بڑا شور سنتے تھے

کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی موضوع کے حق اور مخالفت میں بولنے والوں کے..........

سیاسی امور سمیت حالات حاضرہ پر تبصرے اور تجزیے ٹی وی ٹاک شوز میں اتنے پرلطف اور عوامی پسندیدگی کے لحاظ سے مقبول نہیں ہوتے، جتنے چائے کے ہوٹلوں اور قہوہ خانوں میں سننے کو ملتے ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز ایک تو متعلقہ چینلز کی پالیسیوں کے تابع ہوتے ہیں، دوسرے ان میں حصہ لینے والوں کی زبان چونکہ عام آدمیوں والی نہیں ہوتی اس لیے ان میں نہ تو بے ساختگی ہوتی ہے نہ وہ چاشنی اور مزہ، جو اس زبان کا خاصا ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ میں سیاست اور دیگر اہم معاملات پر گھر میں ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھ کر تبصرے اور تجزیے سننے کے بجائے کوئٹہ کے کسی پٹھان کے ہوٹل یا قہوہ خانے میں سچ مچ کے لائیو عوامی تبصرے سننے کو ترجیح دیتا ہوں۔ یہ میری بہت پرانی عادت ہے جس کے تانے بانے اس واقعے سے ملتے ہیں جب اسکول چھوڑنے کے بعد ہم دو دوست تفریح کی غرض سے حیدرآباد گئے تھے۔ ایک دن ہم اپنے استاد مولوی نبی حسن سے ملنے چلے گئے جو ہمیں عربی پڑھایا کرتے تھے۔ وہ لطیف آباد میں اپنے بیٹے کے ساتھ رہتے تھے، اصرار کرکے ہمیں گھر لے گئے، کھانا بنوا کر کھلایا اور ہمارے بستر بھی اپنے کمرے میں لگوائے کہ خوب باتیں کریں گے۔

رات کو وہ ہمیں فلم بھی دکھانے لے گئے، ٹکٹ بھی خود لیے، لیکن تھرڈ کلاس کے، جو اس زمانے میں آٹھ آنے کا ہوا کرتا تھا۔ اس کلاس میں سب سے آگے پردے کے سامنے بغیر ٹیک والی بینچیں رکھی ہوتی تھیں جن پر فلم دیکھنے کے لیے ڈھائی تین گھنٹے گردن اکڑا کر بیٹھنا پڑتا تھا۔ سینما ہال میں یہی وہ واحد کلاس ہوتی تھی جس میں بیٹھے ہوئے فلم بین ایک ٹکٹ میں دو مزے لیتے تھے یعنی فلم دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس پر برابر میں بیٹھے ہوئے دوسرے فلم بینوں سے رواں تبصرے بھی سنتے جاتے تھے، جو اس اعتماد سے تبصرے کرتے اور خامیوں کی نشاندہی کیا کرتے کہ لگتا تھا فلم کا ڈائریکٹر ان کا شاگرد رہا ہوگا۔

تب سے عام لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے اور ان کی باتیں سننے کی گویا لت پڑگئی، جو چُھوٹے نہیں چھوٹتی۔ فلمیں دیکھنے کا شوق تو خیر جوانی میں بھی کوئی خاص نہیں تھا، البتہ ایک ٹکٹ میں دو مزے لینے کا اب بھی قائل ہوں اور ایک کپ چائے کے پیسے دے کر عوامی تبصرے اور تجزیے مفت میں سنتا ہوں۔ ان میں میری دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ نہ تو کسی خاص پالیسی کے تابع ہوتے ہیں، نہ کسی ضابطہ اخلاق کے پابند۔ سب کو بولنے کی آزادی ہوتی ہے، جس کے منہ میں جو آتا ہے بلاجھجک کہہ دیتا ہے، کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔

کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی موضوع کے حق اور مخالفت میں بولنے والوں کے دو گروپ بن جاتے ہیں اور ان کی باتیں کھلے بحث مباحثے کا روپ دھار لیتی ہیں، زیر بحث مسئلے یا معاملے کے وہ پہلو بھی جاننے کو ملتے ہیں جو آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے کہ سننے کو ملیں گے۔ آپ بس چائے کی چسکیاں لیتے، سگریٹ کے کش لگاتے یا پان چباتے سنتے جائیے۔

ہاں اگر ان میں سے کسی گروپ کا کوئی مقرر اچانک داد طلب نظروں سے آپ کی طرف دیکھ لے تو اس کا دل رکھنے اور حوصلہ بڑھانے کے لیے آپ کو اثبات میں گردن ہلانا پڑتی ہے، جس کا وہ یہ مطلب لیتا ہے کہ آپ اس سے پوری طرح متفق ہیں یا کم از کم اس کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ اس دن بھی جب میں چائے پینے زر ولی کے ہوٹل پہنچا تو زوردار بحث مباحثہ جاری تھا۔ موضوع تھا سپریم کورٹ میں پاناما گیٹ کیس کی سماعت۔ ایک صاحب نے چیف جسٹس کی سربراہی میں کیس کی سماعت کرنے والے لارجر بینچ کے، سماعت نئے چیف جسٹس کے عہدہ سنبھالنے تک ملتوی کرنے کے فیصلے کو جان چھڑانے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا، اب یہ کیس اس نئے بینچ کا درد سر بنے گا جو اس کی سماعت کرے گا۔


دوسری میز پر براجمان ایک اور صاحب بولے، بھیا، جب حکومت نے نئے چیف جسٹس کا قبل از وقت اعلان کیا تو اپنا ماتھا اسی وقت ٹھنکا تھا کہ اس سے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ ترپ کا پتہ ان کے نہیں، حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ چیف صاحب نے پیغام کو سمجھنے میں دیر نہیں کی اور کوئی رسک لینے کے بجائے معاملہ آگے بڑھا دیا کہ اب جو اس کیس کا فیصلہ کریں گے انھیں اس کی ذمے داری بھی قبول کرنا پڑے گی۔ ان صاحب کی بات سن کر پہلے صاحب نے کہا اگر ایسا تھا تو انھوں (چیف جسٹس) نے دوران سماعت نیب اور ایف آئی اے وغیرہ کے خلاف وہ ریمارکس کیوں پاس کیے تھے کہ پاناما گیٹ کا معمہ حل کرنا سپریم کورٹ کا نہیں بلکہ ان اداروں کا کام تھا مگر انھوں نے کچھ نہیں کیا، نکمے نکلے۔

یہ سفید ہاتھی سرکاری خزانے پر بوجھ ہیں، جن کے ہونے کا کو ئی جواز نہیں وغیرہ۔ موصوف نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا اگر میں وکیل ہوتا اور مدعیان میں سے کسی کی نمایندگی کر رہا ہوتا تو بصد احترام چیف صاحب سے پوچھتا کہ جناب نیب اور ایف آئی اے کے متعلق آپ کا فرمانا بجا، لیکن آپ نے کیا کیا؟ وہ دونوں تو سرکاری ادارے ہیں اور ان پر حکومت کا دباؤ ہونا بھی سمجھ میں آتا ہے جس کی وجہ سے وہ بقول آپ کے اپنا فرض پورا نہ کرسکے، لیکن آپ تو حکومت کے ماتحت اور دباؤ میں نہ تھے، پھر آپ نے ایسا کیوں کیا اور کیوں رزلٹ نہ دے سکے؟ انھوں نے حسب حال حیدر علی آتش کا وہ مشہور شعر بھی سنایا۔

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا

ان دونوں کے عقب میں دو میزیں چھوڑ کر بیٹھے ہوئے تیسرے صاحب سے بھی نہ رہا گیا اور یہ کہتے ہوئے بحث میں کود پڑے کہ زیادہ جوش میں آنے کی ضرورت نہیں، اچھا ہے تم وکیل نہ ہوئے ورنہ لائسنس ہی معطل کروا بیٹھتے۔ تم کیا پوچھو گے چیف جسٹس سے، انھوں نے تو پاناما گیٹ کیس کی سماعت جنوری 2017ء تک ملتوی کرنے کے بعد بھی اپنی پہلے کہی ہوئی بات پھر دہرائی ہے کہ اگر ادارے اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام رہیں تو عدلیہ کو مداخلت کرنے کا اختیار ہے۔ اگر انھیں پاناما گیٹ کیس کا فیصلہ کرنے میں اپنی ناکامی کا ذرا بھی احساس ہوتا تو کیا ایسی بات کر سکتے تھے؟

ان ہی کے ساتھ بیٹھے ہوئے چوتھے صاحب بولے انھوں نے یہ کب کہا، میں نے تو اخبار میں ایسی کوئی خبر چیف جسٹس کے حوالے سے نہیں پڑھی؟ جواب ملا آپ جو اخبار پڑھتے ہیں اس میں ہوسکتا ہے ایسی چھوٹی موٹی خبریں نہ لگتی ہوں، دوسرے تمام اخبارات نے تو ان کی تقریر نمایاں طور پر شایع کی ہے، جو انھوں نے ایوان اقبال میں لاہور ہائی کورٹ کے قیام کی 150 ویں سالگرہ کی تقریب میں کی تھی۔ جہاں تک دباؤ والی بات کا تعلق ہے تو آپ لوگ پاناما گیٹ کیس کی قسمت کا فیصلہ سپریم کورٹ کے نئے بینچ کو سونپتے وقت کہے ہوئے چیف جسٹس کے وہ تاریخی الفاظ کیوں بھلا بیٹھے ہیں کہ ہر ایک پر واضح ہونا چاہیے کہ ہم کسی کے دباؤ میں آنے والے نہیں اور کمیشن بنانا ہماری صوابدید ہے۔

زر ولی کے ہوٹل میں جاری یہ عوامی مباحثہ دلچسپ مرحلے میں داخل ہو رہا تھا لیکن مجھے چونکہ اپنے پوتے کو اسکول سے لینے بھی جانا تھا، اس لیے انھیں بحث کرتا چھوڑ کر اٹھ گیا اور یہ نہ جان سکا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھا۔
Load Next Story