روسی سوشلسٹ انقلاب

یہ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کسی ریاستی کوششوں، کسی جماعت کی جدوجہد یا کسی ادارے کے..........

zb0322-2284142@gmail.com

ویسے تو سماج کی تاریخ انقلابات سے بھری پڑی ہے، بلکہ یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ سماج کی تاریخ ہی انقلابی تاریخ ہے۔ معلوم تاریخ کے دور جدید میں معروف انقلاب 1789کا انقلاب فرانس، جہاں لوئس دہم کی بادشاہت کا خاتمہ کرکے مساوات قائم کی گئی تھی، برسوں ریاست خلا میں معلق رہی۔ عوام خودکار انجمنوں کے ذریعے اپنے روزمرہ کے معمولات چلا رہے تھے۔

پھر 1871کا پیرس کمیون ہے، جہاں انارکسٹوں نے دو سو رکنی اسمبلی تشکیل دی اور مقامی بنیادوں پر کمیون کے ذریعے سماجی سرگرمیاں کیں۔ 70 دن کی حکمرانی میں کوئی بھوکا مرا، کوئی قتل ہوا، کہیں ڈاکا پڑا، چوری ہوئی، بیروزگاری رہی، عصمت فروشی ہوئی، بے علاجی رہی اور نہ کوئی اغوا ہوا۔ یعنی مزدور طبقہ اور پیداواری قوتوں نے یہ کرکے دکھا دیا کہ وہ نسل انسانی کے سماج کو برابری کی بنیاد پر قائم کرسکتے ہیں اور طبقات کا خاتمہ کرکے امداد باہمی کا معاشرہ بخوبی چل سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بورژوازی (سرمایہ دار) نے سازش کر کے اس مزدور طبقے کی حکومت کو خون میں نہلا دیا۔

اس کے بعد 1886 میں امریکا کے صنعتی شہر شکاگو کے مزدوروں نے عظیم جدوجہدکی، بے شمار مزدور گولیوں کا نشانہ بنے، 6 مزدور رہنماؤں کو نو ماہ بعد پھانسی دے دی گئی۔ چھ میں سے دو امریکا، دو جرمنی، ایک آئرلینڈ اور ایک انگلینڈ کا تھا۔ یہ سب کے سب مزدور رہنما کسی جماعت کے تھے اور نہ کسی تنظیم کے عہدے پر فائز تھے، مگر تھے سب انارکسٹ۔ ان کی عظیم قربانی سے آج ساری دنیا کے محنت کشوں، پیداواری قوتوں اور شہریوں کے لیے آئینی طور پر آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی مقرر ہوئی۔

یہ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کسی ریاستی کوششوں، کسی جماعت کی جدوجہد یا کسی ادارے کے بدولت حاصل نہیں ہوئی بلکہ محنت کش طبقے کی عالمی یکجہتی کی وجہ سے ہوئی۔ مگر روسی سوشلسٹ انقلاب اس لیے مشہور و معروف ہوا کہ اس انقلاب کے بعد دنیا میں کچھ بے مثال کارنامے انجام پائے۔ انقلاب کے بعد جن 113 ملکوں میں رائج نو آبادیاتی نظام قائم تھا، اس نوآبادیاتی غلامی سے آزادی حاصل کی۔ انقلاب روس کے بعد دنیا کی نو آبادیات میں سامراج مخالف تحریک چلانے کی مشعل راہ اور حوصلے ملے۔ اس نوآبادیاتی غلامی سے آزادی حاصل کرنے والے ممالک میں ہندوستان، جنوبی افریقہ، انڈونیشیا، ملائشیا، ایران، عراق، مصر، نائیجیریا، برازیل، ارجنٹاین، چین اور ویتنام سب ہی شامل ہیں۔

سوشلسٹ روس نے نو آبادیاتی غلامی کے خلاف مالی، اخلاقی، سیاسی، عسکری، تربیتی اور بعض ملکوں کو نفری آزادی دلوانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ انقلاب روس سے قبل دنیا میں کہیں بھی خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ 1917کے روسی سوشلسٹ انقلاب کے بعد 1918میں جرمنی، 1919 میں امریکا، 1929میں برطانیہ اور 1971 میں سوئٹزرلینڈ سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ یہ الگ بات ہے کہ چند عرب بادشاہتوں، پاکستان کے علاقے فاٹا اور بعض پختونخوا کے علاقوں میں ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ہے۔


یہ وہاں کے حکمرانوں کا موقف ہے کہ اسلام میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ہے۔ بہرحال جب ایشیائے کوچک، کوہ قاف اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں 1920سے 1935تک سوشلسٹ انقلابات برپا ہوتے رہے اور وہ سوویت یونین کا حصہ بنتے گئے، وہاں خواتین کو بھی حق نمایندگی ملتا رہا۔ مسلم ریاستوں میں انقلاب سے پہلے ہزار میں صرف دو خواتین پڑھی لکھی تھیں، جب کہ انقلاب کے بعد سو میں ساٹھ ڈاکٹرز خواتین تھیں اور سو میں پچاس انجینئرز خواتین تھیں اور اب بھی کچھ کمی کے ساتھ اتنی ہی ہیں۔ ان مسلم ریاستوں میں 97 سے 98 فیصد لوگ خواندہ ہیں۔

انقلاب کے بعد یہاں تعلیم اور صحت مکمل مفت تھیں، جب کہ ٹرانسپورٹ اور رہائش تقریباً مفت تھیں۔ خوراک اور ادویات بہت سستی تھیں۔ پانی، توانائی مفت تھیں۔ کوئلہ، لوہا، تیل، کیمیا اور چینی کی پیداوار دنیا میں سب سے زیادہ تھیں۔ کوئی شخص بیروزگار تھا اور نہ گداگر۔ سرمایہ داری، جاگیرداری، قبائلی اور بیرونی عالمی مالیاتی اداروں کی لوٹ کے دروازے بند تھے۔

دنیا میں سب سے زیادہ سائنسدان روس میں تحقیق میں رات و دن مصروف عمل تھے۔ دنیا کی سب سے بڑی لائبریری روس میں تھی۔ لوممبا یونیورسٹی کے ہاسٹل میں 17 ہزار طلبا رہائش پذیر تھے۔ خلائی تحقیق میں سب سے آگے روس تھا۔ ادبی شعبے میں دنیا کا سب سے زیادہ مقبول ہونے اور ترجمہ ہونے والا ناول میکسم گورکی کا ماں ''دی مدر'' ہے۔ فلمی شعبے میں دنیا کا سب سے ذہین اور معروف ڈائریکٹر گریگوری تھے، اولمپک گیمز میں ہر سال روس ہی تمغوں میں آگے تھا۔ ریلوے کا نظام دنیا میں سب سے بہتر اور تیز رفتار روس کا تھا۔ دنیا کے عوام سب سے زیادہ روسی ہوائی جہاز سے سفر کرتے تھے، اس لیے کہ وہ سستا اور سہولت سب سے زیادہ تھی۔ ہاں مگر آج سوویت یونین کے انہدام کے بعد صورتحال اس کے برعکس ہوچکی ہے۔ ازبکستان، پولینڈ اور یوکرین سمیت کئی ریاستیں امریکی سامراج کا فوجی اڈہ بن چکی ہیں۔ دنیا کی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں روسی کمپنیاں بھی شامل ہوگئی ہیں۔ انقلاب کے بعد روس کے عوام کی اوسط عمر جرمنی اور امریکا کے برابر تھی اور اب پاکستان سے کچھ ہی بہتر ہے۔ اب بیروزگاری اور مہنگائی عروج پر ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا کے عوام طبقاتی استحصال کے خلاف لڑائی سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ کل جو فلپائن امریکا کا آلہ کار تھا، وہاں امریکی فوجی اڈہ تھا، آج وہاں کا صدر کہتا ہے کہ ہر امریکی سفیر سی آئی اے کا جاسوس ہوتا ہے۔ کیوبا، بولیویا، ایکواڈور، وینزویلا، ویتنام، کمبوڈیا، لاؤس، زمبابوے، منگولیا اور نیپال اپنے آپ کو سوشلسٹ ممالک گردانتے ہیں۔

بھارت، چین، افریقہ، یورپ، امریکا اور لاطینی امریکا سمیت ساری دنیا کے محنت کش عوام اپنے حقوق کے لیے دن و رات قربانیوں کے ساتھ جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ہندوستان، پاکستان، برازیل، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ، فرانس، جنوبی افریقہ سمیت ہر جگہ محنت کش ہڑتال کررہے ہیں۔ پاکستان میں گوادر (بلوچستان) کے ماہی گیر، کراچی کے سینیٹری ملازمین سامراج کی لوٹ کی وجہ سے مچھیروں اور خاکروبوں کی بے روزگاری کے خلاف زبردست احتجاج کررہے ہیں۔

پوری دنیا انقلاب کے دہانے پہ کھڑی ہے، مگر اس بار سوشلسٹ انقلاب آنے کے بعد رکے گا اور نہ منجمد ہوگا، بلکہ انقلاب کے فوراً بعد اپنی منزل مقصود کمیونسٹ معاشرے یعنی پنچایتی یا امداد باہمی یا خودکار مقامی حکومتوں کی جانب پیش قدمی کرے گا۔ وہ دن جلد آنے والا ہے، جب دنیا بھر میں طبقات، جائیداد، ملکیت، سرحدیں، سرمایہ داری، جاگیرداری، خاندان، ریاستی جبر اور سرحدوں کے محافظ ناپید ہوجائیں گے، سارے لوگ مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔ کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ ایک ایسا سماج تشکیل پائے گا، جس کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ان میں ترمیم و ترقی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام اس وقت کے حالات کے تحت خود کرتے رہیں گے۔ فطری نظام کو ریڈی میڈ من مانے نظام کے سانچے میں ڈھالا نہیں جا سکتا۔
Load Next Story