تبدیلیوں کا سامنا کیسے کیا جائے
چائنا پاک اقتصادی راہداری (CPEC) چین اور پاکستان دونوں ممالک کے لیے بہت بڑا اور انتہائی اہم منصوبہ ہے
لاہور:
چائنا پاک اقتصادی راہداری (CPEC) چین اور پاکستان دونوں ممالک کے لیے بہت بڑا اور انتہائی اہم منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کی سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ یہ دنیا کے دو قریبی اور ایک دوسرے پر اعتماد کرنے والے دوست ممالک میں تعمیر ہونے والا پروجیکٹ ہے۔
گزشتہ ماہ چین کے شہر بیجنگ میں CPECکی مشترکہ رابطہ کمیٹی (JCC) کی چھٹی نشست منعقد ہوئی۔ اس نشست میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال ، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی ، سندھ ، خیبر پختونخوا ، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے وزائے اعلیٰ سید مراد علی شاہ، پرویز خٹک، نواب ثناء اللہ زہری، حفیظ الرحمٰن، پنجاب کے وزیر صنعت شیخ علاؤ الدین اور دیگر وزراء اور وفاقی اور صوبائی اعلیٰ افسران نے شرکت کی ۔ چین کا وفد وائس چئیر مین برائے قومی ترقی و اصلاحات وانگ ژاؤٹاؤ Wang Xiaotaoکی سربراہی میں شریک ہوا۔
چین اور پاکستان میں جے سی سی کے پہلے بھی کئی اجلاس ہوچکے ہیں، زیر تزکرہ اجلاس کی اہمیت ہم پاکستانیوں کے نزدیک اس لیے زیادہ ہے کہ اس میں وفاقی حکومت کے نمائندوں کے ساتھ پاکستان کے ہر صوبے کی اعلٰی سطحی نمائندگی ہوئی اور ہر صوبے نے سی پیک کے منصوبوں پر اپنے مکمل اطمینان اور اعتماد کا اظہار کیا۔ اس اجلاس کے ذریعے پاکستان کے کچھ حلقوں میں پائے جانے والے بعض خدشات کا بخوبی ازالہ بھی ہوگیا۔
پاکستان کی ترقی اور استحکام سے ناخوش کئی ممالک سی پیک کی تعمیر کے خلاف ہیں۔ جے سی سی کے اس اجلاس میں ہونے والے اتفاق رائے سے پاکستان کے دشمنوں اور سی پیک کے مخالفوں کو بھی واضح پیغام دے دیا گیا ہے۔
اب بحیثیت قوم ہمیں آگے کی طرف دیکھنا ہے، ترقی اور خوشحالی کی سمت میں آگے بڑھنا ہے۔
سی پیک جتنا بڑا منصوبہ ہے پاکستان کے لیے اتنے ہی اہم سوالات بھی لیے ہوئے ہے۔ کیا پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور دیگر اداروں نے ان سوالات کے جواب تلاش کرلیے ہیں ، اور اس حوالے سے اپنی اپنی ذمے داروں کی ادائیگی کے لیے تیاریاں شروع کردی ہیں؟
سی پیک کی وجہ سے پاکستان میں روزگار کے لاکھوں نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ ٹیلی کمیونیکیشن ، روڈ ، ریل، ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں درکار تعلیم یافتہ افراد کی فراہمی کے لیے منصوبے بنالیے گئے ہیں؟
بجلی کے پیداواری اور ترسیلی یونٹس اور دیگر صنعتی اداروں کے لیے مختلف شعبوں کے انجینئیرز، ٹیکنیشنز اور دیگر ہنر مند افراد کی تعلیم و تربیت کے لیے درکار معتبر ادارے ہمارے ملک میں ہیں...؟
اگر نہیں ، تو ان تعلیمی اور تربیتی اداروں کے قیام اور ان کے لیے درکار ہزاروں ماہر اساتذہ اور دیگر ٹرینرز کی فراہمی کے لیے کیا سوچا گیا ہے؟
چند برسوں بعد جب اس اقتصادی راہداری پر ہزاروں ٹرک روں دواں اور کئی ٹرینیں محو سفر ہوں گی تو ہمیں کئی نئی ضرورتوں کا سامنا بھی ہوگا۔ بہتر ہوگا کہ پاکستان کے ہر صوبے میں سی پیک کے تحت آنے والے مختلف شعبوں کے ماہرین کے تھنک ٹینکس تشکیل دے دیے جائیں۔ ان تھنک ٹینکس کو مطالعے، مشاہدے اور تحقیق کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں۔
دیکھیے...!اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کی وجہ سے انسانی معاشروں کو پہلے ہی کئی تبدیلیوں کاسامنا ہے، پاکستانی معاشرہ بھی ان تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل فون، فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ، آن لائن بزنس وغیرہ رہن سہن کے انداز اور کاروبار کے طریقوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی یہ تبدیلیاں بظاہر کسی ایک ملک کی ہیوی انویسٹمنٹ یا محض کسی ایک ملک کی افرادی شمولیت یا نفوذ کے بغیر آرہی ہیں۔ آج کے دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کسی شعبے کی سمجھ بوجھ رکھنے والا کوئی نوجوان اپنی صلاحیتوں سے کام لے کر ایک بڑا کاروبار چلاسکتا ہے۔ اینڈروئیڈ فون پر مختلف ایپس کے ذریعے معمولی سمجھ بوجھ کا حامل کوئی بھی شخص دنیا کے کسی بھی خطہ سے رابطہ کرسکتا ہے ، دوسرے ملکوں میں تعلقات قائم کرسکتا ہے، کاروبار کرسکتا ہے، اپنے خیالات و نظریات شئیر کرسکتا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا بھر تک رسائی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی کئی تبدیلیاں پچھلے دس پندرہ سال میں ہی آئی ہیں۔ جب ان تبدیلیوں کا آغاز ہورہا تھا تب ہمارے یہاں ان کا صحیح ادراک نہیں کیا گیا۔ ہم نے ان تبدیلیوں کا سامنا کرنے ، ان کا خیرمقدم کرنے یا ان کی حدود مقرر کرنے کے لیے بروقت کوئی تیاری نہیں کی ۔ اس نظر اندازی یا غفلت کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بیش بہا ثمرات سے ہم ٹھیک طرح فائدہ نہیں اٹھا پارہے۔ کئی مقامات پر ہمارے ملک میں روایتی ایڈہاک ازم اور کہیں سُستی مزاحمت کررہی ہے۔
پچھلے بیس پچیس سال سے سردیوں کے دو تین مہینوں میں پنجاب کے کچھ شہروں میں دھند بہت بڑھ جاتی ہے، اس شدید دھند میں حد نظر بہت کم ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک کی روانی تو متاثر ہوتی ہے لیکن لاہور، ملتان اور بعض دیگر ائیر پورٹس پر تیاروں کی آمد ورفت بھی معطل ہوجاتی ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں انتہائی شدید دھند میں بھی جہازوں کی رہنمائی کے لیے جدید ترین نظام کئی دہائیوں سے نصب ہیں لیکن ہم اس ترقی کو اختیارکرنے اور اس سے استفادہ کرنے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔
یہی حال موسمیات کے محکمے کا بھی ہے۔ اس کی اکثر پیش گوئیاں غلط ہوجاتی ہیں۔ غلط پیش گوئیوں پر عوام کو ہونے والی تکالیف اور محکمہ موسمیات کو ہونے والی شرمندگی کی سب سے بڑی وجہ موسم کی بروقت مانیٹرنگ کے لیے جدید معیاری آلات کا نہ ہونا ہے۔ خواجہ سعد رفیق کی جانب سے ریلوے کی وزارت سنبھالنے کے بعد پاکستان ریلوے کی حالت میں بہت سدھار آیا ہے ، ٹرینیں اب وقت پر چل رہی ہیں، مسافروں کی سہولت کے لیے نئی اور آرام دہ ٹرینیں بھی چلائی جارہی ہیں۔ یہ اچھی کارکردگی اپنی جگہ لیکن پاکستان ریلوے آج بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ثمرات سے پوری طرح استفادہ نہیں کررہی۔
ان مثالوں کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ دنیا بھر میں آسانی سے دستیاب کئی سہولتوں کو بھی ہم ٹھیک طرح اختیار نہیں کرپارہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تبدیلیوں کے لیے ذہنی طور پر خود کو تیار نہ کرپانا ہے۔ یہی حال معاشی ترقی کا بھی ہے۔ ہر معاشی ترقی اپنے ساتھ کئی تبدیلیوںکی نوید لے کر آتی ہے۔ ان تبدیلیوں کو مثبت طور پر قبول کرلیا جائے اور ان کے منفی پہلوؤں کی تحدید کردی جائے تو معاشرے کو زیادہ مستحکم اور منظم بنایا جاسکتا ہے۔ ان تبدیلیوں کو نظر انداز کردیا جائے یا ان کی مزاحمت کی جائے تو یہ تبدیلیاں دریائی سیلاب کا ایک ایسا شدید ریلہ بن جاتی ہیں جو اپنے سامنے والے ہر بند کو توڑتا چلاجاتا ہے۔
سی پیک منصوبہ بھی اپنے ساتھ کئی تبدیلیوں کی نوید لارہا ہے، سی پیک سے ہونے والی متوقع معاشی ترقی کو پاکستان میں سماجی بہتری کا ذریعہ بھی بننا چاہیے۔ اس معاشی ترقی سے سماجی بہتری حاصل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر سوچ بچار اور صحیح منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ایسی منصوبہ بندی جس میں پاکستان کے کثیر الثقافتی معاشرے کی مختلف اہم خصوصیات کو مدنظر رکھا گیا ہواور مثبت پہلوؤں اور دلکش رنگوں کو زیادہ سے زیادہ نمایاں ہونے کے مواقع رکھے جائیں۔ ان مقاصد کے لیے ایسے نظام تعلیم اور نصاب کی ضرورت ہے جو پاکستانیت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید علوم و فنون پر مشتمل ہو۔
.....................
میاں مشتاق احمد عظیمی
روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین کے کالم نگار، کئی کتابوں کے مرتب ، مؤلف اور مصنف، سابق صوبائی سیکریٹری میاں مشتاق احمد عظیمی بدھ ,4جنوری 2017کو لاہور میں انتقال کرگئے،
اناللہ وانا الیہ راجعون
میاں صاحب ایک درویش صفت اور صوفی منش انسان تھے، برسہا برس فی سبیل اللہ خدمت خلق میں مصروف رہے۔ آپ کی رحلت سے آپ کے ہزاروں چاہنے والوں کو شدید صدمہ ہوا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے میاں مشتاق عظیمی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا ہو۔
چائنا پاک اقتصادی راہداری (CPEC) چین اور پاکستان دونوں ممالک کے لیے بہت بڑا اور انتہائی اہم منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کی سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ یہ دنیا کے دو قریبی اور ایک دوسرے پر اعتماد کرنے والے دوست ممالک میں تعمیر ہونے والا پروجیکٹ ہے۔
گزشتہ ماہ چین کے شہر بیجنگ میں CPECکی مشترکہ رابطہ کمیٹی (JCC) کی چھٹی نشست منعقد ہوئی۔ اس نشست میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال ، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی ، سندھ ، خیبر پختونخوا ، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے وزائے اعلیٰ سید مراد علی شاہ، پرویز خٹک، نواب ثناء اللہ زہری، حفیظ الرحمٰن، پنجاب کے وزیر صنعت شیخ علاؤ الدین اور دیگر وزراء اور وفاقی اور صوبائی اعلیٰ افسران نے شرکت کی ۔ چین کا وفد وائس چئیر مین برائے قومی ترقی و اصلاحات وانگ ژاؤٹاؤ Wang Xiaotaoکی سربراہی میں شریک ہوا۔
چین اور پاکستان میں جے سی سی کے پہلے بھی کئی اجلاس ہوچکے ہیں، زیر تزکرہ اجلاس کی اہمیت ہم پاکستانیوں کے نزدیک اس لیے زیادہ ہے کہ اس میں وفاقی حکومت کے نمائندوں کے ساتھ پاکستان کے ہر صوبے کی اعلٰی سطحی نمائندگی ہوئی اور ہر صوبے نے سی پیک کے منصوبوں پر اپنے مکمل اطمینان اور اعتماد کا اظہار کیا۔ اس اجلاس کے ذریعے پاکستان کے کچھ حلقوں میں پائے جانے والے بعض خدشات کا بخوبی ازالہ بھی ہوگیا۔
پاکستان کی ترقی اور استحکام سے ناخوش کئی ممالک سی پیک کی تعمیر کے خلاف ہیں۔ جے سی سی کے اس اجلاس میں ہونے والے اتفاق رائے سے پاکستان کے دشمنوں اور سی پیک کے مخالفوں کو بھی واضح پیغام دے دیا گیا ہے۔
اب بحیثیت قوم ہمیں آگے کی طرف دیکھنا ہے، ترقی اور خوشحالی کی سمت میں آگے بڑھنا ہے۔
سی پیک جتنا بڑا منصوبہ ہے پاکستان کے لیے اتنے ہی اہم سوالات بھی لیے ہوئے ہے۔ کیا پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور دیگر اداروں نے ان سوالات کے جواب تلاش کرلیے ہیں ، اور اس حوالے سے اپنی اپنی ذمے داروں کی ادائیگی کے لیے تیاریاں شروع کردی ہیں؟
سی پیک کی وجہ سے پاکستان میں روزگار کے لاکھوں نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ ٹیلی کمیونیکیشن ، روڈ ، ریل، ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں درکار تعلیم یافتہ افراد کی فراہمی کے لیے منصوبے بنالیے گئے ہیں؟
بجلی کے پیداواری اور ترسیلی یونٹس اور دیگر صنعتی اداروں کے لیے مختلف شعبوں کے انجینئیرز، ٹیکنیشنز اور دیگر ہنر مند افراد کی تعلیم و تربیت کے لیے درکار معتبر ادارے ہمارے ملک میں ہیں...؟
اگر نہیں ، تو ان تعلیمی اور تربیتی اداروں کے قیام اور ان کے لیے درکار ہزاروں ماہر اساتذہ اور دیگر ٹرینرز کی فراہمی کے لیے کیا سوچا گیا ہے؟
چند برسوں بعد جب اس اقتصادی راہداری پر ہزاروں ٹرک روں دواں اور کئی ٹرینیں محو سفر ہوں گی تو ہمیں کئی نئی ضرورتوں کا سامنا بھی ہوگا۔ بہتر ہوگا کہ پاکستان کے ہر صوبے میں سی پیک کے تحت آنے والے مختلف شعبوں کے ماہرین کے تھنک ٹینکس تشکیل دے دیے جائیں۔ ان تھنک ٹینکس کو مطالعے، مشاہدے اور تحقیق کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں۔
دیکھیے...!اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کی وجہ سے انسانی معاشروں کو پہلے ہی کئی تبدیلیوں کاسامنا ہے، پاکستانی معاشرہ بھی ان تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل فون، فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ، آن لائن بزنس وغیرہ رہن سہن کے انداز اور کاروبار کے طریقوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی یہ تبدیلیاں بظاہر کسی ایک ملک کی ہیوی انویسٹمنٹ یا محض کسی ایک ملک کی افرادی شمولیت یا نفوذ کے بغیر آرہی ہیں۔ آج کے دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کسی شعبے کی سمجھ بوجھ رکھنے والا کوئی نوجوان اپنی صلاحیتوں سے کام لے کر ایک بڑا کاروبار چلاسکتا ہے۔ اینڈروئیڈ فون پر مختلف ایپس کے ذریعے معمولی سمجھ بوجھ کا حامل کوئی بھی شخص دنیا کے کسی بھی خطہ سے رابطہ کرسکتا ہے ، دوسرے ملکوں میں تعلقات قائم کرسکتا ہے، کاروبار کرسکتا ہے، اپنے خیالات و نظریات شئیر کرسکتا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا بھر تک رسائی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی کئی تبدیلیاں پچھلے دس پندرہ سال میں ہی آئی ہیں۔ جب ان تبدیلیوں کا آغاز ہورہا تھا تب ہمارے یہاں ان کا صحیح ادراک نہیں کیا گیا۔ ہم نے ان تبدیلیوں کا سامنا کرنے ، ان کا خیرمقدم کرنے یا ان کی حدود مقرر کرنے کے لیے بروقت کوئی تیاری نہیں کی ۔ اس نظر اندازی یا غفلت کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بیش بہا ثمرات سے ہم ٹھیک طرح فائدہ نہیں اٹھا پارہے۔ کئی مقامات پر ہمارے ملک میں روایتی ایڈہاک ازم اور کہیں سُستی مزاحمت کررہی ہے۔
پچھلے بیس پچیس سال سے سردیوں کے دو تین مہینوں میں پنجاب کے کچھ شہروں میں دھند بہت بڑھ جاتی ہے، اس شدید دھند میں حد نظر بہت کم ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک کی روانی تو متاثر ہوتی ہے لیکن لاہور، ملتان اور بعض دیگر ائیر پورٹس پر تیاروں کی آمد ورفت بھی معطل ہوجاتی ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں انتہائی شدید دھند میں بھی جہازوں کی رہنمائی کے لیے جدید ترین نظام کئی دہائیوں سے نصب ہیں لیکن ہم اس ترقی کو اختیارکرنے اور اس سے استفادہ کرنے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔
یہی حال موسمیات کے محکمے کا بھی ہے۔ اس کی اکثر پیش گوئیاں غلط ہوجاتی ہیں۔ غلط پیش گوئیوں پر عوام کو ہونے والی تکالیف اور محکمہ موسمیات کو ہونے والی شرمندگی کی سب سے بڑی وجہ موسم کی بروقت مانیٹرنگ کے لیے جدید معیاری آلات کا نہ ہونا ہے۔ خواجہ سعد رفیق کی جانب سے ریلوے کی وزارت سنبھالنے کے بعد پاکستان ریلوے کی حالت میں بہت سدھار آیا ہے ، ٹرینیں اب وقت پر چل رہی ہیں، مسافروں کی سہولت کے لیے نئی اور آرام دہ ٹرینیں بھی چلائی جارہی ہیں۔ یہ اچھی کارکردگی اپنی جگہ لیکن پاکستان ریلوے آج بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ثمرات سے پوری طرح استفادہ نہیں کررہی۔
ان مثالوں کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ دنیا بھر میں آسانی سے دستیاب کئی سہولتوں کو بھی ہم ٹھیک طرح اختیار نہیں کرپارہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تبدیلیوں کے لیے ذہنی طور پر خود کو تیار نہ کرپانا ہے۔ یہی حال معاشی ترقی کا بھی ہے۔ ہر معاشی ترقی اپنے ساتھ کئی تبدیلیوںکی نوید لے کر آتی ہے۔ ان تبدیلیوں کو مثبت طور پر قبول کرلیا جائے اور ان کے منفی پہلوؤں کی تحدید کردی جائے تو معاشرے کو زیادہ مستحکم اور منظم بنایا جاسکتا ہے۔ ان تبدیلیوں کو نظر انداز کردیا جائے یا ان کی مزاحمت کی جائے تو یہ تبدیلیاں دریائی سیلاب کا ایک ایسا شدید ریلہ بن جاتی ہیں جو اپنے سامنے والے ہر بند کو توڑتا چلاجاتا ہے۔
سی پیک منصوبہ بھی اپنے ساتھ کئی تبدیلیوں کی نوید لارہا ہے، سی پیک سے ہونے والی متوقع معاشی ترقی کو پاکستان میں سماجی بہتری کا ذریعہ بھی بننا چاہیے۔ اس معاشی ترقی سے سماجی بہتری حاصل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر سوچ بچار اور صحیح منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ایسی منصوبہ بندی جس میں پاکستان کے کثیر الثقافتی معاشرے کی مختلف اہم خصوصیات کو مدنظر رکھا گیا ہواور مثبت پہلوؤں اور دلکش رنگوں کو زیادہ سے زیادہ نمایاں ہونے کے مواقع رکھے جائیں۔ ان مقاصد کے لیے ایسے نظام تعلیم اور نصاب کی ضرورت ہے جو پاکستانیت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید علوم و فنون پر مشتمل ہو۔
.....................
میاں مشتاق احمد عظیمی
روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین کے کالم نگار، کئی کتابوں کے مرتب ، مؤلف اور مصنف، سابق صوبائی سیکریٹری میاں مشتاق احمد عظیمی بدھ ,4جنوری 2017کو لاہور میں انتقال کرگئے،
اناللہ وانا الیہ راجعون
میاں صاحب ایک درویش صفت اور صوفی منش انسان تھے، برسہا برس فی سبیل اللہ خدمت خلق میں مصروف رہے۔ آپ کی رحلت سے آپ کے ہزاروں چاہنے والوں کو شدید صدمہ ہوا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے میاں مشتاق عظیمی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا ہو۔