ماضی کے فرشتے
ماضی کے متعدد فرشتے ملک سے باہر رہنے پر بھی مجبور ہیں
PESHAWAR:
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو سابق صدر آصف علی زرداری کی یہ بات پسند آئی ہے کہ انھوں نے اپنی 23 دسمبر کی وطن واپسی کے بعد کرپشن کے متعلق کوئی بات نہیں کی۔ چوہدری نثار کو یہ بھی پتہ ہے کہ ملک میں کرپشن کے خلاف آواز بلند کرنے کا ٹھیکہ پی ٹی آئی کے عمران خان نے لے رکھا ہے اور سابق ادوار میں ہونے والی کرپشن کے معاملات وہی عدالت عظمیٰ میں لے کر گئے ہیں اور شاید سابق صدر زرداری نے کرپشن سے متعلق کچھ کہنا ضروری نہ سمجھا ہو اور اس اہم معاملے پر جان بوجھ کر ہی خاموشی اختیار کر رکھی ہو۔
سابق صدر کے صاحبزادے نے جب کرپشن کی بات کی تو حکومتی وزرا کی طرف سے انھیں یاد دلایا گیا کہ وہ سرے محل اور فرانس کے قیمتی محلات کا بھی ذکر کریں۔
سب کو پتہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے بلاول زرداری کو جو بھی لکھ کر دیا جاتا ہے وہ اس میں اپنا جوش شامل کر کے وہی پڑھ دیتے اور اپنا اسٹائل اس میں شامل کر دیتے ہیں۔ سابق صدر کے صاحبزادے تو اتنے سادے ہیں کہ وہ تین سال قبل سابق ہو جانے والے اپنے والد کو اب بھی صدر زرداری ہی کے نام سے یاد کرتے ہیں اور وہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ 2018ء کے الیکشن میں کامیاب ہو کہ خود وزیراعظم اور زرداری صدر بنیں گے۔
ہر دور میں خواہ وہ سیاسی ہو یا فوجی ہمیشہ ملبہ ماضی کی حکومت پر ڈالا جاتا ہے۔ ہر نئی حکومت کو کرپشن، مسائل، قومی خزانہ خالی و دیگر معاملات سابق حکومت سے ورثے میں ملتے ہیں، جو محدود وسائل کے باوجود حل کرنے کی یقین دہانی عوام کو کرائی جاتی ہے، جس کی ایک مثال لوڈشیڈنگ ہے جو وزیراعظم کے بقول انھیں پی پی کی گزشتہ حکومت سے ورثے میں ملی ہے جو سابق حکومت نے ختم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی، موجودہ حکومت دعوے کر رہی ہے کہ اس نے بجلی کی پیداوار تین سال میں بڑھا کر لوڈشیڈنگ کافی کم کرادی ہے، جب کہ پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ یہ بات نہیں مانتے اور کہہ رہے ہیں کہ اب بھی لوڈشیڈنگ جاری ہے اور حکومتی دعوے غلط ہیں۔
کائرہ صاحب نے 5 جنوری کو یہ بات تقریب کی قریبی عمارت میں جنریٹر کا شور سن کر کہی اور یہ بھول گئے کہ وہ جب وزیر اطلاعات تھے تو ملک بھر میں 12 سے 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا شور نہیں چیخ و پکار تھی، جو کائرہ صاحب کو سنائی نہیں دیتی تھی اور اب اپوزیشن میں آکر انھیں برابر کی عمارت کا شور بھی سنائی دے گیا ہے۔
آصف زرداری دور اندیش ہیں، انھیں اپنی اور اپنی اہلیہ کے دور میں مچایا جانے والا سرے محل، فرانس کے محلات اور کرپشن کا شور یاد ہے، اس لیے وہ ماضی تو کیا موجودہ دور کی کرپشن کی بات نہیں کرتے جب کہ سرے محل وغیرہ کے معاملات بیس سال پرانے ہیں، جب پی پی کے نوجوان چیئرمین آٹھ سال کے تھے، جب انھیں کرپشن نامی اس چیز کا پتا نہیں تھا جس نے شریف فیملی کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف کے دونوں صاحبزادے بھی چھوٹے ہی تھے جب ان کے نام پر جائیدادوں کی برسات ہوئی تھی اور انھیں بھی پتا نہیں تھا کہ ان کی غیر ملکی جائیدادیں پانامہ میں نام نہ ہونے کے باوجود تیسری بار وزیراعظم بننے والے اپنے والد صاحب کے لیے عزت متاثر کرنے کا ذریعہ بن جائیں گی۔
شریف فیملی میں بھی صرف وزیراعظم کے ورثا کے نام آرہے ہیں جب کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے ورثا محفوظ ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی اپنے ہی گزشتہ اقتدار میں کسی کو لٹکانے کے دعوے کیے تھے اور لوڈشیڈنگ مہینوں میں ختم کرا دینے کے اعلانات کے علاوہ مینار پاکستان پر دھرنا بھی دیا تھا اور ان کی کابینہ کے بعض وزیروں پر کرپشن کے بھی الزام ہیں مگر جب تک ثابت نہ ہوں وہ فرشتے ہیں اور کوئی فرشتہ ایسا نہیں ہوتا کہ سیاست میں آکر اپنی کرپشن کے ثبوت چھوڑ جائے۔ سیاست میں تو سب ہی بلکہ اقتدار میں تو سب ہی فرشتے ہوتے ہیں۔ اور انھیں تمام برائیاں اپنے مخالفین میں ہی نظر آتی ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف بھی پی پی حکومت کے پانچ سال میں ہونے والی کرپشن کی کوئی بات نہیں کرتے اور صرف یہ گلہ کرتے ہیں کہ انھوں نے لوڈشیڈنگ کے خاتمے پر توجہ نہیں دی۔ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق بھی پی پی دور میں ریلوے کی تباہی کی بات نہیں کرتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ ان کے دور میں ریلوے کا خسارہ پہلے سے کم ہوا ہے مگر خسارے کی وجہ نہیں بتاتے جو ماضی کے فرشتوں کے باعث ہوا تھا۔
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اپنی اپنی حکومتوں میں ہونے والی کرپشن پر سب ہی سیاسی رہنما خاموش رہتے ہیں مگر انھیں اپنے پارٹی رہنماؤں کی آنکھ میں شہتیر نظر نہیں آتا اور زبانوں کو تالے لگا لیتے ہیں، جس کی واضح مثال پی پی دور کے سابق وزرا میاں رضا ربانی، چوہدری اعتزاز احسن جیسے خود کو اصول پرست کہلانے والے رہنما بھی ہیں۔ چوہدری اعتزاز احسن کو ساری برائیاں وزیراعظم نواز شریف ہی میں نظر آتی ہیں اور وہ شاید اپنی پارٹی کے وزرائے اعظم کو فرشتہ سمجھتے ہیں۔
سیاست اور خاص کر اقتدار میں آکر ہر کسی نے بہتی گنگا میں ہاتھ ہی نہیں دھوئے بلکہ متعدد بار غسل بھی کیا، مگر آج بھی وہ اپنے لوگوں کو کرپٹ نہیں کہتے کیوں کہ ان کے ہاتھ خود صاف نہیں ہیں۔ اب تک ہر دور میں اقتدار میں رہنے والوں کے موجودہ اثاثے ہی ان کی امارت کے واضح ثبوت ہیں مگر یہ لوگ کبھی اپنے درست اثاثے ظاہر نہیں کرتے اور اثاثے ظاہر کرتے وقت کوئی کہتا ہے کہ میرے پاس جائیداد تو کیا ذاتی کار بھی نہیں ہے، کوئی خود کو اپنی ہی بیوی اور بچوں کا مقروض دکھاتا ہے، مگر یہ نہیں بتاتا کہ اس کے خاندان والوں کے پاس اتنا مال کہاں سے آیا۔ وہ اگر اتنے ہی غریب تھے تو الیکشن جیتنے کے لیے کروڑوں روپے کہاں سے اور کیسے خرچ کرلیتے تھے۔
متعدد بار وزیر رہنے والے اور واپڈا میں معمولی ملازمت کرنے والے ایک اپوزیشن رہنما کے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ ان کے پاس چھ سو ایکڑ کا زرعی فارم ہے جسے بجلی بھی مفت مل رہی ہے۔ ایک یہی نہیں سیکڑوں مثالیں ہیں کہ اقتدار میں آکر وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور یہی وجہ ہے کہ اقتدار میں رہنے والے یہ فرشتے نہ کبھی درست گوشوارے جمع کراتے ہیں اور نہ غلط گوشواروں کی کوئی تحقیقات ہوتی ہے اور تحقیقات ہو بھی تو ثابت نہیں ہوتی جس کی مثال کئی ماہ سے قید ڈاکٹر عاصم کی ہے۔
ماضی کے متعدد فرشتے ملک سے باہر رہنے پر بھی مجبور ہیں اگر وہ واقعی ماضی کے فرشتے ہیں تو واپس کیوں نہیں آجاتے۔ ماضی کے ان فرشتوں کو انتظار صرف اپنی پارٹی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا ہے اور اقتدار آنے جانے کا یہ سلسلہ جاری ہی رہنا ہے۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو سابق صدر آصف علی زرداری کی یہ بات پسند آئی ہے کہ انھوں نے اپنی 23 دسمبر کی وطن واپسی کے بعد کرپشن کے متعلق کوئی بات نہیں کی۔ چوہدری نثار کو یہ بھی پتہ ہے کہ ملک میں کرپشن کے خلاف آواز بلند کرنے کا ٹھیکہ پی ٹی آئی کے عمران خان نے لے رکھا ہے اور سابق ادوار میں ہونے والی کرپشن کے معاملات وہی عدالت عظمیٰ میں لے کر گئے ہیں اور شاید سابق صدر زرداری نے کرپشن سے متعلق کچھ کہنا ضروری نہ سمجھا ہو اور اس اہم معاملے پر جان بوجھ کر ہی خاموشی اختیار کر رکھی ہو۔
سابق صدر کے صاحبزادے نے جب کرپشن کی بات کی تو حکومتی وزرا کی طرف سے انھیں یاد دلایا گیا کہ وہ سرے محل اور فرانس کے قیمتی محلات کا بھی ذکر کریں۔
سب کو پتہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے بلاول زرداری کو جو بھی لکھ کر دیا جاتا ہے وہ اس میں اپنا جوش شامل کر کے وہی پڑھ دیتے اور اپنا اسٹائل اس میں شامل کر دیتے ہیں۔ سابق صدر کے صاحبزادے تو اتنے سادے ہیں کہ وہ تین سال قبل سابق ہو جانے والے اپنے والد کو اب بھی صدر زرداری ہی کے نام سے یاد کرتے ہیں اور وہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ 2018ء کے الیکشن میں کامیاب ہو کہ خود وزیراعظم اور زرداری صدر بنیں گے۔
ہر دور میں خواہ وہ سیاسی ہو یا فوجی ہمیشہ ملبہ ماضی کی حکومت پر ڈالا جاتا ہے۔ ہر نئی حکومت کو کرپشن، مسائل، قومی خزانہ خالی و دیگر معاملات سابق حکومت سے ورثے میں ملتے ہیں، جو محدود وسائل کے باوجود حل کرنے کی یقین دہانی عوام کو کرائی جاتی ہے، جس کی ایک مثال لوڈشیڈنگ ہے جو وزیراعظم کے بقول انھیں پی پی کی گزشتہ حکومت سے ورثے میں ملی ہے جو سابق حکومت نے ختم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی، موجودہ حکومت دعوے کر رہی ہے کہ اس نے بجلی کی پیداوار تین سال میں بڑھا کر لوڈشیڈنگ کافی کم کرادی ہے، جب کہ پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ یہ بات نہیں مانتے اور کہہ رہے ہیں کہ اب بھی لوڈشیڈنگ جاری ہے اور حکومتی دعوے غلط ہیں۔
کائرہ صاحب نے 5 جنوری کو یہ بات تقریب کی قریبی عمارت میں جنریٹر کا شور سن کر کہی اور یہ بھول گئے کہ وہ جب وزیر اطلاعات تھے تو ملک بھر میں 12 سے 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا شور نہیں چیخ و پکار تھی، جو کائرہ صاحب کو سنائی نہیں دیتی تھی اور اب اپوزیشن میں آکر انھیں برابر کی عمارت کا شور بھی سنائی دے گیا ہے۔
آصف زرداری دور اندیش ہیں، انھیں اپنی اور اپنی اہلیہ کے دور میں مچایا جانے والا سرے محل، فرانس کے محلات اور کرپشن کا شور یاد ہے، اس لیے وہ ماضی تو کیا موجودہ دور کی کرپشن کی بات نہیں کرتے جب کہ سرے محل وغیرہ کے معاملات بیس سال پرانے ہیں، جب پی پی کے نوجوان چیئرمین آٹھ سال کے تھے، جب انھیں کرپشن نامی اس چیز کا پتا نہیں تھا جس نے شریف فیملی کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف کے دونوں صاحبزادے بھی چھوٹے ہی تھے جب ان کے نام پر جائیدادوں کی برسات ہوئی تھی اور انھیں بھی پتا نہیں تھا کہ ان کی غیر ملکی جائیدادیں پانامہ میں نام نہ ہونے کے باوجود تیسری بار وزیراعظم بننے والے اپنے والد صاحب کے لیے عزت متاثر کرنے کا ذریعہ بن جائیں گی۔
شریف فیملی میں بھی صرف وزیراعظم کے ورثا کے نام آرہے ہیں جب کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے ورثا محفوظ ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی اپنے ہی گزشتہ اقتدار میں کسی کو لٹکانے کے دعوے کیے تھے اور لوڈشیڈنگ مہینوں میں ختم کرا دینے کے اعلانات کے علاوہ مینار پاکستان پر دھرنا بھی دیا تھا اور ان کی کابینہ کے بعض وزیروں پر کرپشن کے بھی الزام ہیں مگر جب تک ثابت نہ ہوں وہ فرشتے ہیں اور کوئی فرشتہ ایسا نہیں ہوتا کہ سیاست میں آکر اپنی کرپشن کے ثبوت چھوڑ جائے۔ سیاست میں تو سب ہی بلکہ اقتدار میں تو سب ہی فرشتے ہوتے ہیں۔ اور انھیں تمام برائیاں اپنے مخالفین میں ہی نظر آتی ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف بھی پی پی حکومت کے پانچ سال میں ہونے والی کرپشن کی کوئی بات نہیں کرتے اور صرف یہ گلہ کرتے ہیں کہ انھوں نے لوڈشیڈنگ کے خاتمے پر توجہ نہیں دی۔ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق بھی پی پی دور میں ریلوے کی تباہی کی بات نہیں کرتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ ان کے دور میں ریلوے کا خسارہ پہلے سے کم ہوا ہے مگر خسارے کی وجہ نہیں بتاتے جو ماضی کے فرشتوں کے باعث ہوا تھا۔
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اپنی اپنی حکومتوں میں ہونے والی کرپشن پر سب ہی سیاسی رہنما خاموش رہتے ہیں مگر انھیں اپنے پارٹی رہنماؤں کی آنکھ میں شہتیر نظر نہیں آتا اور زبانوں کو تالے لگا لیتے ہیں، جس کی واضح مثال پی پی دور کے سابق وزرا میاں رضا ربانی، چوہدری اعتزاز احسن جیسے خود کو اصول پرست کہلانے والے رہنما بھی ہیں۔ چوہدری اعتزاز احسن کو ساری برائیاں وزیراعظم نواز شریف ہی میں نظر آتی ہیں اور وہ شاید اپنی پارٹی کے وزرائے اعظم کو فرشتہ سمجھتے ہیں۔
سیاست اور خاص کر اقتدار میں آکر ہر کسی نے بہتی گنگا میں ہاتھ ہی نہیں دھوئے بلکہ متعدد بار غسل بھی کیا، مگر آج بھی وہ اپنے لوگوں کو کرپٹ نہیں کہتے کیوں کہ ان کے ہاتھ خود صاف نہیں ہیں۔ اب تک ہر دور میں اقتدار میں رہنے والوں کے موجودہ اثاثے ہی ان کی امارت کے واضح ثبوت ہیں مگر یہ لوگ کبھی اپنے درست اثاثے ظاہر نہیں کرتے اور اثاثے ظاہر کرتے وقت کوئی کہتا ہے کہ میرے پاس جائیداد تو کیا ذاتی کار بھی نہیں ہے، کوئی خود کو اپنی ہی بیوی اور بچوں کا مقروض دکھاتا ہے، مگر یہ نہیں بتاتا کہ اس کے خاندان والوں کے پاس اتنا مال کہاں سے آیا۔ وہ اگر اتنے ہی غریب تھے تو الیکشن جیتنے کے لیے کروڑوں روپے کہاں سے اور کیسے خرچ کرلیتے تھے۔
متعدد بار وزیر رہنے والے اور واپڈا میں معمولی ملازمت کرنے والے ایک اپوزیشن رہنما کے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ ان کے پاس چھ سو ایکڑ کا زرعی فارم ہے جسے بجلی بھی مفت مل رہی ہے۔ ایک یہی نہیں سیکڑوں مثالیں ہیں کہ اقتدار میں آکر وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور یہی وجہ ہے کہ اقتدار میں رہنے والے یہ فرشتے نہ کبھی درست گوشوارے جمع کراتے ہیں اور نہ غلط گوشواروں کی کوئی تحقیقات ہوتی ہے اور تحقیقات ہو بھی تو ثابت نہیں ہوتی جس کی مثال کئی ماہ سے قید ڈاکٹر عاصم کی ہے۔
ماضی کے متعدد فرشتے ملک سے باہر رہنے پر بھی مجبور ہیں اگر وہ واقعی ماضی کے فرشتے ہیں تو واپس کیوں نہیں آجاتے۔ ماضی کے ان فرشتوں کو انتظار صرف اپنی پارٹی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا ہے اور اقتدار آنے جانے کا یہ سلسلہ جاری ہی رہنا ہے۔