برما کے مسلمانوں کے غم میں گھلنے والے
برنی صاحب برما تو جا نہ پائے مگر وہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کو روکنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہیں
رمضان کا مبارک مہینہ ہے مگر خود کو ہمہ وقت چوکس رکھنے کا دعوے دار پاکستانی میڈیا، برما کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر توجہ ہی نہیں دے رہا۔
بالآخر انصار برنی صاحب جو صومالی قزاقوں کے قابو آئے لوگوں کے لیے چندہ جمع کر کے اغوا برائے تاوان کے معاملات کو سلجھایا کرتے ہیں جوش میں آئے، برما جانے کا ارادہ باندھا اور اس ملک کے ویزہ کے لیے درخواست دی۔ ان کی درخواست رد کر دی گئی۔ اپنے ملک کی بدنامی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے کسی بھی ملک کے سفارت کار ویزے نہیں دیا کرتے۔ میں بھی برما کا اسلام آباد میں مقیم سفارت کار ہوتا تو انصار برنی کو انکار ہی کرتا۔
برنی صاحب برما تو جا نہ پائے مگر وہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کو روکنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہیں۔ میری ان سے درخواست ہے کہ برما نہ سہی ذرا پارہ چنار کا چکر لگا آئیں۔ وہاں موسم بھی خوش گوار ہوگا اور کسی سفارت کار سے ویزہ لینے کی ضرورت بھی نہیں۔
وہاں کے ''مسلمانوں'' کا احوال جان کر ہمیں بھی بتائیں۔ ویسے تو ہمارا ہی ایک اور شہر کوئٹہ بھی ہے۔ وہاں کے ''مسلمان'' شہریوں پر جو پنجابی بولنے والے ہوں یا پشتو۔ فارسی کے دری لہجے میں بات کرتے ہوں یا براہوی میں۔ حتیٰ کہ صرف بلوچی ہی بولتے ہوں۔ ان میں گھل مل کر معلوم کر لیں کہ آج کل وہ سارے اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہوئے کیوں گھبراتے ہیں۔ کون کس کو اور کیوں مار رہا ہے؟
ہماری آزاد عدلیہ گذشتہ کئی مہینوں سے یہی کچھ جاننے کی کوشش کر رہی ہے۔ معلوم پھر بھی کچھ نہیں ہو رہا۔ صوبہ بلوچستان کے جو وزیر اعلیٰ ہوتے ہیں، وہ اپنا زیادہ وقت اسلام آباد میں گزارتے ہیں۔ ان کے پاس تازہ ترین ماڈل کی ایک بڑی فیشنی موٹر سائیکل ہے۔ اسے گیراج سے نکال کر اسلام آباد کی کشادہ سڑکوں پرفراٹے بھرتے زندگی کے مزے لوٹتے ہیں۔ گوادر میں جسے ہم نے پاکستان کا ہانگ کانگ بنانا تھا، وضو کرنے کو پانی نہیں مل رہا۔ گوادر میں بھی مسلمان ہی بستے ہیں۔ ہم انھیں تیمم کے ذریعے وضو کرنے پر کیوں مجبور کر رہے ہیں؟
برنی صاحب جیسے برمی مسلمانوں کے ہمدردوں کا مسئلہ مگر یہ ہے کہ وہ ''سارے جہان کا درد ہمارے جگر میں ہے'' کہ مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ہندو اکثریت کے ساتھ برصغیر پاک وہند میں رہنے والے پڑھے لکھے مسلمانوں کا المیہ یہی رہا ہے۔ ترکی میں خلافت اپنے آخری دموں پر تھی مگر ہمارے ہاں اسے بچانے کے لیے تحریک شروع کردی گئی۔ علی برادران کا غم تو اس سلسلے میں سمجھ میں آتا ہے مگر مہاتما گاندھی کو کیا دُکھ تھا کہ ان کے ساتھ مل گیا؟
بات تحریک خلافت کی چل نکلی ہے تو یہ معلوم کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن حاصل کرنے والے محمد علی جناح اس تحریک سے اتنے لا تعلق کیوں رہے۔ انھیں اتاترک کیوں بھاگیا تھا؟ یہ سارے سوال نہ ہم کرتے ہیں نہ ہمارے تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے ان کے جوابات دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے پارس لکھاریوں کو سوال وجواب کے جھنجٹ میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں۔
انھیں تو اپنی تحریروں کے ذریعے ہمیں پارسا بنانا ہے۔ موت کے بعد کے مناظرکو سنبھالنے کے لیے تیار کرنا ہیں۔ اور پاکستان کے علاوہ مسلمان جہاں کہیں بھی بستے ہیں ان کا تحفظ کرنا ہے۔ برما کے مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے ہم بھول نہیں سکتے کہ ان کا ہمسایہ ملک بنگلہ دیش ہے۔ بنگلہ دیش کے رہنے والوں کی بے پناہ اکثریت مسلمانوں پر ہی مشتمل ہے۔ ہمارے مورخ بنے لکھاری ذرا زحمت کریں تو آج کی نوجوان نسل کو یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں میں ایک علیحدہ ملک کی خواہش بیدار کرنے میں تقسیم بنگال اور پھر اس تقسیم کو ختم کر دینے کا بڑا حصہ ہے۔ اسی لیے تو مسلم لیگ کا قیام لاہور میں نہیں ڈھاکا میں عمل میں لایا گیا تھا۔
1947ء میں پاکستان کا قیام بنگال کی ایک حوالے سے دوبارہ تقسیم ہی تو تھی۔ آج کل بھی تبلیغی جماعت کا سب سے بڑا اجتماع بنگلہ دیش میں ہوتا ہے۔ وہاں کی حکومت برما کی حکومت سے زیادہ طاقتور ہے۔ وہ صرف برما کے مسلمانوں کو اپنے ہاں آباد ہونے کی اجازت اور سہولت دے کر ان کے مسائل حل کر سکتی ہے۔ مگر حسینہ واجد کی حکومت یہ نہیں کر رہی ۔ شیخ مجیب کی بیٹی جو ٹھہری۔
اس نے تو اپنے ملک میں جماعت اسلامی پر پابندی لگا رکھی ہے اور مولانا مودودی کی تحریروں کو نصاب سے خارج اور سرکاری لائبریریوں سے باہر نکال دیا ہے۔ پروفیسر غلام اعظم جیسے پاکستان سے محبت کرنے والے ضعیف شخص پر 1970ء میں ''بنگلہ دیش کی آزادی'' کو روکنے میں پاکستانی فوج سے تعاون کرنے کے الزام میں ''غداری'' کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ برما کے مسلمانوں کے غم میں مبتلا لوگ ''اپنے دُکھوں پر کسی کا نام'' لے کر رو رہے ہیں۔ مقصد حسینہ واجد کی ''مسلمانوں کے بارے بے حسی'' کو بے نقاب کرنا ہے اور گالیاں پاکستانی میڈیا کھا رہا ہے۔
مان لیتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا بے حس ہو گیا ہے۔ وہ فحاشی پھیلاتا اور ریٹنگ بڑھاتا ہے۔ مگر عالم اسلام کا سب سے بڑا چینل الجزیرہ بھی تو ہے۔ وہاں سے اسامہ بن لادن اور ڈاکٹر الظواہری کے کیسٹ سب سے پہلے دُنیا کو سنوائے جاتے تھے۔ ہمارے قبائلی علاقوں میں کچھ بھی ہو سب سے پہلی خبر یہی چینل دے گا۔ اسے برما کے مسلمان کیوں نظر نہیں آ رہے؟ ''ِالجزیرہ'' کے بعد دوسرا بڑا چینل ''العربیہ'' ہے۔
اس کے بھی بے تحاشہ وسائل ہیں۔ وہ کیوں خاموش ہے؟ عالم اسلام میں اس وقت سب سے زیادہ مالدار اور توانا میڈیا ترکی میں بھی ہے۔ اس ملک میں خدا کے کرم سے آج کل اتاترک کے ''سیکولر'' پیروکاروں کی حکومت نہیں۔ اقتدار میں وہی لوگ ہیں جن کے بزرگ قاضی حسین احمد کے مہمان ہوا کرتے تھے۔ ترکی کے اخباروں اور ٹی وی چینلوں میں برما کے مسلمانوں کا ذکر کیوں نہیں ہو رہا؟ ''عرب بہار'' کی طفیل اب تو مصر بھی ''مسلمان '' ہو گیا ہے۔ اس کے صدر اخوان المسلمین سے آئے ہیں۔ مسلم دُنیا کا قدیم ترین اخبار ''الاہرام'' آج کل بھی شایع ہوتا ہے۔
میں نے پورے دو روز اس اخبار کے وسائل اور حلقہ اثر کو جاننے میں مصرف کر رکھے ہیں۔ اس کا ایک بہت ہی مؤثر ہفتہ وار انگریزی ایڈیشن بھی ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ پر جا کے دیکھئے گا اور مجھے بھی بتا دیجیے گا کہ برما کے مسلمانوں کا کتنا تذکرہ اس ایڈیشن میں ہو رہا ہے ۔
خدارا میرے اس کالم سے یہ مت سمجھئے گا کہ مجھے برما کے مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔ شاید ان کے غم میں مرے جانے والے لکھاریوں سے زیادہ نہیں تو برابر کی ضرور ہے۔ مگر میرے پاس حقائق نہیں ہیں۔ جی ہاں ای میل کے ذریعے کچھ کہانیاں اور تصویریں ضرور ملی ہیں۔ ان طعنوں کے ساتھ کہ میں ان پر خاموش کیوں ہوں۔ بدقسمتی سے تھوڑی تحقیق کی تو زیادہ تر تصویریں جعلی نکلیں۔
ضرورت پڑنے پر ان کا جعلی ہونا بھی ثابت کر سکتا تھا۔ مگر خاموش رہا۔ میری خاموشی کا اصل سبب وہ بے بسی ہے جو میں اپنے ہی مسلمان شہریوں کے بے گناہ قتل کو روک نہ سکنے کے سلسلے میں محسوس کرتا رہا ہوں۔ خیرات کی طرح مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے کا نیک کام بھی گھر سے شروع کرنا چاہیے۔ میں پاکستان میں بسنے والوں کی کوئی مددد نہ کرسکا۔ برما کے بے چارے مسلمانوں کو کیا تحفظ فراہم کرسکوں گا؟
بالآخر انصار برنی صاحب جو صومالی قزاقوں کے قابو آئے لوگوں کے لیے چندہ جمع کر کے اغوا برائے تاوان کے معاملات کو سلجھایا کرتے ہیں جوش میں آئے، برما جانے کا ارادہ باندھا اور اس ملک کے ویزہ کے لیے درخواست دی۔ ان کی درخواست رد کر دی گئی۔ اپنے ملک کی بدنامی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے کسی بھی ملک کے سفارت کار ویزے نہیں دیا کرتے۔ میں بھی برما کا اسلام آباد میں مقیم سفارت کار ہوتا تو انصار برنی کو انکار ہی کرتا۔
برنی صاحب برما تو جا نہ پائے مگر وہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کو روکنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہیں۔ میری ان سے درخواست ہے کہ برما نہ سہی ذرا پارہ چنار کا چکر لگا آئیں۔ وہاں موسم بھی خوش گوار ہوگا اور کسی سفارت کار سے ویزہ لینے کی ضرورت بھی نہیں۔
وہاں کے ''مسلمانوں'' کا احوال جان کر ہمیں بھی بتائیں۔ ویسے تو ہمارا ہی ایک اور شہر کوئٹہ بھی ہے۔ وہاں کے ''مسلمان'' شہریوں پر جو پنجابی بولنے والے ہوں یا پشتو۔ فارسی کے دری لہجے میں بات کرتے ہوں یا براہوی میں۔ حتیٰ کہ صرف بلوچی ہی بولتے ہوں۔ ان میں گھل مل کر معلوم کر لیں کہ آج کل وہ سارے اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہوئے کیوں گھبراتے ہیں۔ کون کس کو اور کیوں مار رہا ہے؟
ہماری آزاد عدلیہ گذشتہ کئی مہینوں سے یہی کچھ جاننے کی کوشش کر رہی ہے۔ معلوم پھر بھی کچھ نہیں ہو رہا۔ صوبہ بلوچستان کے جو وزیر اعلیٰ ہوتے ہیں، وہ اپنا زیادہ وقت اسلام آباد میں گزارتے ہیں۔ ان کے پاس تازہ ترین ماڈل کی ایک بڑی فیشنی موٹر سائیکل ہے۔ اسے گیراج سے نکال کر اسلام آباد کی کشادہ سڑکوں پرفراٹے بھرتے زندگی کے مزے لوٹتے ہیں۔ گوادر میں جسے ہم نے پاکستان کا ہانگ کانگ بنانا تھا، وضو کرنے کو پانی نہیں مل رہا۔ گوادر میں بھی مسلمان ہی بستے ہیں۔ ہم انھیں تیمم کے ذریعے وضو کرنے پر کیوں مجبور کر رہے ہیں؟
برنی صاحب جیسے برمی مسلمانوں کے ہمدردوں کا مسئلہ مگر یہ ہے کہ وہ ''سارے جہان کا درد ہمارے جگر میں ہے'' کہ مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ہندو اکثریت کے ساتھ برصغیر پاک وہند میں رہنے والے پڑھے لکھے مسلمانوں کا المیہ یہی رہا ہے۔ ترکی میں خلافت اپنے آخری دموں پر تھی مگر ہمارے ہاں اسے بچانے کے لیے تحریک شروع کردی گئی۔ علی برادران کا غم تو اس سلسلے میں سمجھ میں آتا ہے مگر مہاتما گاندھی کو کیا دُکھ تھا کہ ان کے ساتھ مل گیا؟
بات تحریک خلافت کی چل نکلی ہے تو یہ معلوم کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن حاصل کرنے والے محمد علی جناح اس تحریک سے اتنے لا تعلق کیوں رہے۔ انھیں اتاترک کیوں بھاگیا تھا؟ یہ سارے سوال نہ ہم کرتے ہیں نہ ہمارے تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے ان کے جوابات دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے پارس لکھاریوں کو سوال وجواب کے جھنجٹ میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں۔
انھیں تو اپنی تحریروں کے ذریعے ہمیں پارسا بنانا ہے۔ موت کے بعد کے مناظرکو سنبھالنے کے لیے تیار کرنا ہیں۔ اور پاکستان کے علاوہ مسلمان جہاں کہیں بھی بستے ہیں ان کا تحفظ کرنا ہے۔ برما کے مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے ہم بھول نہیں سکتے کہ ان کا ہمسایہ ملک بنگلہ دیش ہے۔ بنگلہ دیش کے رہنے والوں کی بے پناہ اکثریت مسلمانوں پر ہی مشتمل ہے۔ ہمارے مورخ بنے لکھاری ذرا زحمت کریں تو آج کی نوجوان نسل کو یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں میں ایک علیحدہ ملک کی خواہش بیدار کرنے میں تقسیم بنگال اور پھر اس تقسیم کو ختم کر دینے کا بڑا حصہ ہے۔ اسی لیے تو مسلم لیگ کا قیام لاہور میں نہیں ڈھاکا میں عمل میں لایا گیا تھا۔
1947ء میں پاکستان کا قیام بنگال کی ایک حوالے سے دوبارہ تقسیم ہی تو تھی۔ آج کل بھی تبلیغی جماعت کا سب سے بڑا اجتماع بنگلہ دیش میں ہوتا ہے۔ وہاں کی حکومت برما کی حکومت سے زیادہ طاقتور ہے۔ وہ صرف برما کے مسلمانوں کو اپنے ہاں آباد ہونے کی اجازت اور سہولت دے کر ان کے مسائل حل کر سکتی ہے۔ مگر حسینہ واجد کی حکومت یہ نہیں کر رہی ۔ شیخ مجیب کی بیٹی جو ٹھہری۔
اس نے تو اپنے ملک میں جماعت اسلامی پر پابندی لگا رکھی ہے اور مولانا مودودی کی تحریروں کو نصاب سے خارج اور سرکاری لائبریریوں سے باہر نکال دیا ہے۔ پروفیسر غلام اعظم جیسے پاکستان سے محبت کرنے والے ضعیف شخص پر 1970ء میں ''بنگلہ دیش کی آزادی'' کو روکنے میں پاکستانی فوج سے تعاون کرنے کے الزام میں ''غداری'' کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ برما کے مسلمانوں کے غم میں مبتلا لوگ ''اپنے دُکھوں پر کسی کا نام'' لے کر رو رہے ہیں۔ مقصد حسینہ واجد کی ''مسلمانوں کے بارے بے حسی'' کو بے نقاب کرنا ہے اور گالیاں پاکستانی میڈیا کھا رہا ہے۔
مان لیتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا بے حس ہو گیا ہے۔ وہ فحاشی پھیلاتا اور ریٹنگ بڑھاتا ہے۔ مگر عالم اسلام کا سب سے بڑا چینل الجزیرہ بھی تو ہے۔ وہاں سے اسامہ بن لادن اور ڈاکٹر الظواہری کے کیسٹ سب سے پہلے دُنیا کو سنوائے جاتے تھے۔ ہمارے قبائلی علاقوں میں کچھ بھی ہو سب سے پہلی خبر یہی چینل دے گا۔ اسے برما کے مسلمان کیوں نظر نہیں آ رہے؟ ''ِالجزیرہ'' کے بعد دوسرا بڑا چینل ''العربیہ'' ہے۔
اس کے بھی بے تحاشہ وسائل ہیں۔ وہ کیوں خاموش ہے؟ عالم اسلام میں اس وقت سب سے زیادہ مالدار اور توانا میڈیا ترکی میں بھی ہے۔ اس ملک میں خدا کے کرم سے آج کل اتاترک کے ''سیکولر'' پیروکاروں کی حکومت نہیں۔ اقتدار میں وہی لوگ ہیں جن کے بزرگ قاضی حسین احمد کے مہمان ہوا کرتے تھے۔ ترکی کے اخباروں اور ٹی وی چینلوں میں برما کے مسلمانوں کا ذکر کیوں نہیں ہو رہا؟ ''عرب بہار'' کی طفیل اب تو مصر بھی ''مسلمان '' ہو گیا ہے۔ اس کے صدر اخوان المسلمین سے آئے ہیں۔ مسلم دُنیا کا قدیم ترین اخبار ''الاہرام'' آج کل بھی شایع ہوتا ہے۔
میں نے پورے دو روز اس اخبار کے وسائل اور حلقہ اثر کو جاننے میں مصرف کر رکھے ہیں۔ اس کا ایک بہت ہی مؤثر ہفتہ وار انگریزی ایڈیشن بھی ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ پر جا کے دیکھئے گا اور مجھے بھی بتا دیجیے گا کہ برما کے مسلمانوں کا کتنا تذکرہ اس ایڈیشن میں ہو رہا ہے ۔
خدارا میرے اس کالم سے یہ مت سمجھئے گا کہ مجھے برما کے مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔ شاید ان کے غم میں مرے جانے والے لکھاریوں سے زیادہ نہیں تو برابر کی ضرور ہے۔ مگر میرے پاس حقائق نہیں ہیں۔ جی ہاں ای میل کے ذریعے کچھ کہانیاں اور تصویریں ضرور ملی ہیں۔ ان طعنوں کے ساتھ کہ میں ان پر خاموش کیوں ہوں۔ بدقسمتی سے تھوڑی تحقیق کی تو زیادہ تر تصویریں جعلی نکلیں۔
ضرورت پڑنے پر ان کا جعلی ہونا بھی ثابت کر سکتا تھا۔ مگر خاموش رہا۔ میری خاموشی کا اصل سبب وہ بے بسی ہے جو میں اپنے ہی مسلمان شہریوں کے بے گناہ قتل کو روک نہ سکنے کے سلسلے میں محسوس کرتا رہا ہوں۔ خیرات کی طرح مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے کا نیک کام بھی گھر سے شروع کرنا چاہیے۔ میں پاکستان میں بسنے والوں کی کوئی مددد نہ کرسکا۔ برما کے بے چارے مسلمانوں کو کیا تحفظ فراہم کرسکوں گا؟