مختلف بلدیاتی نظاموں کا تماشا
میونسپل کارپوریشنوں میں اٹھارہ سے بیس گریڈ کے افسروں، ڈائریکٹروں اور انجینئروں کی بھرمار ہوتی ہے
ISLAMABAD:
ملک بھر میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں مختلف بلدیاتی قوانین کے تحت جو بلدیاتی ادارے کام کر رہے ہیں ان میں صرف ایک چیز مشترک ہے کہ ان میں زیادہ اثر سابق صدر جنرل ضیا الحق کے 1979 کے بلدیاتی نظام کا عکس نظر آتا ہے اور نمایاں فرق یہ ہے کہ فوجی صدر کے دیے گئے بلدیاتی نظام کی یہ خوبی تھی کہ وہ صوبائی نہیں بلکہ ملک گیر تھا اور چاروں صوبوں میں یکساں بلدیاتی نظام نافذ تھا اور کسی بھی میونسپل کارپوریشن میں ایک سے زیادہ ڈپٹی میئر نہیں تھے۔
چاروں صوبوں میں ایک جیسے بلدیاتی ادارے تھے جو ملک بھر میں حاصل اختیارات کے تحت کام کر رہے تھے اور صوبوں کا محکمہ بلدیات انھیں کنٹرول کرتا تھا اور یہ ادارے صوبائی وزرائے بلدیات اور صوبائی بلدیاتی سیکریٹریوں کی جی حضوری کے علاوہ اپنے علاقوں کے کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں اور اسسٹنٹ کمشنروں کے ماتحت تھے اور مذکورہ بالا سرکاری افسران ان کے کنٹرولنگ اتھارٹی تھے اور بلدیاتی ادارے اپنے بجٹوں کی منظوری کے لیے بھی ان ہی کے محتاج تھے۔
جنرل پرویز مشرف 2007 میں صدر تو منتخب ہوگئے تھے اور انھوں نے 2001 میں ملک کو جو ضلعی بلدیاتی نظام ضلعی اور سٹی حکومتوں کی شکل میں دیا تھا وہ انتہائی بااختیار ہونے کے ساتھ ملک بھر میں یکساں تھا، جس کا وفاقی اور صوبائی بلدیاتی وزارتوں کے بجائے قومی تعمیر نو نامی وفاقی ادارے کے ماتحت تھا۔ جس کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی بلدیاتی محکموں کا بلدیاتی اداروں سے تعلق نام کی حد تک رہ گیا تھا اور ملک بھر کے بلدیاتی اداروں کو چاروں صوبوں کے محکمہ بلدیات کے وزیروں صوبائی سیکریٹریوں، لوکل گورنمنٹ بورڈ، ڈویژنوں کے بلدیات کے ڈائریکٹروں سے نجات مل گئی تھی۔ ہر دور میں بلدیاتی اداروں کو متعلقہ صوبائی محکمہ بلدیات کے وزیر اور سیکریٹری کا محتاج رکھا جاتا تھا اور بلدیاتی اداروں میں وزیر بلدیات کو وزیراعلیٰ جیسی اہمیت اور پروٹوکول ملتا تھا۔
میونسپل کارپوریشنوں میں اٹھارہ سے بیس گریڈ کے افسروں، ڈائریکٹروں اور انجینئروں کی بھرمار ہوتی ہے جب کہ میونسپل کمیٹیوں میں چیف میونسپل افسروں اور چیف افسران، ضلع کونسلوں میں چیف افسروں اور ٹاؤن کمیٹیوں میں ٹاؤن افسر اور یونین کونسلوں میں سیکریٹری مقرر ہیں جن کی تقرریاں منظور شدہ گریڈوں کے مطابق وزیر بلدیات، سیکریٹری بلدیات اور ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ ڈویژن میں اور اضلاع میں ڈپٹی ڈائریکٹر کرتے ہیں۔ گریڈوں کے لحاظ سے نئی تقرریاں اور تبادلے بھی مذکورہ بالا عہدیداروں کا اختیار ہے۔ زیادہ تر تقرر و تبادلے مقررہ رشوت اور کم تبادلے سفارشوں پر ہوتے ہیں، مگر پوسٹنگ آرڈر لیتے وقت رشوت دینا پڑتی ہے یا مہینوں متعلقہ دفاتر کے چکر لگانا پڑتے ہیں۔
بلدیات کے منتخب میئروں اور چیئرمینوں کو سرکاری افسروں کے مقابلے میں محدود مالی، انتظامی اور نئی تقرریوں کے اختیارات جنرل ضیا کے 1979 کے بلدیاتی نظام میں دیے گئے تھے جو چاروں جمہوری حکومتوں نے ترامیم کرکے مزید محدود کردیے ہیں جس پر چاروں صوبوں کے منتخب بلدیاتی نمائندے احتجاج کر رہے ہیں مگر عوام کی منتخب حکومتیں نچلی سطح پر بلدیاتی منتخب عہدیداروں کو وہ اختیارات جان بوجھ کر نہیں دے رہیں جو معاملات چلانے کے لیے ان کا حق ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے اختیارات محدود اور انھیں اپنا محتاج رکھنے میں چاروں صوبائی حکومتیں ایک ہیں اور وزیراعلیٰ اور محکمہ بلدیات کے وزیر اور افسران تمام اہم اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اور انھیں اعلیٰ عہدوں پر تقرر و تبادلوں کے نہ صرف اختیارات حاصل ہیں بلکہ کارپوریشن سے یوسی تک نچلی سطح کے منتخب بلدیاتی نمائندے ان کے مکمل احتجاج اور رحم و کرم پر ہیں۔
ملک کی تاریخ میں پلی بار بلدیاتی نظام صوبوں میں صوبائی اور اسلام آباد کا بلدیاتی نظام وفاقی حکومتوں کے مکمل کنٹرول میں آچکا ہے جب کہ جنرل پرویز کے ضلعی حکومتوں میں بلدیاتی عہدیدار انتظامی اور مالی طور پر مکمل بااختیار تھے اور محکمہ بلدیات وہاں من مانی اور غیر قانونی مداخلت نہیں کرسکتے تھے اور مداخلت نہ کیے جانے کا سب سے زیادہ دکھ ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں کو تھا کیونکہ غیر جماعتی بنیاد پر منتخب ناظمین کے دور میں ان کی نہیں چلتی تھی اور بلدیاتی کاموں کے فنڈ ارکان اسمبلی کے بجائے بلدیاتی اداروں کو ملتے تھے۔
ضلعی حکومتوں میں اضافی عملہ مقررہ یا کچھ زیادہ بھی ہوتا تھا کیونکہ انھیں اپنے وسائل کے مطابق بجٹ میں ترقیاتی اور غیر ترقیاتی فنڈ رکھنا پڑتا ہے اور انھیں صوبوں کی گرانٹ کی محتاجی بھی نہیں تھی۔زیادہ فنڈ ترقیاتی کاموں کے لیے مختص تھے۔ ناظمین فرشتے تو نہیں تھے مگر سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے مقابلے میں اپنے علاقوں کے عوام کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے کیونکہ انھیں وہیں رہنا جینا اور مرنا ہوتا ہے اور سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے وہ علاقے اپنے شہر ہوتے ہیں اور وہ عوام کے بجائے اپنے بڑوں کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ ترقیاتی کاموں میں کمیشن تو ہر بلدیاتی اداروں میں مقرر ہے خواہ وہاں سرکاری افسران سربراہ ہوں یا منتخب نمائندے اور سرکاری افسروں کے دور میں تو انھیں وزیر بلدیات سے لے کر اسسٹنٹ کمشنروں تک کا خصوصی خیال رکھنا پڑتا ہے اس لیے وہاں کرپشن بھی زیادہ ہوتی ہے۔
کمشنری نظام کو موجودہ بلدیاتی اداروں کا ماتحت کرکے زیادہ سے زیادہ کرپشن کے مواقع فراہم کرنے کا سہرا بھی نام نہاد جمہوری حکومتوں کے سر ہے جو خود تو وفاق سے بھی آزاد ہیں مگر نچلی سطح کے بلدیاتی اداروں کو بیورو کریسی کا ماتحت بناچکی ہیں۔ملک بھر میں مختلف بلدیاتی نظاموں میں تماشا یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی بلدیہ عظمیٰ کراچی کا سربراہ میئر کہلا رہا ہے اور بلدیہ عظمیٰ لاہور کا سربراہ لارڈ میئر ہے۔ سب سے بڑے شہر کراچی میں صرف ایک ڈپٹی میئر ہے جب کہ لاہور میں سب سے زیادہ نو ڈپٹی میئر ہیں۔ اسلام آباد میں ایک میئر اور تین ڈپٹی میئر ہیں جنھیں منتخب ہونے کے فوری بعد چارج مل گیا تھا اور چاروں صوبوں میں بلدیاتی سربراہوں کو مہینوں تاخیر سے اختیارات دیے گئے۔ تیسرے بڑے شہر فیصل آباد میں میونسپل کارپوریشن کے چار ڈپٹی میئر اور چوتھے بڑے شہر حیدرآباد کے لیے صرف ایک ڈپٹی میئر ہے۔
سندھ، بلوچستان اور کے پی کے کے کسی بلدیہ اعلیٰ میں ایک سے زیادہ ڈپٹی میئر نہیں مگر راولپنڈی، ملتان، گوجرانوالہ ودیگر میں دو سے تین ڈپٹی میئر ہیں۔ چاروں صوبوں میں یہی حال یونین کونسلروں کی تعداد کا ہے اور کراچی سے زیادہ یونین کونسلیں لاہور کی ہیں۔ کراچی میں بلدیہ عظمیٰ کے ساتھ ضلع کونسل کراچی بھی ہے جب کہ دیگر میونسپل کارپوریشنوں میں ایسا نہیں ہے۔ کراچی کے 6 ضلعوں میں یونین کمیٹیاں اور ضلع کونسل میں یونین کونسلیں بنائی گئی ہیں جس سے ملک بھر میں بلدیاتی نظام اور بلدیاتی ادارے تماشا بنا دیے گئے ہیں جو دور آمریت میں نہیں جمہوری کہلانے والی حکومتوں نے کیا ہے۔
ملک بھر میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں مختلف بلدیاتی قوانین کے تحت جو بلدیاتی ادارے کام کر رہے ہیں ان میں صرف ایک چیز مشترک ہے کہ ان میں زیادہ اثر سابق صدر جنرل ضیا الحق کے 1979 کے بلدیاتی نظام کا عکس نظر آتا ہے اور نمایاں فرق یہ ہے کہ فوجی صدر کے دیے گئے بلدیاتی نظام کی یہ خوبی تھی کہ وہ صوبائی نہیں بلکہ ملک گیر تھا اور چاروں صوبوں میں یکساں بلدیاتی نظام نافذ تھا اور کسی بھی میونسپل کارپوریشن میں ایک سے زیادہ ڈپٹی میئر نہیں تھے۔
چاروں صوبوں میں ایک جیسے بلدیاتی ادارے تھے جو ملک بھر میں حاصل اختیارات کے تحت کام کر رہے تھے اور صوبوں کا محکمہ بلدیات انھیں کنٹرول کرتا تھا اور یہ ادارے صوبائی وزرائے بلدیات اور صوبائی بلدیاتی سیکریٹریوں کی جی حضوری کے علاوہ اپنے علاقوں کے کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں اور اسسٹنٹ کمشنروں کے ماتحت تھے اور مذکورہ بالا سرکاری افسران ان کے کنٹرولنگ اتھارٹی تھے اور بلدیاتی ادارے اپنے بجٹوں کی منظوری کے لیے بھی ان ہی کے محتاج تھے۔
جنرل پرویز مشرف 2007 میں صدر تو منتخب ہوگئے تھے اور انھوں نے 2001 میں ملک کو جو ضلعی بلدیاتی نظام ضلعی اور سٹی حکومتوں کی شکل میں دیا تھا وہ انتہائی بااختیار ہونے کے ساتھ ملک بھر میں یکساں تھا، جس کا وفاقی اور صوبائی بلدیاتی وزارتوں کے بجائے قومی تعمیر نو نامی وفاقی ادارے کے ماتحت تھا۔ جس کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی بلدیاتی محکموں کا بلدیاتی اداروں سے تعلق نام کی حد تک رہ گیا تھا اور ملک بھر کے بلدیاتی اداروں کو چاروں صوبوں کے محکمہ بلدیات کے وزیروں صوبائی سیکریٹریوں، لوکل گورنمنٹ بورڈ، ڈویژنوں کے بلدیات کے ڈائریکٹروں سے نجات مل گئی تھی۔ ہر دور میں بلدیاتی اداروں کو متعلقہ صوبائی محکمہ بلدیات کے وزیر اور سیکریٹری کا محتاج رکھا جاتا تھا اور بلدیاتی اداروں میں وزیر بلدیات کو وزیراعلیٰ جیسی اہمیت اور پروٹوکول ملتا تھا۔
میونسپل کارپوریشنوں میں اٹھارہ سے بیس گریڈ کے افسروں، ڈائریکٹروں اور انجینئروں کی بھرمار ہوتی ہے جب کہ میونسپل کمیٹیوں میں چیف میونسپل افسروں اور چیف افسران، ضلع کونسلوں میں چیف افسروں اور ٹاؤن کمیٹیوں میں ٹاؤن افسر اور یونین کونسلوں میں سیکریٹری مقرر ہیں جن کی تقرریاں منظور شدہ گریڈوں کے مطابق وزیر بلدیات، سیکریٹری بلدیات اور ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ ڈویژن میں اور اضلاع میں ڈپٹی ڈائریکٹر کرتے ہیں۔ گریڈوں کے لحاظ سے نئی تقرریاں اور تبادلے بھی مذکورہ بالا عہدیداروں کا اختیار ہے۔ زیادہ تر تقرر و تبادلے مقررہ رشوت اور کم تبادلے سفارشوں پر ہوتے ہیں، مگر پوسٹنگ آرڈر لیتے وقت رشوت دینا پڑتی ہے یا مہینوں متعلقہ دفاتر کے چکر لگانا پڑتے ہیں۔
بلدیات کے منتخب میئروں اور چیئرمینوں کو سرکاری افسروں کے مقابلے میں محدود مالی، انتظامی اور نئی تقرریوں کے اختیارات جنرل ضیا کے 1979 کے بلدیاتی نظام میں دیے گئے تھے جو چاروں جمہوری حکومتوں نے ترامیم کرکے مزید محدود کردیے ہیں جس پر چاروں صوبوں کے منتخب بلدیاتی نمائندے احتجاج کر رہے ہیں مگر عوام کی منتخب حکومتیں نچلی سطح پر بلدیاتی منتخب عہدیداروں کو وہ اختیارات جان بوجھ کر نہیں دے رہیں جو معاملات چلانے کے لیے ان کا حق ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے اختیارات محدود اور انھیں اپنا محتاج رکھنے میں چاروں صوبائی حکومتیں ایک ہیں اور وزیراعلیٰ اور محکمہ بلدیات کے وزیر اور افسران تمام اہم اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اور انھیں اعلیٰ عہدوں پر تقرر و تبادلوں کے نہ صرف اختیارات حاصل ہیں بلکہ کارپوریشن سے یوسی تک نچلی سطح کے منتخب بلدیاتی نمائندے ان کے مکمل احتجاج اور رحم و کرم پر ہیں۔
ملک کی تاریخ میں پلی بار بلدیاتی نظام صوبوں میں صوبائی اور اسلام آباد کا بلدیاتی نظام وفاقی حکومتوں کے مکمل کنٹرول میں آچکا ہے جب کہ جنرل پرویز کے ضلعی حکومتوں میں بلدیاتی عہدیدار انتظامی اور مالی طور پر مکمل بااختیار تھے اور محکمہ بلدیات وہاں من مانی اور غیر قانونی مداخلت نہیں کرسکتے تھے اور مداخلت نہ کیے جانے کا سب سے زیادہ دکھ ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں کو تھا کیونکہ غیر جماعتی بنیاد پر منتخب ناظمین کے دور میں ان کی نہیں چلتی تھی اور بلدیاتی کاموں کے فنڈ ارکان اسمبلی کے بجائے بلدیاتی اداروں کو ملتے تھے۔
ضلعی حکومتوں میں اضافی عملہ مقررہ یا کچھ زیادہ بھی ہوتا تھا کیونکہ انھیں اپنے وسائل کے مطابق بجٹ میں ترقیاتی اور غیر ترقیاتی فنڈ رکھنا پڑتا ہے اور انھیں صوبوں کی گرانٹ کی محتاجی بھی نہیں تھی۔زیادہ فنڈ ترقیاتی کاموں کے لیے مختص تھے۔ ناظمین فرشتے تو نہیں تھے مگر سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے مقابلے میں اپنے علاقوں کے عوام کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے کیونکہ انھیں وہیں رہنا جینا اور مرنا ہوتا ہے اور سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے وہ علاقے اپنے شہر ہوتے ہیں اور وہ عوام کے بجائے اپنے بڑوں کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ ترقیاتی کاموں میں کمیشن تو ہر بلدیاتی اداروں میں مقرر ہے خواہ وہاں سرکاری افسران سربراہ ہوں یا منتخب نمائندے اور سرکاری افسروں کے دور میں تو انھیں وزیر بلدیات سے لے کر اسسٹنٹ کمشنروں تک کا خصوصی خیال رکھنا پڑتا ہے اس لیے وہاں کرپشن بھی زیادہ ہوتی ہے۔
کمشنری نظام کو موجودہ بلدیاتی اداروں کا ماتحت کرکے زیادہ سے زیادہ کرپشن کے مواقع فراہم کرنے کا سہرا بھی نام نہاد جمہوری حکومتوں کے سر ہے جو خود تو وفاق سے بھی آزاد ہیں مگر نچلی سطح کے بلدیاتی اداروں کو بیورو کریسی کا ماتحت بناچکی ہیں۔ملک بھر میں مختلف بلدیاتی نظاموں میں تماشا یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی بلدیہ عظمیٰ کراچی کا سربراہ میئر کہلا رہا ہے اور بلدیہ عظمیٰ لاہور کا سربراہ لارڈ میئر ہے۔ سب سے بڑے شہر کراچی میں صرف ایک ڈپٹی میئر ہے جب کہ لاہور میں سب سے زیادہ نو ڈپٹی میئر ہیں۔ اسلام آباد میں ایک میئر اور تین ڈپٹی میئر ہیں جنھیں منتخب ہونے کے فوری بعد چارج مل گیا تھا اور چاروں صوبوں میں بلدیاتی سربراہوں کو مہینوں تاخیر سے اختیارات دیے گئے۔ تیسرے بڑے شہر فیصل آباد میں میونسپل کارپوریشن کے چار ڈپٹی میئر اور چوتھے بڑے شہر حیدرآباد کے لیے صرف ایک ڈپٹی میئر ہے۔
سندھ، بلوچستان اور کے پی کے کے کسی بلدیہ اعلیٰ میں ایک سے زیادہ ڈپٹی میئر نہیں مگر راولپنڈی، ملتان، گوجرانوالہ ودیگر میں دو سے تین ڈپٹی میئر ہیں۔ چاروں صوبوں میں یہی حال یونین کونسلروں کی تعداد کا ہے اور کراچی سے زیادہ یونین کونسلیں لاہور کی ہیں۔ کراچی میں بلدیہ عظمیٰ کے ساتھ ضلع کونسل کراچی بھی ہے جب کہ دیگر میونسپل کارپوریشنوں میں ایسا نہیں ہے۔ کراچی کے 6 ضلعوں میں یونین کمیٹیاں اور ضلع کونسل میں یونین کونسلیں بنائی گئی ہیں جس سے ملک بھر میں بلدیاتی نظام اور بلدیاتی ادارے تماشا بنا دیے گئے ہیں جو دور آمریت میں نہیں جمہوری کہلانے والی حکومتوں نے کیا ہے۔