کرپشن کا ناسور
کرپشن ایک ایسا عفریت ہے جو کسی ریاست کے نظم حکمرانی اور معاشرتی ڈھانچے کو تہہ وبالا کرنے کا باعث بنتی ہے
کرپشن ایک ایسا عفریت ہے جو کسی ریاست کے نظم حکمرانی اور معاشرتی ڈھانچے کو تہہ وبالا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ لیکن یہ جنم بری حکمرانی کے بطن سے لیتی ہے۔ کرپشن مختلف شکلوں اور انداز سے معاشرے کو چاٹتی اور برباد کرتی ہے۔ مالیاتی بدعنوانیاں اس کا صرف ایک رخ ہیں۔ اس کے سوا بھی کئی شکلیں ہیں، یعنی میرٹ سے انحراف، اقربا پروری کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے اور سماجی انصاف کا قتل کرتا ہے۔
اخلاقی کرپشن سماجی بے راہروی کوجنم دیتی ہے جس کے نتیجے میں سماج بے سمت و بے مہار ہوجاتا ہے جب کہ مالیاتی کرپشن ان سب سے زیادہ خطرناک بدعنوانی ہے، جو ریاست کی معیشت، انتظامی و سماجی ڈھانچے سبھی کو اندر سے کھوکھلا کر کے رکھ دیتی ہے۔اس لیے محب وطن متوشش شہریوں کی یہ اولین ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ کرپشن کے عفریت سے ملک کو نجات دلانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
بابائے قوم نے دستور ساز اسمبلی میں اپنے اولین کلیدی خطاب میں قانون سازوں کو جہاں نظم حکمرانی کے اہداف اور اصول و ضوابط سمجھانے کی کوشش کی، وہیں کرپشن اور بدعنوانیوں کی خرابیوں اور اس کے منفی اثرات کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بھی مکمل آگہی دی مگر جس طرح ہماری حکمران اشرافیہ نے ان کی تقریر کے دیگر مندرجات کو فراموش کردیا، وہیں کرپشن کے بارے میں ان کی ہدایات کو بھی طاق نسیاں کردیا بلکہ ان کی آنکھ بند ہوتے ہی ہر وہ کام کیا جس کی انھوں نے مخالفت کی تھی۔ یعنی قرارداد مقاصد کے ذریعہ ریاست کے منطقی جواز کو تھیوکریسی کا لبادہ پہنا دیا۔ بدانتظامی اور اقرباپروری کے ذریعہ کرپشن کو نظم حکمرانی کا جزو لاینفک بنادیا۔جس سے جان چھڑانا آج ایک مشکل ترین مرحلہ بن گیا ہے۔
آج کل پورے ملک میں پاناما لیکس کا چرچا ہے جو کرپشن کاایک بہت بڑا اسکینڈل ہے چونکہ مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے، اسلیے اس مخصوص معاملہ پر تبصرہ مناسب نہیں۔ لیکن اس سے جڑے یا اس کی بنیاد بننے والے واقعات اور انکشافات پر گفتگو عدالتی کارروائی میں معاونت کا باعث بن سکتی ہے، اس لیے اس پر گفتگو ممکن ہے۔ ہم میں سے ہر شخص اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ پاناما لیکس ایک ایسا معاملہ ہے، جو منی لانڈرنگ سے جڑا ہوا ہے۔ منی لانڈرنگ دولت کی غیر قانونی منتقلی ہوتی ہے۔
یہ جرم مختلف محکموں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔اس جرم میں چونکہ صاحب ثروت اور بااثر شخصیات ملوث ہوتی ہیں، اس لیے ایسے سائنٹیفک طریقے دریافت کرلیے گئے ہیں جو انتہائی حیران کن بھی ہیں۔گویا ہینگ لگے نہ پھٹکری، رنگ آئے چوکھا کے مصداق یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ آج تک جاری ہے۔ جس کی واضح مثال ماڈل ایان علی کا کیس ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو کھیل بیسویں صدی میں شروع ہوا، وہ اکیسویں صدی میں زیادہ شدومد اور بڑے پیمانے پر کھیلا جا رہا ہے۔ یوں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کس قدر سرمایہ بیرون ملک منتقل ہوچکا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے۔
چند روز قبل ایک ایسے بینکر سے ملاقات ہوئی، جو دو برس قبل ریٹائر ہونے کے بعد امریکا منتقل ہو چکے ہیں۔ حالیہ دورے کے دوران ایک ملاقات میں انھوں نے منی لانڈرنگ کے حوالے سے انتہائی چشم کشا انکشافات کیے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ایک نجی بینک کے بوتھ میں 1992سے 1996 تک چار برس تعینات رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس زمانے میں ایک امریکی ڈالر33روپے کا ہواکرتا تھا جب کہ اسٹیٹ بینک کی طرف سے بیرون ملک 2ہزار ڈالرسے زائد رقم لے جانے پر پابندی عائد تھی۔ اس پابندی کا توڑ یہ نکالا گیا کہ ایک لاکھ ڈالر کیلیے 20،20ہزار کے پچاسOpen Travellers Cheques بناکر ایک اہم سیاسی وکاروباری شخصیت کو دیدیے جاتے تھے۔
اس کام کے عوض اس متعلقہ شخصیت کو 2لاکھ روپے زائد ادا کرنا پڑتے تھے۔ یعنی ہر ایک لاکھ ڈالر کیلیے 33لاکھ روپوں کے بجائے 35لاکھ۔ 2لاکھ کی زائد رقم دراصل وہ رشوت ہوتی تھی جو متعلقہ بینک، امیگریشن اور کسٹم حکام کے علاوہ PIA کے ذمے داروں میں تقسیم ہوا کرتی تھی تاکہ اس کھیل کا بھید نہ کھلنے پائے۔ اس مقصد کیلیے بیرون ملک جانے والے چند مسافروں کے پاسپورٹ نمبر لے کر ان کے نام پرReturn بھردیے جاتے تھے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جن مسافروں کے نام پر Return بھرے جاتے تھے، ان کے فرشتوں کے علم میں بھی نہیں ہوتا کہ اس کے نام پر2ہزار ڈالر کے Travellers Chequesجاری کیے گئے ہیں۔
ہمارے ذریعہ(Source)کا کہنا ہے کہ صرف ان کے بینک کی بوتھ سے روزانہ 10 سے 12اس قسم کے کیس ہواکرتے تھے۔ دیگر بینکوں کے بوتھوں سے رقم کی منتقلی اس کے سوا تھی۔ یہ کھیل صرف کراچی ائیر پورٹ پر نہیں کھیلا جا رہا تھا بلکہ لاہور اور اسلام آباد ائیر پورٹ سے بھی یہ سلسلہ جاری تھا۔ اس طرح یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کس قدر رقم روزانہ بیرون ملک منتقل ہوتی رہی، بلکہ اب تک ہورہی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ صرف ایک طریقہ ہے، جس کی نشاندہی ایک بینکر نے کی ہے۔ ایسے لاتعداد دیگر طریقے بھی ہوں گے، جن کے ذریعہ سے رقم باہر منتقل ہورہی ہوگی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو لوگ رقم کی منتقلی کیلیے آتے تھے ان میں بعض انتہائی معروف سیاسی و تجارتی شخصیات ہوا کرتی تھیں۔ جنھیں وہ بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ مگر نام بتانے سے گریز کیا۔
اس میں شک نہیں کہ منی لانڈرنگ ایک ایسا جرم ہے، جو ملک کی معیشت کو کھوکھلا کرنے کا باعث ہے۔ مگر اس صورتحال کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے،جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔سوال یہ ہے کہ لوگ اپنا سرمایہ اور کاروبار بیرون ملک منتقل کرنے پر کیوں مجبورہوتے ہیں؟
اس سلسلے میں معاشی و سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عمل کے پس پشت صرف ہوسِ زر ہی اکیلا سبب نہیں ہے۔ بلکہ دیگر کئی حقیقی(Genuine) اسباب بھی ہیں، جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔خاص طور پر پاکستان کا غیر مستحکم سیاسی نظام، فرسودہ اور ناکارہ انتظامی ڈھانچہ (جوکرپشن اور بدعنوانیوں کو روکنے کی استعداد سے محروم ہے) اورکاروبار کے فروغ کیلیے درکار جدید انفرااسٹرکچر کی عدم دستیابی وہ عوامل ہیں، جوکاروباری حلقوں کو اپنا سرمایہ، کاروبار اور صنعتیں بیرون ملک منتقل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اب جہاں تک سیاستدانوں کا معاملہ ہے، توان کے ساتھ ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف تک ہر فوجی آمر نے معاندانہ رویہ اختیار کیا جس کی وجہ سے سیاست اور سیاستدانوں کی بے توقیری اور کردار کشی(character assassination) کی نئی داستانیں رقم ہوئیں۔ایوب خان نے سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ ان کے رہنماؤں کی خرید و فروخت کا جو کھیل شروع کیا تھا،اسے جنرل ضیا نے بام عروج پر پہنچایا۔
یہ صورتحال انھیں مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے اثاثے Stake بیرون ملک منتقل کردیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جنرل ایوب اور جنرل ضیا کے اقتدار میں آنے سے پہلے نہ سیاست میں موروثیت اس اندازمیں موجود تھی اور نہ ہی سیاستدان اپنے Stake بیرون ملک منتقل کرنے پر توجہ دیتے تھے۔ اس کی واضح مثال سابق صدر اسکندر مرزا ہیں، جو سبکدوشی کے بعد سے آخری سانس تک لندن کے ایک ہوٹل میں منیجری کر کے اپنی روزی کماتے رہے۔
ایک ایسے انتظامی ڈھانچے میں جہاںشفافیت پر مبنی اچھی حکمرانی کا تصور مفقود ہوچکا ہو، ہر قسم کی سیاسی، سماجی ، انتظامی اور مالیاتی خرابیوں کا جنم لینا کوئی اچنبھے کی بات نہیںہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعلقہ ریاستی ادارے اپنی نااہلی، خودغرضی اور ناقص کارکردگی کے باعث کرپشن اور بدعنوانی کو فروغ دینے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ لہٰذا اسمگلنگ، سرمائے کی ناجائز طریقے سے بیرون ملک منتقلی اور ٹیکس چوری جیسے ان گنت قبیح جرائم روز کا معمول بن چکے ہیں۔ یہ طے ہے کہ جب تک حکمران اشرافیہ انیسویں صدی کے جرمن حکمران بسمارک کی طرح اپنا طرز عمل از خود تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہوجاتی، وطن عزیز میں کرپشن اور بدعنوانیوں کا ناسور یونہی رستا رہے گا۔
اخلاقی کرپشن سماجی بے راہروی کوجنم دیتی ہے جس کے نتیجے میں سماج بے سمت و بے مہار ہوجاتا ہے جب کہ مالیاتی کرپشن ان سب سے زیادہ خطرناک بدعنوانی ہے، جو ریاست کی معیشت، انتظامی و سماجی ڈھانچے سبھی کو اندر سے کھوکھلا کر کے رکھ دیتی ہے۔اس لیے محب وطن متوشش شہریوں کی یہ اولین ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ کرپشن کے عفریت سے ملک کو نجات دلانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
بابائے قوم نے دستور ساز اسمبلی میں اپنے اولین کلیدی خطاب میں قانون سازوں کو جہاں نظم حکمرانی کے اہداف اور اصول و ضوابط سمجھانے کی کوشش کی، وہیں کرپشن اور بدعنوانیوں کی خرابیوں اور اس کے منفی اثرات کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بھی مکمل آگہی دی مگر جس طرح ہماری حکمران اشرافیہ نے ان کی تقریر کے دیگر مندرجات کو فراموش کردیا، وہیں کرپشن کے بارے میں ان کی ہدایات کو بھی طاق نسیاں کردیا بلکہ ان کی آنکھ بند ہوتے ہی ہر وہ کام کیا جس کی انھوں نے مخالفت کی تھی۔ یعنی قرارداد مقاصد کے ذریعہ ریاست کے منطقی جواز کو تھیوکریسی کا لبادہ پہنا دیا۔ بدانتظامی اور اقرباپروری کے ذریعہ کرپشن کو نظم حکمرانی کا جزو لاینفک بنادیا۔جس سے جان چھڑانا آج ایک مشکل ترین مرحلہ بن گیا ہے۔
آج کل پورے ملک میں پاناما لیکس کا چرچا ہے جو کرپشن کاایک بہت بڑا اسکینڈل ہے چونکہ مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے، اسلیے اس مخصوص معاملہ پر تبصرہ مناسب نہیں۔ لیکن اس سے جڑے یا اس کی بنیاد بننے والے واقعات اور انکشافات پر گفتگو عدالتی کارروائی میں معاونت کا باعث بن سکتی ہے، اس لیے اس پر گفتگو ممکن ہے۔ ہم میں سے ہر شخص اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ پاناما لیکس ایک ایسا معاملہ ہے، جو منی لانڈرنگ سے جڑا ہوا ہے۔ منی لانڈرنگ دولت کی غیر قانونی منتقلی ہوتی ہے۔
یہ جرم مختلف محکموں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔اس جرم میں چونکہ صاحب ثروت اور بااثر شخصیات ملوث ہوتی ہیں، اس لیے ایسے سائنٹیفک طریقے دریافت کرلیے گئے ہیں جو انتہائی حیران کن بھی ہیں۔گویا ہینگ لگے نہ پھٹکری، رنگ آئے چوکھا کے مصداق یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ آج تک جاری ہے۔ جس کی واضح مثال ماڈل ایان علی کا کیس ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو کھیل بیسویں صدی میں شروع ہوا، وہ اکیسویں صدی میں زیادہ شدومد اور بڑے پیمانے پر کھیلا جا رہا ہے۔ یوں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کس قدر سرمایہ بیرون ملک منتقل ہوچکا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے۔
چند روز قبل ایک ایسے بینکر سے ملاقات ہوئی، جو دو برس قبل ریٹائر ہونے کے بعد امریکا منتقل ہو چکے ہیں۔ حالیہ دورے کے دوران ایک ملاقات میں انھوں نے منی لانڈرنگ کے حوالے سے انتہائی چشم کشا انکشافات کیے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ایک نجی بینک کے بوتھ میں 1992سے 1996 تک چار برس تعینات رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس زمانے میں ایک امریکی ڈالر33روپے کا ہواکرتا تھا جب کہ اسٹیٹ بینک کی طرف سے بیرون ملک 2ہزار ڈالرسے زائد رقم لے جانے پر پابندی عائد تھی۔ اس پابندی کا توڑ یہ نکالا گیا کہ ایک لاکھ ڈالر کیلیے 20،20ہزار کے پچاسOpen Travellers Cheques بناکر ایک اہم سیاسی وکاروباری شخصیت کو دیدیے جاتے تھے۔
اس کام کے عوض اس متعلقہ شخصیت کو 2لاکھ روپے زائد ادا کرنا پڑتے تھے۔ یعنی ہر ایک لاکھ ڈالر کیلیے 33لاکھ روپوں کے بجائے 35لاکھ۔ 2لاکھ کی زائد رقم دراصل وہ رشوت ہوتی تھی جو متعلقہ بینک، امیگریشن اور کسٹم حکام کے علاوہ PIA کے ذمے داروں میں تقسیم ہوا کرتی تھی تاکہ اس کھیل کا بھید نہ کھلنے پائے۔ اس مقصد کیلیے بیرون ملک جانے والے چند مسافروں کے پاسپورٹ نمبر لے کر ان کے نام پرReturn بھردیے جاتے تھے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جن مسافروں کے نام پر Return بھرے جاتے تھے، ان کے فرشتوں کے علم میں بھی نہیں ہوتا کہ اس کے نام پر2ہزار ڈالر کے Travellers Chequesجاری کیے گئے ہیں۔
ہمارے ذریعہ(Source)کا کہنا ہے کہ صرف ان کے بینک کی بوتھ سے روزانہ 10 سے 12اس قسم کے کیس ہواکرتے تھے۔ دیگر بینکوں کے بوتھوں سے رقم کی منتقلی اس کے سوا تھی۔ یہ کھیل صرف کراچی ائیر پورٹ پر نہیں کھیلا جا رہا تھا بلکہ لاہور اور اسلام آباد ائیر پورٹ سے بھی یہ سلسلہ جاری تھا۔ اس طرح یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کس قدر رقم روزانہ بیرون ملک منتقل ہوتی رہی، بلکہ اب تک ہورہی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ صرف ایک طریقہ ہے، جس کی نشاندہی ایک بینکر نے کی ہے۔ ایسے لاتعداد دیگر طریقے بھی ہوں گے، جن کے ذریعہ سے رقم باہر منتقل ہورہی ہوگی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو لوگ رقم کی منتقلی کیلیے آتے تھے ان میں بعض انتہائی معروف سیاسی و تجارتی شخصیات ہوا کرتی تھیں۔ جنھیں وہ بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ مگر نام بتانے سے گریز کیا۔
اس میں شک نہیں کہ منی لانڈرنگ ایک ایسا جرم ہے، جو ملک کی معیشت کو کھوکھلا کرنے کا باعث ہے۔ مگر اس صورتحال کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے،جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔سوال یہ ہے کہ لوگ اپنا سرمایہ اور کاروبار بیرون ملک منتقل کرنے پر کیوں مجبورہوتے ہیں؟
اس سلسلے میں معاشی و سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عمل کے پس پشت صرف ہوسِ زر ہی اکیلا سبب نہیں ہے۔ بلکہ دیگر کئی حقیقی(Genuine) اسباب بھی ہیں، جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔خاص طور پر پاکستان کا غیر مستحکم سیاسی نظام، فرسودہ اور ناکارہ انتظامی ڈھانچہ (جوکرپشن اور بدعنوانیوں کو روکنے کی استعداد سے محروم ہے) اورکاروبار کے فروغ کیلیے درکار جدید انفرااسٹرکچر کی عدم دستیابی وہ عوامل ہیں، جوکاروباری حلقوں کو اپنا سرمایہ، کاروبار اور صنعتیں بیرون ملک منتقل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اب جہاں تک سیاستدانوں کا معاملہ ہے، توان کے ساتھ ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف تک ہر فوجی آمر نے معاندانہ رویہ اختیار کیا جس کی وجہ سے سیاست اور سیاستدانوں کی بے توقیری اور کردار کشی(character assassination) کی نئی داستانیں رقم ہوئیں۔ایوب خان نے سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ ان کے رہنماؤں کی خرید و فروخت کا جو کھیل شروع کیا تھا،اسے جنرل ضیا نے بام عروج پر پہنچایا۔
یہ صورتحال انھیں مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے اثاثے Stake بیرون ملک منتقل کردیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جنرل ایوب اور جنرل ضیا کے اقتدار میں آنے سے پہلے نہ سیاست میں موروثیت اس اندازمیں موجود تھی اور نہ ہی سیاستدان اپنے Stake بیرون ملک منتقل کرنے پر توجہ دیتے تھے۔ اس کی واضح مثال سابق صدر اسکندر مرزا ہیں، جو سبکدوشی کے بعد سے آخری سانس تک لندن کے ایک ہوٹل میں منیجری کر کے اپنی روزی کماتے رہے۔
ایک ایسے انتظامی ڈھانچے میں جہاںشفافیت پر مبنی اچھی حکمرانی کا تصور مفقود ہوچکا ہو، ہر قسم کی سیاسی، سماجی ، انتظامی اور مالیاتی خرابیوں کا جنم لینا کوئی اچنبھے کی بات نہیںہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعلقہ ریاستی ادارے اپنی نااہلی، خودغرضی اور ناقص کارکردگی کے باعث کرپشن اور بدعنوانی کو فروغ دینے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ لہٰذا اسمگلنگ، سرمائے کی ناجائز طریقے سے بیرون ملک منتقلی اور ٹیکس چوری جیسے ان گنت قبیح جرائم روز کا معمول بن چکے ہیں۔ یہ طے ہے کہ جب تک حکمران اشرافیہ انیسویں صدی کے جرمن حکمران بسمارک کی طرح اپنا طرز عمل از خود تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہوجاتی، وطن عزیز میں کرپشن اور بدعنوانیوں کا ناسور یونہی رستا رہے گا۔