ہندو میرج ایکٹ میں 18سال بلوغت عمر پر اسلامی نظریاتی کونسل کا اعتراض
ترمیم کی سفارش کی جائے گی، مجموعی طور پر ہندو اور مسیحی شادی وطلاق قوانین سے اتفاق۔
قوانین کواسلامی سانچے میں ڈھالنے کیلیے 1973کے آئین کے تحت قائم اسلامی نظریاتی کونسل اپنی 2013-14کی رپورٹ میں قراردے چکی ہے کہ غیرمسلم شادی اورطلاق کے معاملات میں اپنے مذہب کے مطابق فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں۔
کونسل نے اپنی رپورٹ میں ملک میں ہندوؤںاور مسیحیوںکی شادی اورطلاق سے متعلق قوانین بنانے کی حمایت کی تھی ۔کونسل کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ غیرمسلوں کے اپنے مذہب میں شادی یا طلاق کیلئے جودرست ہے کونسل نے شریعت کے مطابق اسے قبول کیا ہے تاہم رپورٹ کے مطابق کونسل نے کہا تھاکہ ہندومذہب میں بلوغت کی عمرمتعین نہیں،کونسل نے بلوغت کی عمر18سال کی شق پراعتراض کیا اور کہا عمر کی حدکم کرنے کی سفارش کی جائے گی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک اسلامی ریاست میں تمام غیر مسلم اپنے اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے میں آزاد ہیں اور آئین میں بھی انھیں مذہبی آزادی دی گئی ہے ۔کونسل نے اپنی رائے کی وضاحت میں ایک واقعہ بیان کیا ہے جس کے مطابق حضرت محمدؐ نے ایک یہودی کیخلاف مقدمہ کافیصلہ تورات کے مطابق کیا تھا۔کونسل نے اس رائے کااظہار مسیحیوں کی شادی اورطلاق (ترمیمی ) بل 2012 اورہندومیرج بل 2013کے مسودہ کاجائزہ لینے کے بعدکیا ہے۔
وزارت مذہبی امور نے 2013 میں دونوں بل کونسل کوشریعت کی روشنی میں رائے دینے کیلئے بھجوائے تھے ۔یہ دونوں بل وزارت انسانی حقوق نے 2012 میں نیشنل کمیشن برائے وقارنسواں کے ساتھ مل کرتیار کیا تھا۔وزارت مذہبی امور نے یہ بل کونسل کوبھیجتے ہوئے بتایا تھاکہ اسے ہندواورمسیحی برادری کے نمائندوں کے مشورہ سے تیارکیاگیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق غیرمسلموں کی شادی اورطلاق سے متعلق معاملات 1991-92میں بھی کونسل کے زیر غور رہے تھے ۔اس وقت کونسل نے اپنی رپورٹ میں کہا تھاکہ آئین کاآرٹیکل227 (3)غیرمسملوں کے پرسنل لاء سے متعلق رائے دینے سے روکتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس حکومت نے1998-99میں پارسی میرج اورطلاق ایکٹ 1936بھیجا تھا اس پرکونسل نے رپورٹ دی تھی کہ اسے اس قانون میں ترمیم پر اعتراض نہیں ہے ۔کونسل نے ہندومیرج بل پرسفارشات دینے سے پہلے ہندوبرادری کے نمائندوں سے مشاورت کی جبکہ مسیحی مذہبی رہنما ڈیورنڈ فادررحمت حکیم نے کونسل کا دعوت نامہ مستردکردیا اورکہا کہ مسیحی رہنمااس معاملے پرغوروفکر کررہے ہیں تاہم قومی اسمبلی کی مسیحی رکن آسیہ ناصر ،ہندوسینیٹر ہیمن دان ،ایم این اے ڈاکٹر رمیش کمارونکوانی اوردیپ چاندچوہان نے کونسل کے اجلاسوں میں شرکت کی۔
سینیٹر داس اوردیپ چوہان نے بل کی حمایت کی اوربتایا کہ یہ ان کے مذہبی رہنماؤں کی مشاورت سے تیار کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر رمیشن کمار ونکوانی نے ہندومیرج بل سابق جسٹسربھگوان داس کی مدد سے تیار کیا ہے۔ جے یوآئی ف کی رکن آسیہ ناصر نے کریسچیئن میرج بل پرتنقیدکرتے ہوئے کہا تھا کہ قومی کمیشن برائے وقارنسواں نے اسے جلد بازی میں تیارکیاہے ۔انہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کو بتایا تھا کہ مسیحی کونسل مجوزہ قانون پراس وقت اپنی رائے دے گی جب اسے اسلامی نظریاتی کونسل کوبھیجا جائے گا۔
کونسل نے اپنی رپورٹ میں ملک میں ہندوؤںاور مسیحیوںکی شادی اورطلاق سے متعلق قوانین بنانے کی حمایت کی تھی ۔کونسل کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ غیرمسلوں کے اپنے مذہب میں شادی یا طلاق کیلئے جودرست ہے کونسل نے شریعت کے مطابق اسے قبول کیا ہے تاہم رپورٹ کے مطابق کونسل نے کہا تھاکہ ہندومذہب میں بلوغت کی عمرمتعین نہیں،کونسل نے بلوغت کی عمر18سال کی شق پراعتراض کیا اور کہا عمر کی حدکم کرنے کی سفارش کی جائے گی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک اسلامی ریاست میں تمام غیر مسلم اپنے اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے میں آزاد ہیں اور آئین میں بھی انھیں مذہبی آزادی دی گئی ہے ۔کونسل نے اپنی رائے کی وضاحت میں ایک واقعہ بیان کیا ہے جس کے مطابق حضرت محمدؐ نے ایک یہودی کیخلاف مقدمہ کافیصلہ تورات کے مطابق کیا تھا۔کونسل نے اس رائے کااظہار مسیحیوں کی شادی اورطلاق (ترمیمی ) بل 2012 اورہندومیرج بل 2013کے مسودہ کاجائزہ لینے کے بعدکیا ہے۔
وزارت مذہبی امور نے 2013 میں دونوں بل کونسل کوشریعت کی روشنی میں رائے دینے کیلئے بھجوائے تھے ۔یہ دونوں بل وزارت انسانی حقوق نے 2012 میں نیشنل کمیشن برائے وقارنسواں کے ساتھ مل کرتیار کیا تھا۔وزارت مذہبی امور نے یہ بل کونسل کوبھیجتے ہوئے بتایا تھاکہ اسے ہندواورمسیحی برادری کے نمائندوں کے مشورہ سے تیارکیاگیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق غیرمسلموں کی شادی اورطلاق سے متعلق معاملات 1991-92میں بھی کونسل کے زیر غور رہے تھے ۔اس وقت کونسل نے اپنی رپورٹ میں کہا تھاکہ آئین کاآرٹیکل227 (3)غیرمسملوں کے پرسنل لاء سے متعلق رائے دینے سے روکتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس حکومت نے1998-99میں پارسی میرج اورطلاق ایکٹ 1936بھیجا تھا اس پرکونسل نے رپورٹ دی تھی کہ اسے اس قانون میں ترمیم پر اعتراض نہیں ہے ۔کونسل نے ہندومیرج بل پرسفارشات دینے سے پہلے ہندوبرادری کے نمائندوں سے مشاورت کی جبکہ مسیحی مذہبی رہنما ڈیورنڈ فادررحمت حکیم نے کونسل کا دعوت نامہ مستردکردیا اورکہا کہ مسیحی رہنمااس معاملے پرغوروفکر کررہے ہیں تاہم قومی اسمبلی کی مسیحی رکن آسیہ ناصر ،ہندوسینیٹر ہیمن دان ،ایم این اے ڈاکٹر رمیش کمارونکوانی اوردیپ چاندچوہان نے کونسل کے اجلاسوں میں شرکت کی۔
سینیٹر داس اوردیپ چوہان نے بل کی حمایت کی اوربتایا کہ یہ ان کے مذہبی رہنماؤں کی مشاورت سے تیار کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر رمیشن کمار ونکوانی نے ہندومیرج بل سابق جسٹسربھگوان داس کی مدد سے تیار کیا ہے۔ جے یوآئی ف کی رکن آسیہ ناصر نے کریسچیئن میرج بل پرتنقیدکرتے ہوئے کہا تھا کہ قومی کمیشن برائے وقارنسواں نے اسے جلد بازی میں تیارکیاہے ۔انہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کو بتایا تھا کہ مسیحی کونسل مجوزہ قانون پراس وقت اپنی رائے دے گی جب اسے اسلامی نظریاتی کونسل کوبھیجا جائے گا۔