کپڑے کے نیچے
پاکستان کی سیاست ’’خالہ پھپھو‘‘ کی سیاست ہے
ISLAMABAD:
پاکستان کی سیاست ''خالہ پھپھو'' کی سیاست ہے اور جو اس کو سمجھ لیتا ہے وہ آرام سے اپنا Tenure جس کا ترجمہ سیاست کے اعتبار سے ''عرصہ محشر'' کیا جانا چاہیے، اچھی طرح گزار لیتا ہے اور جو اس فارمولے کو نہیں سمجھتا وہ پھر واقعتا ''عرصہ محشر'' میں رہتا ہے۔ایک مسئلہ یہ ہے کہ جو بھی بھائی میرے کالم کو کمپیوٹر پر لکھتے ہیں کیونکہ میں کاغذ پر لکھ کر ارسال کرتا ہوں اس دور میں بھی، وہ ظاہر ہے کہ تحریر کے سلسلے میں دشواریوں کا شکار ہونگے۔ میں کچھ زیادہ ''خوش رقم'' نہیں ہوں لہٰذا غلطیاں میری ہی شمار کی جائیں، کارکن تو صرف مار کھاتے ہیں، فائدے لیڈروں کے ہوتے ہیں۔ کالم میرے نام سے چھپتا ہے تو غلطیاں بھی میرے ہی کھاتے میں رہیں، وہ بھائی پریشان نہ ہوں۔ میں ہوں نا۔اچھا یہ تو ایک ہلکا پھلکا وقفہ تھا ''غیر تجارتی'' اس کے بعد ہم پھر موضوع پر آجاتے ہیں۔ ہمارے عوام بہت دلچسپ لوگ ہیں، بشمول میرے۔ مسائل وغیرہ کو تو ہم پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
کچرے کے ڈھیر پر بیٹھ کر ہم صحت و صفائی پر تقریر کرتے ہیں۔ یہ غلط ہے کیا؟ آپ دیکھ لیں جس ہوٹل میں بلکہ ''شاندار ہوٹل'' میں، اس موضوع پر گفتگو ہو رہی ہوتی ہے اس کے بیک یارڈ یعنی عقب کی گلیوں میں کچرے کے ڈھیر ہوتے ہیں۔پر اس سے کیا ہوتا ہے تقریر تو شاندار ہوئی نا بلکہ تقریب بھی، کھانا شاندار اور اگر ممکن ہوا تو ناچ گانا بھی شاندار ترین۔ میری ان قلمی حرکتوں پر میرے کسی دن کسی کے ہاتھوں پٹ جانے کے بھی روشن امکانات ہیں مگر خیر کوئی بات نہیں، دنیا میں ہر بڑے آدمی کو ان مسائل کا سامنا رہا ہے اور میں نے کب اپنے آپ کو دوسرے پاکستانیوں کی طرح چھوٹا سمجھا ہے۔لالہ سے لے کر خالہ تک جس کو دیکھو ڈھائی گھرکا ہی سمجھتا ہے اپنے آپ کو اور اپنی رائے کو وہ مقدم ترین اور درست ترین۔ لالہ لکھا تو عمران خان یاد آگئے۔ وہ کہتے ہیں یکم نومبر کو کہ فیصلے کپتان ہی کرتا ہے، بات تو ٹھیک ہے مگر گھوڑا تو کاٹھ کا ہے تو کپتان فیصلے کس کے بارے میں کر رہے ہیں۔
وہ تو اب اس جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں وہ قریب ترین لوگوں کو بھی کہنے والے کہتے ہیں کہ خاطر میں نہیں لاتے، جیسا کہ انھوں نے کہا تھا اور اپنے ہر عمل سے ثابت کیا کہ ''میں'' ہی ان کی اصل لیڈر ہے۔ کرکٹ میں تو وہ کھلاڑیوں کو آڑے ہاتھوں لیا کرتے تھے، لفظ آڑے ہاتھوں کا آپ آزادانہ ترجمہ کرسکتے ہیں، آپ کو اجازت ہے۔ ہم نے قانون کے دائرے میں لفظ استعمال کیا ہے۔ آپ پر کوئی قانون لاگو نہیں، آپ آزاد پاکستانی ہیں۔ آپ پر کسی قانون کی پابندی لازم نہیں ہے کیونکہ قانون بنانیوالے بھی اس پر عملدرآمد نہیں چاہتے صرف بناتے ہیں کہ انھیں اس وقت اور کوئی مناسب کام نہیں ملتا۔تو یہ کالم جب چھپ رہا ہوگا بات دو ماہ پرانی ہوچکی ہوگی کہ دھرنے کا کس طرح دھڑن تختہ ہوا، خورشید شاہ نے کچھ عرصہ پہلے ایک دلچسپ بات کی تھی کہ عمران خان نواز شریف کے سب سے بڑے حمایتی ہیں اور ان کی کاوشوں سے نواز شریف کا دورانیہ ٹھیک گزر رہا ہے کیونکہ جب کوئی مسئلہ ہوتا ہے، عمران خان کوئی اسکیم لے کر میدان میں آجاتے ہیں اور ساری توجہ اس طرف ہوجاتی ہے اور جو بڑا مسئلہ حکومت کو درپیش ہوتا ہے وہ اس سے نمٹ لیتی ہے۔
بات ٹھیک لگتی ہے نہ جانے کیوں۔ کشمیر کا سخت مرحلہ درپیش تھا، بھارت کے ظلم و ستم کے بارے میں دنیا بھر میں کچھ نہ کچھ شور و غوغا ہو رہا تھا، کچھ امید بندھ چلی تھی کہ اس پر کچھ ہوگا، خاں صاحب کے دھرنے نے ساری گھڑیوں کے کانٹے یعنی میڈیا اور عوام کو اپنی طرف متوجہ کرلیا اور پھر سپریم کورٹ میں معاملہ پہنچتے ہی Relax ہوگئے اور کشمیری وہاں ہی رہ گئے، ظلم و ستم برداشت کرنے کے لیے۔ غلط خبر فیڈ کرنے کا معاملہ سرد پڑگیا، اس وقت اب تو جب یہ کالم چھپ رہا ہوگا بہت کچھ تبدیلیاں ہوچکی ہوں گی مگر تاریخ تبدیل کرنا ایک الگ کام ہے، سب کچھ لکھا جا رہا ہے، محفوظ کیا جارہا ہے۔یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے۔
پاکستان کی سیاسی پارٹیوں نے درپردہ سپورٹ کرکے خاں صاحب کو کئی بار گھوڑی چڑھایا ہے مگر دولہا سسرال سے پہلے ہی گھوڑی سے اتر گیا، اور وہ فائدے جو خاں صاحب کے آخر تک عمل کے ہوتے، وہ نہ ان کو ملے اور نہ گھوڑی چڑھانے والوں کو۔ اس پہلوان کا پروموٹر اس سے خوش نہیں ہوتا جو پہلوان رنگ میں جاکر من مانی کرے اور خان صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ پروموٹرز کی مدد سے رنگ میں جاکر ''من مانی'' کرتے ہیں، یہ کوئی اچھا بزنس نہیں ہے۔
شروع میں ہم نے پاکستانی سیاست کا ذکر کیا تھا مگر قلم خان صاحب کی طرف مڑا تو دلچسپ موضوع ہے، وہیں رہ گیا تو پاکستانی صحافت، معاف کیجیے گا سیاست کے سب سے اچھے کھلاڑی کا نام اگر کہیں درج کیا جاسکتا ہے تو وہ عجیب شخصیت ہے کہ جس کو ان کی بیگم صاحبہ سیاست سے دور رکھتی تھیں اور شاید بہتر سمجھتی تھیں کہ ان کو اپنا چراغ جلانا مشکل ہوجاتا اور یہ ایک بار وہ ان کو ایک شجر کاری کی مہم کا انچارج لگا کر دیکھ چکی تھیں جس کے تحت ملک میں کروڑوں اربوں درخت لگانے تھے، غالباً 1995 یا آس پاس کا زمانہ تھا اور حکومت نے ایک بجٹ مختص کیا تھا، چاروں صوبوں کے لیے اربوں روپے کا، وہ بجٹ خرچ ہوا۔ درخت آج تک ایک بھی کہیں نہیں ہے۔
یہ تو ایسے ہی کچھ یاد آگیا تو ذکر کردیا۔ ذکر ہم کر رہے تھے خالہ پھپھو کی سیاست کا تو اس کے ماہر کے طور پر اگر کہیں کوئی نام لکھا جاسکتا ہے وہ ہے سابق صدر پاکستان آصف زرداری، شوہر بے نظیر بھٹو صاحبہ کا۔ بیوی کی طرف سے اگر بھٹو ہونے کا رواج ہوتا تو وہ پہلے آصف زرداری بھٹو ہوتے۔ انھوں نے اس سیاست کو رواج دیا اور پھر ان سے یہ سیاست شریفوں کو منتقل ہوئی۔ فرق صرف یہ تھا اور ہے کہ زرداری ادائیگی میں یقین رکھتے ہیں، ڈاکٹر عاصم اس کا ثبوت ہیں اور شریف لوگ وعدوں پر ٹرخاتے ہیں۔ ان لوگوں کے تین تین دور حکومت، جنھیں میں عوام کے لیے ''عرصہ محشر'' کہتا ہوں، بھی اگر آجائیں تو وہ ویسے ہی رہیں گے اور یہ ایسے ہی رہیں گے۔ No Change کیونکہ یہ لوگ Made In ہی ایسے ہیں، عوام کے لیے دونوں خطرناک، وہ بے تحاشا نوکریاں دے کر، مفت خوری کو عام کرتے ہیں، یہ ایک خاص طبقے کو مراعات فراہم کرتے ہیں، جن کا تعلق ان سے یا زیادہ سے زیادہ ان کے صوبے سے ہوتا ہے۔
آپ دیکھ لیں تمام وفاقی وزرا کہاں سے ہیں؟ سب ان کے آس پاس سے۔ صدر کا کیا ذکر کرنا وہ تو 58/2B کے ختم کرنے کے بعد بے دانت کا شیر ہے، کہیں سے بھی لے سکتے ہیں جب صرف علامتی عہدہ رہ گیا ہے۔ ''خالہ پھپھو'' کا قصہ یہ ہے کہ بہت عرصے پہلے اخبار میں پڑھی تھی کہ ایک لڑکے نے بیک وقت دو شادیاں کی تھیں، ایک خالہ کی بیٹی سے اور ایک پھپھو کی بیٹی سے، یوں اس نے جھگڑے کو نمٹا دیا جو دو خاندانوں کی تباہی کا باعث بن سکتا تھا۔ فائدے میں کون رہا؟ ''دولہا''... یہ ہیں آصف زرداری اور ان کی سیاست۔ جو کہ اب ملک میں وارد بھی ہوچکے ہیں۔
ہم نے تو بہرحال تمام تر قومی نقصانات کے باوجود یہ دیکھا سیاست میں آصف علی زرداری کامیاب رہے۔ وزیراعظم دونوں پنجاب سے لیے، خود پارٹی کے شریک چیئرمین اور صدر پاکستان پارٹی پر بھی گرفت، ملک پر بھی حکومت اور صدر عالی شان کے تحت ملک بھر میں اور باہر بھی دورے اور تفریح، مگر بدنام کم رہے، بدقسمتی سے دوسروں کے حصے میں صرف بدنامی آئی اور ٹھیک آئی۔ دولت مشترکہ ہے دونوں کی، کوئی کسی کی دولت نہیں برآمد کرے گا۔ اس مسئلے پر کپڑے کے نیچے دونوں کے ہاتھ ملے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی سیاست ''خالہ پھپھو'' کی سیاست ہے اور جو اس کو سمجھ لیتا ہے وہ آرام سے اپنا Tenure جس کا ترجمہ سیاست کے اعتبار سے ''عرصہ محشر'' کیا جانا چاہیے، اچھی طرح گزار لیتا ہے اور جو اس فارمولے کو نہیں سمجھتا وہ پھر واقعتا ''عرصہ محشر'' میں رہتا ہے۔ایک مسئلہ یہ ہے کہ جو بھی بھائی میرے کالم کو کمپیوٹر پر لکھتے ہیں کیونکہ میں کاغذ پر لکھ کر ارسال کرتا ہوں اس دور میں بھی، وہ ظاہر ہے کہ تحریر کے سلسلے میں دشواریوں کا شکار ہونگے۔ میں کچھ زیادہ ''خوش رقم'' نہیں ہوں لہٰذا غلطیاں میری ہی شمار کی جائیں، کارکن تو صرف مار کھاتے ہیں، فائدے لیڈروں کے ہوتے ہیں۔ کالم میرے نام سے چھپتا ہے تو غلطیاں بھی میرے ہی کھاتے میں رہیں، وہ بھائی پریشان نہ ہوں۔ میں ہوں نا۔اچھا یہ تو ایک ہلکا پھلکا وقفہ تھا ''غیر تجارتی'' اس کے بعد ہم پھر موضوع پر آجاتے ہیں۔ ہمارے عوام بہت دلچسپ لوگ ہیں، بشمول میرے۔ مسائل وغیرہ کو تو ہم پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
کچرے کے ڈھیر پر بیٹھ کر ہم صحت و صفائی پر تقریر کرتے ہیں۔ یہ غلط ہے کیا؟ آپ دیکھ لیں جس ہوٹل میں بلکہ ''شاندار ہوٹل'' میں، اس موضوع پر گفتگو ہو رہی ہوتی ہے اس کے بیک یارڈ یعنی عقب کی گلیوں میں کچرے کے ڈھیر ہوتے ہیں۔پر اس سے کیا ہوتا ہے تقریر تو شاندار ہوئی نا بلکہ تقریب بھی، کھانا شاندار اور اگر ممکن ہوا تو ناچ گانا بھی شاندار ترین۔ میری ان قلمی حرکتوں پر میرے کسی دن کسی کے ہاتھوں پٹ جانے کے بھی روشن امکانات ہیں مگر خیر کوئی بات نہیں، دنیا میں ہر بڑے آدمی کو ان مسائل کا سامنا رہا ہے اور میں نے کب اپنے آپ کو دوسرے پاکستانیوں کی طرح چھوٹا سمجھا ہے۔لالہ سے لے کر خالہ تک جس کو دیکھو ڈھائی گھرکا ہی سمجھتا ہے اپنے آپ کو اور اپنی رائے کو وہ مقدم ترین اور درست ترین۔ لالہ لکھا تو عمران خان یاد آگئے۔ وہ کہتے ہیں یکم نومبر کو کہ فیصلے کپتان ہی کرتا ہے، بات تو ٹھیک ہے مگر گھوڑا تو کاٹھ کا ہے تو کپتان فیصلے کس کے بارے میں کر رہے ہیں۔
وہ تو اب اس جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں وہ قریب ترین لوگوں کو بھی کہنے والے کہتے ہیں کہ خاطر میں نہیں لاتے، جیسا کہ انھوں نے کہا تھا اور اپنے ہر عمل سے ثابت کیا کہ ''میں'' ہی ان کی اصل لیڈر ہے۔ کرکٹ میں تو وہ کھلاڑیوں کو آڑے ہاتھوں لیا کرتے تھے، لفظ آڑے ہاتھوں کا آپ آزادانہ ترجمہ کرسکتے ہیں، آپ کو اجازت ہے۔ ہم نے قانون کے دائرے میں لفظ استعمال کیا ہے۔ آپ پر کوئی قانون لاگو نہیں، آپ آزاد پاکستانی ہیں۔ آپ پر کسی قانون کی پابندی لازم نہیں ہے کیونکہ قانون بنانیوالے بھی اس پر عملدرآمد نہیں چاہتے صرف بناتے ہیں کہ انھیں اس وقت اور کوئی مناسب کام نہیں ملتا۔تو یہ کالم جب چھپ رہا ہوگا بات دو ماہ پرانی ہوچکی ہوگی کہ دھرنے کا کس طرح دھڑن تختہ ہوا، خورشید شاہ نے کچھ عرصہ پہلے ایک دلچسپ بات کی تھی کہ عمران خان نواز شریف کے سب سے بڑے حمایتی ہیں اور ان کی کاوشوں سے نواز شریف کا دورانیہ ٹھیک گزر رہا ہے کیونکہ جب کوئی مسئلہ ہوتا ہے، عمران خان کوئی اسکیم لے کر میدان میں آجاتے ہیں اور ساری توجہ اس طرف ہوجاتی ہے اور جو بڑا مسئلہ حکومت کو درپیش ہوتا ہے وہ اس سے نمٹ لیتی ہے۔
بات ٹھیک لگتی ہے نہ جانے کیوں۔ کشمیر کا سخت مرحلہ درپیش تھا، بھارت کے ظلم و ستم کے بارے میں دنیا بھر میں کچھ نہ کچھ شور و غوغا ہو رہا تھا، کچھ امید بندھ چلی تھی کہ اس پر کچھ ہوگا، خاں صاحب کے دھرنے نے ساری گھڑیوں کے کانٹے یعنی میڈیا اور عوام کو اپنی طرف متوجہ کرلیا اور پھر سپریم کورٹ میں معاملہ پہنچتے ہی Relax ہوگئے اور کشمیری وہاں ہی رہ گئے، ظلم و ستم برداشت کرنے کے لیے۔ غلط خبر فیڈ کرنے کا معاملہ سرد پڑگیا، اس وقت اب تو جب یہ کالم چھپ رہا ہوگا بہت کچھ تبدیلیاں ہوچکی ہوں گی مگر تاریخ تبدیل کرنا ایک الگ کام ہے، سب کچھ لکھا جا رہا ہے، محفوظ کیا جارہا ہے۔یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے۔
پاکستان کی سیاسی پارٹیوں نے درپردہ سپورٹ کرکے خاں صاحب کو کئی بار گھوڑی چڑھایا ہے مگر دولہا سسرال سے پہلے ہی گھوڑی سے اتر گیا، اور وہ فائدے جو خاں صاحب کے آخر تک عمل کے ہوتے، وہ نہ ان کو ملے اور نہ گھوڑی چڑھانے والوں کو۔ اس پہلوان کا پروموٹر اس سے خوش نہیں ہوتا جو پہلوان رنگ میں جاکر من مانی کرے اور خان صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ پروموٹرز کی مدد سے رنگ میں جاکر ''من مانی'' کرتے ہیں، یہ کوئی اچھا بزنس نہیں ہے۔
شروع میں ہم نے پاکستانی سیاست کا ذکر کیا تھا مگر قلم خان صاحب کی طرف مڑا تو دلچسپ موضوع ہے، وہیں رہ گیا تو پاکستانی صحافت، معاف کیجیے گا سیاست کے سب سے اچھے کھلاڑی کا نام اگر کہیں درج کیا جاسکتا ہے تو وہ عجیب شخصیت ہے کہ جس کو ان کی بیگم صاحبہ سیاست سے دور رکھتی تھیں اور شاید بہتر سمجھتی تھیں کہ ان کو اپنا چراغ جلانا مشکل ہوجاتا اور یہ ایک بار وہ ان کو ایک شجر کاری کی مہم کا انچارج لگا کر دیکھ چکی تھیں جس کے تحت ملک میں کروڑوں اربوں درخت لگانے تھے، غالباً 1995 یا آس پاس کا زمانہ تھا اور حکومت نے ایک بجٹ مختص کیا تھا، چاروں صوبوں کے لیے اربوں روپے کا، وہ بجٹ خرچ ہوا۔ درخت آج تک ایک بھی کہیں نہیں ہے۔
یہ تو ایسے ہی کچھ یاد آگیا تو ذکر کردیا۔ ذکر ہم کر رہے تھے خالہ پھپھو کی سیاست کا تو اس کے ماہر کے طور پر اگر کہیں کوئی نام لکھا جاسکتا ہے وہ ہے سابق صدر پاکستان آصف زرداری، شوہر بے نظیر بھٹو صاحبہ کا۔ بیوی کی طرف سے اگر بھٹو ہونے کا رواج ہوتا تو وہ پہلے آصف زرداری بھٹو ہوتے۔ انھوں نے اس سیاست کو رواج دیا اور پھر ان سے یہ سیاست شریفوں کو منتقل ہوئی۔ فرق صرف یہ تھا اور ہے کہ زرداری ادائیگی میں یقین رکھتے ہیں، ڈاکٹر عاصم اس کا ثبوت ہیں اور شریف لوگ وعدوں پر ٹرخاتے ہیں۔ ان لوگوں کے تین تین دور حکومت، جنھیں میں عوام کے لیے ''عرصہ محشر'' کہتا ہوں، بھی اگر آجائیں تو وہ ویسے ہی رہیں گے اور یہ ایسے ہی رہیں گے۔ No Change کیونکہ یہ لوگ Made In ہی ایسے ہیں، عوام کے لیے دونوں خطرناک، وہ بے تحاشا نوکریاں دے کر، مفت خوری کو عام کرتے ہیں، یہ ایک خاص طبقے کو مراعات فراہم کرتے ہیں، جن کا تعلق ان سے یا زیادہ سے زیادہ ان کے صوبے سے ہوتا ہے۔
آپ دیکھ لیں تمام وفاقی وزرا کہاں سے ہیں؟ سب ان کے آس پاس سے۔ صدر کا کیا ذکر کرنا وہ تو 58/2B کے ختم کرنے کے بعد بے دانت کا شیر ہے، کہیں سے بھی لے سکتے ہیں جب صرف علامتی عہدہ رہ گیا ہے۔ ''خالہ پھپھو'' کا قصہ یہ ہے کہ بہت عرصے پہلے اخبار میں پڑھی تھی کہ ایک لڑکے نے بیک وقت دو شادیاں کی تھیں، ایک خالہ کی بیٹی سے اور ایک پھپھو کی بیٹی سے، یوں اس نے جھگڑے کو نمٹا دیا جو دو خاندانوں کی تباہی کا باعث بن سکتا تھا۔ فائدے میں کون رہا؟ ''دولہا''... یہ ہیں آصف زرداری اور ان کی سیاست۔ جو کہ اب ملک میں وارد بھی ہوچکے ہیں۔
ہم نے تو بہرحال تمام تر قومی نقصانات کے باوجود یہ دیکھا سیاست میں آصف علی زرداری کامیاب رہے۔ وزیراعظم دونوں پنجاب سے لیے، خود پارٹی کے شریک چیئرمین اور صدر پاکستان پارٹی پر بھی گرفت، ملک پر بھی حکومت اور صدر عالی شان کے تحت ملک بھر میں اور باہر بھی دورے اور تفریح، مگر بدنام کم رہے، بدقسمتی سے دوسروں کے حصے میں صرف بدنامی آئی اور ٹھیک آئی۔ دولت مشترکہ ہے دونوں کی، کوئی کسی کی دولت نہیں برآمد کرے گا۔ اس مسئلے پر کپڑے کے نیچے دونوں کے ہاتھ ملے ہوئے ہیں۔