یہ قرآن کی ترقی کا دور ہے
اسلام بنی نوع انسان کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے
ROME:
اسلام بنی نوع انسان کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، کیوں کہ رحمت اللعالمینؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ ''رحمت کے دروازے ہمیشہ کے لیے کھلے رکھے گئے ہیں۔'' جسے اللہ توفیق عطا فرمائے وہ ان دروازوں میں داخل ہوسکتا ہے۔ اسلام قیامت تک کے لیے وہ پیغام ہے جو جس کی جس وقت سمجھ میں آجائے وہ دائرہ اسلام میں برضا و ر غبت داخل ہو سکتا ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہ ''دین میں کوئی جبر نہیں۔'' اسلام نے ممانعت کی ہے قطع رحمی کی، تعصب کی، جبر و استحصال کی، انسان کی بے توقیری کی۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے اور انسانوں میں ہر مذہب، ہر مکتب فکر، ہر عقیدے اور انداز فکر کے لوگ شامل ہیں۔ وہ رحمن و رحیم ہر ذی روح کی ضروریات سے نہ صرف واقف ہے بلکہ اپنی تمام مخلوقات کی ضروریات کو ہر وقت پورا بھی کرتا ہے۔
اللہ رب العزت نے کسی بھی انسان کو، حتیٰ کہ اپنے انبیا علیہ السلام کی بھی خود ساختہ احکامات کے ذریعے دوسروں سے جینے کا حق چھین لینے، اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے سے روکنے کا اختیار نہیں دیا۔ وجہ یہ ہے کہ تمام اختیارات اس مالک کل کے پاس ہیں۔ وہی اپنے اختیارات کو دنیا و آخرت بطور خاص ''یوم حساب ''استعمال فرمائے گا۔ یہ سب کچھ ہمیں اللہ کی آخری کتاب کے مطالعے ہی سے معلوم ہوا ہے۔
اسلامی فلسفے کی تہہ تک رسائی حاصل کرنے سے گریز نہ کیا جائے۔ ایسا ہمیشہ نہیں ہوا۔ حیات مبارکہؐ میں جو دین اسلام میں داخل ہوگیا اس کے دل میں اسلام کی عظمت اس لیے قائم ہوئی کہ وہ دین کی روح حقیقی سے متاثر ہوا اور حضورؐ کے عمل نے اس کو یقین کامل کی منزل پر فائز کیا۔
یہ وہ عرب تھے جو طرح طرح کے خود ساختہ قبائلی رسم و رواج پر عمل پیرا تھے حضورؐ کی دعوت دین اسلام کے جواب میں کہتے تھے کہ ہم تو وہ کریں گے جو ہمارے باپ دادا کرتے تھے۔ مگر جب انھیں اسلام کی امن پسندی، حقوق انسانیت، حریت فکر کا اندازہ ہوا تو انھوں نے خود محسوس کیا کہ انسان اور انسانیت کی بقا اسی دین پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔ پھر اللہ کے آخری نبیؐ نے اپنے خطبہ آخری میں بھی تمام انسانوں کو برابر کے حقوق کا حصہ دار قرار دیا اور معیار فضیلت تقویٰ قرار پایا۔ نہ دولت، نہ خاندانی عظمت، نہ رنگ و نسل نہ کوئی مخصوص علاقہ۔
جتنا شور تبلیغ اسلام کا آج برپا ہے اتنا تو اس وقت بھی نہ تھا جب مسلمان دنیا کے بڑے حصے پر حکمران تھے۔اسلامی سلطنت میں غیر مسلم خود کو حد درجہ محفوظ اور اپنے مذہب و عقائد میں آزاد محسوس کرتے تھے۔ اسلامی عدالت میں اگر غیر مسلم درست ثابت ہوتا تو قاضی (جج) اسی کے حق میں فیصلہ کرتا تھا، عدل اسلامی حکومت کا طرہ امتیاز تھا جب کہ دوسرے مذاہب میں دولت مندوں کو غربا پر ترجیح دی جاتی تھی، ان کے ساتھ قانون میں رعایت برتتے تھے۔
مشہور واقعہ ہے کہ چوری کا الزام ایک بااثر خاندان کی عورت پر عائد ہوا تو لوگوں نے توقع کی کہ اس سے نرمی برتی جائے مگر حضورؐ نے سختی سے انکار کر دیا۔ مزید فرمایا کہ ''پچھلی امتیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہ غریبوں کو کڑی سزا اور امیروں کو معاف کردیا کرتے تھے۔ قانون کا اطلاق سب پر یکساں نہیں کرتے تھے۔''
اسلام کے نام پر حاصل کردہ ریاست میں کیا یہی کچھ نہیں ہو رہا، اربوں کی بدعنوانی کے مرتکب معمولی رقم دے کر باقی پر عیش کر رہے ہیں، اگر غریب بچہ (کئی دن یا وقت کا بھوکا) ایک روٹی چرا لے تو قانون پوری طرح حرکت میں آجاتا ہے، حالانکہ وہ معاشرتی ناانصافی کے باعث ہی اس حرکت کا مرتکب ہوا ہوتا ہے۔ باب مدینۃ العلم کا مشہور قول ہے کہ ''کفر پر معاشرہ قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم و بے انصافی پر نہیں۔''
آج ہم ملک خداداد میں اسلامی اصول و انصاف کی جو صورتحال دیکھ رہے ہیں وہ محض قرآن مجید کو اپنی مرضی کے ترجمے سے لوگوں کو گمراہ کرنے کے باعث ہے۔ صرف بصیرت کے ساتھ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والے عام انسان کو بھی یہ سب کچھ اسلامی روح کے منافی نظر آتا ہے وہ سوچتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ وہ اسلام تو نہیں جو حضورؐ کے ذریعے اللہ نے نزول فرمایا تھا، تو یقین نہیں آتا کہ خود کو عالم، مولوی، مولانا اور مفتی یا مذہبی جماعتوں کے سربراہ کہلانے والے آخر تمام مکاتب فکر کے درمیان اتحاد و اتفاق قائم کرنے کے بجائے اس قدر نفاق اور دوریاں کیوں اور کس وجہ سے پیدا کر رہے ہیں۔
اسلام تو اپنے ماننے والوں کو ایک خدا، ایک رسول اور ایک شریعت پر یکجا دیکھنا چاہتا ہے، فروعی مسائل و اختلافات کو ہوا دے کر دشمنوں کو غالب آنے کا موقع فراہم کرنا کون سی ''دینی خدمت'' ہے؟ اگر کوئی آپ کی نظر میں غلط ہے تو آپ اس کو پیار محبت اور اپنائیت سے اس کی غلطی کا احساس دلائیں، اگر وہ اپنی غلطی تسلیم کرکے تائب ہوجائے تو بہت خوب، نہ ہو تو آپ اپنا فرض ادا کرچکے اب آگے اس کا اور اس کے رب کا معاملہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبؐ سے بارہا فرمایا کہ ''آپؐ کا کام ان تک پیغام پہنچانا ہے یہ تسلیم کریں یا نہ کریں، اس کی ذمے داری آپؐ پر عائد نہیں ہوتی۔'' جب اللہ کے رسولؐ کو جبراً کسی پر دین مسلط کرنے کا اختیار نہیں تو مجھے یا آپ کو یہ اختیار کیسے حاصل ہوگیا؟
گزشتہ دنوں پریس کلب پر بنی پینٹنگز کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ ہمیں زیب دیتا ہے، بطور خاص خواتین کی تصاویر کے ساتھ؟ خواتین کا احترام گھر سے سکھایا جاتا ہے جو اس کے مرتکب ہوئے، انھوں نے اپنے خاندان اور تربیت کو رسوا کیا۔ آپ کو یہ سب پسند نہیں تو آپ نہ دیکھیے، ادھر سے نہ گزریے اگر آپ کا اسلام خطرے میں ہے تو اپنا اسلام ضرور بچائیں جو غلط کر رہا ہے ان کو ان کے کیے کی سزا روز محشر مل جائے گی کسی کا گناہ آپ کے گناہوں میں اضافے کا سبب ہرگز نہیں ہوگا۔
قیام پاکستان کے 69 برس بعد نسل نو اور گزشتہ نسل یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا پاکستان مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو قتل کرنے، آپس میں تفرقہ، نفاق، گروہ در گروہ بٹنے کے لیے حاصل کیا گیا تھا؟ اس سے تو بہتر ہوتا کہ ہندوؤں کے ہاتھوں شہید ہوجاتے۔ مگر بتایا تو یہ جاتا ہے کہ ملک خداداد میں اپنے عقائد پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہوگی۔ غیر مسلم اپنے مذہب پر مکمل آزادی سے عمل پیرا رہیں گے۔ مگر ہو یہ رہا ہے کہ کچھ لوگ اپنی مرضی کے مطابق سب کو جینے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہ دور ''سائنس کی ترقی کا نہیں قرآن کی ترقی کا دور ہے۔'' مگر جو قرآن کو طاق پر رکھ کر اپنے ذہن سے فرمان الٰہی تراش رہے ہیں انھیں اس کا اندازہ کیسے ہو؟
اسلام بنی نوع انسان کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، کیوں کہ رحمت اللعالمینؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ ''رحمت کے دروازے ہمیشہ کے لیے کھلے رکھے گئے ہیں۔'' جسے اللہ توفیق عطا فرمائے وہ ان دروازوں میں داخل ہوسکتا ہے۔ اسلام قیامت تک کے لیے وہ پیغام ہے جو جس کی جس وقت سمجھ میں آجائے وہ دائرہ اسلام میں برضا و ر غبت داخل ہو سکتا ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہ ''دین میں کوئی جبر نہیں۔'' اسلام نے ممانعت کی ہے قطع رحمی کی، تعصب کی، جبر و استحصال کی، انسان کی بے توقیری کی۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے اور انسانوں میں ہر مذہب، ہر مکتب فکر، ہر عقیدے اور انداز فکر کے لوگ شامل ہیں۔ وہ رحمن و رحیم ہر ذی روح کی ضروریات سے نہ صرف واقف ہے بلکہ اپنی تمام مخلوقات کی ضروریات کو ہر وقت پورا بھی کرتا ہے۔
اللہ رب العزت نے کسی بھی انسان کو، حتیٰ کہ اپنے انبیا علیہ السلام کی بھی خود ساختہ احکامات کے ذریعے دوسروں سے جینے کا حق چھین لینے، اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے سے روکنے کا اختیار نہیں دیا۔ وجہ یہ ہے کہ تمام اختیارات اس مالک کل کے پاس ہیں۔ وہی اپنے اختیارات کو دنیا و آخرت بطور خاص ''یوم حساب ''استعمال فرمائے گا۔ یہ سب کچھ ہمیں اللہ کی آخری کتاب کے مطالعے ہی سے معلوم ہوا ہے۔
اسلامی فلسفے کی تہہ تک رسائی حاصل کرنے سے گریز نہ کیا جائے۔ ایسا ہمیشہ نہیں ہوا۔ حیات مبارکہؐ میں جو دین اسلام میں داخل ہوگیا اس کے دل میں اسلام کی عظمت اس لیے قائم ہوئی کہ وہ دین کی روح حقیقی سے متاثر ہوا اور حضورؐ کے عمل نے اس کو یقین کامل کی منزل پر فائز کیا۔
یہ وہ عرب تھے جو طرح طرح کے خود ساختہ قبائلی رسم و رواج پر عمل پیرا تھے حضورؐ کی دعوت دین اسلام کے جواب میں کہتے تھے کہ ہم تو وہ کریں گے جو ہمارے باپ دادا کرتے تھے۔ مگر جب انھیں اسلام کی امن پسندی، حقوق انسانیت، حریت فکر کا اندازہ ہوا تو انھوں نے خود محسوس کیا کہ انسان اور انسانیت کی بقا اسی دین پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔ پھر اللہ کے آخری نبیؐ نے اپنے خطبہ آخری میں بھی تمام انسانوں کو برابر کے حقوق کا حصہ دار قرار دیا اور معیار فضیلت تقویٰ قرار پایا۔ نہ دولت، نہ خاندانی عظمت، نہ رنگ و نسل نہ کوئی مخصوص علاقہ۔
جتنا شور تبلیغ اسلام کا آج برپا ہے اتنا تو اس وقت بھی نہ تھا جب مسلمان دنیا کے بڑے حصے پر حکمران تھے۔اسلامی سلطنت میں غیر مسلم خود کو حد درجہ محفوظ اور اپنے مذہب و عقائد میں آزاد محسوس کرتے تھے۔ اسلامی عدالت میں اگر غیر مسلم درست ثابت ہوتا تو قاضی (جج) اسی کے حق میں فیصلہ کرتا تھا، عدل اسلامی حکومت کا طرہ امتیاز تھا جب کہ دوسرے مذاہب میں دولت مندوں کو غربا پر ترجیح دی جاتی تھی، ان کے ساتھ قانون میں رعایت برتتے تھے۔
مشہور واقعہ ہے کہ چوری کا الزام ایک بااثر خاندان کی عورت پر عائد ہوا تو لوگوں نے توقع کی کہ اس سے نرمی برتی جائے مگر حضورؐ نے سختی سے انکار کر دیا۔ مزید فرمایا کہ ''پچھلی امتیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہ غریبوں کو کڑی سزا اور امیروں کو معاف کردیا کرتے تھے۔ قانون کا اطلاق سب پر یکساں نہیں کرتے تھے۔''
اسلام کے نام پر حاصل کردہ ریاست میں کیا یہی کچھ نہیں ہو رہا، اربوں کی بدعنوانی کے مرتکب معمولی رقم دے کر باقی پر عیش کر رہے ہیں، اگر غریب بچہ (کئی دن یا وقت کا بھوکا) ایک روٹی چرا لے تو قانون پوری طرح حرکت میں آجاتا ہے، حالانکہ وہ معاشرتی ناانصافی کے باعث ہی اس حرکت کا مرتکب ہوا ہوتا ہے۔ باب مدینۃ العلم کا مشہور قول ہے کہ ''کفر پر معاشرہ قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم و بے انصافی پر نہیں۔''
آج ہم ملک خداداد میں اسلامی اصول و انصاف کی جو صورتحال دیکھ رہے ہیں وہ محض قرآن مجید کو اپنی مرضی کے ترجمے سے لوگوں کو گمراہ کرنے کے باعث ہے۔ صرف بصیرت کے ساتھ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والے عام انسان کو بھی یہ سب کچھ اسلامی روح کے منافی نظر آتا ہے وہ سوچتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ وہ اسلام تو نہیں جو حضورؐ کے ذریعے اللہ نے نزول فرمایا تھا، تو یقین نہیں آتا کہ خود کو عالم، مولوی، مولانا اور مفتی یا مذہبی جماعتوں کے سربراہ کہلانے والے آخر تمام مکاتب فکر کے درمیان اتحاد و اتفاق قائم کرنے کے بجائے اس قدر نفاق اور دوریاں کیوں اور کس وجہ سے پیدا کر رہے ہیں۔
اسلام تو اپنے ماننے والوں کو ایک خدا، ایک رسول اور ایک شریعت پر یکجا دیکھنا چاہتا ہے، فروعی مسائل و اختلافات کو ہوا دے کر دشمنوں کو غالب آنے کا موقع فراہم کرنا کون سی ''دینی خدمت'' ہے؟ اگر کوئی آپ کی نظر میں غلط ہے تو آپ اس کو پیار محبت اور اپنائیت سے اس کی غلطی کا احساس دلائیں، اگر وہ اپنی غلطی تسلیم کرکے تائب ہوجائے تو بہت خوب، نہ ہو تو آپ اپنا فرض ادا کرچکے اب آگے اس کا اور اس کے رب کا معاملہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبؐ سے بارہا فرمایا کہ ''آپؐ کا کام ان تک پیغام پہنچانا ہے یہ تسلیم کریں یا نہ کریں، اس کی ذمے داری آپؐ پر عائد نہیں ہوتی۔'' جب اللہ کے رسولؐ کو جبراً کسی پر دین مسلط کرنے کا اختیار نہیں تو مجھے یا آپ کو یہ اختیار کیسے حاصل ہوگیا؟
گزشتہ دنوں پریس کلب پر بنی پینٹنگز کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ ہمیں زیب دیتا ہے، بطور خاص خواتین کی تصاویر کے ساتھ؟ خواتین کا احترام گھر سے سکھایا جاتا ہے جو اس کے مرتکب ہوئے، انھوں نے اپنے خاندان اور تربیت کو رسوا کیا۔ آپ کو یہ سب پسند نہیں تو آپ نہ دیکھیے، ادھر سے نہ گزریے اگر آپ کا اسلام خطرے میں ہے تو اپنا اسلام ضرور بچائیں جو غلط کر رہا ہے ان کو ان کے کیے کی سزا روز محشر مل جائے گی کسی کا گناہ آپ کے گناہوں میں اضافے کا سبب ہرگز نہیں ہوگا۔
قیام پاکستان کے 69 برس بعد نسل نو اور گزشتہ نسل یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا پاکستان مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو قتل کرنے، آپس میں تفرقہ، نفاق، گروہ در گروہ بٹنے کے لیے حاصل کیا گیا تھا؟ اس سے تو بہتر ہوتا کہ ہندوؤں کے ہاتھوں شہید ہوجاتے۔ مگر بتایا تو یہ جاتا ہے کہ ملک خداداد میں اپنے عقائد پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہوگی۔ غیر مسلم اپنے مذہب پر مکمل آزادی سے عمل پیرا رہیں گے۔ مگر ہو یہ رہا ہے کہ کچھ لوگ اپنی مرضی کے مطابق سب کو جینے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہ دور ''سائنس کی ترقی کا نہیں قرآن کی ترقی کا دور ہے۔'' مگر جو قرآن کو طاق پر رکھ کر اپنے ذہن سے فرمان الٰہی تراش رہے ہیں انھیں اس کا اندازہ کیسے ہو؟