سال2012 وفاقی دارالحکومت کے پونے چار سو ناکے کارکردگی صفر

اسلام آباد پولیس نے چوری کی مجموعی طورپر1530 وارداتوں میں سے صرف 350 وارداتوں میں برآمدگیاں کیں۔

اسلام آباد پولیس نے رواں سال کے پہلے پانچ ماہ میں 302عدالتی مفروروں کو گرفتارکیا ۔ فوٹو: فائل

لمحوں پر لمحے گزرتے ہیں، روز و مہ و سال بنتے ہیں، سال پر سال بیتتا ہے، صدیاں جنم لیتی ہیں اور زمانہ اپنی صورت گری کرتا رہتا ہے۔

زمانہ مسافر ہے، پیہم رواں رہتا ہے، آگے ہی آگے کہ آگے بڑھتے رہنا ہی زندگی ہے، تب ہی زمانہ کبھی نہیں مرتا، یہ ہم ہیں جو کہیں رک جاتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ 2012 کل رات بارہ بجے آخری سانس لے گا اور عالمِ انساں پر برسوں کا ایک اور ہندسہ طلوع ہو جائے گا۔ ہمیں غور کرنا ہوگا کہ جہاں ہم پچھلے برس تھے، کیا وہاں سے کچھ آگے کو سرکے؟ کیا انسانوں کی اس منڈی میں ہمارا بھاؤ کچھ بڑھا؟ افسوس! ایسا کچھ نہیں ہوا، ہم جتنے کے گئی صدی میں تھے، اب اتنے کے بھی نہیں رہے اور المیہ یہ ہے کہ ہمارے کساد کا یہ عمل جاری ہے، خدشہ ہے کہ آئندہ چند برسوں میں ہمیں انسانوں کے ایوان سے نکال کر منڈی مویشیاں میں ڈال دیا جائے گا۔ افتخار چوہدری نے وفاقی ضلعے کے سالِ گزشتہ کی ''مجرمانہ تاریخ'' ترتیب دی ہے۔ انہوں نے کوئی جذباتی تبصرہ نہیں کیا لیکن کیا ضروری ہے کہ درد کی کوئی لَے بھی ہو؟ (انوار فطرت)

وفاقی پولیس رواں سال کے پہلے گیارہ ماہ اورپچیس دن میں شہریوں کے جان و مال کے تحفظ میںبری طرح ناکام رہی۔ مجموعی طور پرگھروں میں چوری، ڈکیتی، نقب زنی، راہ زنی، کار چوری اور موٹرسائیکل چوری کی 1530 وارداتیںہوئیں حتیٰ کہ ایک واردات نے تو پولیس حکام کے فول پروف سیکیوریٹی انتظامات کے دعوے کی اس وقت قلعی ہی کھول دی جب ہائی سیکیوریٹی زون یعنی پارلیمنٹ ہاؤس کی پارکنگ سے ایک ڈائریکٹرکی سرکاری ایکس ایل آئی کار عین بجٹ اجلاس والے دن چوری ہو گئی۔ ضلع بھرمیںجگہ جگہ پولیس نے 72 اعلانیہ ناکے لگا رکھے ہیں۔

جب کہ پانچ شعبوں کی پولیس کے 300 سے زیادہ غیر اعلانیہ ناکے اس کے علاوہ ہیں اس کے باوجود پولیس مسلح ڈکیتی،گاڑی چوری کی کسی ایک واردات میں ملزم کورنگے ہاتھوںموقع پر نہیں پکڑ پائی۔ موجودہ حکومت کے دورمیں رواں سال دونئے تھانے لوہی بھیر اور بنی گالا قائم کیے گئے جس کے بعد حیران کن صورتِ حال یہ سامنے آئی کہ جن علاقوں میں کبھی عام جرائم بھی رونما نہیں ہوئے تھے ان تھانوں کی برکت ان علاقوں میں نہ صرف عام بل کہ سنگین جرائم کا آغاز ہوگیا اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ان میں تیزی کے ساتھ اضافہ بھی ریکارڈ پر ہے۔

تھانہ لوہی بھیر جب سابق تھانہ سہالہ اور پھر اس کے بعد تھانہ کورال کی حدود میں شامل تھا تو کبھی اتنے سنگین جرائم نہ ہوئے تھے لیکن اس تھانہ کے قیام کے بعد نیول انکریج، پی ڈبلیوڈی، پولیس فاؤنڈیشن وغیرہ جیسے متعدد دیگرعلاقوں میںجرائم نہ ہونے کے برابرتھے مگر اب وہاں جواں سال لڑکیوں کے اغوا سے لے کر مسلح ڈاکے اورسٹریٹ کرائم معمول بن گئے ہیں۔ ان نئے تھانوں کے قیام کے بعد سے ضلع بھر میں سنگین جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ ذمہ دار پولیس ذرائع نے منگل کو ایکسپریس کو بتایا کہ رواں سال ساڑھے پانچ سوسے زیادہ مکانوںکے تالے توڑے گئے۔پانچ سوقیمتی کاریںچوری ہوئیں، ایک سو موٹرسائیکل غائب ہوئے، شہری پچاسی مختلف اقسام کی دیگرگاڑیوں سے محروم ہوئے، دن دہاڑے اڑھائی سو سے زیادہ اور رات کے وقت راہ زنی کی تین سو نوے وارداتیں ہوئیں، ایک سو پانچ مسلح ڈاکے پڑے۔


مگر پولیس ۔۔۔ اپنے ریکارڈ میں صرف 10 مسلح ڈاکے ظاہر کر رہی ہے جب کہ باقی مسلح وارداتوں کو اپنی ''مشہورِ زمانہ مہارت'' کے ساتھ کرائم اسٹیٹمنٹ میں چار اور پانچ سے کم افراد (ملزمان) قرار دے کر الگ سے ظاہر کر رہی ہے، اس طرح یہ وارداتیں مسلح ڈاکے کے خانے سے الگ رکھ کر ڈکیتی کے جرائم کو کم ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس دوران ریکارڈ بک کے مطابق پولیس نے ڈیڑھ سو سے زیادہ ٹیمپرڈ گاڑیاں پکڑیں جب کہ چوری کی مجموعی طورپر1530 وارداتوں میں سے صرف 350 وارداتوں میںبرآمدگیاں کیں اوربدقسمتی سے ان میں سے بھی کسی ایک واردات کی مطلوبہ برآمدگی کرنے میں پولیس ناکام رہی۔ سال بھرمیں کم پولیس برآمدگیوں کو میڈیاکوریج کے ذریعے زیادہ ظاہرکرکے فائلوں کا پیٹ بھرا گیا۔

رواں سال پولیس نے چوری، ڈکیتی سمیت ہرقسم کے مقدمات کے اندراج میں بخل کیا البتہ بااثر مدعیوں اور اپنی ترجیحات کو مدنظر رکھا اور صرف دس فی صد مقدمات درج کیے گئے ان کے سوا ایک بھی مقدمہ وقوعے کے دن درج نہیں کیا بل کہ وقوعے کے کئی کئی روز بعد تک متاثرین کو تھانوں میں ذلیل و خوار کرکے درج کیے گئے۔ ان مقدمات میں پولیس کی اپنی ناقص تفتیش ہی ان کی کارکردگی کے دعوؤںکا منہ چڑا رہی ہے۔ پولیس نے اپنی رپورٹ میں خود اعتراف کیا ہے کہ رواؔں سال اب تک سات ہزار سے زیادہ مقدمات میں سے تئیس سو مقدمات کے چالان متعلقہ عدالتوں تک پہنچائے جا سکے۔

ان میں سے پولیس دس فی صد چالان بھی قانون کے مطابق دی گئی چودہ یوم کی مدت کے اندرمتعلقہ ماتحت عدالتوں میںجمع نہیں کروا پائی جس کی وجہ سے پیرکو آئی جی بنیامین نے پولیس افسران کے اجلاس میں ایس ایس پی کو 10 جنوری کی ڈیڈ لائن دی ہے کہ وہ تمام زیرالتوا مقدمات کے چالان مکمل کروا کر متعلقہ عدالتوں میں جمع کروائیں۔ اسی طرح پولیس کورواں سال قتل، اقدام قتل، ڈکیتی، چوری، اغوا اور دیگرسنگین وارداتوں میں 2900 سے زیادہ خطرناک اشتہاری ملزمان کو گرفتارکرنا تھا لیکن یہاں بھی پولیس بری طرح ناکام رہی اور اب تک پولیس اپنے ہی ریکارڈ کے مطابق محض 364 اشتہاری ملزم گرفتارکر پائی ہے تاہم پولیس نے رواں سال کے پہلے پانچ ماہ میں 302عدالتی مفروروں کو گرفتارکیا جب کہ باقی ماندہ سارے عرصے کے دوران صرف ڈیڑھ سومفرور گرفتارکیے۔

رواں سال اب تک ڈیڑھ سو افرادقتل ہوئے جن میں سے کئی ایک کے مقدمات کی دفعات بعد میں پولیس نے خود تبدیل کر دیں، اقدام قتل کی 172 وارداتیں ہوئیں جب کہ ہراساں کرنے کے 290 مقدمات درج کیے گئے۔ ان ہی گیارہ ماہ اور پچیس دنوں میں اغوا برائے تاوان کی 14 بڑی وارداتیں بھی ہوئیں لیکن کسی ایک بھی واردات کا شکار بننے والے شہری کی جان و مال کے تحفظ میں پولیس بروقت کام نہیں آسکی حتیٰ کہ تازہ ترین واقعے میں رواں سال 28 ستمبرکو تھانہ کورال کی حدود سے اغوا ہونے والے تین سالہ حارث کو اس کے ورثا نے اغوا کاروں سے مذاکرات کرکے تین ماہ بعد (آج سے ایک ہفتہ قبل) بازیاب کروایا۔ پچھلے تقریباً ڈیڑھ سال سے پولیس افسران نے ماتحت افسران کو صرف منشیات، اسلحہ کی برآمدگیوں اورجواریوں کی گرفتاری کو ناولین ترجیح اس لیے بنا رکھاہے کہ یہ اقدامات پولیس حکام کی کارکردگی کوچار چاند لگانے کا باعث بنتے ہیں ۔

مگرشہریوں کے لٹنے کی انہیں کوئی فکر نہیں یہ ہی وجہ ہے کہ نہ وارداتوں میں کمی آرہی ہے نہ ہی پولیس انہیں کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوتی دکھائی دہے رہی ہے۔ دوسری جانب وفاقی پولیس کاموقف ہے کہکار چوری اوردیگر جرائم میں سات ہزارملزمان کوگرفتارکرکے ان سے کروڑوں روپے کا چھینا گیا اور مسروقہ مال برآمد کیا گیا۔ اسلحہ ومنشیات کے کاروبار میں ملوث ملزمان کوگرفتار کرکے ان سے اڑھائی سوکلوگرام چرس 10.174 کلوگرام ہیروئن ، 7.676 کلو افیون، 5542 بوتلیں شراب برآمد کی، نوے جواری گرفتارکیے گئے۔

موجودہ دورحکومت میں وفاقی پولیس نے ایک نیا کارنامہ یہ کیا کہ مردوں کے تھانوں میں خواتین کے خلاف مقدمات درج کیے گئے جن سے مرد تفتیش کریں گے جب کہ خواتین کے تھانے میں مرد ایس ایچ او تعینات کیا گیا کہ بااثر خاتون اے ایس آئی کو کورس پر امریکا بھیجا گیا جس کی وجہ سے مرد سب انسپکٹرکوخواتین کے تھانہ کا ایس او تعینات کرنا پڑا۔ علاوہ ازیں خواتین کے تھانہ میں دو مرد تفتیشی افسر بھی مستقل تعینات کردیے گئے ہیں جو خواتین ملزمان سے تفتیش کرتے ہیں۔ اس اقدام سے محترمہ بے نظیربھٹو شہید کا وہ ملک گیر منصوبہ وفاقی دارالحکومت میں پولیس بیوروکریسی کی نذر ہوگیا جس کے تحت وہ چاہتی تھیں کہ خواتین کے تھانے قائم کیے جائیں جہاں خواتین ہی خواتین کو انصاف فراہم کریں اور خواتین ملزمان سے خواتین پولیس ہی تفتیش کرے۔
Load Next Story