مَت سمجھو ہم نے بھلادیا
بیتے برس پاکستان میں ہونے والے وہ واقعات، سانحات اور حادثات جن پر لگے سوال نئے سال کا سورج دیکھنے کو ہیں.
ہم پاکستانیوں پر گزرتا ہر برس ہمیں سانحات اور حادثات دے جاتا ہے، جن میں سے بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو اپنے پیچھے ''کیوں، کیسے، کون'' جیسے سوالات چھوڑ جاتے ہیں۔
یہاں ہم 2012کے کچھ ایسے ہی المیوں کا تذکرہ کر رہے ہیں، جو اخبارات کے صفحات اور ٹی وی اسکرینوں پر کئی دن تک نمایاں جگہ پاتے رہے اور پھر ان کا ذکر کہیں گُم ہوگیا۔ اب یہ سانحے تحقیقات، تفتیش اور مقدمے کی صورت کاغذوں پر منتقل ہوکر اگلے سال کا سورج دیکھنے کو ہیں۔ ان کے وقوع ہونے کے محرکات ان سے جُڑے دیگر بہت سے حقائق سمیت پردے میں ہیں۔ تو آئیے! ان المیوں کو یاد کریں اور انھیں یاد دلائیں جو ایسے سانحات کی وجوہ اور ان کے ذمے داروں کی چہرہ نمائی کے ذمے دار ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ ''مت سمجھو ہم نے بھلادیا''
٭100سے زاید مریضوں کی ہلاکت
جنوری کے مہینے میں پنجاب کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے دل کے مریض دوا کے ری ایکشن کا شکار ہوگئے۔ لاہور میں واقع پنجاب انسٹی ٹیوب آف کارڈیالوجی کی مہیا کردہ ادویات کے ری ایکشن سے سروسز اسپتال، گنگا رام اسپتال، جناح اور میو اسپتال میں سو سے زاید مریض جان کی بازی ہار گئے محکمہ ٔصحت اور حکومت پنجاب روایتی انکوائریوں، تبادلے، معطلیوں اور لواحقین کو مالی امداد دینے کے وعدے کے بعد واقعے سے بری الذمہ ہوگئی۔
٭بوائلر دھماکا
6فروری کی صبح لاہور ملتان روڈ کے رہائشی علاقے کھاڑک بس اسٹاپ کے قریب بنائی گئی ادویہ سازی کی فیکٹری میں اس وقت تباہی پھیل گئی، جب ایک بوائلر دھماکے سے پھٹ گیا۔ دھماکے کے نتیجے میں 26 افرادجاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ رہائشی علاقے میں واقع ہونے کی وجہ سے قریبی مکانات کی چھتیں اور دیواریں بھی متاثر ہوئیں، جب کہ فیکٹری کی پوری عمارت زمیں بوس ہوگئی۔ ایک مرتبہ پھر ہمیشہ کی طرح حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے کمیٹی بنا کر معاملہ داخل دفتر کردیا گیا۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس نے حادثے پر ازخود نوٹس بھی لے رکھا ہے۔
٭رنکل کماری عرف فریال
مارچ میں ضلع گھوٹکی سندھ کے شہر میرپور ماتھیلو میں ایک ہندو لڑکی رنکل کماری کو زبردستی مسلمان اور پھر شادی کرنے کا قصہ میڈیا پر چھایا رہا۔ مسلمان ہونے کے بعد فریال کے نام سے پکاری جانے والی اس لڑکی کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ یہ عمل پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی اور بھرچونڈی شریف کے گدی نشین پیر عبدالخالق عرف مٹھو میاں کے ایما پر کیا گیا ہے۔ دنیا بھر کی توجہ حاصل کرنے والے اس کیس کو جو اعلیٰ عدالتوں میں بھی چل رہا ہے، بہت سے مبصرین نہ صرف ہندوئوں کی نقل مکانی کا باعث قرار دے رہے ہیں، بل کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کی ایک شکل بھی قرار دے رہے ہیں۔ ایک عرصے تک پاکستانی میڈیا میں چھائے رہنے والے اس کیس میں کیا پیش رفت ہوئی، یہ ا بھی تک واضح نہیں ہے۔
٭تیزاب گردی
مارچ کے مہینے ہی میں یہ خبر انتہائی افسوس سے سنی گئی کہ اٹلی میں زیرعلاج فاخرہ یونس (فاخرہ کھر) نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے کود کر خودکشی کرلی۔ کراچی کے ریڈ لائٹ ایریا سے تعلق رکھنے والی یہ بدقسمت لڑکی، جس نے بہتر خانگی زندگی کی خواہش میں اپنے ماضی سے رشتہ توڑ کر سابق رکن پنجاب اسمبلی بلال کھر سے شادی کرلی تھی، 14 مئی 2000 کو مبینہ طور پر بلال کھر کے ہاتھوں چہرے پر پھینکے جانے والے تیزاب سے جھلس گئی تھی، جس کے بعد سے وہ اذیت ناک زندگی گزار رہی تھی۔ بلال کھر، جو سابق وزیراعلیٰ پنجاب غلام مصطفی کھر کا بیٹا ہے، اگرچہ اس عمل کی تردید کرتا ہے، لیکن فاخرہ کے اس آخری پیغام کا کیا ہوگا جواس نے خودکشی سے قبل دیا تھا کہ وہ یہ خودکشی قانون کی مظالم پر خاموشی اور حکم رانوں کی بے حسی پر کررہی ہے۔ افسوس بارہ سال تک اذیت ناک زندگی گزارنے کے بعد خودکشی کرنے والی فاخرہ کے مجرموں کی تلاش میں قانون کہاں تک پہنچا ہے نامعلوم ہے۔
٭طیارے کا حادثہ
اپریل کی 20تاریخ کو وقوع پذیر ہونے والے طیارے کے حادثے نے پورے ملک کو سوگ میں مبتلا کردیا نجی ایرلائنز بھوجا کی فلائٹ نمبرB4-213 کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایر پورٹ سے اسلام آباد کے لیے عازم سفر تھی کہ خراب موسم کے باعث راولپنڈی کے قریب حسین آباد گائوں کے قریب گر کر تباہ ہوگئی۔ بدنصیب طیارے بوئنگ 737-236 کی اس روٹ پر یہ افتتاحی پرواز تھی۔ پاکستان کی تاریخ کے دوسرے بڑے فضائی حادثے میں 123مسافر اور عملے کے چھے افراد سمیت129افراد لقمۂ اجل بنے۔ جاں بحق ہونے والوں میں 57خواتین، 55مرد اور11بچوں کے علاوہ عملے کے چھے افراد شامل تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق انہوں نے حادثے سے تھوڑی دیر قبل جہاز کے ایک حصے میں آگ لگی ہوئی دیکھی تھی، جس کے بارے میں اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ آگ آسمانی بجلی کے باعث لگ سکتی ہے۔ تاہم آبادی میں گرنے کے باوجود خوش قسمتی سے زمین پر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
بدقسمت طیارہ جس کا کنسٹرکشن نمبر 23167تھا، بھوجا ایر لائن میں فروری 2012میں شامل ہوا تھا۔
واضح رہے کہ مذکورہ طیارہ پہلی مرتبہ7جنوری 1985کو برٹش ایرویز میں شامل ہوا۔ بعدازاں جنوبی افریقا کی ایرلائنComair نے اس طیارے کو 6جون 1999تک استعمال کیا۔ سن دو ہزار میں مالی پریشانیوں کے باعث بند ہونے والی بھوجا ایر لائنز نے مارچ 2012میں دوبارہ اپنا آپریشن شروع کیا تھا کہ ایک ماہ بعد ہی حادثے کے باعث ایر لائن دوبارہ بند کردی گئی۔
حادثے کی تفصیلات کے مطابق اس اندوہناک حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ مکمل ہوچکی ہے، لیکن بعض وجوہات کی بنا پر منظر عام پر نہیں لائی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حادثے کی اہم ترین وجہ خراب موسم تھا، لیکن اسی روٹ پر محض پانچ منٹ کے فرق سے ایک دوسری ایرلائن کے طیارے نے اسلام آباد ایرپورٹ پر کام یاب لینڈنگ کی تھی، لہٰذا ساڑھے ستائیس سال پرانا یہ طیارہ کن حالات اور وجوہات کے باعث حادثے کا شکار ہوا۔ یہ معاملہ ابھی تک پراسراریت کی دھند میں لپٹا ہوا ہے۔
٭جھیل کی موت
کراچی سے ایک سو بائیس کلومیٹر دور ضلع ٹھٹہ میں واقع کینجھر یا کلری جھیل انتظامیہ کی عدم توجہ کے باعث دم توڑ رہی ہے۔ اٹھارہ اپریل کو ماحولیات کے تحفظ کے عالمی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق جھیل میں شامل ہونے والا صنعتی فضلہ آبی حیات کا سب سے بڑا دشمن بن چکا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی آب گاہ کا اعزاز رکھنے والی یہ جھیل ہزاروں ماہی گیروں کو روزگار فراہم کرتی ہے اور لاکھوں نایاب پرندوں اور پودوں کا مسکن بھی ہے۔ یہ سطور لکھے جانے تک اس رپورٹ کو منظر عام پر آئے آٹھ ماہ گزر چکے ہیں، لیکن جھیل کی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے ارباب اختیار نے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟ اس سوال پر ابھی تک سوالیہ نشان ہی ہے۔
٭بنوں جیل پر حملہ
اپریل کی پندرہ تاریخ کو بنوں جیل پر شدت پسندوں نے حملہ کرکے کئی قیدی چھڑا لیے اس مقصد کے لیے انہوں نے راکٹ لانچر اور دیگر بھاری ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال کیا شدت پسندوں کے کمانڈر کی جانب سے کام یاب حملے کی ایک اہم وجہ مقامی لوگوں کا تعاون بھی تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہر میں انتظامیہ اور خفیہ ادارے کیوں کر ان لوگوں کو تلاش کرنے سے قاصر ہیں، جو کھلے بندوں شدت پسندوں کی حمایت کرتے ہیں اور عام شہریوں کی زندگیوں کو اجیرن بنارہے ہیں۔ بنوں جیل پر حملے کی تفتیش سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ عام شہری محو انتظار ہیں۔
٭پھول مرجھا گئے
2012کی سات جون کو اس وقت ان ماں باپ پر قیامت گزر گئی جب لاہور کے سروسز اسپتال میں بچوں کے وارڈ کی نرسری میں لگنے والی آگ سے دس نوزائیدہ بچے جاں بحق ہوگئے۔ انتہائی غفلت اور غیر ذمہ داری کے باعث مرجھا جانے والے ان پھول سے بچوں کی عمریں چھے دن سے ایک سال کے درمیان تھیں۔ ہمیشہ کی طرح اعلیٰ حکام نے اسپتال کا دورہ کیا۔ عوام کے جذبات ٹھنڈے کرنے کے لیے کچھ ذمے داروں کو فوری معطل کردیا اور واقعے کو انکوائری کمیٹی کا ''تحفظ''دے کر اپنے اپنے روزمرہ کے کاموں میں مگن ہوگئے، جب کہ دوسری جانب غم زدہ ماں باپ صبر کا بوجھ اُٹھائے سسک رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعے میں لاڑکانہ کے بچوں کے اسپتال میں آکسیجن ٹینٹ میں رکھے گئے 10نومولود بچے بجلی کی طویل عدم فراہمی کے باعث آکسیجن اور دیگر ضروری آلات کے کام نہ کرنے کے باعث موت کی وادی میں جا سوئے۔
٭فورٹ منرو کیس
جون ہی مہینے میں ٹی وی اسکرینوں پر پانچ لڑکیوں سے بارڈر لیویز فورس کے تین اہل کاروں کی جانب سے اجتماعی زیادتی کی بریکنگ نیوز نے ہر زی شعور کو پریشان کردیا قانون کے محافظ ہی جب عوام کے جان و مال کے درپے ہوجائیں تو باقی کیا بچتا ہے۔ لڑکیوں کے مطابق وہ ڈیرہ غازی خان میں فورٹ منرو گھومنے آئی تھیں، جہاں پر ان کے ساتھ یہ شرم ناک فعل کیا گیا۔ صدر پاکستان کی جانب سے نوٹس لیے جانے کے باوجود تادم تحریر اس واقعے کے محرکات اور ملزمان دونوں کے بارے میں عوام لاعلم ہیں۔
٭رقص پر قتل
کوہستان کے دور دراز علاقے ''گائوں گادا'' میں شادی کی تقریب میں رقص کرنے والی پانچ لڑکیوں اور دو لڑکوں کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مقامی جرگے نے سب کو قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ یہ خبر میڈیا پر آتے ہی اس فیصلے پر بحث و مباحثہ شروع ہوگیا۔ مقامی عمائدین کے مطابق یہ فعل قبائلی عصبیت کا شاخسانہ ہے، جس میں ایک خاندان نے دوسرے خاندان کو بدنام کرنے کے لیے یہ ویڈیو بنائی اور جرگے میں پیش کی۔ اعلیٰ عدالتوں کے حکم کے باوجود نہ تو لڑکیوں کو عدالت میں پیش کیا گیا اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی واضح اطلاعات فراہم کی جاسکی ہیں۔ تاہم جرگے کے فیصلے سے قطع نظر پاکستان کا عام شہری اس سارے واقعے میں فاضل عدالتوں کے فعال ہوتے ہوئے جر گوں میں کیے جانے والے فیصلوں پر سخت پریشان ہے۔
٭رمشا مسیح
ماہ اگست کی بیس تاریخ کو جب ذرایع ابلاغ پر یہ خبر نشر ہوئی کہ 14سالہ رمشا مسیح نے قران کریم کے صفحات کی بے حرمتی کی ہے، تو پاکستان سمیت تمام مسلم دنیا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور غم و غصے کا اظہار کیا جانے لگا۔ اسلام آباد کے سیکٹر Gکے اطراف میں واقع مہرآباد کے علاقے میں رہائش پذیر رمشا مسیح کے بارے میں یہ انکشاف مقامی مسجد کے امام صاحب نے کیا تھا۔ اس انکشاف کے بعد رمشا مسیح کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ قائم کردیا گیا۔ تاہم محض دس دن بعد دو افراد نے گواہی دی کہ علاقے کی عیسائی برادری کی زمین پر قبضہ کرنے کے لیے امام مسجد نے یہ جھوٹا الزام لگایا تھا۔ اس گواہی اور دیگر حقائق کے باعث عدالت نے رمشا مسیح پر سے الزام ختم کرتے ہوئے اسے بری کردیا، لیکن جھوٹے الزام لگانے والے افراد کے بارے میں عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے، تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا سدباب ہوسکے فیصلے کا انتظار ہے۔
٭نادر مجسمے اور نوادرات
2012میں ایک خبر یہ بھی نہایت اہمیت کی حامل رہی جس کے مطابق دو ہزار سال قدیم گندھارا تہذیب سے ممکنہ طور پر تعلق رکھنے والے نادر مجسمے اور مورتیاں اسمگل کر تے ہوئے برآمد کرلی گئیں۔ کراچی کے علاقے کورنگی میں پولیس نے ایک خفیہ اطلاع پر چھاپا مارتے ہوئے ایک کنٹینر میں سے یہ مورتیاں برآمد کیں، جن میں پاکستان میں اب تک کا گندھارا تہذیب کا سب سے بڑا مجسمہ بھی شامل ہے، جس کی اونچائی 8 فٹ کے قریب ہے۔ مجموعی طور پر تین سو ننانوے کی تعداد میں برآمد ہونے والے یہ قیمتی نوادرات محکمۂ آثار قدیمہ نے اپنی تحویل میں لے کر کراچی کے نیشنل میوزیم منتقل کردیے ہیں۔ ابتدائی طور پر لگائے تخمینے کے مطابق 80 کروڑ روپے مالیت کے ان بیش قیمت مجسموں اور نوادرات کی پہلے اندرون ملک اور بعدازں بیرون ملک اسمگلنگ کی کوششوں کے سلسلے میں گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں۔ تاہم بدھا کے مجسموں اور دیگر نوادرات کو عدالت کے حکم کے باوجود تاحال عوامی نمائش کے لیے نہیں رکھا گیا ہے۔
٭پانی سے چلنے والی کار
2012 میںآغا وقار پٹھان نام کے ایک ''سائنس داں'' نے خوب شہرت حاصل کی۔ ان کے دعوے کے مطابق انہوں نے ایک ایسی کٹ تیار کی ہے، جس کی بدولت گاڑیاں پانی سے چلنے لگیں گی۔ یعنی گاڑیوں کے لیے پیٹرول اور گیس کا زمانہ ختم ہوگیا۔ مختلف ٹی وی چینلوں اور وزراء کی حمایت سے آغا وقار پٹھان نے اپنا رنگ خوب جمایا، لیکن پھر اتنی اہم ایجاد کے بعد گدھے کے سرسے سینگ کی مانند غائب ہوگئے۔ واضح رہے کہ پانی سے کار چلانے کی پہلی خبر1935میں امریکا میں سامنے آئی تھی، جس کے بعد متعدد لوگوں نے اسی قسم کے دعوے کیے پھر کوئی پاکستانی کیسے پیچھے رہ سکتا تھا۔ لیکن افسوس پاکستانیوں کے لیے یہ خوشخبری بھی ریت کا گھروندا ثابت ہوئی۔
٭ بیمار بھیڑوں کا معاملہ
رواں برس پاکستان کی تاریخ کا ایک اور انوکھا واقعہ اس وقت سامنے ہوا جب ایک نہیں دو نہیں تین نہیں بلکہ اکیس ہزار بھیڑیں کراچی کی بندرگاہ پر اتنی باریکی سے ''چوری چھپے'' اتار دی گئیں کہ حکومت کا کوئی انتظامی محکمہ اس عمل کو محسوس نہیں کرسکا بحرین سے مسترد کردہ یہ آسٹریلوی بھیڑیں جب میڈیا کی نظروں میں آئیں تو ہر طرف ہاہا کاری مچ گئی۔ تفصیلات کے مطابق بیماری میں مبتلا ان بھیڑوں کو بحرین میں اتارنا تھا، مگر بحرین حکومت نے حقیقت جاننے کے بعد اپنے ملک میں ان بھیڑوں کو اتارنے کی اجازت نہیں دی۔ غالباً جہاز کے عملے نے سوچا کہ ویسے بھی پاکستان دنیا بھر کے ستائے ہوئے لوگوں کواپنے ہاں پناہ دینے میں شہرت رکھتا ہے، تو جانور کیوں نہیں، لہٰذا عملے نے اندرون خانہ ساز باز کرکے بھیڑوں کو کراچی کی بندرگاہ پر لا پٹخا اور یہ جا وہ جا گذشتہ چار ماہ سے یہ معمہ عدالت میں حل ہونے کے لئے موجود ہے ۔
٭کامرہ ایر بیس پر حملہ
وفاقی دارلحکومت سے تقریباً ستر کلومیٹر کی دوری پر واقع ''پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ '' (PACC)عین اس وقت فائرنگ سے گونج اٹھا جب ملک بھر کی مساجد قرآن کی آیتوں اور ثنا خوانی سے گونج رہی تھیں۔ پندرہ اور سولہ اگست کی درمیانی رات جب عالم اسلام میں شب قدر کا اہتمام کیا جارہا تھا، نامعلوم دہشت گردوں نے پاکستان کے اہم ترین عسکری فضائی کمپلیکس کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا، اگرچہ وہ اپنے ناپاک منصوبے میں پوری طرح کام یاب نہ ہوسکے، تاہم عام پاکستانی کے دل میں اپنی نفرت ثبت کرگئے۔
عسکری ذرائع کے مطابق دہشت گرد بیس کے عقب میں واقع گائوں پنڈ سلمان مکھن کی جانب سے داخل ہوئے۔ ان کا اصل ہدف منہاس ایر بیس کو نقصان پہنچانا تھا، وہ وہاں موجود لڑاکا طیاروں کو تباہ کرنا چاہتے تھے۔ تاہم دہشت گرد پاک فوج کی جوابی کارروائی کے باعث صرف ایک طیارے کو جزوی طور پر نقصان پہنچاسکے۔ یہ حساس نوعیت کا فضائی نگراں طیارہ جس کا نام ''ساب2000'' ہے۔ پاک بھارت سرحد کی نگرانی کرنے پر مامور ہے اور سرحدی معلومات اکٹھا کرتا ہے۔ پاک فوج کے جوانوں کی جانب سے منہ توڑ جوابی کارروائی کے دوران تمام حملہ آور مارے گئے۔ ان حملہ آوروں نے پاک فضائیہ کی وردیاں پہنی ہوئی تھیں، جن کے اندر خودکش جیکیٹیں بھی تھیں۔ اس کے علاوہ حملہ آوروںکے پاس جدید ہتھیار تھے، جن میں راکٹ پروپلڈ گرنیڈ(RPG)بھی شامل تھے۔ حملہ آوروں نے ایربیس میں تباہی پھیلانے کے لیے ایر بیس کے کچھ حصوں میں بارودی سرنگیں بھی بچھائی تھیں۔ تاہم ان بارودی سرنگوں کو پاک فوج کے ماہرین نے ضائع کردیا۔
پاک فضائیہ کے ترجمان کے مطابق حملے کے جواب میں کارروائی کی سربراہی کرتے ہوئے ایر کموڈور محمداعظم سمیت تین جوان زخمی ہوئے، جن میں سے دو جوان سپاہی محمد آصف آپریشن کے دوران اور اگلے دن محمد اقبال زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔ حملے کے وقت ایر بیس میں چین سے تعلق رکھنے والے گیارہ انجینئرز بھی موجود تھے، جو حملے میں محفوظ رہے۔ بعدازاں تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اﷲ احسان نے ذرائع ابلاغ کے اداروں سے نامعلوم مقام سے رابط کرکے حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے حملے کو بیت اﷲ محسود اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا بدلہ قرار دیا۔
حملے کے فوری بعد ایر مارشل سید اطہر حسین بخاری کی سربراہی میں تفتیشی ٹیم تشکیل دے دی گئی، جس نے تمام حملہ آوروں کی شناخت کرلی اس دوران ایک حملہ آور فیصل شہزاد کے بینک اکائونٹ سے نو کروڑ روپے کی خطیر رقم بھی برآمد ہوئی، جس سے حملہ آوروں کے تعلقات اور مالی طور پر مستحکم ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔
شمالی پنجاب کی سرحد پر واقع ضلع اٹک کے مرکزی شہر کامرہ میں واقع یہ ایروناٹیکل کمپلیکس پاکستان کے دفاع میں ریڑھ کی ہڈی کی سی اہمیت کا حامل ہے۔ اس ادارے کا اہم ترین مقصد 1965کے بعد فرانس اور چین سے ملنے والے طیاروں کی فنی دیکھ بھال، ری اسٹرکچرنگ، اوور ہالنگ اور آلات کی تبدیلی کا کام سرانجام دینا ہے۔ اس جدید تیکنیکی سہولیات سے آراستہ کمپلیکس میں منہاس ایر بیس کے علاوہ چار ادارے یا فیکٹریاں بھی پاک فضائیہ کے لیے خدمات انجام دے رہی ہیں، جس میں F-6ری بلڈ فیکٹری، میراج ری بلڈ فیکٹری، کامرہ ایروناٹکس اینڈ ریڈار فیکٹری اور ایر کرافٹ مینو فیکچرنگ فیکٹری شامل ہیں۔ ان سہولیات کے باعث کامرہ کمپلیکس کو دنیا کا ساتواں بڑا عسکری فضائی کمپلیکس ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ میں JF-17تھنڈر، MFI-17 مشاق، MFI-395 سپر مشاق،K-8قراقرم طیارے نہ صرف تیار کیے جاتے ہیں، بل کہ پاک فضائیہ سمیت دیگر ممالک کے لڑاکا طیاروں کے لیے پارٹس بھی اسمبل کیے جاتے ہیں، جس میں امریکا کے ایف 16فائٹنگ فیلکون، فرانس کے مختلف میراج طیارے اور چین کے Chengdu Jianسیون ، Nanchang کیو 5 طیارے سمیت متعدد طیارے شامل ہیں۔ پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ کی یہی خوبیاں ہیں، جو پاک وطن کے دشمنوں کی نگاہوں میں کھٹکتی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ 2007 سے لے کر2012تک منہاس ایربیس سمیت کامرہ کمپلیکس چار مرتبہ پاکستان کے دشمنوں کے ناپاک عزائم کا نشانہ بن چکا ہے۔ دوسری جانب داد شجاعت دیتے ہوئے جان کا نذرانہ پیش کرنے والے پائلٹ آفیسر راشد منہاس نشان حیدر شہید کے یوم شہادت سے محض تین دن قبل منہاس ائیر بیس پر ہونے والا یہ حملہ خطیر رقم اور جدید آلات سے لیس سیکیوریٹی کے دعووں پر بھی سوالیہ نشان لگا چکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایر مارشل سید اطہر حسین بخاری کی سربراہی میں پانچ رکنی تحقیقاتی کمیٹی اس سلسلے میں کیا نتائج عوام کے سامنے لاتی ہے۔
٭آگ ہی آگ
کراچی کے علاقے بلدیہ ٹائون میں حب ریور روڈ پر گیارہ ستمبر کو شام پونے سات بجے اس وقت قیامت صغریٰ برپا ہوگئی، جب ایک سہ منزلہ گارمنٹ فیکٹری آگ کے شعلوں میں گھر گئی۔ دوہزار فیکٹری ورکروں پر مشتمل علی انٹرپرائز نامی اس فیکٹری میں دو شفٹوں میں کام انجام دیا جاتا تھا، جس وقت آگ نے اپنے مہیب پنجے پھیلائے، فیکٹری میں 500 محنت کش رزق حلال کمانے میں مصروف تھے۔
عینی شاہدین کے مطابق فیکٹری کا صرف ایک داخلی گیٹ تھا، جو آگ لگنے کے وقت بند تھا، جب کہ فیکٹری کے خارجی گیٹ پر بھی تالا تھا۔ دونوں راستے بند ہونے کے باعث ورکرز فوری طور پر نہ نکل سکے، بلکہ بیشتر نے گھبراہٹ میں تیسری منزل سے چھلانگیں لگا کر اپنی جان بچائی۔ تاہم فیکٹری میں موجود زیادہ تر ورکرز جن میں خواتین بھی شامل تھیں، آگ کے شعلوں میں گھر کر لقمۂ اجل بن گئے۔ کمشنر کراچی روشن علی شیخ کے مطابق اس سانحے میں289افرا د جا ں بحق ہوئے جب کہ متعدد افراد شدید بری طرح جھلس گئے۔ تاہم متاثرین کا کہنا ہے کہ ہلاکتیں اس سے زاید ہوئی ہیں۔ سانحے کے بعد صوبائی وزیر صنعت وتجارت رئوف صدیقی نے استعفیٰ دے دیا۔
دوسری طرف حکومت نے متاثرین کے لیے فی کس سات لاکھ روپے امداد کا وعدہ کیا۔ حکومت نے سانحے کی انکوائری کے لیے ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ریٹائرڈ) قربان علوی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی، جس نے بلدیہ ٹائون جیسے سانحوں سے بچنے کے لیے ایمرجینسی انتظامات، سیکیوریٹی انتظامات اور مزدوروں کے تحفظ کے قوانین بنانے کے لیے سفارشات پیش کی ہیں۔ واضح رہے کہ علی انٹرپرائز میں جرمنی سے تعلق رکھنے والی ملبوسات کی ایک کمپنی ''کک'' کی OKبرانڈ کی جینز کی پتلونیں تیار کی جاتی تھیں۔
جرمنی کے علاقے بون میں قائم یہ کمپنی علی انٹرپرائز سے اپنا 75فی صد مال تیار کرواتی تھی، جب کہ فیکٹری کے ملازمین کا کہنا ہے کہ علی انٹرپرائز میں جرمن کمپنی کا نوے فی صد مال تیار ہوتا تھا اگرچہ کمپنی نے متوفین کے لواحقین کو مجموعی طور پر تقریباً بارہ کروڑ روپے زرتلافی دینے کا وعدہ کیا ہے تاہم کمپنی کی جانب سے دی جانے والی اس رقم کو متاثرین انتہائی ناکافی قرار دے رہے ہیں۔
خصوصاً اس وقت جب کہ کمپنی کے پورے یورپ میں اسٹورز پھیلے ہوئے ہیں، جن کی مجموعی تعداد تین ہزار سے زاید ہے اور کمپنی کی سالانہ آمدنی بھی ایک ارب یورو سے بھی زاید ہے۔ فیکٹری ورکروں کے مطابق جرمن کمپنی یہ کثیر آمدن صرف اس لیے حاصل کرپاتی ہے کہ مقامی محنت کشوں سے کم اجرت پر تیار کروائے جانے والے ملبوسات بین الااقوامی مارکیٹ میں بھاری قیمتوں پر فروخت کیے جاتے ہیں۔
بظاہر اس اس حادثے کے پیچھے کم اجرت دے کر زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ہوس ہے، کیوں کہ پاکستان جیسے ممالک میں کم اجرت پر دست یاب ورکرز استحصالی قوتوں کا آسان ہدف ہوتے ہیں، جنہیں نامناسب حالات میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی ادارے بالخصوص محکمۂ محنت اور صنعتی قوانین کا اطلاق کرانے والے اداروں نے اس فیکٹری میں ان قوانین کا اطلاق کیوں نہ کرایا۔ اس سانحے کا ایک اور مگر سب سے کرب ناک پہلو یہ ہے کہ چار ماہ گزر جانے کے باوجود کئی سوختہ لاشیں ایدھی سینٹر میں اپنے پیاروں کی راہ تک رہی ہیں کہ کب DNAرپورٹ اسلام آباد سے آئے اور انہیں جائے سکون میسر ہو۔ عوام کو تو ہمیشہ کی طرح نام نہاد شفاف تحقیقات کی میٹھی گولی دے کر کسی اگلے حادثے تک حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
عین اسی دن جب کراچی کی فیکٹری میں جلنے والوں کے گھرانوں میں آہ بکا مچی ہوئی تھی، آتش زدگی کے ایک اور واقعے میں25افراد جاںبحق ہوئے تھے۔ اس الم ناک سانحے کی جائے وقوعہ لاہور کے علاقے شفیق آباد کی بند روڈ پر جوتا فیکٹری تھی، جہاں پر لوڈشیڈنگ کے دوران جنریٹر پھٹنے سے جوتا سازی میں استعمال ہونے والے سلوشن اور کیمیکل میں آگ بھڑ ک اٹھی، جس نے آناً فاناً تین منزلہ فیکٹری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور 25انسانی جانوں کا خراج وصول کیا۔ لیبر قوانین کے برعکس چلنے والی اس فیکٹری کے سانحے کی بھی تحقیقات جاری ہیں۔
٭دوا جب موت بن گئی
نومبر کے مہینے میں کھانسی کا شربت پینے سے اب تک 20افراد موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ لاہور کے علاقے شاہدرہ ٹائون میں واقع میڈیکل اسٹوروں سے خریدا گیا یہ سیرپ ہلاک شدگان بطور نشہ پیتے تھے۔ ڈاکٹروں کے مطابق کھانسی کے شربت ''ٹائنو'' میں زیادہ مقدار میں نشہ آور شے ملا کر پینے سے متاثرین کے جسم میں زہر سرایت کرگیا، جس کے باعث ان افراد کی موت واقع ہوئی۔
اس حوالے سے علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقے میں کھلے عام نشہ آور اشیاء فروخت ہورہی ہیں، جب کہ محکمۂ صحت اور ضلعی انتظامیہ نے ان جرائم سے چشم پوشی کی ہوئی ہے۔ اس واقعے کی عدالتی تحقیقات جاری ہیں۔
٭سماج کی بے حسی کا منظر پیش کرتا ایک سانحہ
کراچی کی پررونق زینب مارکیٹ اور اس کے اطراف کا علاقہ ہر وقت خرید و فروخت کرنے والوں سے بھرا رہتا ہے، لیکن 28نومبر کو ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے وہاں موجود لوگوں کی بے حسی یا مجبوری کا پول کھول دیا زینب مارکیٹ کے بالکل سامنے اسٹیٹ لائف انشورنس کی فلک بوس عمارت ہے، جس میں واقع KESCکے آفس میں 22سالہ اویس بیگ نوکری کی تلاش میں گیا تھا۔ اچانک بلڈنگ کے آٹھویں فلور پر آگ بھڑک اٹھی گھبراہٹ میں اویس بیگ نے کھڑکی کے راستے راہ فرار ڈھونڈی اور تقریباً 20منٹ تک آٹھویں منزل کی کھڑکی سے لٹکارہا کہ شاید اس دوران نیچے عام لوگ یا ریسکیو کے ادارے اسے بچا لیں گے، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور نوجوان اویس بیگ نہ جانے کتنے سپنے آنکھوں میں سجائے بلندی سے گر کر جاں بحق ہوگیا۔ یہ سانحہ اپنے پیچھے یہ سوال چھوڑ گیا کہ ایک شخصی بیس منٹ تک موت اور زندگی کی کشمکش میں رہا، جسے بچانا کچھ مشکل نہ تھا، یہ سارا منظر ٹی وی چینلوں کی اسکرینوں پر کرب کی صورت نشر ہوتا رہا، مگر ریسکیو ادارے مدد کو آئے نہ عام لوگوں نے اس نوجوان کی زندگی بچانے کی کوئی تدبیر کی، ایسا کیوں ہوا؟
یہاں ہم 2012کے کچھ ایسے ہی المیوں کا تذکرہ کر رہے ہیں، جو اخبارات کے صفحات اور ٹی وی اسکرینوں پر کئی دن تک نمایاں جگہ پاتے رہے اور پھر ان کا ذکر کہیں گُم ہوگیا۔ اب یہ سانحے تحقیقات، تفتیش اور مقدمے کی صورت کاغذوں پر منتقل ہوکر اگلے سال کا سورج دیکھنے کو ہیں۔ ان کے وقوع ہونے کے محرکات ان سے جُڑے دیگر بہت سے حقائق سمیت پردے میں ہیں۔ تو آئیے! ان المیوں کو یاد کریں اور انھیں یاد دلائیں جو ایسے سانحات کی وجوہ اور ان کے ذمے داروں کی چہرہ نمائی کے ذمے دار ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ ''مت سمجھو ہم نے بھلادیا''
٭100سے زاید مریضوں کی ہلاکت
جنوری کے مہینے میں پنجاب کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے دل کے مریض دوا کے ری ایکشن کا شکار ہوگئے۔ لاہور میں واقع پنجاب انسٹی ٹیوب آف کارڈیالوجی کی مہیا کردہ ادویات کے ری ایکشن سے سروسز اسپتال، گنگا رام اسپتال، جناح اور میو اسپتال میں سو سے زاید مریض جان کی بازی ہار گئے محکمہ ٔصحت اور حکومت پنجاب روایتی انکوائریوں، تبادلے، معطلیوں اور لواحقین کو مالی امداد دینے کے وعدے کے بعد واقعے سے بری الذمہ ہوگئی۔
٭بوائلر دھماکا
6فروری کی صبح لاہور ملتان روڈ کے رہائشی علاقے کھاڑک بس اسٹاپ کے قریب بنائی گئی ادویہ سازی کی فیکٹری میں اس وقت تباہی پھیل گئی، جب ایک بوائلر دھماکے سے پھٹ گیا۔ دھماکے کے نتیجے میں 26 افرادجاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ رہائشی علاقے میں واقع ہونے کی وجہ سے قریبی مکانات کی چھتیں اور دیواریں بھی متاثر ہوئیں، جب کہ فیکٹری کی پوری عمارت زمیں بوس ہوگئی۔ ایک مرتبہ پھر ہمیشہ کی طرح حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے کمیٹی بنا کر معاملہ داخل دفتر کردیا گیا۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس نے حادثے پر ازخود نوٹس بھی لے رکھا ہے۔
٭رنکل کماری عرف فریال
مارچ میں ضلع گھوٹکی سندھ کے شہر میرپور ماتھیلو میں ایک ہندو لڑکی رنکل کماری کو زبردستی مسلمان اور پھر شادی کرنے کا قصہ میڈیا پر چھایا رہا۔ مسلمان ہونے کے بعد فریال کے نام سے پکاری جانے والی اس لڑکی کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ یہ عمل پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی اور بھرچونڈی شریف کے گدی نشین پیر عبدالخالق عرف مٹھو میاں کے ایما پر کیا گیا ہے۔ دنیا بھر کی توجہ حاصل کرنے والے اس کیس کو جو اعلیٰ عدالتوں میں بھی چل رہا ہے، بہت سے مبصرین نہ صرف ہندوئوں کی نقل مکانی کا باعث قرار دے رہے ہیں، بل کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کی ایک شکل بھی قرار دے رہے ہیں۔ ایک عرصے تک پاکستانی میڈیا میں چھائے رہنے والے اس کیس میں کیا پیش رفت ہوئی، یہ ا بھی تک واضح نہیں ہے۔
٭تیزاب گردی
مارچ کے مہینے ہی میں یہ خبر انتہائی افسوس سے سنی گئی کہ اٹلی میں زیرعلاج فاخرہ یونس (فاخرہ کھر) نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے کود کر خودکشی کرلی۔ کراچی کے ریڈ لائٹ ایریا سے تعلق رکھنے والی یہ بدقسمت لڑکی، جس نے بہتر خانگی زندگی کی خواہش میں اپنے ماضی سے رشتہ توڑ کر سابق رکن پنجاب اسمبلی بلال کھر سے شادی کرلی تھی، 14 مئی 2000 کو مبینہ طور پر بلال کھر کے ہاتھوں چہرے پر پھینکے جانے والے تیزاب سے جھلس گئی تھی، جس کے بعد سے وہ اذیت ناک زندگی گزار رہی تھی۔ بلال کھر، جو سابق وزیراعلیٰ پنجاب غلام مصطفی کھر کا بیٹا ہے، اگرچہ اس عمل کی تردید کرتا ہے، لیکن فاخرہ کے اس آخری پیغام کا کیا ہوگا جواس نے خودکشی سے قبل دیا تھا کہ وہ یہ خودکشی قانون کی مظالم پر خاموشی اور حکم رانوں کی بے حسی پر کررہی ہے۔ افسوس بارہ سال تک اذیت ناک زندگی گزارنے کے بعد خودکشی کرنے والی فاخرہ کے مجرموں کی تلاش میں قانون کہاں تک پہنچا ہے نامعلوم ہے۔
٭طیارے کا حادثہ
اپریل کی 20تاریخ کو وقوع پذیر ہونے والے طیارے کے حادثے نے پورے ملک کو سوگ میں مبتلا کردیا نجی ایرلائنز بھوجا کی فلائٹ نمبرB4-213 کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایر پورٹ سے اسلام آباد کے لیے عازم سفر تھی کہ خراب موسم کے باعث راولپنڈی کے قریب حسین آباد گائوں کے قریب گر کر تباہ ہوگئی۔ بدنصیب طیارے بوئنگ 737-236 کی اس روٹ پر یہ افتتاحی پرواز تھی۔ پاکستان کی تاریخ کے دوسرے بڑے فضائی حادثے میں 123مسافر اور عملے کے چھے افراد سمیت129افراد لقمۂ اجل بنے۔ جاں بحق ہونے والوں میں 57خواتین، 55مرد اور11بچوں کے علاوہ عملے کے چھے افراد شامل تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق انہوں نے حادثے سے تھوڑی دیر قبل جہاز کے ایک حصے میں آگ لگی ہوئی دیکھی تھی، جس کے بارے میں اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ آگ آسمانی بجلی کے باعث لگ سکتی ہے۔ تاہم آبادی میں گرنے کے باوجود خوش قسمتی سے زمین پر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
بدقسمت طیارہ جس کا کنسٹرکشن نمبر 23167تھا، بھوجا ایر لائن میں فروری 2012میں شامل ہوا تھا۔
واضح رہے کہ مذکورہ طیارہ پہلی مرتبہ7جنوری 1985کو برٹش ایرویز میں شامل ہوا۔ بعدازاں جنوبی افریقا کی ایرلائنComair نے اس طیارے کو 6جون 1999تک استعمال کیا۔ سن دو ہزار میں مالی پریشانیوں کے باعث بند ہونے والی بھوجا ایر لائنز نے مارچ 2012میں دوبارہ اپنا آپریشن شروع کیا تھا کہ ایک ماہ بعد ہی حادثے کے باعث ایر لائن دوبارہ بند کردی گئی۔
حادثے کی تفصیلات کے مطابق اس اندوہناک حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ مکمل ہوچکی ہے، لیکن بعض وجوہات کی بنا پر منظر عام پر نہیں لائی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حادثے کی اہم ترین وجہ خراب موسم تھا، لیکن اسی روٹ پر محض پانچ منٹ کے فرق سے ایک دوسری ایرلائن کے طیارے نے اسلام آباد ایرپورٹ پر کام یاب لینڈنگ کی تھی، لہٰذا ساڑھے ستائیس سال پرانا یہ طیارہ کن حالات اور وجوہات کے باعث حادثے کا شکار ہوا۔ یہ معاملہ ابھی تک پراسراریت کی دھند میں لپٹا ہوا ہے۔
٭جھیل کی موت
کراچی سے ایک سو بائیس کلومیٹر دور ضلع ٹھٹہ میں واقع کینجھر یا کلری جھیل انتظامیہ کی عدم توجہ کے باعث دم توڑ رہی ہے۔ اٹھارہ اپریل کو ماحولیات کے تحفظ کے عالمی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق جھیل میں شامل ہونے والا صنعتی فضلہ آبی حیات کا سب سے بڑا دشمن بن چکا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی آب گاہ کا اعزاز رکھنے والی یہ جھیل ہزاروں ماہی گیروں کو روزگار فراہم کرتی ہے اور لاکھوں نایاب پرندوں اور پودوں کا مسکن بھی ہے۔ یہ سطور لکھے جانے تک اس رپورٹ کو منظر عام پر آئے آٹھ ماہ گزر چکے ہیں، لیکن جھیل کی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے ارباب اختیار نے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟ اس سوال پر ابھی تک سوالیہ نشان ہی ہے۔
٭بنوں جیل پر حملہ
اپریل کی پندرہ تاریخ کو بنوں جیل پر شدت پسندوں نے حملہ کرکے کئی قیدی چھڑا لیے اس مقصد کے لیے انہوں نے راکٹ لانچر اور دیگر بھاری ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال کیا شدت پسندوں کے کمانڈر کی جانب سے کام یاب حملے کی ایک اہم وجہ مقامی لوگوں کا تعاون بھی تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہر میں انتظامیہ اور خفیہ ادارے کیوں کر ان لوگوں کو تلاش کرنے سے قاصر ہیں، جو کھلے بندوں شدت پسندوں کی حمایت کرتے ہیں اور عام شہریوں کی زندگیوں کو اجیرن بنارہے ہیں۔ بنوں جیل پر حملے کی تفتیش سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ عام شہری محو انتظار ہیں۔
٭پھول مرجھا گئے
2012کی سات جون کو اس وقت ان ماں باپ پر قیامت گزر گئی جب لاہور کے سروسز اسپتال میں بچوں کے وارڈ کی نرسری میں لگنے والی آگ سے دس نوزائیدہ بچے جاں بحق ہوگئے۔ انتہائی غفلت اور غیر ذمہ داری کے باعث مرجھا جانے والے ان پھول سے بچوں کی عمریں چھے دن سے ایک سال کے درمیان تھیں۔ ہمیشہ کی طرح اعلیٰ حکام نے اسپتال کا دورہ کیا۔ عوام کے جذبات ٹھنڈے کرنے کے لیے کچھ ذمے داروں کو فوری معطل کردیا اور واقعے کو انکوائری کمیٹی کا ''تحفظ''دے کر اپنے اپنے روزمرہ کے کاموں میں مگن ہوگئے، جب کہ دوسری جانب غم زدہ ماں باپ صبر کا بوجھ اُٹھائے سسک رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعے میں لاڑکانہ کے بچوں کے اسپتال میں آکسیجن ٹینٹ میں رکھے گئے 10نومولود بچے بجلی کی طویل عدم فراہمی کے باعث آکسیجن اور دیگر ضروری آلات کے کام نہ کرنے کے باعث موت کی وادی میں جا سوئے۔
٭فورٹ منرو کیس
جون ہی مہینے میں ٹی وی اسکرینوں پر پانچ لڑکیوں سے بارڈر لیویز فورس کے تین اہل کاروں کی جانب سے اجتماعی زیادتی کی بریکنگ نیوز نے ہر زی شعور کو پریشان کردیا قانون کے محافظ ہی جب عوام کے جان و مال کے درپے ہوجائیں تو باقی کیا بچتا ہے۔ لڑکیوں کے مطابق وہ ڈیرہ غازی خان میں فورٹ منرو گھومنے آئی تھیں، جہاں پر ان کے ساتھ یہ شرم ناک فعل کیا گیا۔ صدر پاکستان کی جانب سے نوٹس لیے جانے کے باوجود تادم تحریر اس واقعے کے محرکات اور ملزمان دونوں کے بارے میں عوام لاعلم ہیں۔
٭رقص پر قتل
کوہستان کے دور دراز علاقے ''گائوں گادا'' میں شادی کی تقریب میں رقص کرنے والی پانچ لڑکیوں اور دو لڑکوں کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مقامی جرگے نے سب کو قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ یہ خبر میڈیا پر آتے ہی اس فیصلے پر بحث و مباحثہ شروع ہوگیا۔ مقامی عمائدین کے مطابق یہ فعل قبائلی عصبیت کا شاخسانہ ہے، جس میں ایک خاندان نے دوسرے خاندان کو بدنام کرنے کے لیے یہ ویڈیو بنائی اور جرگے میں پیش کی۔ اعلیٰ عدالتوں کے حکم کے باوجود نہ تو لڑکیوں کو عدالت میں پیش کیا گیا اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی واضح اطلاعات فراہم کی جاسکی ہیں۔ تاہم جرگے کے فیصلے سے قطع نظر پاکستان کا عام شہری اس سارے واقعے میں فاضل عدالتوں کے فعال ہوتے ہوئے جر گوں میں کیے جانے والے فیصلوں پر سخت پریشان ہے۔
٭رمشا مسیح
ماہ اگست کی بیس تاریخ کو جب ذرایع ابلاغ پر یہ خبر نشر ہوئی کہ 14سالہ رمشا مسیح نے قران کریم کے صفحات کی بے حرمتی کی ہے، تو پاکستان سمیت تمام مسلم دنیا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور غم و غصے کا اظہار کیا جانے لگا۔ اسلام آباد کے سیکٹر Gکے اطراف میں واقع مہرآباد کے علاقے میں رہائش پذیر رمشا مسیح کے بارے میں یہ انکشاف مقامی مسجد کے امام صاحب نے کیا تھا۔ اس انکشاف کے بعد رمشا مسیح کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ قائم کردیا گیا۔ تاہم محض دس دن بعد دو افراد نے گواہی دی کہ علاقے کی عیسائی برادری کی زمین پر قبضہ کرنے کے لیے امام مسجد نے یہ جھوٹا الزام لگایا تھا۔ اس گواہی اور دیگر حقائق کے باعث عدالت نے رمشا مسیح پر سے الزام ختم کرتے ہوئے اسے بری کردیا، لیکن جھوٹے الزام لگانے والے افراد کے بارے میں عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے، تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا سدباب ہوسکے فیصلے کا انتظار ہے۔
٭نادر مجسمے اور نوادرات
2012میں ایک خبر یہ بھی نہایت اہمیت کی حامل رہی جس کے مطابق دو ہزار سال قدیم گندھارا تہذیب سے ممکنہ طور پر تعلق رکھنے والے نادر مجسمے اور مورتیاں اسمگل کر تے ہوئے برآمد کرلی گئیں۔ کراچی کے علاقے کورنگی میں پولیس نے ایک خفیہ اطلاع پر چھاپا مارتے ہوئے ایک کنٹینر میں سے یہ مورتیاں برآمد کیں، جن میں پاکستان میں اب تک کا گندھارا تہذیب کا سب سے بڑا مجسمہ بھی شامل ہے، جس کی اونچائی 8 فٹ کے قریب ہے۔ مجموعی طور پر تین سو ننانوے کی تعداد میں برآمد ہونے والے یہ قیمتی نوادرات محکمۂ آثار قدیمہ نے اپنی تحویل میں لے کر کراچی کے نیشنل میوزیم منتقل کردیے ہیں۔ ابتدائی طور پر لگائے تخمینے کے مطابق 80 کروڑ روپے مالیت کے ان بیش قیمت مجسموں اور نوادرات کی پہلے اندرون ملک اور بعدازں بیرون ملک اسمگلنگ کی کوششوں کے سلسلے میں گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں۔ تاہم بدھا کے مجسموں اور دیگر نوادرات کو عدالت کے حکم کے باوجود تاحال عوامی نمائش کے لیے نہیں رکھا گیا ہے۔
٭پانی سے چلنے والی کار
2012 میںآغا وقار پٹھان نام کے ایک ''سائنس داں'' نے خوب شہرت حاصل کی۔ ان کے دعوے کے مطابق انہوں نے ایک ایسی کٹ تیار کی ہے، جس کی بدولت گاڑیاں پانی سے چلنے لگیں گی۔ یعنی گاڑیوں کے لیے پیٹرول اور گیس کا زمانہ ختم ہوگیا۔ مختلف ٹی وی چینلوں اور وزراء کی حمایت سے آغا وقار پٹھان نے اپنا رنگ خوب جمایا، لیکن پھر اتنی اہم ایجاد کے بعد گدھے کے سرسے سینگ کی مانند غائب ہوگئے۔ واضح رہے کہ پانی سے کار چلانے کی پہلی خبر1935میں امریکا میں سامنے آئی تھی، جس کے بعد متعدد لوگوں نے اسی قسم کے دعوے کیے پھر کوئی پاکستانی کیسے پیچھے رہ سکتا تھا۔ لیکن افسوس پاکستانیوں کے لیے یہ خوشخبری بھی ریت کا گھروندا ثابت ہوئی۔
٭ بیمار بھیڑوں کا معاملہ
رواں برس پاکستان کی تاریخ کا ایک اور انوکھا واقعہ اس وقت سامنے ہوا جب ایک نہیں دو نہیں تین نہیں بلکہ اکیس ہزار بھیڑیں کراچی کی بندرگاہ پر اتنی باریکی سے ''چوری چھپے'' اتار دی گئیں کہ حکومت کا کوئی انتظامی محکمہ اس عمل کو محسوس نہیں کرسکا بحرین سے مسترد کردہ یہ آسٹریلوی بھیڑیں جب میڈیا کی نظروں میں آئیں تو ہر طرف ہاہا کاری مچ گئی۔ تفصیلات کے مطابق بیماری میں مبتلا ان بھیڑوں کو بحرین میں اتارنا تھا، مگر بحرین حکومت نے حقیقت جاننے کے بعد اپنے ملک میں ان بھیڑوں کو اتارنے کی اجازت نہیں دی۔ غالباً جہاز کے عملے نے سوچا کہ ویسے بھی پاکستان دنیا بھر کے ستائے ہوئے لوگوں کواپنے ہاں پناہ دینے میں شہرت رکھتا ہے، تو جانور کیوں نہیں، لہٰذا عملے نے اندرون خانہ ساز باز کرکے بھیڑوں کو کراچی کی بندرگاہ پر لا پٹخا اور یہ جا وہ جا گذشتہ چار ماہ سے یہ معمہ عدالت میں حل ہونے کے لئے موجود ہے ۔
٭کامرہ ایر بیس پر حملہ
وفاقی دارلحکومت سے تقریباً ستر کلومیٹر کی دوری پر واقع ''پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ '' (PACC)عین اس وقت فائرنگ سے گونج اٹھا جب ملک بھر کی مساجد قرآن کی آیتوں اور ثنا خوانی سے گونج رہی تھیں۔ پندرہ اور سولہ اگست کی درمیانی رات جب عالم اسلام میں شب قدر کا اہتمام کیا جارہا تھا، نامعلوم دہشت گردوں نے پاکستان کے اہم ترین عسکری فضائی کمپلیکس کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا، اگرچہ وہ اپنے ناپاک منصوبے میں پوری طرح کام یاب نہ ہوسکے، تاہم عام پاکستانی کے دل میں اپنی نفرت ثبت کرگئے۔
عسکری ذرائع کے مطابق دہشت گرد بیس کے عقب میں واقع گائوں پنڈ سلمان مکھن کی جانب سے داخل ہوئے۔ ان کا اصل ہدف منہاس ایر بیس کو نقصان پہنچانا تھا، وہ وہاں موجود لڑاکا طیاروں کو تباہ کرنا چاہتے تھے۔ تاہم دہشت گرد پاک فوج کی جوابی کارروائی کے باعث صرف ایک طیارے کو جزوی طور پر نقصان پہنچاسکے۔ یہ حساس نوعیت کا فضائی نگراں طیارہ جس کا نام ''ساب2000'' ہے۔ پاک بھارت سرحد کی نگرانی کرنے پر مامور ہے اور سرحدی معلومات اکٹھا کرتا ہے۔ پاک فوج کے جوانوں کی جانب سے منہ توڑ جوابی کارروائی کے دوران تمام حملہ آور مارے گئے۔ ان حملہ آوروں نے پاک فضائیہ کی وردیاں پہنی ہوئی تھیں، جن کے اندر خودکش جیکیٹیں بھی تھیں۔ اس کے علاوہ حملہ آوروںکے پاس جدید ہتھیار تھے، جن میں راکٹ پروپلڈ گرنیڈ(RPG)بھی شامل تھے۔ حملہ آوروں نے ایربیس میں تباہی پھیلانے کے لیے ایر بیس کے کچھ حصوں میں بارودی سرنگیں بھی بچھائی تھیں۔ تاہم ان بارودی سرنگوں کو پاک فوج کے ماہرین نے ضائع کردیا۔
پاک فضائیہ کے ترجمان کے مطابق حملے کے جواب میں کارروائی کی سربراہی کرتے ہوئے ایر کموڈور محمداعظم سمیت تین جوان زخمی ہوئے، جن میں سے دو جوان سپاہی محمد آصف آپریشن کے دوران اور اگلے دن محمد اقبال زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔ حملے کے وقت ایر بیس میں چین سے تعلق رکھنے والے گیارہ انجینئرز بھی موجود تھے، جو حملے میں محفوظ رہے۔ بعدازاں تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اﷲ احسان نے ذرائع ابلاغ کے اداروں سے نامعلوم مقام سے رابط کرکے حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے حملے کو بیت اﷲ محسود اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا بدلہ قرار دیا۔
حملے کے فوری بعد ایر مارشل سید اطہر حسین بخاری کی سربراہی میں تفتیشی ٹیم تشکیل دے دی گئی، جس نے تمام حملہ آوروں کی شناخت کرلی اس دوران ایک حملہ آور فیصل شہزاد کے بینک اکائونٹ سے نو کروڑ روپے کی خطیر رقم بھی برآمد ہوئی، جس سے حملہ آوروں کے تعلقات اور مالی طور پر مستحکم ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔
شمالی پنجاب کی سرحد پر واقع ضلع اٹک کے مرکزی شہر کامرہ میں واقع یہ ایروناٹیکل کمپلیکس پاکستان کے دفاع میں ریڑھ کی ہڈی کی سی اہمیت کا حامل ہے۔ اس ادارے کا اہم ترین مقصد 1965کے بعد فرانس اور چین سے ملنے والے طیاروں کی فنی دیکھ بھال، ری اسٹرکچرنگ، اوور ہالنگ اور آلات کی تبدیلی کا کام سرانجام دینا ہے۔ اس جدید تیکنیکی سہولیات سے آراستہ کمپلیکس میں منہاس ایر بیس کے علاوہ چار ادارے یا فیکٹریاں بھی پاک فضائیہ کے لیے خدمات انجام دے رہی ہیں، جس میں F-6ری بلڈ فیکٹری، میراج ری بلڈ فیکٹری، کامرہ ایروناٹکس اینڈ ریڈار فیکٹری اور ایر کرافٹ مینو فیکچرنگ فیکٹری شامل ہیں۔ ان سہولیات کے باعث کامرہ کمپلیکس کو دنیا کا ساتواں بڑا عسکری فضائی کمپلیکس ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ میں JF-17تھنڈر، MFI-17 مشاق، MFI-395 سپر مشاق،K-8قراقرم طیارے نہ صرف تیار کیے جاتے ہیں، بل کہ پاک فضائیہ سمیت دیگر ممالک کے لڑاکا طیاروں کے لیے پارٹس بھی اسمبل کیے جاتے ہیں، جس میں امریکا کے ایف 16فائٹنگ فیلکون، فرانس کے مختلف میراج طیارے اور چین کے Chengdu Jianسیون ، Nanchang کیو 5 طیارے سمیت متعدد طیارے شامل ہیں۔ پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ کی یہی خوبیاں ہیں، جو پاک وطن کے دشمنوں کی نگاہوں میں کھٹکتی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ 2007 سے لے کر2012تک منہاس ایربیس سمیت کامرہ کمپلیکس چار مرتبہ پاکستان کے دشمنوں کے ناپاک عزائم کا نشانہ بن چکا ہے۔ دوسری جانب داد شجاعت دیتے ہوئے جان کا نذرانہ پیش کرنے والے پائلٹ آفیسر راشد منہاس نشان حیدر شہید کے یوم شہادت سے محض تین دن قبل منہاس ائیر بیس پر ہونے والا یہ حملہ خطیر رقم اور جدید آلات سے لیس سیکیوریٹی کے دعووں پر بھی سوالیہ نشان لگا چکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایر مارشل سید اطہر حسین بخاری کی سربراہی میں پانچ رکنی تحقیقاتی کمیٹی اس سلسلے میں کیا نتائج عوام کے سامنے لاتی ہے۔
٭آگ ہی آگ
کراچی کے علاقے بلدیہ ٹائون میں حب ریور روڈ پر گیارہ ستمبر کو شام پونے سات بجے اس وقت قیامت صغریٰ برپا ہوگئی، جب ایک سہ منزلہ گارمنٹ فیکٹری آگ کے شعلوں میں گھر گئی۔ دوہزار فیکٹری ورکروں پر مشتمل علی انٹرپرائز نامی اس فیکٹری میں دو شفٹوں میں کام انجام دیا جاتا تھا، جس وقت آگ نے اپنے مہیب پنجے پھیلائے، فیکٹری میں 500 محنت کش رزق حلال کمانے میں مصروف تھے۔
عینی شاہدین کے مطابق فیکٹری کا صرف ایک داخلی گیٹ تھا، جو آگ لگنے کے وقت بند تھا، جب کہ فیکٹری کے خارجی گیٹ پر بھی تالا تھا۔ دونوں راستے بند ہونے کے باعث ورکرز فوری طور پر نہ نکل سکے، بلکہ بیشتر نے گھبراہٹ میں تیسری منزل سے چھلانگیں لگا کر اپنی جان بچائی۔ تاہم فیکٹری میں موجود زیادہ تر ورکرز جن میں خواتین بھی شامل تھیں، آگ کے شعلوں میں گھر کر لقمۂ اجل بن گئے۔ کمشنر کراچی روشن علی شیخ کے مطابق اس سانحے میں289افرا د جا ں بحق ہوئے جب کہ متعدد افراد شدید بری طرح جھلس گئے۔ تاہم متاثرین کا کہنا ہے کہ ہلاکتیں اس سے زاید ہوئی ہیں۔ سانحے کے بعد صوبائی وزیر صنعت وتجارت رئوف صدیقی نے استعفیٰ دے دیا۔
دوسری طرف حکومت نے متاثرین کے لیے فی کس سات لاکھ روپے امداد کا وعدہ کیا۔ حکومت نے سانحے کی انکوائری کے لیے ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ریٹائرڈ) قربان علوی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی، جس نے بلدیہ ٹائون جیسے سانحوں سے بچنے کے لیے ایمرجینسی انتظامات، سیکیوریٹی انتظامات اور مزدوروں کے تحفظ کے قوانین بنانے کے لیے سفارشات پیش کی ہیں۔ واضح رہے کہ علی انٹرپرائز میں جرمنی سے تعلق رکھنے والی ملبوسات کی ایک کمپنی ''کک'' کی OKبرانڈ کی جینز کی پتلونیں تیار کی جاتی تھیں۔
جرمنی کے علاقے بون میں قائم یہ کمپنی علی انٹرپرائز سے اپنا 75فی صد مال تیار کرواتی تھی، جب کہ فیکٹری کے ملازمین کا کہنا ہے کہ علی انٹرپرائز میں جرمن کمپنی کا نوے فی صد مال تیار ہوتا تھا اگرچہ کمپنی نے متوفین کے لواحقین کو مجموعی طور پر تقریباً بارہ کروڑ روپے زرتلافی دینے کا وعدہ کیا ہے تاہم کمپنی کی جانب سے دی جانے والی اس رقم کو متاثرین انتہائی ناکافی قرار دے رہے ہیں۔
خصوصاً اس وقت جب کہ کمپنی کے پورے یورپ میں اسٹورز پھیلے ہوئے ہیں، جن کی مجموعی تعداد تین ہزار سے زاید ہے اور کمپنی کی سالانہ آمدنی بھی ایک ارب یورو سے بھی زاید ہے۔ فیکٹری ورکروں کے مطابق جرمن کمپنی یہ کثیر آمدن صرف اس لیے حاصل کرپاتی ہے کہ مقامی محنت کشوں سے کم اجرت پر تیار کروائے جانے والے ملبوسات بین الااقوامی مارکیٹ میں بھاری قیمتوں پر فروخت کیے جاتے ہیں۔
بظاہر اس اس حادثے کے پیچھے کم اجرت دے کر زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ہوس ہے، کیوں کہ پاکستان جیسے ممالک میں کم اجرت پر دست یاب ورکرز استحصالی قوتوں کا آسان ہدف ہوتے ہیں، جنہیں نامناسب حالات میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی ادارے بالخصوص محکمۂ محنت اور صنعتی قوانین کا اطلاق کرانے والے اداروں نے اس فیکٹری میں ان قوانین کا اطلاق کیوں نہ کرایا۔ اس سانحے کا ایک اور مگر سب سے کرب ناک پہلو یہ ہے کہ چار ماہ گزر جانے کے باوجود کئی سوختہ لاشیں ایدھی سینٹر میں اپنے پیاروں کی راہ تک رہی ہیں کہ کب DNAرپورٹ اسلام آباد سے آئے اور انہیں جائے سکون میسر ہو۔ عوام کو تو ہمیشہ کی طرح نام نہاد شفاف تحقیقات کی میٹھی گولی دے کر کسی اگلے حادثے تک حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
عین اسی دن جب کراچی کی فیکٹری میں جلنے والوں کے گھرانوں میں آہ بکا مچی ہوئی تھی، آتش زدگی کے ایک اور واقعے میں25افراد جاںبحق ہوئے تھے۔ اس الم ناک سانحے کی جائے وقوعہ لاہور کے علاقے شفیق آباد کی بند روڈ پر جوتا فیکٹری تھی، جہاں پر لوڈشیڈنگ کے دوران جنریٹر پھٹنے سے جوتا سازی میں استعمال ہونے والے سلوشن اور کیمیکل میں آگ بھڑ ک اٹھی، جس نے آناً فاناً تین منزلہ فیکٹری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور 25انسانی جانوں کا خراج وصول کیا۔ لیبر قوانین کے برعکس چلنے والی اس فیکٹری کے سانحے کی بھی تحقیقات جاری ہیں۔
٭دوا جب موت بن گئی
نومبر کے مہینے میں کھانسی کا شربت پینے سے اب تک 20افراد موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ لاہور کے علاقے شاہدرہ ٹائون میں واقع میڈیکل اسٹوروں سے خریدا گیا یہ سیرپ ہلاک شدگان بطور نشہ پیتے تھے۔ ڈاکٹروں کے مطابق کھانسی کے شربت ''ٹائنو'' میں زیادہ مقدار میں نشہ آور شے ملا کر پینے سے متاثرین کے جسم میں زہر سرایت کرگیا، جس کے باعث ان افراد کی موت واقع ہوئی۔
اس حوالے سے علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقے میں کھلے عام نشہ آور اشیاء فروخت ہورہی ہیں، جب کہ محکمۂ صحت اور ضلعی انتظامیہ نے ان جرائم سے چشم پوشی کی ہوئی ہے۔ اس واقعے کی عدالتی تحقیقات جاری ہیں۔
٭سماج کی بے حسی کا منظر پیش کرتا ایک سانحہ
کراچی کی پررونق زینب مارکیٹ اور اس کے اطراف کا علاقہ ہر وقت خرید و فروخت کرنے والوں سے بھرا رہتا ہے، لیکن 28نومبر کو ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے وہاں موجود لوگوں کی بے حسی یا مجبوری کا پول کھول دیا زینب مارکیٹ کے بالکل سامنے اسٹیٹ لائف انشورنس کی فلک بوس عمارت ہے، جس میں واقع KESCکے آفس میں 22سالہ اویس بیگ نوکری کی تلاش میں گیا تھا۔ اچانک بلڈنگ کے آٹھویں فلور پر آگ بھڑک اٹھی گھبراہٹ میں اویس بیگ نے کھڑکی کے راستے راہ فرار ڈھونڈی اور تقریباً 20منٹ تک آٹھویں منزل کی کھڑکی سے لٹکارہا کہ شاید اس دوران نیچے عام لوگ یا ریسکیو کے ادارے اسے بچا لیں گے، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور نوجوان اویس بیگ نہ جانے کتنے سپنے آنکھوں میں سجائے بلندی سے گر کر جاں بحق ہوگیا۔ یہ سانحہ اپنے پیچھے یہ سوال چھوڑ گیا کہ ایک شخصی بیس منٹ تک موت اور زندگی کی کشمکش میں رہا، جسے بچانا کچھ مشکل نہ تھا، یہ سارا منظر ٹی وی چینلوں کی اسکرینوں پر کرب کی صورت نشر ہوتا رہا، مگر ریسکیو ادارے مدد کو آئے نہ عام لوگوں نے اس نوجوان کی زندگی بچانے کی کوئی تدبیر کی، ایسا کیوں ہوا؟