قیامت سے قیامت تک
ہماری سائنس، ہماری ٹیکنالوجی، ہمارا اضطراب ہمیں کائناتی حقائق جاننے کی طرف دھکیل رہا ہے
دسمبر کا مہینہ دنیا کے مختلف ملکوں میں خوف وہراس کا مہینہ تھا،کیونکہ بعض پسماندہ قبائل کی روایات کے مطابق 23 دسمبر 2013 کو قیامت آنے والی تھی، اس حوالے سے یہ تاویل پیش کی جارہی تھی کہ ایک سیارہ کرہ ارض کے اس قدر قریب سے گزرے گا کہ اس کے اثرات سے سمندروں کی سطح اتنی بلند ہوجائے گی کہ ساری آبادیاں سمندربرد ہوجائیں گی، زلزلے اور طوفان آئیں گے، یوں دنیا کا خاتمہ ہوجائے گا۔ یہ افواہ مایا قبیلے کے ایک کیلنڈر کے حوالے سے اڑائی گئی، اس کیلنڈر کے مطابق 23 دسمبر کو قیامت آنی ہی آنی تھی۔
دنیا کے وہ حلقے جو اس قسم کی خرافات پر یقین رکھتے ہیں اس مبینہ قیامت سے اس قدر بدحواس تھے کہ کوئی پہاڑوں پر بسیرا کر رہا تھا، کوئی غاروں میں چھپ رہا تھا، لیکن دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ ان خرافات سے دور اپنی روز مرہ زندگی کے معمولات میں مصروف رہا۔ خلائی تحقیق کے ادارے ناسا اور ماہرین ارض کی طرف سے اس قیامت کی تردید کرتے ہوئے دنیا کے انسانوں کو بتایا جارہا تھا کہ تین ارب سال پہلے وجود میں آنے والی اس دنیا کی عمر ابھی چار ارب سال ہے اور کائناتی نظام جس تسلسل سے رواں دواں ہے یہ اسی طرح رواں دواں رہے گا البتہ ہمارے نظام شمسی کو زندہ رکھنے والا سورج چار ارب سال بعد اپنی حرارت کھودے گا، یوں اس نظام شمسی سے منسلک سیارے جس میں ہماری زمین بھی شامل ہے ختم ہوجائیں گے۔
تصور اور خیال کی گرفت میں نہ آنے والی کائنات کی لامحدودیت کے بارے میں انسان تحقیق کررہا ہے کہ اس کا ازل کیا ہے، اس کا ابد کیا ہوگا، اس کا پھیلاؤ کتنا وسیع ہے؟ انسان نے اس کا علم بہرحال حاصل کرلیا ہے کہ ہمارے نظام شمسی جیسے اربوں نظام شمسی خلاء میں اپنے اپنے مداروں پر گردش کر رہے ہیں انسان ابھی تک یہ نہیں جان سکا کہ اس لامحدود کائنات میں بننے اور بگڑنے کا عمل کس طرح جاری ہے اور اب تک کیا کچھ بنتا بگڑتا رہا ہے۔ انسان اپنے نظام شمسی کے سیاروں میں زندگی تلاش کرنے کی تگ و دو کر رہا ہے، چاند پر اس کا پہنچنا مریخ اور دوسرے سیاروں تک اس کی رسائی، اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں، تازہ اطلاعات کے مطابق مریخ پر اترنے والی گاڑی سے آنے والی اطلاعات سے یہ امید کی جارہی ہے کہ مریخ پر پانی، ہوا، آکسیجن جیسی چیزں موجود ہیں جو کسی بھی سیارے پر زندگی کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہیں۔
ہمارا خلائی سائنس یا ارضی سائنس سے کوئی تعلق نہیں، لیکن زمینی اور کائناتی علم کی روشنی میں کیا انسان کرہ ارض پر بسنے والے سات ارب انسانوں کی زندگی کو بہتر بناسکتا ہے؟ اس موضوع پر سوچنا ہمارا حق بھی ہے اور فرض بھی، ہماری سائنس، ہماری ٹیکنالوجی، ہمارا اضطراب ہمیں کائناتی حقائق جاننے کی طرف دھکیل رہا ہے اورکرہ ارض کی اشرف المخلوقات کی حیثیت سے ہم کائناتی تحقیق کے جس سفر پر چل پڑے ہیں وہ بھی انسانی فطرت کے عین مطابق ہے، لیکن جو سوال اہل ارض کے اہل علم، اہل دانش کے سامنے کھڑا ہے وہ یہ ہے کہ کرہ ارض کو جو خطرات درجہ حرارت میں مسلسل ہونے والے اضافے اوزون کے بڑھتے ہوئے شگاف اور اس حوالے سے ماحولیاتی نظام میں ہونے والی خطرناک تبدیلیوں سے کرہ ارض کو اور انسانی زندگی کو کس طرح محفوظ بنایا جائے، دوسرا سوال یہ ہے کہ کرہ ارض پر بسنے والے ساتھ ارب انسانوں کو جنگوں، نفرتوں، معاشی استحصال سے بچاکر کس طرح انھیں ایک پرامن، نفرتوں سے پاک، خوشحال زندگی مہیا کی جائے؟
جب ہم ان سوالوں پر غور کرتے ہیں تو ہزاروں سال پر پھیلے ہوئے عقائد ونظریات میں بامعنی تبدیلی ناگزیر محسوس ہوتی ہے۔ انسان رنگ، نسل، زبان، ملک وملت، دین دھرم کے حوالوں سے تعصبات، نفرتوںکے جس دلدل میں پھنسا ہوا ہے کیا کائنات کے علوم سے ان برائیوں کو ختم کرنے میں مدد لی جاسکتی ہے؟ یہی وہ سوال ہے جو کرہ ارض کی چار ارب سالہ زندگی کے پس منظر میں ایک مثبت جواب کا طلبگار ہے۔ قیامت کا تصور ہر مذہب میں تقریباً یکساں ہے، لیکن قیامت کب آئے گی اس کے بارے میں کسی کے پاس کوئی حتمی اور قطعی جواب موجود نہیں، ہم کسی سفر پر نکلتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اس سفر کی مدت یا عرصے کا تصور موجود ہوتا ہے اور اسی کے حوالے سے ہم اپنے سفر کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
اگر سفر کے عرصے اور وقت کے بارے میں ہم ابہام یا غیر یقینیت کا شکار ہوں تو ہم سفر کی تیاری اور منصوبہ بندی ٹھیک طریقے سے نہیں کرسکتے، کرہ ارض پر انسانی حیات کے بارے میں انسان ہزاروں سال تک غیر یقینیت کا شکار رہا لیکن اب جب یہ بات یقین کے ساتھ کہی جارہی ہے کہ کرہ ارض ابھی چار ارب سال زندہ رہ سکتا ہے، تو کیا اس لمبے سفر کے حوالے سے کوئی ایسی منصوبہ بندی ضروری نہیں جو اس سیارے پر بسنے والی مخلوق کو امن اور خوشحالی دے سکے ۔
اس چار ارب سالہ سفر کو محفوظ بنانے کے لیے سب سے پہلی ضرورت ان خطرات سے نجات کی ہے جو کرہ ارض کو لاحق ہوگئے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا خطرہ درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کا ہے۔ دنیا کا ماحولیاتی نظام جس بری طرح متاثر ہورہا ہے اس کا مشاہدہ ہم طوفانی بارشوں، سیلابوں، سمندری طوفانوں، زلزلوں غیر معمولی برف باریوں اور بدلتے موسموں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں، سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے آنے والے چند عشروں کے دوران کئی ساحلی شہروں کے سمندر برد ہونے کی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں۔ ہم جس ذہنی صلاحیتوں کی بدولت انسان کو چاند پر پہنچا رہے ہیں خلائی مشن مریخ مشتری پر بھیجے جارہے ہیں، کیا ان ذہنی صلاحیتوں کو کام میں لاکر کرہ ارض کو لاحق خطرات سے بچنے کی کوشش نہیں کرسکتے؟
درجہ حرارت میں اضافے کا سبب گرین گیسوں کا بڑے پیمانے پر اخراج بتایا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ انسانی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے گرین گیسوں کا استعمال ضروری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانی ضرورتیں پوری کرنے کا مسئلہ اس وقت تک باقی رہے گا جب تک انسان موجود ہے۔ جب انسان موجود ہی نہیں رہے گا تو پھر گرین گیس کی ضرورت کسے ہوگی، آج بجلی پیدا کرنے کے نئے نئے طریقے اور وسیلے ڈھونڈے جارہے ہیں کیا گرین گیسوں کا متبادل تلاش نہیں کیا جاسکتا؟زلزلے، سمندری طوفان، سونامی انسانی زندگی کے لیے بہت بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ کیا کرہ ارض کے ماہرین سائنس و ٹیکنالوجی زلزلوں اور سمندری طوفانوں کی تباہ کاریوں کو روکنے کی کوشش نہیں کرسکتے، کیا نظام شمسی سے پرے دیکھنے کے لیے انسان کائناتی دوربین بناسکتا ہے تو زیرزمین ہونے والی سرگرمیوں اور تبدیلیوں کو دیکھنے کی دوربینیں نہیں تیار کرسکتا؟
کیا سمندری طوفانوں کی آمد کا ہفتوں پہلے پتہ لگالینے والا انسان ان طوفانوں کا رخ موڑنے کی کوشش نہیں کرسکتا، سیلابوں کی تباہ کاریوں کو روکنے کے لیے سیلابی پانی کو ڈیموں میں بند کرنے کے بڑے بڑے منصوبے نہیں بناسکتا؟ انسان علم، عقل وفہم کی جس معراج کی طرف گامزن ہے اس کے پیش نظر کرہ ارض کو لاحق تمام خطرات سے تحفظ ممکن ہے بشرطیکہ اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقات کے ایجنڈے ان کی ترجیحات میں اس قسم کی تحقیقات شامل ہی نہیں ہیں اس کی وجہ ہماری سیاست کی بدبختیاں اور خودغرضیاں ہیں جو سیاستدانوں کو ان اہم ترین ضرورتوں پر سوچنے کا وقت ہی نہیں دیتیں۔
کرہ ارض کا دوسرا سب سے اہم مسئلہ کر ارض کو جنگوں نفرتوں، تعصبات، تنگ نظریوں، قوم ملک، دین دھرم کی قیود سے نجات دلانا ہے، کرہ ارض کے اس اشرف المخلوقات نے مختلف حوالوں سے انسانوں کو جس طرح تقسیم کر رکھا ہے یہی تقسیم جنگوں، نفرتوں، تعصبات، تنگ نظریوں، معاشی ناانصافیوں کا سبب بنی ہوئی ہے۔ اسی تقسیم نے ملکوں کے درمیان جغرافیائی لکیریں کھینچ دی ہیں۔ اسی تقسیم کی وجہ سے قومی مفادات اور ملکی سالمیت کا شعور پیدا کیا گیا ہے۔اسی تصورکی وجہ سے فوجوں اور اسلحے کی ضرورت پیش آتی ہے، صرف فوج اور اسلحے پر جو بھاری رقوم خرچ کی جارہی ہیں اگر ان رقوم ہی کو بچالیا جائے تو دنیا سے غربت اور بنیادی ضرورتوں سے محرومی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
لیکن ہزاروں سالوں پر پھیلی ہوئی اس تقسیم اور اس تقسیم سے پیدا ہونے والی برائیوں کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس جواب کو حاصل کرنے کے لیے مریخ یا چاند پر جانے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف اور صرف ایک فلسفے کو قبول کرنے اس کو بنیاد بنانے کی ضرورت ہے اور وہ فلسفہ یہ ہے کہ سارے انسانوں کا خدا ایک، سارے انسانوں کا جد امجد آدم ایک ہے۔ باقی تمام تقسیم انسان کی اپنی پیدا کردہ ہیں۔ ذرا اس فلسفے کی طرف آئیں پھر دیکھیں دنیا جہنم سے جنت کیسے بن جاتی ہے۔
دنیا کے وہ حلقے جو اس قسم کی خرافات پر یقین رکھتے ہیں اس مبینہ قیامت سے اس قدر بدحواس تھے کہ کوئی پہاڑوں پر بسیرا کر رہا تھا، کوئی غاروں میں چھپ رہا تھا، لیکن دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ ان خرافات سے دور اپنی روز مرہ زندگی کے معمولات میں مصروف رہا۔ خلائی تحقیق کے ادارے ناسا اور ماہرین ارض کی طرف سے اس قیامت کی تردید کرتے ہوئے دنیا کے انسانوں کو بتایا جارہا تھا کہ تین ارب سال پہلے وجود میں آنے والی اس دنیا کی عمر ابھی چار ارب سال ہے اور کائناتی نظام جس تسلسل سے رواں دواں ہے یہ اسی طرح رواں دواں رہے گا البتہ ہمارے نظام شمسی کو زندہ رکھنے والا سورج چار ارب سال بعد اپنی حرارت کھودے گا، یوں اس نظام شمسی سے منسلک سیارے جس میں ہماری زمین بھی شامل ہے ختم ہوجائیں گے۔
تصور اور خیال کی گرفت میں نہ آنے والی کائنات کی لامحدودیت کے بارے میں انسان تحقیق کررہا ہے کہ اس کا ازل کیا ہے، اس کا ابد کیا ہوگا، اس کا پھیلاؤ کتنا وسیع ہے؟ انسان نے اس کا علم بہرحال حاصل کرلیا ہے کہ ہمارے نظام شمسی جیسے اربوں نظام شمسی خلاء میں اپنے اپنے مداروں پر گردش کر رہے ہیں انسان ابھی تک یہ نہیں جان سکا کہ اس لامحدود کائنات میں بننے اور بگڑنے کا عمل کس طرح جاری ہے اور اب تک کیا کچھ بنتا بگڑتا رہا ہے۔ انسان اپنے نظام شمسی کے سیاروں میں زندگی تلاش کرنے کی تگ و دو کر رہا ہے، چاند پر اس کا پہنچنا مریخ اور دوسرے سیاروں تک اس کی رسائی، اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں، تازہ اطلاعات کے مطابق مریخ پر اترنے والی گاڑی سے آنے والی اطلاعات سے یہ امید کی جارہی ہے کہ مریخ پر پانی، ہوا، آکسیجن جیسی چیزں موجود ہیں جو کسی بھی سیارے پر زندگی کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہیں۔
ہمارا خلائی سائنس یا ارضی سائنس سے کوئی تعلق نہیں، لیکن زمینی اور کائناتی علم کی روشنی میں کیا انسان کرہ ارض پر بسنے والے سات ارب انسانوں کی زندگی کو بہتر بناسکتا ہے؟ اس موضوع پر سوچنا ہمارا حق بھی ہے اور فرض بھی، ہماری سائنس، ہماری ٹیکنالوجی، ہمارا اضطراب ہمیں کائناتی حقائق جاننے کی طرف دھکیل رہا ہے اورکرہ ارض کی اشرف المخلوقات کی حیثیت سے ہم کائناتی تحقیق کے جس سفر پر چل پڑے ہیں وہ بھی انسانی فطرت کے عین مطابق ہے، لیکن جو سوال اہل ارض کے اہل علم، اہل دانش کے سامنے کھڑا ہے وہ یہ ہے کہ کرہ ارض کو جو خطرات درجہ حرارت میں مسلسل ہونے والے اضافے اوزون کے بڑھتے ہوئے شگاف اور اس حوالے سے ماحولیاتی نظام میں ہونے والی خطرناک تبدیلیوں سے کرہ ارض کو اور انسانی زندگی کو کس طرح محفوظ بنایا جائے، دوسرا سوال یہ ہے کہ کرہ ارض پر بسنے والے ساتھ ارب انسانوں کو جنگوں، نفرتوں، معاشی استحصال سے بچاکر کس طرح انھیں ایک پرامن، نفرتوں سے پاک، خوشحال زندگی مہیا کی جائے؟
جب ہم ان سوالوں پر غور کرتے ہیں تو ہزاروں سال پر پھیلے ہوئے عقائد ونظریات میں بامعنی تبدیلی ناگزیر محسوس ہوتی ہے۔ انسان رنگ، نسل، زبان، ملک وملت، دین دھرم کے حوالوں سے تعصبات، نفرتوںکے جس دلدل میں پھنسا ہوا ہے کیا کائنات کے علوم سے ان برائیوں کو ختم کرنے میں مدد لی جاسکتی ہے؟ یہی وہ سوال ہے جو کرہ ارض کی چار ارب سالہ زندگی کے پس منظر میں ایک مثبت جواب کا طلبگار ہے۔ قیامت کا تصور ہر مذہب میں تقریباً یکساں ہے، لیکن قیامت کب آئے گی اس کے بارے میں کسی کے پاس کوئی حتمی اور قطعی جواب موجود نہیں، ہم کسی سفر پر نکلتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اس سفر کی مدت یا عرصے کا تصور موجود ہوتا ہے اور اسی کے حوالے سے ہم اپنے سفر کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
اگر سفر کے عرصے اور وقت کے بارے میں ہم ابہام یا غیر یقینیت کا شکار ہوں تو ہم سفر کی تیاری اور منصوبہ بندی ٹھیک طریقے سے نہیں کرسکتے، کرہ ارض پر انسانی حیات کے بارے میں انسان ہزاروں سال تک غیر یقینیت کا شکار رہا لیکن اب جب یہ بات یقین کے ساتھ کہی جارہی ہے کہ کرہ ارض ابھی چار ارب سال زندہ رہ سکتا ہے، تو کیا اس لمبے سفر کے حوالے سے کوئی ایسی منصوبہ بندی ضروری نہیں جو اس سیارے پر بسنے والی مخلوق کو امن اور خوشحالی دے سکے ۔
اس چار ارب سالہ سفر کو محفوظ بنانے کے لیے سب سے پہلی ضرورت ان خطرات سے نجات کی ہے جو کرہ ارض کو لاحق ہوگئے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا خطرہ درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کا ہے۔ دنیا کا ماحولیاتی نظام جس بری طرح متاثر ہورہا ہے اس کا مشاہدہ ہم طوفانی بارشوں، سیلابوں، سمندری طوفانوں، زلزلوں غیر معمولی برف باریوں اور بدلتے موسموں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں، سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے آنے والے چند عشروں کے دوران کئی ساحلی شہروں کے سمندر برد ہونے کی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں۔ ہم جس ذہنی صلاحیتوں کی بدولت انسان کو چاند پر پہنچا رہے ہیں خلائی مشن مریخ مشتری پر بھیجے جارہے ہیں، کیا ان ذہنی صلاحیتوں کو کام میں لاکر کرہ ارض کو لاحق خطرات سے بچنے کی کوشش نہیں کرسکتے؟
درجہ حرارت میں اضافے کا سبب گرین گیسوں کا بڑے پیمانے پر اخراج بتایا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ انسانی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے گرین گیسوں کا استعمال ضروری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانی ضرورتیں پوری کرنے کا مسئلہ اس وقت تک باقی رہے گا جب تک انسان موجود ہے۔ جب انسان موجود ہی نہیں رہے گا تو پھر گرین گیس کی ضرورت کسے ہوگی، آج بجلی پیدا کرنے کے نئے نئے طریقے اور وسیلے ڈھونڈے جارہے ہیں کیا گرین گیسوں کا متبادل تلاش نہیں کیا جاسکتا؟زلزلے، سمندری طوفان، سونامی انسانی زندگی کے لیے بہت بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ کیا کرہ ارض کے ماہرین سائنس و ٹیکنالوجی زلزلوں اور سمندری طوفانوں کی تباہ کاریوں کو روکنے کی کوشش نہیں کرسکتے، کیا نظام شمسی سے پرے دیکھنے کے لیے انسان کائناتی دوربین بناسکتا ہے تو زیرزمین ہونے والی سرگرمیوں اور تبدیلیوں کو دیکھنے کی دوربینیں نہیں تیار کرسکتا؟
کیا سمندری طوفانوں کی آمد کا ہفتوں پہلے پتہ لگالینے والا انسان ان طوفانوں کا رخ موڑنے کی کوشش نہیں کرسکتا، سیلابوں کی تباہ کاریوں کو روکنے کے لیے سیلابی پانی کو ڈیموں میں بند کرنے کے بڑے بڑے منصوبے نہیں بناسکتا؟ انسان علم، عقل وفہم کی جس معراج کی طرف گامزن ہے اس کے پیش نظر کرہ ارض کو لاحق تمام خطرات سے تحفظ ممکن ہے بشرطیکہ اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقات کے ایجنڈے ان کی ترجیحات میں اس قسم کی تحقیقات شامل ہی نہیں ہیں اس کی وجہ ہماری سیاست کی بدبختیاں اور خودغرضیاں ہیں جو سیاستدانوں کو ان اہم ترین ضرورتوں پر سوچنے کا وقت ہی نہیں دیتیں۔
کرہ ارض کا دوسرا سب سے اہم مسئلہ کر ارض کو جنگوں نفرتوں، تعصبات، تنگ نظریوں، قوم ملک، دین دھرم کی قیود سے نجات دلانا ہے، کرہ ارض کے اس اشرف المخلوقات نے مختلف حوالوں سے انسانوں کو جس طرح تقسیم کر رکھا ہے یہی تقسیم جنگوں، نفرتوں، تعصبات، تنگ نظریوں، معاشی ناانصافیوں کا سبب بنی ہوئی ہے۔ اسی تقسیم نے ملکوں کے درمیان جغرافیائی لکیریں کھینچ دی ہیں۔ اسی تقسیم کی وجہ سے قومی مفادات اور ملکی سالمیت کا شعور پیدا کیا گیا ہے۔اسی تصورکی وجہ سے فوجوں اور اسلحے کی ضرورت پیش آتی ہے، صرف فوج اور اسلحے پر جو بھاری رقوم خرچ کی جارہی ہیں اگر ان رقوم ہی کو بچالیا جائے تو دنیا سے غربت اور بنیادی ضرورتوں سے محرومی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
لیکن ہزاروں سالوں پر پھیلی ہوئی اس تقسیم اور اس تقسیم سے پیدا ہونے والی برائیوں کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس جواب کو حاصل کرنے کے لیے مریخ یا چاند پر جانے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف اور صرف ایک فلسفے کو قبول کرنے اس کو بنیاد بنانے کی ضرورت ہے اور وہ فلسفہ یہ ہے کہ سارے انسانوں کا خدا ایک، سارے انسانوں کا جد امجد آدم ایک ہے۔ باقی تمام تقسیم انسان کی اپنی پیدا کردہ ہیں۔ ذرا اس فلسفے کی طرف آئیں پھر دیکھیں دنیا جہنم سے جنت کیسے بن جاتی ہے۔