فوجی عدالتوں میں توسیع کا معاملہ جے یوآئی ف اور پیپلز پارٹی نے مخالفت کردی
فوجی عدالتوں پرپہلے بھی تحفظات تھے اوراب بھی اس کی توسیع کی مخالفت کریں گے، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کا موقف
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی سربراہی میں پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں کے اجلاس کے دوران جے یوآئی (ف) اور پیپلز پارٹی نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی مخالفت کردی ہے۔
اسپیکرقومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیرصدارت پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس ہوا، اجلاس میں پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی، جے یو آئی (ف) ایم کیوایم پاکستان اورجماعت اسلامی کے پارلیمانی رہنما بھی موجود تھے۔ اجلاس میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کےحوالے سے آئینی ترمیم، نیب آرڈیننس میں ترمیم یا نئے نیب قانون پرتبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر قانون زاہد حامد نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سےمتعلق بریفنگ دی۔ اسپیکرقومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ فوجی عدالتوں کے قیام کی توسیع کے معاملے پر تمام اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لے کرمشترکہ مشاورت اوراتفاق رائے سے فیصلہ کیا جائے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: فوجی عدالتیں جائزقراردینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج
اجلاس میں پیپلزپارٹی نے ملٹری کورٹس کی توسیع کے فیصلے کی مخالفت کردی اورنیب ترمیمی آرڈیننس کے اجرا پربھی احتجاج کیا جبکہ دیگراپوزیشن جماعتوں نے بھی نیب ترمیمی آرڈیننس پراظہاربرہمی کیا۔
حکومتی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اکرم درانی کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے پرانے مؤقف پرقائم ہیں ہم فوجی عدالتوں کی حمایت نہیں کریں گے۔
پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس بغیر کسی نتیجے کے ہی ختم ہوگیا اور اجلاس کے بعد اپوزیشن نے حکومت سے عدالتی اصلاحات اور دیگراقدامات سے متعلق وضاحت مانگ لیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت بتائے کہ ججز، پراسیکیوشن اور گواہوں کے تحفظ کے لیےکیا کیا اورعدالتی اصلاحات کے لیے 2 سال میں کیا اقدامات کیے گئے،ضرب عضب کی موجودہ صورتحال کیا ہے اور اس میں کتنے لوگ شہید اور کون کون مارا گیا اور ضرب عضب سمیت نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی تفصیلات بھی دی جائیں۔
اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کا میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اجلاس میں حکومت اوراپوزیشن نے قانون سازی کے لیے تبادلہ خیال کیا اب اگلےاجلاس میں بھی قانون سازی کے لیے مشاورت ہوگی
اس خبرکوبھی پڑھیں: فوجی عدالتیں سول عدلیہ کی توہین
اس سے قبل قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کی زیرصدارت اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے نوید قمر، تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی، شریں مزاری اور جماعت اسلامی کے صاحبزاہ طارق اللہ نے شرکت کی۔ اجلاس میں فوجی عدالتوں میں توسیع کے لئے اپوزیشن کا متفقہ موقف طے کرنے کے لئے مشاورت کی گئی۔
اس موقع پرخورشید شاہ کا کہنا تھا کہ روزاول سے ہمارا مؤقف ہے کہ ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کی ضرورت نہیں لیکن حکومت کا مقصد ہے کہ ادارے بناتے جاؤ اورکرپشن بڑھاتے جاؤ، اپوزیشن نے اپنی حکمت عملی تیارکرلی ہے تاہم حکومت کا مؤقف بھی سنا جائے گا اور اگر فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کی بات ہوئی تو ہم اس کی بھرپور مخالت کریں گے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: فوجی عدالتیں قائم کرنے کی منظوری
پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی کا اجلاس کے حوالے سے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کے حوالے سے حکومت کے اپنے ارکان کے موقف میں تضاد اور ہچکچاہٹ ہے، کچھ ارکان فوجی عدالتوں کی توسیع کی مخالفت اورکچھ حمایت کررہےہیں، پنجاب کے وزیرقانون رانا ثنااللہ بھی پہلے فوجی عدالتوں کے سخت مخالف تھے لیکن اب ان کے لہجے میں بھی تبدیلی نظر آرہی ہے جبکہ وزیرداخلہ چوہدری نثارنے بھی کہا تھا کہ فوجی عدالتوں کے کیسزانسداد دہشت گردی عدالتوں میں منتقل ہوجائیں گے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حکومت پہلے اپنے ارکان کو فوجی عدالتوں کی توسیع پرمتفق کرے، پھر اپنا مؤقف دے ہم حکومت کا مؤقف سننے کے بعد اپنی رائے دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں فوجی عدالتوں سے متعلق متفقہ لائحہ عمل اپنائیں اور اسی حوالے سے پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور ق لیگ سے رابطہ کیا گیا ہے ایم کیوایم سے ابھی بات نہیں ہوئی۔ پیپلزپارٹی کے نوید قمرکا کہنا تھا کہ پہلےبھی فوجی عدالتوں کی مجبوری میں حمایت کی تھی،اس بارنہیں کریں گے۔
اسپیکرقومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیرصدارت پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس ہوا، اجلاس میں پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی، جے یو آئی (ف) ایم کیوایم پاکستان اورجماعت اسلامی کے پارلیمانی رہنما بھی موجود تھے۔ اجلاس میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کےحوالے سے آئینی ترمیم، نیب آرڈیننس میں ترمیم یا نئے نیب قانون پرتبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر قانون زاہد حامد نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سےمتعلق بریفنگ دی۔ اسپیکرقومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ فوجی عدالتوں کے قیام کی توسیع کے معاملے پر تمام اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لے کرمشترکہ مشاورت اوراتفاق رائے سے فیصلہ کیا جائے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: فوجی عدالتیں جائزقراردینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج
اجلاس میں پیپلزپارٹی نے ملٹری کورٹس کی توسیع کے فیصلے کی مخالفت کردی اورنیب ترمیمی آرڈیننس کے اجرا پربھی احتجاج کیا جبکہ دیگراپوزیشن جماعتوں نے بھی نیب ترمیمی آرڈیننس پراظہاربرہمی کیا۔
حکومتی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اکرم درانی کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے پرانے مؤقف پرقائم ہیں ہم فوجی عدالتوں کی حمایت نہیں کریں گے۔
پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس بغیر کسی نتیجے کے ہی ختم ہوگیا اور اجلاس کے بعد اپوزیشن نے حکومت سے عدالتی اصلاحات اور دیگراقدامات سے متعلق وضاحت مانگ لیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت بتائے کہ ججز، پراسیکیوشن اور گواہوں کے تحفظ کے لیےکیا کیا اورعدالتی اصلاحات کے لیے 2 سال میں کیا اقدامات کیے گئے،ضرب عضب کی موجودہ صورتحال کیا ہے اور اس میں کتنے لوگ شہید اور کون کون مارا گیا اور ضرب عضب سمیت نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی تفصیلات بھی دی جائیں۔
اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کا میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اجلاس میں حکومت اوراپوزیشن نے قانون سازی کے لیے تبادلہ خیال کیا اب اگلےاجلاس میں بھی قانون سازی کے لیے مشاورت ہوگی
اس خبرکوبھی پڑھیں: فوجی عدالتیں سول عدلیہ کی توہین
اس سے قبل قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کی زیرصدارت اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے نوید قمر، تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی، شریں مزاری اور جماعت اسلامی کے صاحبزاہ طارق اللہ نے شرکت کی۔ اجلاس میں فوجی عدالتوں میں توسیع کے لئے اپوزیشن کا متفقہ موقف طے کرنے کے لئے مشاورت کی گئی۔
اس موقع پرخورشید شاہ کا کہنا تھا کہ روزاول سے ہمارا مؤقف ہے کہ ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کی ضرورت نہیں لیکن حکومت کا مقصد ہے کہ ادارے بناتے جاؤ اورکرپشن بڑھاتے جاؤ، اپوزیشن نے اپنی حکمت عملی تیارکرلی ہے تاہم حکومت کا مؤقف بھی سنا جائے گا اور اگر فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کی بات ہوئی تو ہم اس کی بھرپور مخالت کریں گے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: فوجی عدالتیں قائم کرنے کی منظوری
پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی کا اجلاس کے حوالے سے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کے حوالے سے حکومت کے اپنے ارکان کے موقف میں تضاد اور ہچکچاہٹ ہے، کچھ ارکان فوجی عدالتوں کی توسیع کی مخالفت اورکچھ حمایت کررہےہیں، پنجاب کے وزیرقانون رانا ثنااللہ بھی پہلے فوجی عدالتوں کے سخت مخالف تھے لیکن اب ان کے لہجے میں بھی تبدیلی نظر آرہی ہے جبکہ وزیرداخلہ چوہدری نثارنے بھی کہا تھا کہ فوجی عدالتوں کے کیسزانسداد دہشت گردی عدالتوں میں منتقل ہوجائیں گے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حکومت پہلے اپنے ارکان کو فوجی عدالتوں کی توسیع پرمتفق کرے، پھر اپنا مؤقف دے ہم حکومت کا مؤقف سننے کے بعد اپنی رائے دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں فوجی عدالتوں سے متعلق متفقہ لائحہ عمل اپنائیں اور اسی حوالے سے پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور ق لیگ سے رابطہ کیا گیا ہے ایم کیوایم سے ابھی بات نہیں ہوئی۔ پیپلزپارٹی کے نوید قمرکا کہنا تھا کہ پہلےبھی فوجی عدالتوں کی مجبوری میں حمایت کی تھی،اس بارنہیں کریں گے۔