ملالہ یوسف زئی

پاکستان کا روشن چہرہ، جو اپنے خون کی تاب ناکی سے اور دمک اُٹھا.

فوٹو: فائل

چٹانیں اُس کا بسیرا تھیں۔ فضائوں میں تخت تھا۔ اُس کے پَروں میں زندگی تھی۔ دل میں یقین کا شعلہ۔ اور سامنے سرحدوں سے پاک نیلگوں آسمان!

پنچھی ہوا کے جھونکے کے مانند آزاد، بادلوں میں تیرتا تھا۔ غول میں ہوتے ہوئے بھی منفرد۔ اِس بات سے بے پروا کہ شکاری، موقعے کی تلاش میں جھاڑیوں میں گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ اُس کی آزادی سلب کرنا چاہتے ہیں۔ اُسے پنجرے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ وہ بے خوف ہوائوں میں تیرتا رہا، یہاں تک کہ 9 اکتوبر 2012 کا دن آن پہنچا۔

بہ ظاہر وہ دن، خود سے پہلے بیت چکے دنوں ہی سا تھا۔ روشن اور خاموش۔ پر وہ مختلف تھا کہ وہ المیے کے لیے سازگار تھا۔ شکاری اُسی دن کے تو منتظر تھے۔ ٹھیک اُس لمحے، جو طے شدہ تھا، فائر کی کریہہ آواز فضا میں گونجی، اور منجمد ہوگئی۔ پنچھی زمین کی جانب گر رہا تھا۔ المیہ جنم لے چکا تھا۔

مگر یہ المیہ عجیب و غریب تھا۔ پُراسرار، حیرت انگیز کہ اُس کے طفیل پتھریلے معاشرے میں مکالمے کا چشمہ پھوٹنے والا تھا۔

9 اکتوبر 2012 کے روز، تعلیم کے فروغ کی حسین خواہش کے سہارے امکانات کے آسمان میں پرواز کرنے والی پندرہ سالہ ملالہ یوسف زئی پر حملہ ہوا۔ حملہ آوروں نے ذمے داری قبول کرنے میں ذرا بھی وقت ضایع نہیں کیا۔ یہی تو اُن کا مقصد تھا، وہ خوف میں ڈوبا ایک پیغام دینا چاہتے تھے۔ مگر توقع کے برعکس اِس واقعے نے تبدیلی کا پہیا چلا دیا۔ زندگی کے مختلف طبقوں کی جانب سے ایسا شدید ردعمل آیا، جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ شاعروں نے ملالہ کے لیے نظمیں کہیں۔ صحافیوں کا قلم تلوار بن گیا۔ ادیبوں نے نثر پارے تخلیق کیے۔ اُسے تبدیلی کا استعارہ قرار دیا گیا۔ منارۂ امید کہہ کر پکارا گیا۔ قابل تقلید کہا جانے لگا۔ فروغ تعلیم کی علامت سمجھا جانے لگا۔ بین الاقوامی دنیا میں بھی اِس نرم و نازک لڑکی پر حملے پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا گیا۔ اُس کی صحت یابی کے لیے، مذہب سے بالاتر ہوکر، ہر شخص نے دعا کی۔

پر یہ سب یک دم نہیں ہوا۔ ابتداً تو ملالہ پر حملے کی خبر نے پورے ملک پر سکتہ طاری کر دیا تھا۔ علم دوستوں کی امید سُکڑنے لگی تھی۔ کرب کے سائے گہرے ہونے لگے تھے۔ یاسیت کا کُہرا آسمان پر تن گیا تھا، جسے ملالہ کی موت کے اندیشے مہمیز کررہے تھے۔ پر وہ زندہ رہی، اُس عزم کے سہارے، جو لہو بن کر اُس کی رگوں میں دوڑتا تھا۔ وہ زندگی کی جانب پلٹی۔ اور تب، سیاہی کے سمندر پر یقین کی روشنی نے زور مارا۔ افق پر اُجالے کی نشانات ابھرے۔ معجزہ رونما ہونے کو تھا۔



ملالہ پر حملے کے خلاف قومی اسمبلی نے ایک مذمتی قرارداد منظور کی۔ ذمے داران کو کیفرِکردار تک پہنچانے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ زندگی کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے نے اس واقعے کی بھرپور انداز میں مذمت کی۔ کئی بین الاقوامی شخصیات نے اُس کی زندگی کے لیے نیک تمنائوں کا اظہار کیا۔ معروف گلوکارہ، میڈونا نے لاس اینجلس میں منعقدہ میوزک کنسرٹ میں اُسے خراج تحسین پیش کیا، اور اپنے گیت ''ہیومن نیچر'' کے آغاز سے قبل کہا: '' یہ نغمہ تمہارے لیے ہے ملالہ!''

اِس المیے نے واقعی بہت کچھ تبدیل کر دیا۔ ایک جانب جہاں پاکستانی خواتین میں تعلیم کے حق کے لیے لڑنے کی اْمنگ پیدا ہوئی، وہیں ایک مختلف نوعیت کا پاکستانی چہرہ دنیا کے سامنے آیا، جو روشن خیال تھا۔ جرأت کے ساتھ امکانات پر یقین رکھنے کا پیغام دیتا تھا۔

ملالہ یوسف زئی کی کہانی کا باقاعدہ آغاز 2009 سے ہوتا ہے، جب سوات پر عسکریت پسند قابض تھے۔ لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی تھی۔ زبانوں پر تالے پڑے تھے۔ قلم چُپ تھے۔ ایسے میں کتابوں کی شایق، پائولو کوئلیو کے ناول ''الکیمسٹ'' کی دل دادہ اِس لڑکی نے ''گُل مکئی'' کے فرضی نام سے، سوات کے صدر مقام مینگورہ میں بیٹھ کر، جہاں ہر صبح ہیبت ناک خبریں ساتھ لاتی، بی بی سی کے لیے ڈائری لکھنی شروع کی، اور وہ کہانی بیان کی، جو اُس کے معصوم مشاہدے کا نچوڑ تھی۔ مئی 2009 میں، سوات میں شروع ہونے والے فوجی آپریشن کے بعد علاقے سے بڑے یپمانے پر نقل مکانی ہوئی۔ وہ بھی اپنے خاندان کے ساتھ آبائی وطن، شانگلہ ہجرت کرگئی، لیکن اُس کا قلم چپ نہیں ہوا۔ اس نے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

ملالہ کو حقیقی معنوں میں شناخت اُس وقت ملی، جب نومبر 2011 میں ہالینڈ کی ایک بین الاقوامی تنظیم ''کڈز رائٹس'' کی جانب سے اُسے بچوں کے ''عالمی امن ایوارڈ'' کے لیے نام زد کیا گیا۔ وہ پہلی پاکستانی لڑکی تھی، جو اِس ایوارڈ کے امیدواروں کی فہرست کا حصہ بنی۔ ایوارڈ تو اُسے نہیں ملا، لیکن وہ دنیا کی توجہ کا مرکز ضرور بن گئی۔ آنے والے دنوں میں ذرایع ابلاغ نے اُس کی کہانی تواتر سے بیان کی۔ یوں سماجی کارکن، ضیا الدین یوسف زئی کی بیٹی ملالہ حقیقی معنوں میں عوام کی نظروں میں آئی۔ اُس کی جرأت مندی کے اعتراف میں اسے وزیراعظم کی جانب سے قومی امن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ستارۂ جرأت بھی اُس کے حصے میں آیا۔ اُسی زمانے میں ملالہ نے اِس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بڑی ہو کر سیاست داں بنے گی، تاکہ ملک میں سُدھار لاسکے۔


شاید اِسی خواہش کو قتل کرنے کے لیے سازش رچی گئی۔ 9 اکتوبر 2012 کے دن کا انتخاب کیا گیا، مگر سازش بے مقصد ثابت ہوئی کہ اِس حملے نے ملالہ کی جدوجہد کو مزید نمایاں کیا۔ خاموش اکثریت کو زبان دی۔ ظالم کو للکارنے کا حوصلہ دیا۔ تعلیم کے دیے جلانے کی تحریک دی۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ وقت اُس کی خواہش کے پرورش کے لیے سازگار ہے کہ وہ خم ٹھونک کر پھر میدان میں آگئی ہے۔ بیماری سے اٹھنے کے بعد کتابوں سے اُس کا ناتا جڑ گیا ہے۔ اس عزم کا اظہار کر چکی ہے کہ وہ اپنی زندگی تو تج دی گی، پر اپنی جدوجہد نہیں، جو علم کے فروغ کی بین الاقوامی جدوجہد سے جُڑ چکی ہے۔ اور یہ عزم ملالہ کو اساطیری شہرت عطا کر چکا ہے۔

زخم، جو ستارے بن کے چمکے!

تبدیلی کی جدوجہد جو زخم عطا کرتی ہے، وہ بڑے ہی پُراسرار ہوتے ہیں کہ مندمل ہوتے ہی نشانِ سپاس کے مانند دمکنے لگتے ہیں۔ ملالہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ یوں تو 9 نومبر سے قبل بھی، ہر پلیٹ فورم پر، اُس کی جدوجہد کو شان دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا، مگر اِس حملے کے بعد ہزاروں سر اُس کے احترام میں جھک گئے۔ اُس کا نام زبان زد و خاص و عام ہوگیا۔ دنیا کے کونے کونے میں اس کا چرچا ہونے لگا۔

ملالہ کی جدوجہد کے اثرات کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نومبر میں امریکی جریدے ''فارن پالیسی'' نے دنیا کے سو نمایاں مفکروں کی جو فہرست جاری کی، اُس میں پاکستان کی یہ بیٹی چھٹے نمبر پر تھی۔ اِس پندرہ سالہ لڑکی کو ''مدر ٹریسا میموریل ایوارڈ'' سے بھی نوازا گیا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے اِسے ''دخترِ پاکستان'' کا خطاب دینے کی قرارداد منظور کی۔

انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقعے پر پیرس میں پاکستان اور یونیسکو کے زیرِ اہتمام ہونے والی کانفرنس میں دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ''ملالہ فنڈ'' قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اُس موقعے پر پاکستان کے صدر، آصف علی زرداری نے ملالہ کو ترقی پسند پاکستان کی علامت قرار دیا۔

اِسی عرصے میں اُسے امن کے نوبیل انعام کے لیے نام زد کروانے کی مُہم کا آغاز ہوا، جس نے چند ہی روز میں بین الاقوامی توجہ حاصل کرلی۔ ایک لاکھ سے زاید افراد اب تک اس آن لائن پٹیشن پر دست خط کر چکے ہیں۔ دست خط کرنے والوں نے حکومت برطانیہ اور دیگر بااثر ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اِس مُہم میں ان کا ساتھ دیں۔ فرانس کی پارلیمنٹ کے ڈیڑھ سو اراکین اِس یادداشت پر دست خط کرچکے ہیں۔

''ٹائم میگزین'' کی جانب سے 2012 کی اہم ترین شخصیات کی سالانہ فہرست کے لیے جب ووٹنگ شروع ہوئی، تو دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد نے اِس نڈر بچی ہی کا انتخاب کیا۔ اُسے لاکھوں ووٹ ملے۔ حتمی نتائج میں اُسے امریکی صدر، باراک اوباما کے بعد دنیا کی دوسری اہم ترین شخصیت قرار دیا گیا۔ اثرات کے نقطۂ نگاہ سے وہ اپیل کے سی ای او، ٹم کک، مصری صدر، محمد مرسی اور اطالوی طبیعیات داں، فیبیولا جیانوٹی سے آگے ہے۔

یہ بھی کہا گیا۔۔۔

اِس پورے معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ جہاں عوام کی اکثریت نے شدید الفاظ میں اِس واقعے کی مذمت کی، وہیں بعض حلقوں کی جانب سے اِسے، قطعیت کے ساتھ اغیار کی سازش قرار دیا گیا۔ ملالہ کی، حملے کے بعد لی گئی تصاویر میں سرخ دائرے لگا کر، سوشل میڈیا پر اِس سازش کے سقم کی نشان دہی کی گئی۔ طرح طرح کے سوالات اٹھائے گئے۔ اُس واقعے کو ''ڈراما'' اور سی آئی اے کا ''اسکرپٹ'' قرار دیا گیا۔ پورے معاملے کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر رد کر دیا۔ ایس ایم ایس کے ذریعے اِس سے جُڑے چٹکلے بھی ایک دوسرے میں بانٹے گئے۔ ساتھ ہی اِس واقعے کو سوات میں فوجی آپریشن شروع کرنے کے لیے ''پیدا کردہ جواز'' کے طور پر پیش کیا گیا۔ بین الاقوامی شخصیات کی اِس میں دل چسپی کو ایک منظم منصوبے کا ٹکڑا قرار دیا گیا۔ ملالہ کی حمایت کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ اُنھیں دشمنوں کی کٹھ پتلی قرار دیا گیا۔

دل چسپ امر یہ ہے کہ نہ صرف عام پاکستانیوں، بلکہ تعلیم یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے بھی اپنے خیالات کو ''سازشی تھیوری'' کے قریب پایا۔ اِس طبقے میں رائے عامہ کے نمایندے مثلاً بعض معروف کالم نگار، قدرآور سیاست داں اور سنجیدہ ادیب بھی شامل تھے۔ یہ صورت حال ترقی پسند حلقوں کے لیے خاصا پریشان کُن رہی۔ اِس معاملے کو ڈراما قرار دینے والوں کا ردعمل اتنا شدید تھا کہ ملالہ کے حمایتی ایک قدم پیچھے ہٹ گئے، اور آنکھوں کے سامنے ایک ایسا زاویہ آگیا، جہاں ملالہ تنہا نظر آنے لگی۔

یہ رویہ ایک حد تک قابل فہم تھا۔ اس کا بڑا سبب امریکا مخالف جذبات تھے، جنھیں ڈرون حملوں نے ہوا دی۔ ملالہ کی حمایت اور اِس پورے معاملے کی مخالفت کے اِس پیچیدہ رویے کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، مگر یہ طے ہے کہ اِس ریاست کے باسیوں کا ایک خیال پر متفق ہونا، ناممکن نہیں، تو مشکل ضرور ہے۔
Load Next Story