تھیٹر اور سینما کا عظیم نام آنجہانی ’اوم پوری‘
اُن کی حق گوئی اور بے باکی نے اُن کیلئے بڑے خطرات پیدا کردیئے تھے
کہتے ہیں فنکاربنایا نہیں جاتا بلکہ وہ توپیدائشی ہوتا ہے۔ کیونکہ اپنی شخصیت کی نفی کرکے کسی دوسرے کی زندگی جینے کا فن انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ایسے کارنامے انجام دینے والے فنکاروںکو ورسٹائل کہا جاتا ہے۔ ایک ورسٹائل فنکارکسی گداگرکا کردار نبھائے یا کسی ملک کے سربراہ کا، وہ اس سے انصاف کرنے کیلئے شب وروزمحنت کرتا ہے اورپھراس میں حقیقت کے رنگ بھرکے اس کردارکوہمیشہ کیلئے امربنا دیتا ہے۔ ایسے ہی ایک فنکاراوم پوری تھے جو6جنوری کوجمعہ کی صبح 66برس کی عمرمیں انتقال کر گئے۔
ابتدائی اطلاعات اور میڈیا پرآنے والی خبروں کے مطابق اوم پوری کودل کا دورہ پڑا ، جوجان لیوا ثابت ہوا، لیکن سرپرچوٹ کے زخموں اورگردن پرنشانات کی وجہ سے پوسٹ مارٹم رپورٹ نے دنیا بھر کوحیران کردیا۔ پوسٹ مارٹم کے بعد تاحال رپورٹ توسامنے نہیں آئی لیکن دنیا بھرمیں بھارتی فلمیں دیکھنے اورپسندکرنے والوں کے علاوہ اوم پوری کے پرستاروں کی بڑی تعداد اس بات پرحیران ہے کہ ایک فنکارکواگرصرف پاکستان کی حمایت میں رائے دینے پرقتل کیا گیا تواس کے بعد بھارتی فلموں، ڈراموں اوردیگرپروگراموں میں بھائی، چارے، محبت، امن اورانسانیت کا جو پیغام دیا جاتا ہے، وہ اس کے برعکس ہے۔
بھارت کا اصل کردارتواوم پوری کی موت سے سب کے سامنے آچکا ہے کہ وہاں پرکس طرح سے لوگوںکو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خاص طورپرمسلمانوں پرہونے والے مظالم، مقبوضہ کشمیر کے باسیوں اورفنکاروں کے ساتھ جوناروا سلوک ہوتا ہے ، اس پردنیا بھرمیں آواز اٹھائی جارہی ہے۔ یہی نہیں بالی وڈ میں کام کرنے والے پاکستانی فنکاروں کے حوالے سے بھی جوانداز بھارتی حکومت، شیوسینا اورسیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے اپنایا ، اس پر بھی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔
اوم پوری کے ڈرائیور کے مطابق ان کے کمرے کا متعدد باردروازہ کھٹکھٹایا اورکوئی جواب نہ آیا ، جس پرگھروالے دروازہ توڑکراندر داخل ہوئے تووہ مردہ حالت میں اپنے بیڈ پرپڑے تھے۔ جبکہ ان کے پڑوسیوں کے مطابق اوم پوری کی نعش کچن میں پڑی تھی ۔ ان بیانات کی روشنی میں پولیس نے پوسٹ مارٹم کرنے کا فیصلہ کیا ، لیکن اس دوران سوشل میڈیا پربہت سے شواہد اوربیانات سامنے آنے سے اس کیس کا رخ کسی اورجانب موڑ دیا ہے۔
اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اوم پوری کی موت کی خبر جس طرح جنگل کی آگ سے بھی تیزالیکٹرانک اورسوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھرمیں پہنچ گئی تھی۔ ویسے ہی ان کے چاہنے والے اپنے پسندیدہ فنکارکی موت پرافسوس کرنے کے ساتھ ساتھ حیران ہیں کہ اگر اُن کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہی مان لی جائے پھربھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ اُن کی موت اُن دھمکیوں کی وجہ سے ہوئی ہے جو اُنہیں ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے مل رہی تھیں اور وہ سخت ذہنی دبائو کا شکارتھے۔
اپنے منفردانداز اداکاری کے باعث لوگوں کے دلوں پرراج کرنے والے اوم پوری ان دنوں ایک بالی وڈ فلم '' رام بھجن زندہ باد '' میں اہم کردار نبھا رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جمعرات کی شام وہ اپنی شوٹنگ ختم ہونے پراپنے قریبی دوستوں سے ملاقات کے بعد گھرواپس آئے تو تھکاوٹ کی وجہ سے کمرے میں جا کرسوگئے لیکن کسی کوبھی یہ نہیں پتہ تھا کہ یہ رات ان کی زندگی کی آخری رات ہوگی۔ان کی موت سے جہاں بالی وڈ کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے ، وہیں دنیا بھرمیں ان کے چاہنے والے بھی اپنے پسندیدہ اداکار سے محروم ہونے پرافسردہ ہیں۔ 18اکتوبر 1950ء کوامبالہ میں پیدا ہونے والے اوم پوری کا تعلق ایک انتہائی غریب گھرانے سے تھا۔ ان کے والد فوج میں ملازم تھے۔
اوم پوری نے ابتدائی تعلیم امبالہ سے حاصل کی لیکن ایکٹنگ کے شوق کوپورا کرنے کیلئے وہ نیشنل سکول آف ڈرامہ اورفلم اینڈ ٹی وی انسٹی ٹیوٹ آف پونا میں ایکٹنگ کی تربیت حاصل کرتے رہے۔ جہاں ان کی ملاقات نصیر الدین شاہ سے ہوئی اور ان کی دوستی بڑھنے لگی ۔ اسی دوران انہیں سٹیج ڈراموں میں کام کرنے کا موقع ملنے لگا اورپھردیکھتے ہی دیکھتے وہ بڑی سکرین کی جانب بڑھنے لگے۔ انہوں نے اپنا فلمی سفرمراٹھی فلم'' کاشی رام کوتوال'' سے کیا اورپھرہندی سینما سے وابستہ ہوگئے۔ اپنے طویل فنی سفر کے دوران انہوں نے نصیرالدین شاہ، شبانہ اعظمی ، سمیتا پاٹیل اورریکھا جیسے باصلاحیت فنکاروں کے ساتھ یادگار کردار نبھائے۔
انہوں نے جہاں بالی وڈ کی متعدد آرٹ فلموں میں منفردکام کیا، وہیں ہالی وڈ جیسی دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری کی متعدد فلموں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ یہی نہیں اپنے کیرئیرکے آخرمیں اوم پوری پاکستانی فلم ''ایکٹران لاء'' میں بھی دکھائی دیئے اور ٹی وی کمرشل میں بھی کام کیا۔ پہلی مرتبہ جب وہ لاہور میں سٹیج ڈرامہ پیش کرنے آئے توان کوبھرپور انداز سے لاہوریوں نے خوش آمدید کہا۔ اس دوران انہوں نے لاہور میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کی درگاہ پرحاضری دی، وہیں تاریخی مقامات کی سیرکے ساتھ ساتھ چٹ پٹے کھانوں سے پیٹ پوجا بھی کی۔ لاہورمیں اپنی اہلیہ سیما کپورکے ساتھ شاپنگ کیلئے جب مارکیٹ کا رخ کیا تو لاہوریوں نے ان پرتحائف کی بارش کردی۔
یہی وہ لمحات تھے جنہوں نے پاکستان سے ان کی محبت کومزید بڑھاوا دیا۔ وہ تواکثریہ کہتے تھے کہ لاہورمیرا دوسرا گھر ہے۔ یہاں آکر جواپنائیت اورچاہت ملتی ہے، وہ کہیں اورنہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اوم پوری لاہور آنے اوریہاں ملنے والی محبت، اپنائیت دیکھ کرآبدیدہ بھی ہوجاتے اورواپس جاتے ہوئے ان کے ساتھ ان گنت یادیں ہوتیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرنے کے ساتھ پاکستانی فنکاروں کے کام کرنے پرپابندی عائد کی گئی توانہوں نے ایک بھارتی چینل پرحکومت اوربھارتی فوج کی سرگرمیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جس کے بعد ان کی تمام فنی خدمات کو بھلا کر بھارتی میڈیا، سیاستدان ، شیوسینا اورحکومتی نمائندگان نے انہیں سچائی پرمبنی بیان پرشدید نتائج کی دھمکیاں دینا شروع کیں، جس کی وجہ سے وہ خاصے دلبرداشتہ بھی ہوئے۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ بھارتی حکومت، سیاسی جماعتوں اور انتہا پسند ہندوئوں کی جانب سے مسلسل دھمکیاں ملنے کی وجہ سے شدید دبائوکا شکارتھے۔ اسی لئے توسوشل میڈیا پراوم پوری کی موت پربھارتی حکومت، شیوسینا اورفوج کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے لیڈران کوشدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک طرف توبھارت اوراس کے باسی اوم پوری کوان کی طویل فنی خدمات پربھارت سمیت دنیا کے بیشترممالک سے ملنے والے ایوارڈز اوراعزازات پر'' فخر'' کرتے تھے ، وہیں ملکہ برطانیہ کے ہاتھوں ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں ملنے والا خصوصی ایوارڈ پرہرایک بالی وڈسٹار اور فنکارتعریفوں کے پل باندھتا تھا ، کیونکہ اس سے پہلے کسی بھارتی فنکا کواس طرح کے اعزاز نہیں مل سکاتھا۔
اس کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اوم پوری نے صرف بھارت کی مختلف زبانوں میں بننے والی آرٹ اورکمرشل فلموں میں ہی اداکاری کے جوہرنہیں دکھائے، بلکہ وہ ایک ایسے فنکارتھے جن کی صلاحیتوں سے ہالی وڈ والوں نے بھی خوب استفادہ کیا۔ اگرہم اوم پوری کے ابتدائی کیرئیر کی بات کریں تویہ وہ دورتھاجب وہ انگریزی زبان بولنے اورسیکھنے سے دوربھاگتے تھے لیکن اس وقت یہ بات کوئی نہیں جانتا تھا کہ مستقبل میں یہی فنکارانگزیزی فلموں میں جاندارکردارنبھاتا دکھائی دے گا۔ اوم پوری کی وجہ شہرت توان کی آرٹ فلمیں تھیں لیکن کمرشل فلموں میں ان کے مضبوط کرداروںکو شائقین نے بہت سراہا۔ یہی وجہ تھی کہ اوم پوری کسی خاص عمر کے لوگوں کے نہیں بلکہ تمام عمر کے لوگوں میں یکساں مقبول تھے۔
ان کی اداکاری کا انداز اور شاندار آواز نے لاکھوں، کروڑوں لوگوںکو اپنا گرویدہ بنایا۔ بلکہ ان کی دلچسپ شخصیت اورزندگی سے جڑے واقعات اکثرمحفلوںکو چارچاند لگا دیتے تھے۔ چند برس قبل لاہورمیں واقع ' فیض گھر' میں جب اوم پوری آئے تولوگوں کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔ اس نشست کے دوران میزبانی کے فرائض سرمد کھوسٹ نے انجام دیئے۔ اس دوران اوم پوری نے جس طرح سے اپنی نجی اورفنی زندگی پربات کی ، اس پرسب لوگ حیران تھے۔ کیونکہ انہوں نے ایک بھی لمحہ سچ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ انہوں نے اپنے ابتدائی دورکی مالی مشکلات، رہائش کی تنگی سے لے کرہالی وڈ تک کے سفرکواس خوبصورت اندازسے بیان کیا کہ سب لوگ ان کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ وہ ایک ایسی طلسماتی شخصیت کے مالک تھے کہ جہاں بھی جاتے، لوگ ان سے محبت کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ ان کی وفات سے پیداہونے والا خلاء کبھی پرنہیں ہوگا لیکن ان کے چاہنے والے ان کی وفات کی اصل وجوہات جاننے کیلئے منتظررہیں گے۔
اداکاراوم پوری کے انتقال کے بعد ان کی اہلیہ اورمعروف میزبان، اداکاروگلوکار انوکپورکی چھوٹی بہن سیماکپورنے ''ایکسپریس''سے گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ اوم پوری کا جیون ساتھی بننا میرے لئے اعزاز سے کم نہیں۔ وہ ایک بہت بڑے فنکار اور بہترین انسان تھے۔ وہ لوگوں کے درد کومحسوس کرتے اوران کی مدد کیلئے ہر دم تیاررہتے۔ وہ ہمیشہ حق کی بات کرتے اوراس کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے بلکہ سچ کیلئے ڈٹ کھڑا ہونا ان کی خاصیت تھی۔ میں ان کے ساتھ جب پاکستان گئی تووہ میری زندگی کا یادگارسفرتھا۔ جس طرح سے میں نے وہاں لوگوں کوان کی قدر کرتے دیکھا، وہ میرے لئے حیران کن تھا۔ میں اس وقت یہ سوچنے پرمجبورہوگئی تھی کہ پاکستان کے بارے میں جو کچھ ہم سنتے تھے ، یہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔
لاہورمیں لوگوں نے جس طرح سے اوم پوری سے چاہت دکھائی، اس سے کہیں بڑھ کرمیرااحترام کیا۔ دوسری جانب ایک پریس کانفرنس کے دوران جس طرح سے اوم پوری نے میرا تعارف کروایا اور میری شخصیت کو نمایاں کیا، ایسا شاید ہی کوئی کرتا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے بیشتر ممالک سے افسوس کے لیے فون موصول ہوئے ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ تعداد پاکستان میں ان کے چاہنے والوں کی تھی۔ اب توان کی یادیں میرے ساتھ ہیں۔ جہاں تک بات ان کوقتل کرنے کی ہے تواس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سامنے آنے پرہی اصل حقائق سامنے آئیں گے۔
ابتدائی اطلاعات اور میڈیا پرآنے والی خبروں کے مطابق اوم پوری کودل کا دورہ پڑا ، جوجان لیوا ثابت ہوا، لیکن سرپرچوٹ کے زخموں اورگردن پرنشانات کی وجہ سے پوسٹ مارٹم رپورٹ نے دنیا بھر کوحیران کردیا۔ پوسٹ مارٹم کے بعد تاحال رپورٹ توسامنے نہیں آئی لیکن دنیا بھرمیں بھارتی فلمیں دیکھنے اورپسندکرنے والوں کے علاوہ اوم پوری کے پرستاروں کی بڑی تعداد اس بات پرحیران ہے کہ ایک فنکارکواگرصرف پاکستان کی حمایت میں رائے دینے پرقتل کیا گیا تواس کے بعد بھارتی فلموں، ڈراموں اوردیگرپروگراموں میں بھائی، چارے، محبت، امن اورانسانیت کا جو پیغام دیا جاتا ہے، وہ اس کے برعکس ہے۔
بھارت کا اصل کردارتواوم پوری کی موت سے سب کے سامنے آچکا ہے کہ وہاں پرکس طرح سے لوگوںکو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خاص طورپرمسلمانوں پرہونے والے مظالم، مقبوضہ کشمیر کے باسیوں اورفنکاروں کے ساتھ جوناروا سلوک ہوتا ہے ، اس پردنیا بھرمیں آواز اٹھائی جارہی ہے۔ یہی نہیں بالی وڈ میں کام کرنے والے پاکستانی فنکاروں کے حوالے سے بھی جوانداز بھارتی حکومت، شیوسینا اورسیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے اپنایا ، اس پر بھی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔
اوم پوری کے ڈرائیور کے مطابق ان کے کمرے کا متعدد باردروازہ کھٹکھٹایا اورکوئی جواب نہ آیا ، جس پرگھروالے دروازہ توڑکراندر داخل ہوئے تووہ مردہ حالت میں اپنے بیڈ پرپڑے تھے۔ جبکہ ان کے پڑوسیوں کے مطابق اوم پوری کی نعش کچن میں پڑی تھی ۔ ان بیانات کی روشنی میں پولیس نے پوسٹ مارٹم کرنے کا فیصلہ کیا ، لیکن اس دوران سوشل میڈیا پربہت سے شواہد اوربیانات سامنے آنے سے اس کیس کا رخ کسی اورجانب موڑ دیا ہے۔
اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اوم پوری کی موت کی خبر جس طرح جنگل کی آگ سے بھی تیزالیکٹرانک اورسوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھرمیں پہنچ گئی تھی۔ ویسے ہی ان کے چاہنے والے اپنے پسندیدہ فنکارکی موت پرافسوس کرنے کے ساتھ ساتھ حیران ہیں کہ اگر اُن کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہی مان لی جائے پھربھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ اُن کی موت اُن دھمکیوں کی وجہ سے ہوئی ہے جو اُنہیں ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے مل رہی تھیں اور وہ سخت ذہنی دبائو کا شکارتھے۔
اپنے منفردانداز اداکاری کے باعث لوگوں کے دلوں پرراج کرنے والے اوم پوری ان دنوں ایک بالی وڈ فلم '' رام بھجن زندہ باد '' میں اہم کردار نبھا رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جمعرات کی شام وہ اپنی شوٹنگ ختم ہونے پراپنے قریبی دوستوں سے ملاقات کے بعد گھرواپس آئے تو تھکاوٹ کی وجہ سے کمرے میں جا کرسوگئے لیکن کسی کوبھی یہ نہیں پتہ تھا کہ یہ رات ان کی زندگی کی آخری رات ہوگی۔ان کی موت سے جہاں بالی وڈ کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے ، وہیں دنیا بھرمیں ان کے چاہنے والے بھی اپنے پسندیدہ اداکار سے محروم ہونے پرافسردہ ہیں۔ 18اکتوبر 1950ء کوامبالہ میں پیدا ہونے والے اوم پوری کا تعلق ایک انتہائی غریب گھرانے سے تھا۔ ان کے والد فوج میں ملازم تھے۔
اوم پوری نے ابتدائی تعلیم امبالہ سے حاصل کی لیکن ایکٹنگ کے شوق کوپورا کرنے کیلئے وہ نیشنل سکول آف ڈرامہ اورفلم اینڈ ٹی وی انسٹی ٹیوٹ آف پونا میں ایکٹنگ کی تربیت حاصل کرتے رہے۔ جہاں ان کی ملاقات نصیر الدین شاہ سے ہوئی اور ان کی دوستی بڑھنے لگی ۔ اسی دوران انہیں سٹیج ڈراموں میں کام کرنے کا موقع ملنے لگا اورپھردیکھتے ہی دیکھتے وہ بڑی سکرین کی جانب بڑھنے لگے۔ انہوں نے اپنا فلمی سفرمراٹھی فلم'' کاشی رام کوتوال'' سے کیا اورپھرہندی سینما سے وابستہ ہوگئے۔ اپنے طویل فنی سفر کے دوران انہوں نے نصیرالدین شاہ، شبانہ اعظمی ، سمیتا پاٹیل اورریکھا جیسے باصلاحیت فنکاروں کے ساتھ یادگار کردار نبھائے۔
انہوں نے جہاں بالی وڈ کی متعدد آرٹ فلموں میں منفردکام کیا، وہیں ہالی وڈ جیسی دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری کی متعدد فلموں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ یہی نہیں اپنے کیرئیرکے آخرمیں اوم پوری پاکستانی فلم ''ایکٹران لاء'' میں بھی دکھائی دیئے اور ٹی وی کمرشل میں بھی کام کیا۔ پہلی مرتبہ جب وہ لاہور میں سٹیج ڈرامہ پیش کرنے آئے توان کوبھرپور انداز سے لاہوریوں نے خوش آمدید کہا۔ اس دوران انہوں نے لاہور میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کی درگاہ پرحاضری دی، وہیں تاریخی مقامات کی سیرکے ساتھ ساتھ چٹ پٹے کھانوں سے پیٹ پوجا بھی کی۔ لاہورمیں اپنی اہلیہ سیما کپورکے ساتھ شاپنگ کیلئے جب مارکیٹ کا رخ کیا تو لاہوریوں نے ان پرتحائف کی بارش کردی۔
یہی وہ لمحات تھے جنہوں نے پاکستان سے ان کی محبت کومزید بڑھاوا دیا۔ وہ تواکثریہ کہتے تھے کہ لاہورمیرا دوسرا گھر ہے۔ یہاں آکر جواپنائیت اورچاہت ملتی ہے، وہ کہیں اورنہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اوم پوری لاہور آنے اوریہاں ملنے والی محبت، اپنائیت دیکھ کرآبدیدہ بھی ہوجاتے اورواپس جاتے ہوئے ان کے ساتھ ان گنت یادیں ہوتیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرنے کے ساتھ پاکستانی فنکاروں کے کام کرنے پرپابندی عائد کی گئی توانہوں نے ایک بھارتی چینل پرحکومت اوربھارتی فوج کی سرگرمیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جس کے بعد ان کی تمام فنی خدمات کو بھلا کر بھارتی میڈیا، سیاستدان ، شیوسینا اورحکومتی نمائندگان نے انہیں سچائی پرمبنی بیان پرشدید نتائج کی دھمکیاں دینا شروع کیں، جس کی وجہ سے وہ خاصے دلبرداشتہ بھی ہوئے۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ بھارتی حکومت، سیاسی جماعتوں اور انتہا پسند ہندوئوں کی جانب سے مسلسل دھمکیاں ملنے کی وجہ سے شدید دبائوکا شکارتھے۔ اسی لئے توسوشل میڈیا پراوم پوری کی موت پربھارتی حکومت، شیوسینا اورفوج کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے لیڈران کوشدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک طرف توبھارت اوراس کے باسی اوم پوری کوان کی طویل فنی خدمات پربھارت سمیت دنیا کے بیشترممالک سے ملنے والے ایوارڈز اوراعزازات پر'' فخر'' کرتے تھے ، وہیں ملکہ برطانیہ کے ہاتھوں ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں ملنے والا خصوصی ایوارڈ پرہرایک بالی وڈسٹار اور فنکارتعریفوں کے پل باندھتا تھا ، کیونکہ اس سے پہلے کسی بھارتی فنکا کواس طرح کے اعزاز نہیں مل سکاتھا۔
اس کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اوم پوری نے صرف بھارت کی مختلف زبانوں میں بننے والی آرٹ اورکمرشل فلموں میں ہی اداکاری کے جوہرنہیں دکھائے، بلکہ وہ ایک ایسے فنکارتھے جن کی صلاحیتوں سے ہالی وڈ والوں نے بھی خوب استفادہ کیا۔ اگرہم اوم پوری کے ابتدائی کیرئیر کی بات کریں تویہ وہ دورتھاجب وہ انگریزی زبان بولنے اورسیکھنے سے دوربھاگتے تھے لیکن اس وقت یہ بات کوئی نہیں جانتا تھا کہ مستقبل میں یہی فنکارانگزیزی فلموں میں جاندارکردارنبھاتا دکھائی دے گا۔ اوم پوری کی وجہ شہرت توان کی آرٹ فلمیں تھیں لیکن کمرشل فلموں میں ان کے مضبوط کرداروںکو شائقین نے بہت سراہا۔ یہی وجہ تھی کہ اوم پوری کسی خاص عمر کے لوگوں کے نہیں بلکہ تمام عمر کے لوگوں میں یکساں مقبول تھے۔
ان کی اداکاری کا انداز اور شاندار آواز نے لاکھوں، کروڑوں لوگوںکو اپنا گرویدہ بنایا۔ بلکہ ان کی دلچسپ شخصیت اورزندگی سے جڑے واقعات اکثرمحفلوںکو چارچاند لگا دیتے تھے۔ چند برس قبل لاہورمیں واقع ' فیض گھر' میں جب اوم پوری آئے تولوگوں کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔ اس نشست کے دوران میزبانی کے فرائض سرمد کھوسٹ نے انجام دیئے۔ اس دوران اوم پوری نے جس طرح سے اپنی نجی اورفنی زندگی پربات کی ، اس پرسب لوگ حیران تھے۔ کیونکہ انہوں نے ایک بھی لمحہ سچ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ انہوں نے اپنے ابتدائی دورکی مالی مشکلات، رہائش کی تنگی سے لے کرہالی وڈ تک کے سفرکواس خوبصورت اندازسے بیان کیا کہ سب لوگ ان کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ وہ ایک ایسی طلسماتی شخصیت کے مالک تھے کہ جہاں بھی جاتے، لوگ ان سے محبت کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ ان کی وفات سے پیداہونے والا خلاء کبھی پرنہیں ہوگا لیکن ان کے چاہنے والے ان کی وفات کی اصل وجوہات جاننے کیلئے منتظررہیں گے۔
اداکاراوم پوری کے انتقال کے بعد ان کی اہلیہ اورمعروف میزبان، اداکاروگلوکار انوکپورکی چھوٹی بہن سیماکپورنے ''ایکسپریس''سے گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ اوم پوری کا جیون ساتھی بننا میرے لئے اعزاز سے کم نہیں۔ وہ ایک بہت بڑے فنکار اور بہترین انسان تھے۔ وہ لوگوں کے درد کومحسوس کرتے اوران کی مدد کیلئے ہر دم تیاررہتے۔ وہ ہمیشہ حق کی بات کرتے اوراس کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے بلکہ سچ کیلئے ڈٹ کھڑا ہونا ان کی خاصیت تھی۔ میں ان کے ساتھ جب پاکستان گئی تووہ میری زندگی کا یادگارسفرتھا۔ جس طرح سے میں نے وہاں لوگوں کوان کی قدر کرتے دیکھا، وہ میرے لئے حیران کن تھا۔ میں اس وقت یہ سوچنے پرمجبورہوگئی تھی کہ پاکستان کے بارے میں جو کچھ ہم سنتے تھے ، یہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔
لاہورمیں لوگوں نے جس طرح سے اوم پوری سے چاہت دکھائی، اس سے کہیں بڑھ کرمیرااحترام کیا۔ دوسری جانب ایک پریس کانفرنس کے دوران جس طرح سے اوم پوری نے میرا تعارف کروایا اور میری شخصیت کو نمایاں کیا، ایسا شاید ہی کوئی کرتا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے بیشتر ممالک سے افسوس کے لیے فون موصول ہوئے ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ تعداد پاکستان میں ان کے چاہنے والوں کی تھی۔ اب توان کی یادیں میرے ساتھ ہیں۔ جہاں تک بات ان کوقتل کرنے کی ہے تواس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سامنے آنے پرہی اصل حقائق سامنے آئیں گے۔