حزب ریاست کی محدودیت
وطن عزیزکے اندرونی حالات بلاشبہ بہت ہی بھیانک نتائج کے حامل دکھائی دیے جانے لگے ہیں،
وطن عزیزکے اندرونی حالات بلاشبہ بہت ہی بھیانک نتائج کے حامل دکھائی دیے جانے لگے ہیں، کیونکہ ریاست کے مقدس منصبوں پر براجمان حضرات بدانتظامی کے سنگین الزامات کی ضد میں ہیں۔ ریاستی ملازمین عدم تحفظ کے شکار اور اپنے فرائض سے غافل ہیں، جن کی اکثریت ان تہمت زدہ مقتدر طبقے کی بے جا فرمائشوں کی اطاعت کرکے اپنی ملازمتوں کو برقرار رکھنے کے جتن میں مصروف ہے۔ غریب اور بے پہنچ عوام کا جو حشر، نشر ہوتا آیا ہے، اسے تھر میں مرتے بچوں کی طرح چکن گنیا کے متاثرہ افراد کو سرکاری اسپتالوں میں لاوارث دیکھا جانا ممکن ہوا ہے۔
ہر طرف مایوسی کا عالم چھایا ہوا ہے۔ ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث مقتدر طبقہ (حکمران، صنعت کار اور اشرافیہ) کے احتساب کو تو جیسے جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کی ضمانت قبل از گرفتاری حاصل ہوچکی ہے، اور اس ضمن میں ریاستی رٹ کو برقرار رکھے جانے کی خاطر عوامی امنگوں کے ترجمان اقدامات کو بھی جمہوریت پسندی کی قربان گاہ میں ایسا رنگ چڑھا دیا جاتا رہا ہے کہ جس سے ریاست کے آفاقی و نظریاتی مقاصد بھی بے اثر ہوتے ہوئے نظر آنے لگے ہیں۔
جس کے حتمی نتائج کے طور کتنی مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہوچکی ہے کہ انسداد بدانتظامی پر کام کرنے والے ریاستی ادارے خود بدانتظامی کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ قوت واختیارات رکھنے والے ریاستی اداروں کے سربراہان بھی ٹی وی اینکرز کی طرح فقط سوالات اٹھانے میں مصروف ہیں، تو پھر ریاست کے چوتھے ستون کا درجہ حاصل کرنے والے میڈیا میں ٹی وی اسکرین پر آنے والے حضرات کا تو کوئی قصور ہی نہیں رہ جاتا۔
اپنے سروں پر ''اسکالر'' ہونے کا نام نہاد تاج سجانے والے حضرات ان ٹاک شوز میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنے جھگڑنے لگ جائیں تو ان کی نظریاتی تعلیمات کا حاصل بھی کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ جب کہ حزب اختلاف بھی ''شتر اڑ نہیں سکتے اور مرغ بار برداری نہیں کرتے'' کے مصداق شترمرغ بنی ہوئی نظر آنے لگی ہے۔ ہاں البتہ وہ بھی ان ٹاک شوز کے مہمانوں کی طرح کسی روڈ کی تعمیر کے وقت کسی ریاستی ملازم کو کھری کھری سنانے کی اداکاری کرنے پر داد و دہش حاصل کرنا اپنا حق سمجھنے لگ جائیں تو اس میں کوئی حیرت کا پہلو نہیں رہ جاتا۔
چونکہ انسانوں کے موجودہ ترقی یافتہ ارتقائی مرحلے پر ریاستوں کے داخلی وخارجی مسائل اور ان کے حل کی پالیسیاں عالمی صورت حال کے پیش نظر ترتیب دی جانے لگی ہیں۔ اس لیے کرۂ ارض پر موجود ریاستوں اور ان کے اداروں کی اصلاح اور فعالیت کے لیے صرف اور صرف پرائیویٹائزیشن کا چلن ہی قابل قبول تصور کیا جانے لگا ہے۔ شاید اسی لیے پاکستان سمیت ان ممالک عالم میں حیران کن حد تک ریاستی اداروں کی اصلاح کی جانب گامزن ہونے کے بجائے اداروں کی پرائیویٹائزیشن کی راہ ہموار کیے جانے کا پہلو بہت ہی بھیانک حالات کو بیان کرتے ہوئے نظر آنے لگا ہے، جس کی سب سے چھوٹی اور بہترین مثال پاکستان میں بھی دیگر مملکتی اداروں کے بعد پی آئی اے کو پرائیویٹائز کیے جانے کا پہلو لمحہ فکریہ بنا ہوا ہے۔
اس چلن پر تمام محب وطن پاکستانیوں کو یہ منظر خوف زدہ کیے ہوئے ہے کہ کیا اب قانون وانصاف کو بھی پرائیویٹائز کیے جانے کے نکات زیر بحث لائے جائیں گے؟ اور جب ریاستی اداروں کی پرائیویٹائزیشن اپنی تکمیل کو پہنچ جائے گی تو کیا ہمارے ڈگری یافتہ، جمہوریت پسند وقابل ترین حکمران ریاست کو بھی پرائیویٹائز کرنے جیسی دور کی کوڑی لائیں گے؟
ہمارے مقتدر طبقے کی بودوباش اور طرز عمل سے یہ بات تو بالکل ہی عیاں ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ پاکستان کے غیر جمہوری وقدامت پسند رویوں کے سبب ہمارا جمہوریت پسند مقتدر طبقہ مغرب میں سر اٹھا کر چل نہیں سکتا۔ جو یہ چاہتا ہے کہ مغربی ممالک میں ان کے بڑے بڑے مہنگے فلیٹ اور محل ہوں، جن میں ہیلی کاپٹرز کے اترنے اور اڑان بھرنے کی سہولتیں بھی میسر ہوں، تا کہ ہم مغرب میں پاکستانی وقار کا جلوہ دکھا سکیں، اور انھیں جتا سکیں کہ ہم بھی جدید ترقی اور وسیع النظری میں کسی سے کم نہیں ہیں۔
اگر اس دوران گدھوں پر سواری کرنے والے فرسودہ رسم ورواج سے وابستہ ناخواندہ اور بے ضرر تھری بچے، بوری بند ہونے سے خائف چکن گنیا زدہ اور ماڈل ٹاؤن میں خوامخواہ ہنگامہ کرکے ''غیر جمہوری'' رویے کا مظاہرہ کرنے والے اپنی جان سے جاتے ہیں، تو جائیں، ویسے بھی مغرب میں ان کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔ یہ زندہ رہ کر الٹا ریاست پر بوجھ ہی بننے والے تھے۔
چونکہ اب یہ عالمی چلن بن چکا ہے اس لیے ہم ترقی پسند جمہوری پاکستانیوں نے اس چلن کی ہر حال میں تقلید کرنی ہوگی۔ کیا اس چلن کی مخالفت کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے شکار کی اجازت نہ دے کر ہماری سپریم کورٹ کو خط بھیجنے کا اختیار رکھنے والے قطری شہزادوں سے اپنے تعلقات خراب کردیے ہیں؟ جب کہ کمال خوبصورتی کے ساتھ سندھ حکومت کی جانب سے سابق وزیراعظم کے حلقہ انتخاب این اے 207 قمبر شہدادکوٹ میں سعودی شہزادوں کے شکار کھیلنے کی میزبانی حاصل کرکے اپنے ''مختارکل'' کی وطن واپسی کی راہ ہموار کیے جانے کا مظاہرہ نہیں دیکھا۔ تو کیا انھیں اب بھی یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے قومی تشخص کے نکھار کے لیے ملک میں جاگیریں اور مغرب میں فلیٹ، محل اور کمپنیاں قائم کرنا کتنا اہم اور ضروری ہے؟
اگر یہ جاگیریں نہ ہوتیں تو کیا ہم ایسی شاندار میزبانی کے مزے حاصل کرسکتے؟ دبئی اور لندن میں محل اور فلیٹ نہ ہونے کی صورت میں کیا پاکستانی مقتدر طبقے کے حکومتی وسیاسی مشاورتی اجلاس ومیزبانی کسی ہوٹل میں رکھے جانے کا اقدام ہماری قومی آن وشان کے خلاف نہ ہوتا؟
شاید اسی لیے ہمارے مقتدر طبقے نے یہ سوچ اپنائی ہوئی ہے کہ تین تین دن تک بجلی سے محروم اور بسوں میں دھکے کھانے والے دبئی، لندن اور نیویارک کی چکاچوند اور ہوائی جہازوں کی نرم وگداز سیٹوں کا پرلطف احساس کیا جانیں؟ اس لیے گوبر زدہ پالتو جانوروں کے بیچ رہنے والے ان عام لوگوں (عوام) کو بین الاقوامی سطح پر قومی تشخص کے نکھار کے لیے رائج اس چلن کی نزاکت کو سمجھانے کی کوشش کرنا ہی بے کار ہے۔
شاید اسی لیے ہمارے مقدروں کے مالک ڈیڑھ ڈیڑھ سال تک ملک سے باہر ہی رہتے ہیں تا کہ ان عام لوگوں کی ''بے وقوفانہ مغزماری'' سے بچا جاسکے۔ چونکہ ان میں سے بعض حضرات رکن اسمبلی ہونے کے باوجود بھی خود کو ملک بدر کیے بیٹھے ہیں، اس لیے اعلیٰ منصبوں سے سبک دوش ہونے والے ملک چھوڑتے ہوئے نظر آنے لگیں تو انھیں واپس بلاتے رہنا شاید مناسب نہ ہوگا۔ کیونکہ اگر وہ واپس ہوئے تو پھر ان کے لیے نئے سیاسی اتحاد یا دھڑے بنانے پڑ جائیں گے۔
دیرینہ مسائل کو برننگ ایشوز بنا کر لوگوں کو سڑکوں پر لائے جانے کی مشقت کرنا اور انھیں دوبارہ سے اعلیٰ منصب بھی دینے پڑ جائیں گے۔ اس لیے جو اعلیٰ ایوانوں میں مسند نشیں ہیں انھیں چھیڑا جانا عالمی طور پر رائج چلن اور عالمی استعماریت کے خلاف عمل تصور کیا جائے گا۔ اس لیے عالمی استعماریت کو چھیڑا نہ جائے۔ جو میسر ہیں ان سے کام چلا لیں اور ان میں سے جو اپنی وکٹ کو نہ بچا سکے انھیں بھی ملکی پِچ سے بیرون ملک کی پویلین روانہ کردیا جانا چاہیے۔ کیونکہ جمہوری ٹرین سے اقتداری اسٹیشنوں پر نئے اترنے والے بھی تو اسی چلن ہی پر کاربند رہیں گے۔ اس لیے سب ایک قطار میں دوستانہ انداز اپنا کر کھڑے ہیں اور دھکم پیل کرنے کے بجائے اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے نظر آنے لگے ہیں۔ جمہوریت کا کیا خوبصورت انداز دلربائی ہے کہ سبھی حزب اقتدار بھی ہیں اور سبھی حزب اختلاف بھی ہیں۔ جنھوں نے ''حزب ریاست'' کو محدود کیا ہوا ہے۔
ہر طرف مایوسی کا عالم چھایا ہوا ہے۔ ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث مقتدر طبقہ (حکمران، صنعت کار اور اشرافیہ) کے احتساب کو تو جیسے جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کی ضمانت قبل از گرفتاری حاصل ہوچکی ہے، اور اس ضمن میں ریاستی رٹ کو برقرار رکھے جانے کی خاطر عوامی امنگوں کے ترجمان اقدامات کو بھی جمہوریت پسندی کی قربان گاہ میں ایسا رنگ چڑھا دیا جاتا رہا ہے کہ جس سے ریاست کے آفاقی و نظریاتی مقاصد بھی بے اثر ہوتے ہوئے نظر آنے لگے ہیں۔
جس کے حتمی نتائج کے طور کتنی مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہوچکی ہے کہ انسداد بدانتظامی پر کام کرنے والے ریاستی ادارے خود بدانتظامی کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ قوت واختیارات رکھنے والے ریاستی اداروں کے سربراہان بھی ٹی وی اینکرز کی طرح فقط سوالات اٹھانے میں مصروف ہیں، تو پھر ریاست کے چوتھے ستون کا درجہ حاصل کرنے والے میڈیا میں ٹی وی اسکرین پر آنے والے حضرات کا تو کوئی قصور ہی نہیں رہ جاتا۔
اپنے سروں پر ''اسکالر'' ہونے کا نام نہاد تاج سجانے والے حضرات ان ٹاک شوز میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنے جھگڑنے لگ جائیں تو ان کی نظریاتی تعلیمات کا حاصل بھی کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ جب کہ حزب اختلاف بھی ''شتر اڑ نہیں سکتے اور مرغ بار برداری نہیں کرتے'' کے مصداق شترمرغ بنی ہوئی نظر آنے لگی ہے۔ ہاں البتہ وہ بھی ان ٹاک شوز کے مہمانوں کی طرح کسی روڈ کی تعمیر کے وقت کسی ریاستی ملازم کو کھری کھری سنانے کی اداکاری کرنے پر داد و دہش حاصل کرنا اپنا حق سمجھنے لگ جائیں تو اس میں کوئی حیرت کا پہلو نہیں رہ جاتا۔
چونکہ انسانوں کے موجودہ ترقی یافتہ ارتقائی مرحلے پر ریاستوں کے داخلی وخارجی مسائل اور ان کے حل کی پالیسیاں عالمی صورت حال کے پیش نظر ترتیب دی جانے لگی ہیں۔ اس لیے کرۂ ارض پر موجود ریاستوں اور ان کے اداروں کی اصلاح اور فعالیت کے لیے صرف اور صرف پرائیویٹائزیشن کا چلن ہی قابل قبول تصور کیا جانے لگا ہے۔ شاید اسی لیے پاکستان سمیت ان ممالک عالم میں حیران کن حد تک ریاستی اداروں کی اصلاح کی جانب گامزن ہونے کے بجائے اداروں کی پرائیویٹائزیشن کی راہ ہموار کیے جانے کا پہلو بہت ہی بھیانک حالات کو بیان کرتے ہوئے نظر آنے لگا ہے، جس کی سب سے چھوٹی اور بہترین مثال پاکستان میں بھی دیگر مملکتی اداروں کے بعد پی آئی اے کو پرائیویٹائز کیے جانے کا پہلو لمحہ فکریہ بنا ہوا ہے۔
اس چلن پر تمام محب وطن پاکستانیوں کو یہ منظر خوف زدہ کیے ہوئے ہے کہ کیا اب قانون وانصاف کو بھی پرائیویٹائز کیے جانے کے نکات زیر بحث لائے جائیں گے؟ اور جب ریاستی اداروں کی پرائیویٹائزیشن اپنی تکمیل کو پہنچ جائے گی تو کیا ہمارے ڈگری یافتہ، جمہوریت پسند وقابل ترین حکمران ریاست کو بھی پرائیویٹائز کرنے جیسی دور کی کوڑی لائیں گے؟
ہمارے مقتدر طبقے کی بودوباش اور طرز عمل سے یہ بات تو بالکل ہی عیاں ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ پاکستان کے غیر جمہوری وقدامت پسند رویوں کے سبب ہمارا جمہوریت پسند مقتدر طبقہ مغرب میں سر اٹھا کر چل نہیں سکتا۔ جو یہ چاہتا ہے کہ مغربی ممالک میں ان کے بڑے بڑے مہنگے فلیٹ اور محل ہوں، جن میں ہیلی کاپٹرز کے اترنے اور اڑان بھرنے کی سہولتیں بھی میسر ہوں، تا کہ ہم مغرب میں پاکستانی وقار کا جلوہ دکھا سکیں، اور انھیں جتا سکیں کہ ہم بھی جدید ترقی اور وسیع النظری میں کسی سے کم نہیں ہیں۔
اگر اس دوران گدھوں پر سواری کرنے والے فرسودہ رسم ورواج سے وابستہ ناخواندہ اور بے ضرر تھری بچے، بوری بند ہونے سے خائف چکن گنیا زدہ اور ماڈل ٹاؤن میں خوامخواہ ہنگامہ کرکے ''غیر جمہوری'' رویے کا مظاہرہ کرنے والے اپنی جان سے جاتے ہیں، تو جائیں، ویسے بھی مغرب میں ان کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔ یہ زندہ رہ کر الٹا ریاست پر بوجھ ہی بننے والے تھے۔
چونکہ اب یہ عالمی چلن بن چکا ہے اس لیے ہم ترقی پسند جمہوری پاکستانیوں نے اس چلن کی ہر حال میں تقلید کرنی ہوگی۔ کیا اس چلن کی مخالفت کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے شکار کی اجازت نہ دے کر ہماری سپریم کورٹ کو خط بھیجنے کا اختیار رکھنے والے قطری شہزادوں سے اپنے تعلقات خراب کردیے ہیں؟ جب کہ کمال خوبصورتی کے ساتھ سندھ حکومت کی جانب سے سابق وزیراعظم کے حلقہ انتخاب این اے 207 قمبر شہدادکوٹ میں سعودی شہزادوں کے شکار کھیلنے کی میزبانی حاصل کرکے اپنے ''مختارکل'' کی وطن واپسی کی راہ ہموار کیے جانے کا مظاہرہ نہیں دیکھا۔ تو کیا انھیں اب بھی یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے قومی تشخص کے نکھار کے لیے ملک میں جاگیریں اور مغرب میں فلیٹ، محل اور کمپنیاں قائم کرنا کتنا اہم اور ضروری ہے؟
اگر یہ جاگیریں نہ ہوتیں تو کیا ہم ایسی شاندار میزبانی کے مزے حاصل کرسکتے؟ دبئی اور لندن میں محل اور فلیٹ نہ ہونے کی صورت میں کیا پاکستانی مقتدر طبقے کے حکومتی وسیاسی مشاورتی اجلاس ومیزبانی کسی ہوٹل میں رکھے جانے کا اقدام ہماری قومی آن وشان کے خلاف نہ ہوتا؟
شاید اسی لیے ہمارے مقتدر طبقے نے یہ سوچ اپنائی ہوئی ہے کہ تین تین دن تک بجلی سے محروم اور بسوں میں دھکے کھانے والے دبئی، لندن اور نیویارک کی چکاچوند اور ہوائی جہازوں کی نرم وگداز سیٹوں کا پرلطف احساس کیا جانیں؟ اس لیے گوبر زدہ پالتو جانوروں کے بیچ رہنے والے ان عام لوگوں (عوام) کو بین الاقوامی سطح پر قومی تشخص کے نکھار کے لیے رائج اس چلن کی نزاکت کو سمجھانے کی کوشش کرنا ہی بے کار ہے۔
شاید اسی لیے ہمارے مقدروں کے مالک ڈیڑھ ڈیڑھ سال تک ملک سے باہر ہی رہتے ہیں تا کہ ان عام لوگوں کی ''بے وقوفانہ مغزماری'' سے بچا جاسکے۔ چونکہ ان میں سے بعض حضرات رکن اسمبلی ہونے کے باوجود بھی خود کو ملک بدر کیے بیٹھے ہیں، اس لیے اعلیٰ منصبوں سے سبک دوش ہونے والے ملک چھوڑتے ہوئے نظر آنے لگیں تو انھیں واپس بلاتے رہنا شاید مناسب نہ ہوگا۔ کیونکہ اگر وہ واپس ہوئے تو پھر ان کے لیے نئے سیاسی اتحاد یا دھڑے بنانے پڑ جائیں گے۔
دیرینہ مسائل کو برننگ ایشوز بنا کر لوگوں کو سڑکوں پر لائے جانے کی مشقت کرنا اور انھیں دوبارہ سے اعلیٰ منصب بھی دینے پڑ جائیں گے۔ اس لیے جو اعلیٰ ایوانوں میں مسند نشیں ہیں انھیں چھیڑا جانا عالمی طور پر رائج چلن اور عالمی استعماریت کے خلاف عمل تصور کیا جائے گا۔ اس لیے عالمی استعماریت کو چھیڑا نہ جائے۔ جو میسر ہیں ان سے کام چلا لیں اور ان میں سے جو اپنی وکٹ کو نہ بچا سکے انھیں بھی ملکی پِچ سے بیرون ملک کی پویلین روانہ کردیا جانا چاہیے۔ کیونکہ جمہوری ٹرین سے اقتداری اسٹیشنوں پر نئے اترنے والے بھی تو اسی چلن ہی پر کاربند رہیں گے۔ اس لیے سب ایک قطار میں دوستانہ انداز اپنا کر کھڑے ہیں اور دھکم پیل کرنے کے بجائے اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے نظر آنے لگے ہیں۔ جمہوریت کا کیا خوبصورت انداز دلربائی ہے کہ سبھی حزب اقتدار بھی ہیں اور سبھی حزب اختلاف بھی ہیں۔ جنھوں نے ''حزب ریاست'' کو محدود کیا ہوا ہے۔