یہاں ہزاروں منصور ہیں…

تہذیب کے سفر میں انسان ابھی تکمیل حاصل نہیں کرسکا۔وہ ابھی تک وحشی اور کبھی کبھی تو حیوانی سطح سے بھی نیچے گرجاتا ہے۔

zahedahina@gmail.com

آج ہم جس زمین پر موجود ہیں یہاں269 برس سے وہ شخص آرام کرتا ہے جس نے جوگیوں اور بنجاروں کے ساتھ گھوم کر اپنی دھرتی کے چپے چپے کو دیکھا' جس کے بالوں اور جس کے پیروں کو سندھ کی مٹی نے اپنے رنگ میں رنگ دیا اور وہ اس سرزمین کے ان لوگوں کی آواز بن گیا جو زور آوروں کے قدموں میں خاک کی طرح بچھنے پرمجبور تھے' جنھیں حملہ آوروں کے گھوڑوں نے بار بار روندا تھا۔

یہ وہ شخص ہے جس کے لفظوں کی کونجیں اڑان بھرتی ہیں اور جانی انجانی بستیوں میں رہنے والوں کے سینوں میں بسیرا کرتی ہیں' جس کی شاعری سندھ دھرتی کا سنگھار ہے اور جس کی داستانوں میں سانس لیتی ہوئی سسی، ماروی' مومل' سوہنی' لیلیٰ، نوری اور ہیر کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ وہ سندھ جہاں عورت صدیوں سے جور اور جبر کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے' وہاں کی دم گھونٹ دینے والی فضا میں سندھ کی یہ سات رانیاں ہیں جنھیں شاہ نے لوک کہانیوں سے اٹھایا اور عالمی ادب میں عشق 'پیمان وفا' ذہانت اور جرأت کا استعارہ بنادیا۔

یہ شاہ کی شاعری تھی جس نے سندھ کے رہنے والوںکے سینے میں بغاوت کا وہ شعلہ رکھ دیا جو ظالموں سے بجھائے نہیں بجھتا۔ دستِ قاتل کے سامنے سربلند رہنے کی ادا سندھ کے لوگوں نے شاہ کی شاعری میں جاری و ساری احتجاج اور انحراف سے اور آزادی کی جستجو سے سیکھی۔

یہ جستجو ہمیں شاہ کی داستانوںمیں ان کی ہیروئنوں کی زندگیوں میں کہاں نہیںملتی۔ یہ اسی جستجو کا شرارہ ہے جس کی لپک آج بھی ہمارے لوگوں کو بے قرار رکھتی ہے۔ ''شاہ جو رسالو'' کے شارحین اور مفسرین کی کمی نہیں۔ ان میں ٹی سورلے ہیں اور ڈی بوٹانی بھی۔ ایل ایچ اجوانی ،کے ایف مرزا، آغا سلیم، ڈاکٹر فہمیدہ حسین، منظور احمد قناصرو اور کئی دوسر ے ہیں لیکن شاہ کے کلام کی تفسیرجس طور سائیں جی ایم سید نے کی ہے' وہ اس لیے نادر ہے کہ وہ شاہ کی شاعری کو آج کی سیاست سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ انھوں نے موجودہ حالات کے تناظر میں شاہ جو رسالو دیکھا ہے اور کہا ہے کہ یہ درست ہے کہ شاہ کے زمانے میں جدید سیاسی نظام موجود نہ تھا لیکن جس طرح لکڑی میں آگ ہمیشہ موجود رہتی ہے اور اسی وقت ظاہرہوتی ہے جب اس کے جلائے جانے کے اسباب پیدا ہوں' اسی طرح اس وقت بھی سندھ میں آج کی طرح کا وہ طبقاتی نظام موجود تھا جس میں مفلس'نادار اور بے گھر و بے آسرا لوگ سانس لیتے تھے۔

اور اس روز کے منتظر تھے جب انقلاب برپا ہو اور ان کی زندگی کے صبح وشام بدل جائیں۔ سائیں سیدکا کہنا ہے کہ اگر ہم شاہ کی شاعری کا جائزہ جدید اصطلاحات کی روشنی میں لیں تو ہمیں اس میں نیشنلزم کی حمایت' جمہوریت کی طرف داری' سوشلزم کی طرف جھکائو' سرمایہ داری سے نفرت' آمریت اور فاشزم کی مخالفت نظرآتی ہے ۔ شاہ نے اپنے اشعار میں ہمیشہ وطن کی آزادی اور خوشحالی کے لیے بارش کی دعائیں مانگیں ۔ یہ دراصل اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ اپنے غیر منصفانہ سماج میں انقلاب برپا ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ تب ہی ''سرسا رنگ'' میں وہ بار بار ''ساون'' کی دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خدا اس ملک کے پیاسوں پر رحم کر' ان کی خبر گیری کر اور اتنی بارش برسا کہ عالم جل تھل ہوجائے۔ یہ دکھیارا دیس سبزے کا دوشالہ اوڑھ لے اور اناج سے مالا مال ہو اور اس کے غریبوں کوسُکھ کی دوگھڑیاں نصیب ہوں۔

شاہ ان لوگوں میں سے تھے جن کا ایمان رہا کہ ''خارِ وطن ازسنبل وریحان خوشتر'' یعنی وطن کا کانٹا دوسرے دیسوں کے خوشبودار گل بوٹوں سے کہیں بہتر ہے۔ یہ احساس شاہ کے کلام میں ہر جگہ سانس لیتا ہے اور یہی سبب تھاکہ وہ دیس کے جھونپڑوں' گھروندوںکو'ریگستانوں اور صحرائوں کو' کھّدر اور گدڑیوں کو غیروں کی کوٹھیوں اور محلوں سے' سبزہ زاروں اور باغات سے اور زربفت وکمخواب سے ہزار درجہ زیادہ عزیز رکھتے تھے۔

شاہ کے ''سرُسسی'' کو پڑھیے تو اس کے ہر لفظ سے اضطراب کی آنچ آتی ہے۔ ''اب کیا شہر بھنبھور میںرہنا'' '' ویراںہے شہر بھنبھور'' ''سارے شہر بھنبھور میں میرا کوئی نہیں غم خوار'' جیسے مصرعے لہو میں بھنور ڈالتے ہیں۔ شاہ کی شاعری کے یہی چہل چراغ ہمیں آج کے انسان دشمن اندھیروں میںاپنا راستہ دکھاتے ہیں۔

وہ اپنے زمانے میں سندھ کے سیاسی حالات اور بدامنی کے واقعات پر دل خون کرتے رہے، اگر وہ ان دنوں ہمارے درمیان ہوتے تو کیا محسوس کرتے اور ان کی شاعری میں سندھ کا درد اور کرب کس طور جھلکتا ۔ لیکن بڑے شاعر صرف ماضی اور حال کا احاطہ نہیں کرتے، ان کے کلام میں مستقبل کی بھی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ شاہ لطیف بھٹائی شاعری میں حرف اول ہیں اور آج تک حرف آخر بھی۔ ان کے کلام کا ترجمہ شیخ ایاز ،آغا سلیم اور کئی دوسروں نے کیا۔


ان کے کلام کی تشریح اور تفسیر یوں تو کئی ادیبوں نے کی لیکن جی ایم سید نے اپنی کتاب ''پیغام لطیف'' میں صرف ان کے کلام پر ہی عالمانہ گفتگو نہیں کی ہے بلکہ ان کے خاندان، ان کے ذاتی حالات ، ان کا زمانہ اور ماحول پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ سندھ اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے سیاسی حالات اور مذہبی رجحانات کا جائزہ بھی لیتے ہیں۔ اپنے دور میں شاہ لطیف بھٹائی سندھ کے بارے میں کیا خیالات رکھتے تھے اور ان کے سیاسی نظریات اور مذہبی رجحانات کیا تھے۔ وہ امن اور انسان دوستی کا کیا پیغام دیتے تھے اس کا اندازہ سید صاحب کی اس کتاب کے مطالعے سے ہوسکتا ہے ۔

بھٹائی کی شاعری میں عورتوں کے عکس کی نقاشی ڈاکٹر فہمیدہ حسین نے خوب کی ہے اور بھٹائی کو نئے زاویوں سے دریافت کرتے ہوئے آغا سلیم کہتے ہیں کہ شاہ سندھی صوفیانہ شاعری کی عظیم روایت کے شاعر ہیں اور اس میں انھوں نے اپنے ہموطنوں کے دکھ سکھ، خواب ، آدرش، جغرافیائی اور تاریخی مقامات ، تاریخی، نیم تاریخی اور لوک داستانیوں کے کرداروں کے حوالے سے اپنے صوفیانہ تجربات اور اپنی فکر کی تشریح کی ہے۔

مجھے قرۃ العین حیدر یاد آتی ہیں جنہوں نے 58ء یا شاید 59ء میں شاہ کی مزار پر حاضری دی تو شاہ لطیف کی بات کو دہراتے ہوئے لکھا تھا کہ ''زمین میں اتنوں کی خاک موجود ہے کیسے کیسے لوگ چلے گئے زندگی اتنی مختصر ہے۔ لطیف جاگو اور ڈھونڈو'' وہ اس سفر میںلطیف کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ تب ہی انھوںنے لکھا کہ ''راستے میں ایک جگہ صحرا پر اچانک بادل گھر آئے۔ جاڑوں کا ساون' شاہ نے '' سُرسارنگ'' میں کہا ۔ ساون نے جھیل کو بھردیا اور اور زمین سرسبز ہوگئی اور ایک جگہ کہا کہ ہر سمت بجلیاں چمک رہی ہیں۔ بادل ہر سو پھیل گئے۔ استنبول' چین'سمر قند' روم' قندھار' دلی' دکن' گرنار' جیسلمیر' بیکا نیر' امرکوٹ' اللہ سندھ پر بھی بارش برسا کر اسے شاداب کردے۔

شاہ کی طرف قرۃ العین نے اس سفر میں دیکھا کہ جھیلوں اور جنگلوں میں تیتر بول رہے تھے۔ سارس' بگلے' باز' طوطے' مور' قصبوں میں مغلوں اور کلہوڑوں کے عہد کے مکانات' اور زرد دھوپ میں تنہا صحرا۔ شاہ نے کہا تھا کہ صحرا' جہاں پرندوں کا گزر نہیں وہاں جوگی اپنی آگ جلاتے ہیں اور جب وہ جوگی چلے گئے تو ان کی جگہ پرنہ تنکے ملے نہ پتھر اور راکھ اڑ گئی اورجوگی اپنے سنکھ پھونکتے اپنے ابدی سفر پر روانہ ہوگئے۔ کسی نے شاہ کی شاعری پر بات کرتے ہوئے قرۃ العین حیدر سے کہا تھا کہ معرفت کی اصطلاح میں ''کچھَ'' وہ سنہرا شہر ہے جہاں شہزادہ پنوں یعنی خدا رہتا ہے اور بھنبھور کے دولت مند دھوبی کی لڑکی سسی انسان کی روح ہے۔ سندھ کے پہاڑ اور دریا اور ریگستان سالک کی راہ کی تکالیف ہیں۔ شاہ نے کہاکہ اس سفر میں سالک کو ''لا'' کا خنجر اپنے ساتھ رکھنا چاہیے اور سسی نے غز الانِ خطا اور ہما کی طرح لا انتہا جستجوکا گُر سکھ لیا تھا۔

یہ بات آج بھی ایک حقیقت ہے کہ تہذیب کے سفر میں بلاشبہ انسان ابھی تکمیل حاصل نہیں کرسکا۔ وہ ابھی تک وحشی اور کبھی کبھی تو حیوانی سطح سے بھی نیچے گر جاتا ہے۔ ایسے ہی مقام پر شاہ جیسے بڑے لکھنے والے سیتا، اینٹی گنی، ماروی اور سسی جیسے کردار تخلیق کرتے ہیں۔ یہ دکھاتے ہیں کہ سماج میں کمزوری سمجھی جانے والی صورت، جرأت اور جاں بازی کی بلندیوں تک پہنچتی ہے۔

ماروی کو اس کے دور کے راون سے چھڑوانے والا کوئی نہیں تھا۔ وہ تنہا اپنی جنگ لڑتی ہے اور اپنے کرداراور ارادے کی عظمت نے یہ جنگ جیت لیتی ہے۔ ماروی ہند اور سندھ میں عورت کا مثالیہ رہی ہے اور ہر دور کی عورتوں نے اسی کے رنگ میں مزاحمت کی ہے۔ اس کی حالیہ مثال ہماری بے نظیر بھٹو ہیں جنہوں نے مزاحمت کی راہ میں جان دے دی۔ اسی عالم کی طرف شاہ نے اشارہ کیا ہے کہ یہاں ہزاروں منصور ہیں، تم کس کس کو سولی چڑھائو گے۔

آج ہم جس اخلاقی زوال اور روحانی بحران سے دوچار ہیں، اس میں ماروی، سسی اور شاہ کے دوسرے بے مثال کردار، اندھیری رات کے طوفانی سمندر کی لہروں پر تیرتے ہوئے روشن چراغ ہیں جو ہمیں راستہ دکھاتے ہیں۔

(شاہ لطیف سیمینار میں پڑھا گیا)
Load Next Story