جب جنرل ضیا نے جونیجو حکومت برطرف کی

محمد خان جونیجو بامروت، حوصلہ مند اور جہاں دیدہ سیاست دان تھے۔

فوٹو : فائل

(معروف کالم نگار،اصغر عبداللہ نے بہ عنوان ''مسلم لیگ سے مسلم لیگ تک''ایک کتاب مرتب کی ہے۔ اس میں سابق وزیراعظم، چودھری شجاعت حسین سے لیا گیا انٹرویو بھی شامل ہے۔ انٹرویو کا وہ حصہ پیش خدمت ہے جس میں انہوں نے محمد خان جونیجو مرحوم سے وابستہ یادیں تازہ کی ہیں۔)

محمد خان جونیجو بامروت، حوصلہ مند اور جہاں دیدہ سیاست دان تھے۔ میں ان کی کابینہ میں وزیر رہا ہوں۔ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں لیتے تھے۔ میری آج بھی یہ رائے ہے کہ اگر محمد خان جونیجو کی حکومت کو چلنے دیا جاتا تو وہ سیاسی طور پر پیپلزپارٹی کو ختم کردیتے۔ جنرل ضیاء الحق نے جلد بازی میں جونیجو حکومت ختم کردی اور اس طرح پیپلزپارٹی کو نئی زندگی دے دی۔ جونیجو صاحب کی سیاسی سوچ کا انداز ہمیں اس وقت ہوا، جب 1986ء میں بے نظیر بھٹو نے اعلان کیا کہ وہ وطن واپس آرہی ہیں۔

وزیراعظم جونیجو نے وفاقی وزیروں اور انتظامی افسروں سے پوچھا کہ کیا کرنا چاہیے؟ آپ یقین کریں کہ 99 فیصد وزیروں اور افسروں کی رائے تھی کہ بے نظیر بھٹو کو ایئرپورٹ سے باہر آنے نہ دیا جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف نے بھی کہا کہ ہم انہیں ایئرپورٹ ہی سے ''پک'' کرلیں گے۔ محمد خان جونیجو نے ناراض ہوکر کہا: ''میاں صاحب! وہ ایک پارٹی کی لیڈر ہیں اور وطن لوٹ رہی ہیں۔''یوں انہوں نے وزیروں اور افسروں کی اکثریتی رائے کو مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ بے نظیر بھٹو کو ایئرپورٹ سے بغیر کسی رکاوٹ کے مینار پاکستان آنے دیا جائے۔ وہ جلسہ کریں، خطاب کریں، حکومت رکاوٹیں پیدا نہیں کرے گی۔

میں نے بے نظیر بھٹو کا وہ جلسہ دیکھا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ سارا شہر امڈ آیا ہے۔ سڑکیں، گلیاں اور گھروں کی چھتیں، جدھر نظر اٹھتی، ہجوم ہی ہجوم نظر آتا تھا۔ پھر آپ نے دیکھا کہ بے نظیر بھٹو نے جلسہ سے خطاب کیا اور گھر چلی گئیں۔ ہجوم پُر امن طور پر منتشر ہو گیا۔ گھر پہنچنے پر انہوں نے ایک میٹنگ کی، اگلے روز دوسری، پھر تیسری اور بات ختم! محمد خان جونیجو کا اندازہ درست ثابت ہوا۔ اگر وہ حکمت سے کام نہیں لیتے تو لاہور اس روز میدان جنگ بن جاتا۔ جونیجو صاحب متحمل مزاج سیاست دان تھے۔ ان کی سوچ یہ تھی کہ سیاست کے معاملات، طاقت نہیں تدبر سے سلجھتے ہیں۔

سوال: محمد خان جونیجو اور ضیاء الحق، بظاہر دونوں ہی متحمل مزاج شخصیات تھیں۔ لیکن جلد دونوں کے معاملات ''پوائنٹ آف نوریٹرن'' پر پہنچ گئے۔ یہ امر ایک معمّہ ہے۔ آپ کی معلومات کیا ہیں؟

جواب :میرے علم کے مطابق حکومت میں شامل بعض لوگوں نے دونوں طرف غلط فہمیاں پیدا کردیں۔ محمد خان جونیجو کو جنرل ضیاء الحق سے بدظن کردیا گیا اور جنرل صاحب کے کان وزیراعظم کے خلاف بھرے گئے۔ شروع میں چھوٹی چھوٹی باتیں موضوع بحث بنیں۔ پھر دوریاں پھیلتی چلی گئیں۔ نتیجتاً ایک روز جنرل ضیاء الحق نے جیب سے قلم نکالا اور جونیجو حکومت کو چلتا کردیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ افسوس ناک حادثہ تھا۔ جونیجو حکومت گئی، سوگئی، لیکن اس اقدام سے خود جنرل ضیاالحق کی مشکلات میں بھی زبردست اضافہ ہوگیا۔

سوال:کہا جاتا ہے کہ اپریل 1988ء کے سانحہ اوجڑی کیمپ کی انکوائری رپورٹ بھی وجہ تنازع بن گئی؟

جواب :میں نہیں سمجھتا کہ صرف اوجڑی کیمپ کی انکوائری رپورٹ جونیجو حکومت کی برطرفی کا سامان بنی۔ آپ کو تعجب ہوگا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شروع میں بالکل معمولی اختلافات تھے۔ یہ سب بعد کی باتیں ہیں کہ کسی نے کہا، اوجڑی کیمپ کا حادثہ سبب بنا، کسی نے کہا کہ جنیوا معاہدے پر دستخط کرنے کی سزا ملی۔ شروع میں بڑی چھوٹی چھوٹی باتیں تھیں۔ جیسے جنرل ضیاالحق نے جونیجو صاحب کے مالی کو توسیع نہیں دی یا صدر ضیاالحق چین کے دورے پر جانے لگے تو وزیراعظم جونیجو نے قالینوں کے تحائف کی تعداد کم کردی۔ ہمراہ جانے والے صحافیوں اور فوٹو گرافروں کی تعداد بھی کم کردی۔ اس طرح کی معمولی باتیں تھیں۔

سوال:جنیوا معاہدے پر دستخط سے پہلے جونیجو صاحب نے ''آل پارٹیز کانفرنس'' طلب کی۔ اس سلسلے میں رابطوں کے لیے جو کمیٹی قائم ہوئی، آپ اس میں شامل تھے۔ بے نظیر بھٹو کو اس میں خاص طور پر مدعو کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس پر بھی جنرل ضیا الحق ناراض ہوگئے کہ اس طرح انہیں ''سنگل آوٹ'' کیا جارہا ہے؟

جواب:یہ درست ہے کہ بینظیر بھٹو کو دعوت دینے پر جنرل ضیاالحق ناخوش تھے اور انہوں نے اس کا اظہار بھی کردیا۔ مگر محمد خان جونیجو ایک سیاست دان تھے۔ کس طرح ممکن تھا کہ آل پارٹیز کانفرنس طلب کی جائے اور اس میں پیپلزپارٹی کی قیادت کو دعوت ہی نہ دی جائے؟ محترمہ اپنے طور پر نہ آتیں تو دوسری بات تھی لیکن وہ بھی آگئیں۔ میں پھر کہوں گا، میرا نہیں خیال کہ اس وجہ سے جنرل ضیاالحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کردیا۔

سوال:مطلب یہ کہ جنرل ضیاالحق اور محمد خان جونیجو میں امر متنازع کا تعین آسان نہیں؟


جواب:آپ نے ٹھیک کہا ، کئی وجوہ تھیں۔ محمد خان جونیجو کے بارے میں جنرل ضیاالحق کے ذہن میں چھوٹی چھوٹی مختلف چیزیں اکٹھی ہوگئی تھیں۔

سوال:جنرل ضیاالحق کو بعد میں احساس ہوا کہ غلطی ہوگئی ؟

جواب:میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن یہ بات ظاہر تھی کہ نقصان سب کا ہوا، مسلم لیگ کا بھی، جنرل ضیاالحق کا بھی اور ملک کا بھی۔ ایک نظام چلتے چلتے اچانک رک گیا یا روک دیا گیا۔ اس کے برے نتائج تو نکلنے تھے۔

سوال:کہا جاتا ہے کہ محمد خان جونیجو ردعمل کے آدمی نہیں تھے، اپنی برطرفی بھی پی گئے؟

جواب:آپ نے صحیح کہا۔ میں نے دیکھا کہ 29 مئی 1988ء کو ان کی حکومت چلی گئی اور وہ لان میں پُرسکون بیٹھے تھے۔ پھر وہ جنرل ضیاالحق سے ملنے بھی چلے گئے۔ وہ کسی مسئلے کو انا کا مسئلہ نہیں بناتے تھے۔ لیکن اپنی رائے پر انہیں پورا اعتماد ہوتا تھا۔

سوال:پارٹی صدر اور وزیراعظم کے طور پر آپ انہیں کس طرح دیکھتے ہیں؟

جواب:ہر انسان کی اپنی عادت ہوتی ہے۔ برداشت جونیجو صاحب کی عادت ہوگئی تھی۔ وہ ہر حالت میں اپنی عادت پر قائم نظر آتے۔

سوال:آپ نے محسوس کیا کہ وہ بنیادی طور پر کم زور آدمی ہیں؟

جواب:کم زور قطعی نہیں، بس وضع دار تھے۔ جلد مروت میں آجاتے ۔ ورنہ تو وزیراعظم بنتے ہی قومی اسمبلی میں انہوں نے دوٹوک اندازمیں کہا کہ مارشل لا اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس پر صدر ضیاالحق کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ جنیوا معاہدے پر بھی انہوں نے جو موقف اختیار کیا، اس پر نہ صرف قائم رہے بلکہ اپنا موقف منوایا۔ لیکن مروت یا وضع داری کا معاملہ آتا، تو وہ ان اقدار کو ترجیح دیتے، چاہے اس میں نقصان ہو جائے۔

سوال:30 مئی 1988ء کو مسلم لیگ پنجاب کے صدر ،میاں محمد نواز شریف نے جنرل ضیاالحق کی ہدایت پر نگران وزیراعلیٰ پنجاب کا حلف اٹھالیا۔ یہ محمد خان جونیجو کی کمزوری نہیں تو اور کیا تھا؟

جواب:میں بات دہراوں گا کہ جونیجو صاحب کی خواہش تھی کہ سسٹم چلتا رہے۔ اس مقصد کے لیے بعض اوقات وہ پارٹی اور حکومت کے اندر اپنی مرضی کے خلاف ہونے والے کاموں پر بھی خاموش ہوجاتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ ایوان صدر میں جنرل ضیاالحق موجود ہیں جن کے لوگ حکومت میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ لہٰذا کئی چیزوں کو وہ نظرانداز کردیتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ محمد خان جونیجو کے لیے مروت سے بڑا لفظ استعمال کریں تو وہ بھی ٹھیک ہو گا۔ آپ نے کہا کہ انہوں نے پارٹی ڈسپلن توڑنے پر میاں نواز شریف کو کچھ نہیںکہا، میں کہہ رہا ہوں کہ جنرل ضیاالحق نے ان کی حکومت توڑ دی تو انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ صوبائی صدرکی بغاوت کا معاملہ تو چھوٹی بات تھی۔
Load Next Story