تباہی
زندگی میں میڈیا کے شدید عمل دخل نے سیاست کو تماش بینوں کا آئٹم بناکے رکھ دیا ہے۔
انھوں نے کبھی گلاس کھینچ کے کسی کے منہ پر نہیں مارا،کسی کے لباس میں چوہا چھوڑنے کی بات نہیں کی،کسی کا گریبان پکڑ کے جھٹکے نہیں دیے، باچھیں چیر چیر کے اور تلملا تلملا کے مخاطب کی آبرو تاراج نہیں کی۔ قمیض میں ٹنکے ہوئے مائیک کو اتار کے ٹاک شو سے کبھی واک آؤٹ نہیں کیا، وہ جھوٹ در جھوٹ کا پس منظر نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی انھوں نے ایک لاکھ لوگوں پر مشتمل دو ملین کے اجتماع کو اپنی قسم در قسم سے گمراہ کیا تھا۔ گویا وہ باکس آفس پر بری طرح ناکام تھے۔ پہلے ہی شو میں فلاپ، اس لیے کہ وہ آج کے دورکے سیاستدان نہیں تھے اور ان کے وقتوں میں وضعداری، شرافت اور رواداری اجنبی الفاظ نہیں تھے۔
سیاست میں آنے اور سیاست میں رہنے کے لیے آج کے کامیاب سیاستدان کا معیار بڑا دلچسپ ہے۔ اسے اداکار بھی ہونا چاہیے اور صداکار بھی' خونخوار بھی، مسخرہ بھی اور مداری بھی۔ زندگی میں میڈیا کے شدید عمل دخل نے سیاست کو تماش بینوں کا آئٹم بناکے رکھ دیا ہے۔ ہمارے ہاں، مثال دوں تو لوگ پریشان ہوجائیں گے، لیکن مغرب میں بہرحال الّو دانش کی نشانی ہے۔ وہ ناپید ہوا۔ چلیے وہ نہ سہی، غٹرغوں کرتے لکّے کبوتر سمجھ لیجیے۔ وہ ہجرت کرگئے۔ پھر عقابوں نے ڈیرے ڈال دیے۔ ایک نئی طرح کی لپک جھپک۔
سیاست کی لاش مسخ ہوئی تو گدھ آن ٹپکے اور پھر۔۔۔۔۔! رقص مے تیز کرو، ساز کی لے تیز کرو۔۔۔۔۔ سوئے مے خانہ سفیران حرم آتے ہیں۔۔۔۔۔اور آنے کے بعد اسلام آباد پر چڑھائی کا ایک نرالا شوق فرماتے ہیں۔مجھے ڈر ہے کہ میں جوش کالم آرائی میں کسی اور طرف نکل جاؤں گا۔ لہٰذا میں خود کو روکتا ہوں اور اس خرابے سے نکل کے بھلے لوگوں کی طرف لوٹتا ہوں۔ اب تمام سیاسی آلائشوں سے پاک بھلے وقتوں کی نشانی شاید ایک ہی شخصیت باقی رہ گئی ہے۔ سردار شیر باز خان مزاری۔ جو سیاست کے جھنجھٹوں سے دور اپنی وسیع و عریض لائبریری میں ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یا پھر پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب تھے جو گزشتہ روز اپنی تاریخ ساز یادیں چھوڑ کے چلے گئے۔ وہ ایک ایسے شخص تھے جن کا احترام کسی خاص مکتب فکر سے وابستہ افراد نہیں بلکہ ہر کوئی کرتا تھا۔
ایک انتہائی نفیس، خلیق اور ذہین انسان، اعلیٰ پائے کے مقرر۔ جماعت اسلامی کے رہنما عام طور پر برف میں لگی ہوئی زبان استعمال کرتے ہیں، لیکن غفور صاحب شعلہ بیانی بھی کرسکتے تھے۔ برف کے لہجے میں الفاظ کے شعلے۔ ان کی بھرپور سیاست کا زمانہ وہ تھا جب کراچی میں جماعت کا طوطی بولتا تھا۔ اب وہ طوطی خاموش اور لہولہان ہے اور ہر ہفتے باقاعدگی سے بھتہ دیتا ہے۔ اس زمانے میں وہ ایک سے زیادہ بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور سینیٹر بھی رہے۔ سن 73 کا آئین بنانے میں ان کا حصہ تھا۔ 77 کے انتخابات کے بعد پی این اے کی تحریک چلی تو سیکریٹری جنرل بھی غفور صاحب ہی تھے۔ بھٹو سے مذاکرات ہوئے تو تین لوگوں کی ٹیم کے رکن تھے۔ یعنی وہی مذاکرات جو کامیاب ہوگئے تھے تو ضیاء الحق نے شب خون مار کے ملک میں انقلاب صالح برپا کردیا تھا۔
پروفیسر صاحب کی وفات کی خبر ملی تو میں نے پرانے جرائد کی ورق گردانی شروع کردی۔ اکتوبر 77 کے ایک شمارے میں سے میری ان سے پہلی ملاقات برآمد ہوگئی۔ یہ ان تاریخ ساز مذاکرات کے سبوتاژ ہونے کے چند ماہ بعد کا ایک طویل انٹرویو تھا جو میں نے کریم آباد میں ان کی رہائش گاہ پر کیا تھا۔ میں نے اسے پھر سے پڑھا اور 35 برس پرانے دور میں کھو گیا۔ یہ وہ دور تھا جب ضیاء الحق کا 90 دن والا عہدہ ابھی جاری تھا۔ بھٹو صاحب آزاد تھے اور ملک میں انتخابی مہم جاری تھی، آج کل پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت ایک بار پھر اپنی ٹرم پوری کر رہی ہے اور بھٹوز'' کا ذکر پھر سے گرم ہے۔ آئیے! میں آپ کے لیے اس انٹرویو میں سے صرف ایک سوال یہاں پیش کرتا ہوں جو بھٹو صاحب سے متعلق ہے۔ میں نے پوچھا تھا: ''بھٹو دور حکومت کے کچھ ایسے اقدامات کہ جنھیں آپ بڑی فراخدلی سے پسند کرسکتے ہوں؟''
غفور صاحب نے جواب دیا: ''دیکھیے میں نے کبھی اس معاملے میں بخل سے کام نہیں لیا ہے۔ اسمبلی کے اندر اور باہر جو اقدامات انھوں نے ٹھیک کیے ہیں میں نے ان کی ہمیشہ تعریف کی ہے۔ مثلاً پہلا کام جس کو سراہا جاسکتا ہے وہ خود دستور کی تدوین ہے۔ دستور کے معاملے میں یہ بات ٹھیک ہے کہ بہت سی باتیں بھٹو صاحب نے ہماری مرضی کے خلاف دستور میں شامل کی ہیں لیکن ہمیں یہ بات ماننے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ انھوں نے بہت سی باتیں ہماری بھی مانیں اور بہرحال اتفاق رائے سے دستور بن گیا۔ دوسری قابل تعریف بات قادیانیوں کا مسئلہ تھا۔
یہ مسئلہ اس سے پہلے بھی اٹھا اور اس پر خون خرابہ بھی ہوا، لیکن بھٹو صاحب کے زمانے میں یہ حل ہوا اور اس کے حل کا جو بہترین طریقہ ہوسکتا تھا اس طریقے سے حل ہوا۔ بھٹو صاحب سے جو شکایت ہے وہ صرف یہ ہے کہ یہ فیصلے کرنے کے بعد جس اسپیڈ سے ان پر عملدرآمد کرنا چاہیے تھا وہ انھوں نے نہیں کیا۔ مثلاً دستور تو انھوں نے بنایا مگر کام اس کے خلاف کیا۔ قادیانی مسئلہ حل کرلیا، مگر اس کے لیے جو قانون بنانا چاہیے تھا وہ نہیں بنایا اور یہ تاثر دیتے رہے کہ یہ چیز ان مولویوں نے زبردستی مجھ سے منوالی ہے۔
معاشی اصلاحات وہ لائے، جرأت کے ساتھ لائے لیکن ان سے غریب آدمی کو فائدہ اس لیے نہیں پہنچا کہ انھوں نے اپنے ارد گرد کرپٹ آدمیوں کو جمع کرلیا۔ مذاکرات کے دوران وہ ایک دفعہ مجھ سے کہنے لگے کہ اگر میرے پاس آپ جیسے لوگ ہوتے تو میں ملک میں بہت کچھ کرسکتا تھا۔ میں نے کہا آپ کے پاس ہم جیسے لوگ کیسے ہوتے؟ اس لیے کہ اس ملک میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ جو نہ بک سکتے ہیں نہ جھک سکتے ہیں۔ آپ کے پاس ایسے آدمیوں کی قیمت نہیں ہے کیونکہ آپ کو ایسے کرپٹ آدمی چاہئیں جو ذاتی فائدے اٹھائیں اور آپ کے سامنے حاضر ہوکر کھڑے رہیں۔ تو بھٹو صاحب کو اس ملک کی خدمت کا جو موقع ملا تھا وہ انھوں نے گنوا دیا۔ جو ذہانت ان کے پاس تھی، جو تجربہ ان کے پاس تھا، جو جرأت ان کے پاس تھی وہ سب تباہی میں صرف کردی۔''
محبت بانٹنے والی یہ تاریخ ساز شخصیت اب رخصت ہوئی اور شاید شہر کے باسیوں کے سر پر سے خلوص کا آخری سایہ بھی۔ اب باقی کیا ہے، بے یقینی کی سولی پر اونگھتے ہوئے لوگ، ایک کے بعد ایک اور نامعلوم سے سہمے ہوئے۔ اور وہ کہ لوگ جس ماضی قریب کا مستقبل قریب میں ایک نئے انداز سے دہرایا جانا بتاتے ہیں، اگر وہ ہوگیا تو دیکھنا کہ آسمان پر ایک مسکراہٹ سی کھل جائے گی، جس کے جواب میں کوشش کے باوجود زمین۔۔۔۔۔ مسکرا نہ سکے گی۔۔۔۔۔کہ
ساری سچی کتابوں میں درج ہے
کہ ایسے حالات میں آسمان سے نبی یا تباہی
زمین کی طرف بھیجے جاتے رہے ہیں
مگر ان کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے
نبی اب نہیں آئیں گے
سیاست میں آنے اور سیاست میں رہنے کے لیے آج کے کامیاب سیاستدان کا معیار بڑا دلچسپ ہے۔ اسے اداکار بھی ہونا چاہیے اور صداکار بھی' خونخوار بھی، مسخرہ بھی اور مداری بھی۔ زندگی میں میڈیا کے شدید عمل دخل نے سیاست کو تماش بینوں کا آئٹم بناکے رکھ دیا ہے۔ ہمارے ہاں، مثال دوں تو لوگ پریشان ہوجائیں گے، لیکن مغرب میں بہرحال الّو دانش کی نشانی ہے۔ وہ ناپید ہوا۔ چلیے وہ نہ سہی، غٹرغوں کرتے لکّے کبوتر سمجھ لیجیے۔ وہ ہجرت کرگئے۔ پھر عقابوں نے ڈیرے ڈال دیے۔ ایک نئی طرح کی لپک جھپک۔
سیاست کی لاش مسخ ہوئی تو گدھ آن ٹپکے اور پھر۔۔۔۔۔! رقص مے تیز کرو، ساز کی لے تیز کرو۔۔۔۔۔ سوئے مے خانہ سفیران حرم آتے ہیں۔۔۔۔۔اور آنے کے بعد اسلام آباد پر چڑھائی کا ایک نرالا شوق فرماتے ہیں۔مجھے ڈر ہے کہ میں جوش کالم آرائی میں کسی اور طرف نکل جاؤں گا۔ لہٰذا میں خود کو روکتا ہوں اور اس خرابے سے نکل کے بھلے لوگوں کی طرف لوٹتا ہوں۔ اب تمام سیاسی آلائشوں سے پاک بھلے وقتوں کی نشانی شاید ایک ہی شخصیت باقی رہ گئی ہے۔ سردار شیر باز خان مزاری۔ جو سیاست کے جھنجھٹوں سے دور اپنی وسیع و عریض لائبریری میں ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یا پھر پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب تھے جو گزشتہ روز اپنی تاریخ ساز یادیں چھوڑ کے چلے گئے۔ وہ ایک ایسے شخص تھے جن کا احترام کسی خاص مکتب فکر سے وابستہ افراد نہیں بلکہ ہر کوئی کرتا تھا۔
ایک انتہائی نفیس، خلیق اور ذہین انسان، اعلیٰ پائے کے مقرر۔ جماعت اسلامی کے رہنما عام طور پر برف میں لگی ہوئی زبان استعمال کرتے ہیں، لیکن غفور صاحب شعلہ بیانی بھی کرسکتے تھے۔ برف کے لہجے میں الفاظ کے شعلے۔ ان کی بھرپور سیاست کا زمانہ وہ تھا جب کراچی میں جماعت کا طوطی بولتا تھا۔ اب وہ طوطی خاموش اور لہولہان ہے اور ہر ہفتے باقاعدگی سے بھتہ دیتا ہے۔ اس زمانے میں وہ ایک سے زیادہ بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور سینیٹر بھی رہے۔ سن 73 کا آئین بنانے میں ان کا حصہ تھا۔ 77 کے انتخابات کے بعد پی این اے کی تحریک چلی تو سیکریٹری جنرل بھی غفور صاحب ہی تھے۔ بھٹو سے مذاکرات ہوئے تو تین لوگوں کی ٹیم کے رکن تھے۔ یعنی وہی مذاکرات جو کامیاب ہوگئے تھے تو ضیاء الحق نے شب خون مار کے ملک میں انقلاب صالح برپا کردیا تھا۔
پروفیسر صاحب کی وفات کی خبر ملی تو میں نے پرانے جرائد کی ورق گردانی شروع کردی۔ اکتوبر 77 کے ایک شمارے میں سے میری ان سے پہلی ملاقات برآمد ہوگئی۔ یہ ان تاریخ ساز مذاکرات کے سبوتاژ ہونے کے چند ماہ بعد کا ایک طویل انٹرویو تھا جو میں نے کریم آباد میں ان کی رہائش گاہ پر کیا تھا۔ میں نے اسے پھر سے پڑھا اور 35 برس پرانے دور میں کھو گیا۔ یہ وہ دور تھا جب ضیاء الحق کا 90 دن والا عہدہ ابھی جاری تھا۔ بھٹو صاحب آزاد تھے اور ملک میں انتخابی مہم جاری تھی، آج کل پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت ایک بار پھر اپنی ٹرم پوری کر رہی ہے اور بھٹوز'' کا ذکر پھر سے گرم ہے۔ آئیے! میں آپ کے لیے اس انٹرویو میں سے صرف ایک سوال یہاں پیش کرتا ہوں جو بھٹو صاحب سے متعلق ہے۔ میں نے پوچھا تھا: ''بھٹو دور حکومت کے کچھ ایسے اقدامات کہ جنھیں آپ بڑی فراخدلی سے پسند کرسکتے ہوں؟''
غفور صاحب نے جواب دیا: ''دیکھیے میں نے کبھی اس معاملے میں بخل سے کام نہیں لیا ہے۔ اسمبلی کے اندر اور باہر جو اقدامات انھوں نے ٹھیک کیے ہیں میں نے ان کی ہمیشہ تعریف کی ہے۔ مثلاً پہلا کام جس کو سراہا جاسکتا ہے وہ خود دستور کی تدوین ہے۔ دستور کے معاملے میں یہ بات ٹھیک ہے کہ بہت سی باتیں بھٹو صاحب نے ہماری مرضی کے خلاف دستور میں شامل کی ہیں لیکن ہمیں یہ بات ماننے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ انھوں نے بہت سی باتیں ہماری بھی مانیں اور بہرحال اتفاق رائے سے دستور بن گیا۔ دوسری قابل تعریف بات قادیانیوں کا مسئلہ تھا۔
یہ مسئلہ اس سے پہلے بھی اٹھا اور اس پر خون خرابہ بھی ہوا، لیکن بھٹو صاحب کے زمانے میں یہ حل ہوا اور اس کے حل کا جو بہترین طریقہ ہوسکتا تھا اس طریقے سے حل ہوا۔ بھٹو صاحب سے جو شکایت ہے وہ صرف یہ ہے کہ یہ فیصلے کرنے کے بعد جس اسپیڈ سے ان پر عملدرآمد کرنا چاہیے تھا وہ انھوں نے نہیں کیا۔ مثلاً دستور تو انھوں نے بنایا مگر کام اس کے خلاف کیا۔ قادیانی مسئلہ حل کرلیا، مگر اس کے لیے جو قانون بنانا چاہیے تھا وہ نہیں بنایا اور یہ تاثر دیتے رہے کہ یہ چیز ان مولویوں نے زبردستی مجھ سے منوالی ہے۔
معاشی اصلاحات وہ لائے، جرأت کے ساتھ لائے لیکن ان سے غریب آدمی کو فائدہ اس لیے نہیں پہنچا کہ انھوں نے اپنے ارد گرد کرپٹ آدمیوں کو جمع کرلیا۔ مذاکرات کے دوران وہ ایک دفعہ مجھ سے کہنے لگے کہ اگر میرے پاس آپ جیسے لوگ ہوتے تو میں ملک میں بہت کچھ کرسکتا تھا۔ میں نے کہا آپ کے پاس ہم جیسے لوگ کیسے ہوتے؟ اس لیے کہ اس ملک میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ جو نہ بک سکتے ہیں نہ جھک سکتے ہیں۔ آپ کے پاس ایسے آدمیوں کی قیمت نہیں ہے کیونکہ آپ کو ایسے کرپٹ آدمی چاہئیں جو ذاتی فائدے اٹھائیں اور آپ کے سامنے حاضر ہوکر کھڑے رہیں۔ تو بھٹو صاحب کو اس ملک کی خدمت کا جو موقع ملا تھا وہ انھوں نے گنوا دیا۔ جو ذہانت ان کے پاس تھی، جو تجربہ ان کے پاس تھا، جو جرأت ان کے پاس تھی وہ سب تباہی میں صرف کردی۔''
محبت بانٹنے والی یہ تاریخ ساز شخصیت اب رخصت ہوئی اور شاید شہر کے باسیوں کے سر پر سے خلوص کا آخری سایہ بھی۔ اب باقی کیا ہے، بے یقینی کی سولی پر اونگھتے ہوئے لوگ، ایک کے بعد ایک اور نامعلوم سے سہمے ہوئے۔ اور وہ کہ لوگ جس ماضی قریب کا مستقبل قریب میں ایک نئے انداز سے دہرایا جانا بتاتے ہیں، اگر وہ ہوگیا تو دیکھنا کہ آسمان پر ایک مسکراہٹ سی کھل جائے گی، جس کے جواب میں کوشش کے باوجود زمین۔۔۔۔۔ مسکرا نہ سکے گی۔۔۔۔۔کہ
ساری سچی کتابوں میں درج ہے
کہ ایسے حالات میں آسمان سے نبی یا تباہی
زمین کی طرف بھیجے جاتے رہے ہیں
مگر ان کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے
نبی اب نہیں آئیں گے