کاروشی
میں جانتا ہوں کہ میری ڈپریشن کا سبب یقینی طور پر کام ہے
جاپان، یہ اب سے 10 برس قبل کی بات ہے۔ مشی یونیشی گاکی، ایک دکھیاری ماں، جس کے نوجوان اکلوتے بیٹے نے کام کی زیادتی سے تنگ آ کر خودکشی کرلی۔ کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ لوگ بھوک، افلاس اور کام نہ ہونے کی بنا پر جان گنواتے ہیں۔ آج کے انسان کو کام کی زیادتی مارے دے رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں ''میں نے اپنا پیارا بیٹا کام کی زیادتی کی وجہ سے گنوا دیا۔'' اس کے بیٹے ''نویا'' کے بلاگ پر اس نے لکھا تھا کہ ''جاپان کے لوگ اتنا کام کیوں کرتے ہیں؟
میں جانتا ہوں کہ میری ڈپریشن کا سبب یقینی طور پر کام ہے۔ میں کسی کام کا نہیں رہ گیا، مجھے نہیں لگتا کہ میں کچھ کر رہا ہوں، میں خود کو صرف تھکا ماندہ، جھلایا ہوا اور بیزار محسوس کرتا ہوں۔ اپنے ان احساسات کو ادویات سے دبانے کی ناکام کوشش کرتا رہتا ہوں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دواؤں کا اثر بھی کم ہوتا جارہا ہے۔ میں بہت پریشان ہوں، سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ ... میں بے کار ہوں... میرے زندہ رہنے کی کوئی وجہ نہیں؟ لیکن مجھ میں مرنے کا بھی حوصلہ نہیں۔ میں بس غائب ہوجانا چاہتا ہوں۔ میں سوچتا ہوںکہ جب میں نجات کے کسی یقینی فیصلے پر پہنچوں گا تو وہ یقیناً''موت'' ہی ہوگا۔''
جاپان، گزشتہ برس کی بات ہے۔ سیوٹوناکاہارا۔ یہ 32 برس کا ایک سسٹم انجینئر ہے۔ کام کی زیادتی کی بنا پر 8 برس سے ڈپریشن کا شکار ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ''میں صبح 8:40 پر کام پر آتا ہوں اور تمام دن کام میں لگا رہتا ہوں۔ میری ڈیوٹی 3 بجے سہ پہر کو ختم ہوتی ہے۔ اس کے فوراً بعد میں 24 گھنٹے کھلے رہنے والے ایک ''کنوینینس اسٹور'' میں کام پر پہنچ جاتا ہوں۔ یہاں سے فارغ ہونے پر میں جلدی جلدی ایک جگہ سے تیار کھانا لیتا ہوں، کھانا ختم کرنے کے لیے میرے پاس صرف 5 منٹ ہوتے ہیں۔
اب میں تیزی سے وہاں پہنچتا ہوں جہاں میں رہتا ہوں۔ کیونکہ مجھے نہانا ہے، اپنے کپڑے دھونے ہیں اور چند گھنٹے کی نیند لینی ہے، تا کہ صبح 7 بجے اٹھ کر کام پر پہنچ سکوں۔ یہ تھی انجینئرنگ کے بعد میری زندگی۔ میں 2 برس تک خود کو اسی طرح گھسیٹا کیا، پھر بیمار پڑگیا، شدید ڈپریشن کا مریض۔ میری ذہنی حالت یہ ہو گئی کہ میں صبح کو بڑی مشکل سے بستر چھوڑ پاتا۔ میں یہ بتانے سے بھی قاصر تھا کہ یہ کون سا دن اور کون سا موسم ہے۔ میں نیچے دیکھتا ہوا خود کو کام پر گھسیٹتا رہتا تھا۔
واحد چیز جو مجھے نظر آتی وہ کمپنی کا دروازہ تھا۔ مجھے اپنے آس پاس کی کسی شے کا کوئی احساس نہیں ہوتا تھا۔ میرے لیے ہر چیز دھندلی تھی۔ کام پر مجھے صرف اپنا کمپیوٹر دکھائی دیتا تھا۔ انھیں جب بھی مجھے کچھ کہنا ہوتا تو وہ میری کرسی کو زور سے لات مار کر مجھے متوجہ کرتے اور اپنی بات کہتے۔ میرے پاس 2 ہی راستے تھے یا تو میں خود کو ہلاک کر ڈالتا یا ان منحوس ملازمتوں کے چنگل سے آزادی اختیار کرتا۔ ہمیں بچپن سے یہ بتایا گیا تھا کہ ملازمت بہت ضروری ہے، یہ ہی ہماری زندگی ہے۔ لیکن یہ زندگی موت بانٹ رہی تھی، میں نے جینے کی راہ اپنائی۔''
کہتے ہیں کام زندگی ہے لیکن جاپان میں کام کی وجہ سے موت نے وبا کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق وہاں کام کی زیادتی سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2000 سالانہ سے بھی زائد ہے۔ جاپانی اصطلاحات وضع کرنے اور نام رکھنے کے بھی ماہر ہیں۔ کام کی وجہ سے ہلاکتوں کو وہاں ''کاروشی'' کہا جاتا ہے اور کام کی وجہ سے خودکشی کرنے کے رجحان کو ''کارو جیتاتسو''۔
مزدوروں کی عالمی انجمن ''آئی ایل او'' نے ''کاروشی'' پر ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں کاروشی کے 4 کیس ذکر کیے گئے ہیں۔ 1۔ مسٹر اے، آپ اسنیکس بنانے والی ایک بڑی کمپنی کے ملازم تھے۔ یہاں یہ 110 گھنٹے فی ہفتہ (نہ کہ فی مہینہ) کام کیا کرتے تھے۔ یہ حملہ قلب کی بنا پر صرف 34 برس کی عمر میں واصلِ ملازمت ہوئے۔ آپ کی اندوہناک موت کو ''لیبر اسٹنڈرڈز آفس'' نے کام کے باعث ہلاکت قرار دیا۔ 2۔ مسٹر بی، آپ ایک بس ڈرائیور تھے۔
آپ نے سال بھر میں کمپنی کے منافع میں اضافے کے لیے 3000 گھنٹے کام کیا۔ 15 برس تک انھوں نے ایک چھٹی بھی نہ کی۔ 37 برس کی عمر میںفالج ہوگیا۔ اداروں نے اسے بھی کام کی زیادتی کا نتیجہ قرار دیا۔ 3۔ مسٹر سی، آپ ایک بڑی پرنٹنگ کمپنی میں ٹوکیو میں ملازم تھے۔ آپ نے رات کی شفٹیں ملا کر 4320 گھنٹے سالانہ کام کیا۔مسلسل ان تھک۔ 58 برس میں فالج کا حملہ ہوا اور انتقال ہوگیا۔ 4۔ مس ڈی، 22 برس کی نوجوان نرس، 34 گھنٹے کی مسلسل ڈیوٹی کے بعد حملہ قلب ہوا اور مرگئی۔ وہ ہر ماہ ایسی 5 ڈیوٹیاں انجام دیا کرتی تھی۔
جاپانی حکومت کہتی ہے کہ وہاں کی ہر 5 میں سے 1 کمپنی کے کارکنان خطرناک حد تک طویل گھنٹوں تک کام کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ملازمین کا یہ استحصال صرف جاپان تک محدود نہیں۔ جمہوریت کے سائے میں پلنے اور پھلنے پھولنے والی تمام ہی کمپنیوں کا مقصد ''میکسامائز دی پروفٹ'' ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول ہی اصل اخلاقیات ہے۔ وہ اس کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو اپنے لیے جائز سمجھتی ہیں۔ کم سے کم ملازمین سے زیادہ سے زیادہ کام لینا ہی ایچ آر کا اصل کام ہے۔ اسی سے کمپنی کا منافع بڑھے گا۔ اب اگر لوگ مرتے ہیں تو مرا کریں۔ مارکیٹ سے اور ورکر مل جائیں گے۔ آج ساری دنیا میں یہ ہی ہو رہا ہے۔
او ای سی ڈی (آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ) کے مطابق دنیا بھر میں فی برس سب سے زیادہ کام میکسیکو کے باشندے کرتے ہیں، یعنی 2246 گھنٹے۔ اس کے بعد کوسٹاریکا کا نمبر آتا ہے2230 گھنٹے۔ پھر جاپان 1719 گھنٹے ، ناروے 1424، نیدرلینڈ اور جرمنی 1371 گھنٹے کے حساب سے کام کیا جاتا ہے۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ کام کی زیادتی سے ہلاکتوں اور خودکشیوں کی رپورٹیں چند دہائیوں سے دنیا کے کئی گوشوں سے مسلسل آرہی ہیں۔ چین میں ایسی اموات کو ''گولوسی'' اور جنوبی کوریا میں ایسی اموات کو ''گواروسا'' کہا جاتا ہے۔
جاپان گزشتہ برس اس وقت خبروں میں آیا جب وہاں کی سب سے بڑی اشتہاری ایجنسی ''دینسو'' میں کام کرنے والی 24 برس کی ٹوکیو یونیورسٹی کی گریجویٹ ملازمہ ''ماتسوری تکا ہاشی'' نے کرسمس کے دن ملازمت سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔ ماتسوری تکا ہاشی کی مدت ملازمت 9 ماہ سے زائد نہ تھی۔ اس دوران اس نے مسلسل اور بے تکان بغیر کسی چھٹی کے کام کیا۔ 105 گھنٹے فی ہفتہ یا شاید اس سے بھی کچھ زیادہ۔ اس نے مرنے سے قبل اپنی ماں کے نام ایک نوٹ چھوڑا جس میں اس نے لکھا تھا کہ ''زندگی اتنی مشکل کیوں ہے؟'' وہ کام کی زیادتی کے حوالے سے مسلسل اپنی ماں کو شکایتی ای میلز کرتی رہی لیکن بیٹی کی کوئی بھی پکار ماں کی ممتا کو جھنجھوڑ نہ سکی۔ شاید کارپوریٹ کلچر کی پروردہ ماؤں کی ممتا بھی سکون کی جھنکار اور تنخواہوں کے '' ڈیجٹس'' میں کہیں گم ہوچکی ہے۔
یہ حالت زار تو ترقی یافتہ ممالک کی ہے، اسی پر قیاس کرلیا جائے ارضِ پاک کی ملازمین کو۔ ان پر تو جو کچھ نہ گزر جائے وہ کم ہے۔ 15 گھنٹے روازنہ کام کرنا اور پھر سفری صعوبتیں برداشت کرکے گھر پہنچنا، یہیں کا خاصا ہے۔
ظلم و استحصال اگرچہ ظالم کیا کرتے ہیں لیکن استحصال کو دوام اس لیے ملتا ہے کہ لوگ اس کے خوگر ہوجاتے ہیں۔ ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے۔
میں جانتا ہوں کہ میری ڈپریشن کا سبب یقینی طور پر کام ہے۔ میں کسی کام کا نہیں رہ گیا، مجھے نہیں لگتا کہ میں کچھ کر رہا ہوں، میں خود کو صرف تھکا ماندہ، جھلایا ہوا اور بیزار محسوس کرتا ہوں۔ اپنے ان احساسات کو ادویات سے دبانے کی ناکام کوشش کرتا رہتا ہوں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دواؤں کا اثر بھی کم ہوتا جارہا ہے۔ میں بہت پریشان ہوں، سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ ... میں بے کار ہوں... میرے زندہ رہنے کی کوئی وجہ نہیں؟ لیکن مجھ میں مرنے کا بھی حوصلہ نہیں۔ میں بس غائب ہوجانا چاہتا ہوں۔ میں سوچتا ہوںکہ جب میں نجات کے کسی یقینی فیصلے پر پہنچوں گا تو وہ یقیناً''موت'' ہی ہوگا۔''
جاپان، گزشتہ برس کی بات ہے۔ سیوٹوناکاہارا۔ یہ 32 برس کا ایک سسٹم انجینئر ہے۔ کام کی زیادتی کی بنا پر 8 برس سے ڈپریشن کا شکار ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ''میں صبح 8:40 پر کام پر آتا ہوں اور تمام دن کام میں لگا رہتا ہوں۔ میری ڈیوٹی 3 بجے سہ پہر کو ختم ہوتی ہے۔ اس کے فوراً بعد میں 24 گھنٹے کھلے رہنے والے ایک ''کنوینینس اسٹور'' میں کام پر پہنچ جاتا ہوں۔ یہاں سے فارغ ہونے پر میں جلدی جلدی ایک جگہ سے تیار کھانا لیتا ہوں، کھانا ختم کرنے کے لیے میرے پاس صرف 5 منٹ ہوتے ہیں۔
اب میں تیزی سے وہاں پہنچتا ہوں جہاں میں رہتا ہوں۔ کیونکہ مجھے نہانا ہے، اپنے کپڑے دھونے ہیں اور چند گھنٹے کی نیند لینی ہے، تا کہ صبح 7 بجے اٹھ کر کام پر پہنچ سکوں۔ یہ تھی انجینئرنگ کے بعد میری زندگی۔ میں 2 برس تک خود کو اسی طرح گھسیٹا کیا، پھر بیمار پڑگیا، شدید ڈپریشن کا مریض۔ میری ذہنی حالت یہ ہو گئی کہ میں صبح کو بڑی مشکل سے بستر چھوڑ پاتا۔ میں یہ بتانے سے بھی قاصر تھا کہ یہ کون سا دن اور کون سا موسم ہے۔ میں نیچے دیکھتا ہوا خود کو کام پر گھسیٹتا رہتا تھا۔
واحد چیز جو مجھے نظر آتی وہ کمپنی کا دروازہ تھا۔ مجھے اپنے آس پاس کی کسی شے کا کوئی احساس نہیں ہوتا تھا۔ میرے لیے ہر چیز دھندلی تھی۔ کام پر مجھے صرف اپنا کمپیوٹر دکھائی دیتا تھا۔ انھیں جب بھی مجھے کچھ کہنا ہوتا تو وہ میری کرسی کو زور سے لات مار کر مجھے متوجہ کرتے اور اپنی بات کہتے۔ میرے پاس 2 ہی راستے تھے یا تو میں خود کو ہلاک کر ڈالتا یا ان منحوس ملازمتوں کے چنگل سے آزادی اختیار کرتا۔ ہمیں بچپن سے یہ بتایا گیا تھا کہ ملازمت بہت ضروری ہے، یہ ہی ہماری زندگی ہے۔ لیکن یہ زندگی موت بانٹ رہی تھی، میں نے جینے کی راہ اپنائی۔''
کہتے ہیں کام زندگی ہے لیکن جاپان میں کام کی وجہ سے موت نے وبا کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق وہاں کام کی زیادتی سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2000 سالانہ سے بھی زائد ہے۔ جاپانی اصطلاحات وضع کرنے اور نام رکھنے کے بھی ماہر ہیں۔ کام کی وجہ سے ہلاکتوں کو وہاں ''کاروشی'' کہا جاتا ہے اور کام کی وجہ سے خودکشی کرنے کے رجحان کو ''کارو جیتاتسو''۔
مزدوروں کی عالمی انجمن ''آئی ایل او'' نے ''کاروشی'' پر ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں کاروشی کے 4 کیس ذکر کیے گئے ہیں۔ 1۔ مسٹر اے، آپ اسنیکس بنانے والی ایک بڑی کمپنی کے ملازم تھے۔ یہاں یہ 110 گھنٹے فی ہفتہ (نہ کہ فی مہینہ) کام کیا کرتے تھے۔ یہ حملہ قلب کی بنا پر صرف 34 برس کی عمر میں واصلِ ملازمت ہوئے۔ آپ کی اندوہناک موت کو ''لیبر اسٹنڈرڈز آفس'' نے کام کے باعث ہلاکت قرار دیا۔ 2۔ مسٹر بی، آپ ایک بس ڈرائیور تھے۔
آپ نے سال بھر میں کمپنی کے منافع میں اضافے کے لیے 3000 گھنٹے کام کیا۔ 15 برس تک انھوں نے ایک چھٹی بھی نہ کی۔ 37 برس کی عمر میںفالج ہوگیا۔ اداروں نے اسے بھی کام کی زیادتی کا نتیجہ قرار دیا۔ 3۔ مسٹر سی، آپ ایک بڑی پرنٹنگ کمپنی میں ٹوکیو میں ملازم تھے۔ آپ نے رات کی شفٹیں ملا کر 4320 گھنٹے سالانہ کام کیا۔مسلسل ان تھک۔ 58 برس میں فالج کا حملہ ہوا اور انتقال ہوگیا۔ 4۔ مس ڈی، 22 برس کی نوجوان نرس، 34 گھنٹے کی مسلسل ڈیوٹی کے بعد حملہ قلب ہوا اور مرگئی۔ وہ ہر ماہ ایسی 5 ڈیوٹیاں انجام دیا کرتی تھی۔
جاپانی حکومت کہتی ہے کہ وہاں کی ہر 5 میں سے 1 کمپنی کے کارکنان خطرناک حد تک طویل گھنٹوں تک کام کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ملازمین کا یہ استحصال صرف جاپان تک محدود نہیں۔ جمہوریت کے سائے میں پلنے اور پھلنے پھولنے والی تمام ہی کمپنیوں کا مقصد ''میکسامائز دی پروفٹ'' ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول ہی اصل اخلاقیات ہے۔ وہ اس کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو اپنے لیے جائز سمجھتی ہیں۔ کم سے کم ملازمین سے زیادہ سے زیادہ کام لینا ہی ایچ آر کا اصل کام ہے۔ اسی سے کمپنی کا منافع بڑھے گا۔ اب اگر لوگ مرتے ہیں تو مرا کریں۔ مارکیٹ سے اور ورکر مل جائیں گے۔ آج ساری دنیا میں یہ ہی ہو رہا ہے۔
او ای سی ڈی (آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ) کے مطابق دنیا بھر میں فی برس سب سے زیادہ کام میکسیکو کے باشندے کرتے ہیں، یعنی 2246 گھنٹے۔ اس کے بعد کوسٹاریکا کا نمبر آتا ہے2230 گھنٹے۔ پھر جاپان 1719 گھنٹے ، ناروے 1424، نیدرلینڈ اور جرمنی 1371 گھنٹے کے حساب سے کام کیا جاتا ہے۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ کام کی زیادتی سے ہلاکتوں اور خودکشیوں کی رپورٹیں چند دہائیوں سے دنیا کے کئی گوشوں سے مسلسل آرہی ہیں۔ چین میں ایسی اموات کو ''گولوسی'' اور جنوبی کوریا میں ایسی اموات کو ''گواروسا'' کہا جاتا ہے۔
جاپان گزشتہ برس اس وقت خبروں میں آیا جب وہاں کی سب سے بڑی اشتہاری ایجنسی ''دینسو'' میں کام کرنے والی 24 برس کی ٹوکیو یونیورسٹی کی گریجویٹ ملازمہ ''ماتسوری تکا ہاشی'' نے کرسمس کے دن ملازمت سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔ ماتسوری تکا ہاشی کی مدت ملازمت 9 ماہ سے زائد نہ تھی۔ اس دوران اس نے مسلسل اور بے تکان بغیر کسی چھٹی کے کام کیا۔ 105 گھنٹے فی ہفتہ یا شاید اس سے بھی کچھ زیادہ۔ اس نے مرنے سے قبل اپنی ماں کے نام ایک نوٹ چھوڑا جس میں اس نے لکھا تھا کہ ''زندگی اتنی مشکل کیوں ہے؟'' وہ کام کی زیادتی کے حوالے سے مسلسل اپنی ماں کو شکایتی ای میلز کرتی رہی لیکن بیٹی کی کوئی بھی پکار ماں کی ممتا کو جھنجھوڑ نہ سکی۔ شاید کارپوریٹ کلچر کی پروردہ ماؤں کی ممتا بھی سکون کی جھنکار اور تنخواہوں کے '' ڈیجٹس'' میں کہیں گم ہوچکی ہے۔
یہ حالت زار تو ترقی یافتہ ممالک کی ہے، اسی پر قیاس کرلیا جائے ارضِ پاک کی ملازمین کو۔ ان پر تو جو کچھ نہ گزر جائے وہ کم ہے۔ 15 گھنٹے روازنہ کام کرنا اور پھر سفری صعوبتیں برداشت کرکے گھر پہنچنا، یہیں کا خاصا ہے۔
ظلم و استحصال اگرچہ ظالم کیا کرتے ہیں لیکن استحصال کو دوام اس لیے ملتا ہے کہ لوگ اس کے خوگر ہوجاتے ہیں۔ ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے۔