عاشق کیرانوی نے تنِ تنہا کئی اداروں کے برابر ادبی کام کیا

پیر زادہ عاشق کی طویل غزل کی کتاب کی تقریب رونمائی سے صبا اکرام اوردیگر کا خطاب۔

پیر زادہ عاشق کی طویل غزل کی کتاب کی تقریب رونمائی سے صبا اکرام اوردیگر کا خطاب

معروف شاعرپیرزادہ عاشق کیرانوی کی30ہزا ر منفرد اشعار پر مشتمل دنیا کی سب سے بڑی غزل کی کتاب کی تقریب رونمائی گذشتہ روز پریس کلب میں ہوئی۔

دنیا کی شعری و ادبی تاریخ کی طویل ترین غزل بعنوان ''ایک غزل '' ''گھٹا برسے تو صحرا بولتا ہے'' حال ہی میں شائع ہوکر منظر عام پر آگئی ہے جو کہ اپنی نوعیت کا ایک عالمی ریکارڈ ہے، تقریب کی صدارت بزرگ شاعر صبا اکرام نے کی ،اس موقع پر معروف ادیبوں اورشاعروں نے اظہارِخیال کیا جن میںصبا اکرام، اکرام الحق شوق،،ڈاکٹر جاوید منظر، شرفِ عالم اور زیب النسا زیبی کے نام قابل ذکر ہیں،شرفِ عالم نے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں اردو ادب کے فروغ کیلیے وقف ادارے بشمول مقتدرہ قومی زبان،مجلسِ ترقی اردو ادب اور اکادمی ادبیات اسلام آباد مل کر بھی اتنا کام نہ ادا کرپائے جتنا پیر زادہ عاشق کیرانوی نے تنِ تنہا انجام دے دیا ہے۔




لاکھوں اشعار کے خالق پیر زادہ عاشق کیرانوی نہ صرف پاک و ہند بلکہ عالمی سطح پر گنوائے جانے کے قابل ہیں مگر حکومتی سطح پر عدم توجہی کے سبب عاشق کیرانوی جیسی بلند پایہ ادبی شخصیت محض اِک شاعرِگُمنام بن کررہ گئی ہے،انھوں نے گورنر سندھ سے اپیل کی کہ پیر زادہ عاشق کیرانوی کی شعری خدمات کو حکومتی سطح پر سراہا جائے ،صبا اکرام نے کہا کہ عاشق کیرانوی کی ایک غزل بلاشبہ ایک بہت بڑی کاوش ہے اور اس کو جتنی پذیرائی ملے کم ہے،صاحب ِتخلیق عاشق کیرانوی نے کہا کہ ایک غزل کا 30ہزار اشعار تک پہنچ جانا ایک غیر ارادی عمل ہے،اتنی بڑی غزل لکھنے کا سوچا بھی نہیں تھا،بس انگلیاں لکھتی چلی گئیں،ڈاکٹر جاوید منظر نے کہا کہ عاشق کیرانوی انتہائی قادرالکلام شاعر ہیں،پروفیسر منظر ایوبی نے کہا کہ میں تو اس دن سے سکتے کی حالت میں ہوں جس دن یہ ایک غزل میرے ہاتھ میں آئی تھی۔
Load Next Story