل جیل بھی انگریزوں کی ہی بنائی ہوئی ہے۔ اسی جیل میں مرد مجاہد، تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن مولانا محمد علی جوہر کو قید کیا گیا تھا اور زندگی کی قید سے آزادی انھیں بیت المقدس میں ملی، گویا دین و دنیا میں سرخ روئی اور عزت و مرتبہ حاصل ہوا۔ خوش قسمتی ہے ان کی جنھیں حب الوطنی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نتیجے میں بلند مقام حاصل ہو جاتا ہے۔
(جاری ہے)
شراب تمام ہی مذاہب میں منع ہے، خاص موقعوں پر پادری حضرات اقرار کرتے ہیں کہ یسوع مسیح (حضرت عیسیٰؑ) نے ان باتوں سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ حقوق العباد کی ادائیگی پر ہم سے زیادہ غیر مسلم پابند ہیں،
25 دسمبر قائداعظم کے یوم ولادت کے حوالے سے محمد یونس کا مضمون بعنوان ''قائداعظم کی یادیں'' میری نگاہوں کے سامنے آکر ٹھہر گیا ہے۔ انھوں نے قائداعظم کی کراچی آمد پر قائد سے عقیدت کو لفظوں کا جامہ بے حد سحر انگیزی کے ساتھ پہنایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ''میری بڑی مشتاقانہ آرزو تھی کہ قائداعظم کے جہاز کو اترتا دیکھ سکوں، ہم ماڑی پور پہنچے تو ایئرپورٹ کے آس پاس بہت ہجوم تھا، وہاں پہنچتے پہنچتے جہاز اتر چکا تھا اور عوام جوش سے بے قابو ہوتے جا رہے تھے، قائداعظم کا جلوس چلا تو ہمارے ڈرائیور نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ موٹر کو گیارہویں نمبر پر ڈال دیا، ہم خوشی اور فخر کے ان جذبات کے ساتھ قائداعظم کی سرکاری قیام گاہ تک پہنچے کہ ہم اپنے بابا کے جلوس میں ان سے گیارہویں نمبر پر ہیں، راستے میں ہر جگہ انسانوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ جمع تھے، چھوٹی چھوٹی بستیوں سے بھی گزرے تو دیکھا عورتیں، بچے، مرد سڑک کے کنارے، مکانوں کی چھتوں اور درختوں پر کھڑے اور بیٹھے ہیں، یہی تھی وہ قوم جسے قائداعظم نے انگریز اور ہندوؤں کی دہری غلامی سے آزاد کرایا تھا۔
14 اگست کا دن بھی ناقابل فراموش بن گیا تھا، اس سے کچھ روز پیشتر ہی مشرقی پنجاب میں قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا، لٹے پٹے مہاجرین پاکستان پہنچنا شروع ہوگئے تھے، اس سے فضا سوگوار ہوگئی تھی مگر اس کے باوجود آزادی کی خوشی اپنے عروج پر تھی، کراچی صبح آزادی کے استقبال کے لیے پوری طرح تیار تھا، قائداعظم برصغیر کے آخری وائسرائے ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر جلوس کی شکل میں سارے شہر سے گزرے، اس روز پہلی بار نیوی کے جوانوں نے ٹرکوں میں اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے رات بھر میں وہ ''انڈین نیوی'' سے ''پاکستان نیوی'' کے جوان بن گئے تھے۔''
اس دن نیوی کے تمام جہاز دلہن کی طرح سجائے گئے تھے جہاں مضمون کے قلم کار محمد یونس اور ان کے ساتھی سمندر کی سیر کرنے آئے تھے ان کے ساتھ ایک بوڑھا شخص بھی تھا جس نے عقیدت و محبت اور قائداعظم کی بلند ہمتی، استقامت و عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ''کوئی اپنی زمین کا ایک چپہ کسی کو نہیں دے سکتا مگر قربان جاؤں اپنے قائداعظم پر جنھوں نے ملک کا ملک ہندوؤں سے بٹوا کر لے لیا۔''
قائداعظم کا بنایا ہوا ملک آج دشمنوں کے نرغے میں ہے۔ اس کا ہر صوبہ متعصبانہ رویوں، نفرتوں و عداوتوں، قتل و غارت اور مفاد پرستی کی آماجگاہ بن چکا ہے، کوئی اپنے ملک، اپنے صوبے اور شہر سے مخلص نہیں ہے۔ قدم قدم پر میر صادق و میر جعفر کے ٹولے ملک کی بنیادوں میں دراڑیں ڈالنے کے لیے اسلحے سے لیس ہیں۔
پاکستان کا دل کراچی جیسے بڑے شہر کے لعل و جواہر کو لوٹ لیا گیا ہے۔ اس کی شاہراہوں کا حسن چھین لیا گیا ہے۔ امن و سکون برباد ہے، لیکن اسی قوم سے ایک بہادر، راسخ العقیدہ مسلمان اٹھا اور اس نے ضرب عضب کے ذریعے ظالموں کے ظلم کو روکنے اور مظلوموں کو تحفظ دینے کے لیے میدان کارزار میں کود گیا اور ایک بار حالات بہتری کی طرف رواں دواں ہیں۔ لیکن آزمائے ہوئے بازی گروں پر اعتماد دوبارہ کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔
کراچی شہر کی تاریخ تقریباً تین سو سال پرانی ہے۔ 1729ء میں موجودہ ٹاور کے علاقے میں ایک مچھیروں کی بستی آباد تھی، اس بستی کے ایک طرف کھارا اور دوسری طرف میٹھا پانی بہتا تھا، اسی حوالے سے یہ علاقے کھارا اور میٹھادر کے ناموں سے مشہور ہوئے اور قائداعظم بھی اسی تاریخی علاقے کھارادر میں 1874ء میں پیدا ہوئے، اسی سال ملکہ برطانیہ وکٹوریہ نے قیصر ہند کا لقب اختیار کیا، اس تاریخی بستی میں مائی کلاچی نام کی ایک عورت بھی سکونت پذیر تھی، شاید یہی وجہ تھی کہ اس بستی کا نام کلاچی پڑ گیا، پھر وقت گزرتا گیا، آبادی بڑھتی گئی اور کلاچی نامی بستی بھی اپنے رقبے کے اعتبار سے پھیلتی گئی اور شہر کی شکل اختیار کر گئی۔
انگریزوں کی کراچی آمد 1843ء میں ہوئی، ان دنوں برصغیر پر قبضہ کرنے کی بھی مہم جاری تھی، اسی دوران انھوں نے شہر کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے نزدیک، بالخصوص ساحل سمندر ہونے کی وجہ سے رہائش اختیار کی اور آبادکاری کا کام بخوبی انجام دیا۔ ''کلفٹن'' نام انھی کا دیا گیا ہے، فریئر ہال بھی 1863ء میں انگریزوں کی کاوشوں سے وجود میں آیا، انھوں نے کراچی سے پشاور تک ریلوے لائن بھی بچھائی، اس سے قبل 1835ء میں کراچی میں حسن علی آفندی نے تعلیمی لحاظ سے بڑا کارنامہ انجام دیا اور سندھ مدرسے کی بنیاد ڈالی، اس مدرسے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسی سے قائداعظم محمد علی جناح نے تعلیم حاصل کی اور آج ہم جو کراچی میں پتھر کی پختہ اور خوبصورت عمارات دیکھتے ہیں وہ سب انگریزوں کی ہی بنائی گئی ہیں۔ ہماری سابقہ اور موجودہ حکومتوں نے فن تعمیر کے اعتبار سے کوئی نمایاں کام انجام نہیں دیا، البتہ نجی اداروں نے ضرور عمارات اور پلازے بنائے۔
انگریزوں کا بنایا ہوا سولجر بازار بھی آج تک موجود ہے لیکن اس کی حالت خستہ ہوچکی ہے۔ اسی طرح ایمپریس مارکیٹ فوجی بیرکیں اور دفاتر بھی وجود میں آئے۔ ڈی جے سائنس کالج بھی اسی دور کی یاد ہے جو آج تک قائم و دائم ہے۔ اس کا شمار معیاری کالجوں میں ہوتا ہے۔ سینٹرل جیل بھی انگریزوں کی ہی بنائی ہوئی ہے۔ اسی جیل میں مرد مجاہد، تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن مولانا محمد علی جوہر کو قید کیا گیا تھا اور زندگی کی قید سے آزادی انھیں بیت المقدس میں ملی، گویا دین و دنیا میں سرخ روئی اور عزت و مرتبہ حاصل ہوا۔ خوش قسمتی ہے ان کی جنھیں حب الوطنی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نتیجے میں بلند مقام حاصل ہو جاتا ہے۔
(جاری ہے)