2012ء کا آخری کالم
ہمارے جیسے ملکوں اور معاشروں میں مغربی جمہوریت کے بہت سے آزمودہ اور کامیاب طریقے ناکام ہو جاتے ہیں۔
جب بھی وقت کے گزرنے کے بعد اس کے کسی سنگ میل کے حوالے سے بات ہوتی ہے تو ایک بار پھر وہی سوال دامن گیر ہوتا ہے کہ یہ وقت آخر ہے کیا؟ جو سیکنڈ' منٹ' گھنٹے' دن' رات' مہینے اور سال کا حساب ہم ریت گھڑی سے لے کر جدید ترین آلات کی مدد سے تقویم کے مختلف طریقوں کے ساتھ کرتے چلے آ رہے ہیں، ان کی کوئی حقیقت ہے بھی یا نہیں؟ یعنی اگر منظرِ غور سے دیکھا جائے تو یہ آنے والا سال 2013ء بھی اصل میں اسی تسلسل کا حصہ ہے جس میں ماضی اور مستقبل ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔
عام طور پر گزشتہ سال کو الوداع کہتے ہوئے یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ گزرنے والے 365 دنوں میں ہم نے بطور ایک فرد اور قوم کے کیا کھویا اور کیا پایا لیکن یہ اس گوشوارے کو اعداد وشمار کے حوالے سے دیکھنے کا ایک طریقہ تو ہو سکتا ہے، واحد طریقہ نہیں، کہ اصل چیز اعداد وشمار نہیں بلکہ وہ اجتماعی کارکردگی ہے جس کی بنیاد پر یہ اعداد وشمار بنے یا بعض صورتوں میں گھڑے گئے ہیں کہ ایک فلسفی کے بقول زندگی ماہ وسال کی گنتی اور تعداد کا نام نہیں بلکہ اس حقیقت کو جاننے کا نام ہے کہ جو ماہ وسال ہم نے گزارے، ان کے اندر ''زندگی'' کتنی تھی!
شاعرانہ انداز میں دیکھا جائے تو اس صورت حال پر کچھ اس طرح کے تبصرے سامنے آتے ہیں کہ
1- کتابِ عمر کا اِک اور باب ختم ہوا
2- حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے
3- بے صرفہ ہی گزرتی ہے گرچہ ہو عمر خضر
4- صورتِ شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
5- چلو کچھ آج حسابِ زیاں ِ جانکر لیں
6- یہ اب جو موڑ آیا ہے
اس طرح کے اشعار اور مصرعوں سے اردو ہی کیا دنیا کی ہر زبان کی شاعری بھری پڑی ہے اور ان کو سمیٹنے کے لیے یہ کالم تو کیا ہزاروں صفحات پر مشتمل کتابیں بھی کم پڑیں گی۔ ابھی ابھی کچھ طالبعلم مجھ سے پوچھنے آئے تھے کہ میرے خیال میں پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ عہد حکومت کا تجزیہ کیا ہے۔ میں نے ان سے بھی یہی عرض کیا کہ اس سوال کو جب تک وسیع تر تاریخی پس منظر میں رکھ کر نہیں دیکھا جائے گا، اس کا کوئی معقول جواب دینا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گا کہ یہ بیک وقت ہم سے تین مختلف سطحوں اور پہلوؤں سے غور وفکر کا متقاضی ہے۔
1- وہ تاریخی پس منظر جس میں پاکستان بنا اور اس کا سیاسی کلچر پروان چڑھا۔
2- ان تمام عناصر کا غیرجانبدارانہ مطالعہ جو ہماری مکمل سیاست کا انداز اور رخ متعین کرتے ہیں۔
3- پاکستانی عوام کی اپنی حکومت سے وابستہ توقعات اور ترجیحات۔
4- پیپلزپارٹی کے اندر گزشتہ چالیس برسوں میں ہونے والی تبدیلیوں کا مطالعہ اور اس کے لیڈروں اور جیالوں کی سوچ اور عمل میں بڑھتے ہوئے فرق کے باوجود بھٹو خاندان اور پارٹی کے نعرے سے اس کے ممبران کی کمٹمنٹ۔
5- بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی سرحدوں کی صورت حال اور اس کے نتیجے میں سیاسی حکومتوں کو درپیش گوناگوں مسائل۔
اس فہرست کو مزید طویل کیے بغیر اگر گزشتہ برس یعنی 2012ء کو دیکھنے' سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کی جائے تو لامحالہ اس میں موجودہ حکومت کے وہ چار سال بھی شامل ہو جائیں گے جن کے تسلسل میں اس کے اقتدار کا یہ آخری سال (انتخابات کی حد تک) گزرا۔ اب اس صورت حال کو دیکھنے کا ایک طریقہ تو وہ Blame game ہے جو حکومت مخالف سیاسی پارٹیوں اور سرکاری نمایندوں کے درمیان جاری ہے کہ اس کے ذریعے سے ہمیں متعلقہ اعتراضات اور ان کی وضاحتوں کا پتہ چل سکتا ہے اور ہم یہ فیصلہ کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں کہ حکومت کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا عمومی اور مجموعی تناسب کیا ہے لیکن سیاسی تربیت کی کمی اور ہماری سیاست میں موجود بعض غیرمعمولی عوامل کی موجودگی کے باعث یہ طریقہ بھی ایک خاص حد تک ہی موثر اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ سچ بھی دریا کی طرح کناروں پر نہیں بلکہ کہیں درمیان میں ہوتا ہے۔ میرے نزدیک 2012ء کی سب سے اہم' تعمیری اور دوررس پیشرفت یہ ہے کہ اس نے عوام کو پہلی بار ایک نئے روزن سے ''زندان'' کے باہر کی دنیا کو دیکھنے کا موقع دیا ہے اور یوں 2013ء میں متوقع انتخابات میں ہمیں ایک نئی سیاسی سوچ اور قوت کو بھی دیکھنے کا موقع ملے گا جو ممکن ہے دونوں موجود قوتوں پر عددی برتری حاصل نہ کر سکے مگر اس کی وجہ سے آیندہ بچھنے والی سیاسی بساط کے نہ صرف مہرے بدلیں گے بلکہ کھیل کے ان اصول وقواعد میں بھی تبدیلی ہو گی جن کا فائدہ گھوم پھر کر کچھ مخصوص ''کھلاڑیوں'' کے درمیان ہی رہتا تھا۔
ہمارے جیسے ملکوں اور معاشروں میں مغربی جمہوریت کے بہت سے آزمودہ اور کامیاب طریقے ناکام ہو جاتے ہیں۔ ہم نے ان پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے جواب میں ایک ہی نعرے کا پرچم اٹھا رکھا ہے کہ ملک میں بار بار الیکشن کراؤ' فوجی مداخلت کو روکو تو وہ سیاسی کلچر پیدا ہو گا جو ہمیں منزل تک پہنچا سکتا ہے۔ میری ذاتی رائے میں یہ سچ تو ہے مگر شائد آدھا سچ ہے کہ جب تک فیوڈل لارڈز' پیروں' مسلکی تعصبات اور بھیڑچال کے رویوں سے اوپر اٹھ کر اور ٹرالیوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح انسانوں کو بھر کر اور قیمے والے نانوں اور کولڈ ڈرنک کی نام نہاد ''عیاشی'' کی تحریص سے ہٹ کر ووٹرز کو زندگی کے ہر شعبے میں عملی طور پر انصاف' معاشی خود کفالت' عزت نفس کی حفاظت' تعلیم اور شعور حیات کی فضا مہیا نہیں کی جائے گی (یا اس کی طرف سفر کا آغاز نہیں کیا جائے گا) صورت حال میں بنیادی اور اقداری تبدیلی رونما نہیں ہو سکے گی۔ سو کیلنڈر پر اس نئے شروع ہونے والے سال کو بامعنی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے تعصبات اور میڈیا پر جاری ''نورا کشتیوں'' سے ہٹ کر آنے والے دنوں کو ایک ایسے موقعے یعنی Oppertunity کی شکل میں دیکھا' دکھایا اور سمجھا جائے جس کا تعلق پاکستان کے تمام عوام سے ہو اور وطن اور اس کی ترقی کو ایک بحث یا فلسفے کے بجائے ''ایمان'' کی قوت سے مضبوط اور توانا کیا جائے۔ خدا ہم سب کو اس کی توفیق دے اور ہمارا حامی وناصر ہو۔ بلاشبہ ہم جانتے اور مانتے ہیں کہ وہ نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔
عام طور پر گزشتہ سال کو الوداع کہتے ہوئے یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ گزرنے والے 365 دنوں میں ہم نے بطور ایک فرد اور قوم کے کیا کھویا اور کیا پایا لیکن یہ اس گوشوارے کو اعداد وشمار کے حوالے سے دیکھنے کا ایک طریقہ تو ہو سکتا ہے، واحد طریقہ نہیں، کہ اصل چیز اعداد وشمار نہیں بلکہ وہ اجتماعی کارکردگی ہے جس کی بنیاد پر یہ اعداد وشمار بنے یا بعض صورتوں میں گھڑے گئے ہیں کہ ایک فلسفی کے بقول زندگی ماہ وسال کی گنتی اور تعداد کا نام نہیں بلکہ اس حقیقت کو جاننے کا نام ہے کہ جو ماہ وسال ہم نے گزارے، ان کے اندر ''زندگی'' کتنی تھی!
شاعرانہ انداز میں دیکھا جائے تو اس صورت حال پر کچھ اس طرح کے تبصرے سامنے آتے ہیں کہ
1- کتابِ عمر کا اِک اور باب ختم ہوا
2- حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے
3- بے صرفہ ہی گزرتی ہے گرچہ ہو عمر خضر
4- صورتِ شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
5- چلو کچھ آج حسابِ زیاں ِ جانکر لیں
6- یہ اب جو موڑ آیا ہے
اس طرح کے اشعار اور مصرعوں سے اردو ہی کیا دنیا کی ہر زبان کی شاعری بھری پڑی ہے اور ان کو سمیٹنے کے لیے یہ کالم تو کیا ہزاروں صفحات پر مشتمل کتابیں بھی کم پڑیں گی۔ ابھی ابھی کچھ طالبعلم مجھ سے پوچھنے آئے تھے کہ میرے خیال میں پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ عہد حکومت کا تجزیہ کیا ہے۔ میں نے ان سے بھی یہی عرض کیا کہ اس سوال کو جب تک وسیع تر تاریخی پس منظر میں رکھ کر نہیں دیکھا جائے گا، اس کا کوئی معقول جواب دینا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گا کہ یہ بیک وقت ہم سے تین مختلف سطحوں اور پہلوؤں سے غور وفکر کا متقاضی ہے۔
1- وہ تاریخی پس منظر جس میں پاکستان بنا اور اس کا سیاسی کلچر پروان چڑھا۔
2- ان تمام عناصر کا غیرجانبدارانہ مطالعہ جو ہماری مکمل سیاست کا انداز اور رخ متعین کرتے ہیں۔
3- پاکستانی عوام کی اپنی حکومت سے وابستہ توقعات اور ترجیحات۔
4- پیپلزپارٹی کے اندر گزشتہ چالیس برسوں میں ہونے والی تبدیلیوں کا مطالعہ اور اس کے لیڈروں اور جیالوں کی سوچ اور عمل میں بڑھتے ہوئے فرق کے باوجود بھٹو خاندان اور پارٹی کے نعرے سے اس کے ممبران کی کمٹمنٹ۔
5- بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی سرحدوں کی صورت حال اور اس کے نتیجے میں سیاسی حکومتوں کو درپیش گوناگوں مسائل۔
اس فہرست کو مزید طویل کیے بغیر اگر گزشتہ برس یعنی 2012ء کو دیکھنے' سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کی جائے تو لامحالہ اس میں موجودہ حکومت کے وہ چار سال بھی شامل ہو جائیں گے جن کے تسلسل میں اس کے اقتدار کا یہ آخری سال (انتخابات کی حد تک) گزرا۔ اب اس صورت حال کو دیکھنے کا ایک طریقہ تو وہ Blame game ہے جو حکومت مخالف سیاسی پارٹیوں اور سرکاری نمایندوں کے درمیان جاری ہے کہ اس کے ذریعے سے ہمیں متعلقہ اعتراضات اور ان کی وضاحتوں کا پتہ چل سکتا ہے اور ہم یہ فیصلہ کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں کہ حکومت کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا عمومی اور مجموعی تناسب کیا ہے لیکن سیاسی تربیت کی کمی اور ہماری سیاست میں موجود بعض غیرمعمولی عوامل کی موجودگی کے باعث یہ طریقہ بھی ایک خاص حد تک ہی موثر اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ سچ بھی دریا کی طرح کناروں پر نہیں بلکہ کہیں درمیان میں ہوتا ہے۔ میرے نزدیک 2012ء کی سب سے اہم' تعمیری اور دوررس پیشرفت یہ ہے کہ اس نے عوام کو پہلی بار ایک نئے روزن سے ''زندان'' کے باہر کی دنیا کو دیکھنے کا موقع دیا ہے اور یوں 2013ء میں متوقع انتخابات میں ہمیں ایک نئی سیاسی سوچ اور قوت کو بھی دیکھنے کا موقع ملے گا جو ممکن ہے دونوں موجود قوتوں پر عددی برتری حاصل نہ کر سکے مگر اس کی وجہ سے آیندہ بچھنے والی سیاسی بساط کے نہ صرف مہرے بدلیں گے بلکہ کھیل کے ان اصول وقواعد میں بھی تبدیلی ہو گی جن کا فائدہ گھوم پھر کر کچھ مخصوص ''کھلاڑیوں'' کے درمیان ہی رہتا تھا۔
ہمارے جیسے ملکوں اور معاشروں میں مغربی جمہوریت کے بہت سے آزمودہ اور کامیاب طریقے ناکام ہو جاتے ہیں۔ ہم نے ان پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے جواب میں ایک ہی نعرے کا پرچم اٹھا رکھا ہے کہ ملک میں بار بار الیکشن کراؤ' فوجی مداخلت کو روکو تو وہ سیاسی کلچر پیدا ہو گا جو ہمیں منزل تک پہنچا سکتا ہے۔ میری ذاتی رائے میں یہ سچ تو ہے مگر شائد آدھا سچ ہے کہ جب تک فیوڈل لارڈز' پیروں' مسلکی تعصبات اور بھیڑچال کے رویوں سے اوپر اٹھ کر اور ٹرالیوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح انسانوں کو بھر کر اور قیمے والے نانوں اور کولڈ ڈرنک کی نام نہاد ''عیاشی'' کی تحریص سے ہٹ کر ووٹرز کو زندگی کے ہر شعبے میں عملی طور پر انصاف' معاشی خود کفالت' عزت نفس کی حفاظت' تعلیم اور شعور حیات کی فضا مہیا نہیں کی جائے گی (یا اس کی طرف سفر کا آغاز نہیں کیا جائے گا) صورت حال میں بنیادی اور اقداری تبدیلی رونما نہیں ہو سکے گی۔ سو کیلنڈر پر اس نئے شروع ہونے والے سال کو بامعنی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے تعصبات اور میڈیا پر جاری ''نورا کشتیوں'' سے ہٹ کر آنے والے دنوں کو ایک ایسے موقعے یعنی Oppertunity کی شکل میں دیکھا' دکھایا اور سمجھا جائے جس کا تعلق پاکستان کے تمام عوام سے ہو اور وطن اور اس کی ترقی کو ایک بحث یا فلسفے کے بجائے ''ایمان'' کی قوت سے مضبوط اور توانا کیا جائے۔ خدا ہم سب کو اس کی توفیق دے اور ہمارا حامی وناصر ہو۔ بلاشبہ ہم جانتے اور مانتے ہیں کہ وہ نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔