دین میں عدل کا تصور

اسلام ہمیں عدل میں ڈنڈی مارنے کے ڈراؤنے نتائج سے بڑی وضاحت کے ساتھ آگاہ کرتا ہے

اسلام ہمیں عدل میں ڈنڈی مارنے کے ڈراؤنے نتائج سے بڑی وضاحت کے ساتھ آگاہ کرتا ہے: فوٹو : فائل

یوں تو خیر تمام اہل کتاب کو ترازو کے پلڑے برابر رکھنے اور اس میں ذرہ بھر بھی اونچ نیچ سے گریز کی ہدایت کی گئی ہے لیکن اللہ کی آخری کتاب میں اس معاملے کو بڑی باریکی اور جامعیت کے ساتھ پیش کیا گیا اور اس کی بار بار تاکید بھی کی گئی۔

اسلام ہمیں عدل میں ڈنڈی مارنے کے ڈراؤنے نتائج سے بڑی وضاحت کے ساتھ آگاہ کرتا ہے۔ قرآن نے انصاف اور عدل کی اہمیت بیان کرتے ہوئے یہاں تک کہا ہے کہ انبیاء علیہ الصّلاۃ والسلام کو بھیجنے کا مقصد ہی عدل قائم کرنا ہے۔ سورۂ حدید میں بڑے واضح اسلوب میں فرمایا ''ہم نے یقیناً اپنے پیغمبروں کو بین اور روشن معجزے دے کر بھیجا اور ساتھ ہی کتاب اور عدل کا ترازو اتارا تاکہ لوگ انصاف پر رہیں۔'' ختم المرسلینﷺ کو بھیجنے کا مقصد بھی کتابِ مبین میں واضح کیا گیا ہے۔ سورۃٔ اعراف میں فرمایا ''تو کہ! میرے ربّ نے انصاف کا حکم دیا ہے۔''

ترازو، توازن کی علامت ہے، مقصد یہ کہ معاشرہ بالا دست اور زیردست طبقوں میں بٹنے نہ پائے اور اگر پہلے سے بٹا ہوا ہے تو دین کا مقصد یہ ہے کہ اسے توازن پر لایا جائے۔ انبیاء اسی لیے بھیجے جاتے رہے۔

ان کی بعثت کا مقصد طبقوں میں بٹے ہوئے انسانوں کو دنیوی اور باطنی دونوں طرح سے ایک سطح پر لانا اور اس سطح کو برقرار رکھنے کے لیے ان قوانین اور اصولوں کو لاگو کرنا، جن کی ہدایت انہیں اللہ سے ملتی تھی۔ ترازو کے پلڑے برابر رکھنے کی ذمہ داری چونکہ حاکم پر زیادہ پڑتی ہے، اس لیے اسے متنبہ کرنے کے لیے سورۂ نساء میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ''اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لیے گواہی دینے والے ہو جاؤ، خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مال دار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ عدل سے ہٹ جاؤ، اور اگر تم (گواہی میں) پیچ دار بات کرو گے یا (حق سے) پہلو تہی کرو گے، تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے، جو تم کر رہے ہو، خبردار ہے''۔


ایک لفظ عدل ہے اور ایک انصاف۔ اردو زبان میں ان دونوں الفاظ کو ایک ہی معنی میں لیا جاتا ہے تاہم عربی میں ان کے الگ الگ مادے ہیں۔ انصاف، نصف سے ہے۔ یعنی کوئی مسئلہ اگر دو افراد کے مابین ہو، تو اسے دو نصفوں پر تقسیم کر کے حل نکالا جائے گا اور اگر دو سے زیادہ کا معاملہ ہو تو پھر یہ انصاف سے حل نہیں ہوگا بل کہ ایسے معاملے کو مساوات سے حل کیا جائے گا، جس کا طریقہ برابر تقسیم کرنا ہے یا سب چیزوں یا افراد کو باہم برابر لینا ہے۔ ہم رسول اللہ ﷺ کا طریقۂ کار دیکھیں تو ہمیں عدل کے بہت سے واقعات دکھائی دیتے ہیں۔

اس کی ایک بین مثال تو وہ معروف واقعہ ہے کہ جب ایک قریشی خاتون چوری کی مرتکب ہوئی۔ قریش، عرب قبائل میں اپنی ایک اہمیت اور خاص اعزاز کا حامل قبیلہ تھا، ان کے کسی فرد اور خاص طور پر ایک عورت کا، چوری میں پکڑا جانا بڑی سبکی کا باعث تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح معاملہ رفع دفع ہو جائے۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ ایک ایسی شخصیت تھے، جو نبیٔ اکرمﷺ سے بہت قربت رکھتے تھے۔

اِن لوگوں نے ان کے ذریعے کچھ سلسلہ کرنے کی کوشش کی تاہم یہ بات جب آنحضورﷺ کے سامنے لائی گئی تو آپﷺ کے رخِ اقدس پر ناگواری ظاہر ہوئی، قدرے درشتی سے انکار کردیا اور جو فرمایا اس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ بنی اسرائیل اسی لیے تباہ ہوئے کہ وہ غرباء اور امراء کے مابین امتیاز کرتے تھے، عام لوگوں پر حد جاری کرتے اور خواص کے جرائم پر چشم پوشی کرتے۔ فرمایا واللہ! میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کا ارتکاب کرتی تو میں اس پر بھی حد جاری کرتا(مسلم)۔ لاریب! جہاں کہیں آپﷺ نے کسی معاملہ میں سمجھا کہ آپﷺ کا مواخذہ ہونا چاہیے تو آپﷺ نے بلاتردد خود کو پیش کیا تاکہ یہ تاثر پیدا نہ ہو کہ اللہ کے نبی کے لیے قانون کچھ اور ہے اور اللہ کے عام بندوں کے لیے کچھ اور۔ وما علینا الالبلاغ المبین۔

 
Load Next Story