مُودی کے آتے ہی بھارتی مسلمان پھر سہم گئے
مودی نے بھارتی معاشرے اور بھارت کی سیاست میں ہندو قوم پرستی کو بہت برجستہ اور کھل کر فروغ دیا۔
چند روز قبل مُودی پھر وزیرِ اعلیٰ بن گیا اور گجراتی مسلمان ایک بار پھر سہم کر رہ گئے ہیں۔ بھارتی ریاست گجرات میں چوتھی بار وزیرِ اعلیٰ بننے والا نریندر مودی کون ہے، اِس بارے میں بھارت کے ممتاز انگریزی جریدے میں بھارت کی دلیر دانشور اور اخبار نویس محترمہ ارن دھتی رائے کا شایع ہونے والے ایک انکشاف خیز آرٹیکل کا درج ذیل پیراگراف پڑھیے: ''گجرات، ہندوستان کی بڑی ریاستوں میں سے واحد ریاست ہے جس میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ گودھرا میں ہونے والی واردات کے چند گھنٹوں کے اندر اندر وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے مسلمان آبادی کے خلاف ایک مفصل منصوبہ شروع کردیا۔ ہلاک ہونے والوں کی تعداد سرکاری ذرایع کے مطابق آٹھ سو ہے۔
آزاد ذرایع کی رپورٹوں کی رو سے یہ تعداد دو ہزار سے زائد ہے۔ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ جنھیں ان کے گھروں سے نکال دیا گیا، اب پناہ گزیں کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ دو سو چالیس درگاہوں اور ایک سو اسی مسجدوں کو تباہ کیا گیا۔ احمد آباد میں اردو غزل کے بانی ولی گجراتی کے مزار کو مسمار کر کے رات بھر میں اس کے اوپر ایک سڑک تعمیر کر دی گئی۔ موسیقار استاد فیاض علی خاں کے مزار کی بے حرمتی کی گئی۔مسلمانوں کی دکانوں،مکانوں،ہوٹلوں، ٹیکسٹائل ملوں، بسوں اور پرائیویٹ کاروں کو آگ لگائی گئی اور انھیں لوٹاگیا۔ ایک ہجوم نے سابق ممبر پارلیمنٹ اقبال احسان جعفری کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ ہجوم مکان میں گھس آیا۔ انھوں نے جعفری کی بیٹیوں کو زندہ جلا دیا۔ پھر انھوں نے جعفری کا سر کاٹا اور ان کے جسم کے ٹکڑے کر دیے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ فروری 2002ء میں راجکوٹ میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں گجرات کے وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی کی مہم کے دوران جعفری نے اس پر سخت تنقید کی تھی۔'' (بحوالہ ''آج'' نمبر 36 )
نریندر مُودی کے بارے میں عالمی میڈیا بھی تحفظات لیے ہوئے ہے۔ یہ شخص، جو خود کو ہندوستان کا اگلا وزیرِ اعظم بنتے دیکھ رہا ہے۔ پندرہ دسمبر 2012ء کو برطانوی نشریاتی ادارے ''بی بی سی'' نے مودی کی شخصیت اور عزائم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ''کچھ عرصے سے بھارت کے چند صنعت کار، میڈیا کا ایک بڑا حصہ اور بعض تجزیہ کار یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ گجرات کے وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی ایک بہتر منتظم، انتہائی ایماندار اور ایک فیصلہ کن ذہنیت کے سیاسی رہنما ہیں۔ بہت دنوں سے یہ چرچا عام ہے کہ مودی ہی بھارت کا بیڑہ پار کریں گے۔ مودی گجرات میں 2002ء کے قتلِ عام اور اُس کے بعد ریاست کے مسلمانوں کو ریاست کے اصل دھارے سے الگ کرنے سے قبل ایک اوسط درجے کے غیر محسوس سیاستدان تصور کیے جاتے تھے لیکن ایک بار اقتدار ملنے کے بعد مودی نے بڑی چالاکی کے ساتھ پورے نظام پر اپنی آہنی گرفت مضبوط کی۔
مودی نے بھارتی معاشرے اور بھارت کی سیاست میں ہندو قوم پرستی کو بہت برجستہ اور کھل کر فروغ دیا۔ ان کی اقتصادی ترقی کی بنیاد نفرتوں پر قائم رہی ہے۔ مودی کی سیاست کا محور نفرت ہے۔ یہ نفرت کبھی سیکولر سیاسی نظام کے خلاف نظر آتی ہے تو کبھی بھارت کی مذہبی اقلیتوں کے خلاف۔ مودی کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ کوئی بھی تقریر، کوئی بھی بیان کسی کو نشانہ بنائے بغیر پورا نہیں ہوتا۔ نریندر مودی کی مذہبی نفرت کی سیاست سے کانگریس اس قدر خوفزدہ رہی ہے کہ اُس نے گزشتہ دس برس سے انتخابات میں اپنے مسلم رہنمائوں کو انتخابی مہم تک کے لیے نہیں اتارا ہے۔ نریندر مودی کا ہندو نظریاتی غرور اس حقیقت سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ان کی موجودہ کابینہ میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے اور اسمبلی کے انتخابات میں ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا ہے۔
بھارت میں بحث اس وقت اس بات پر ہو رہی ہے کہ کیا مودی ملک کے اگلے وزیرِ اعظم بنیں گے؟ کیا وہ وزیرِ اعظم بننے کے بعد پورے ملک میں ہندوئیت کے اپنے نظریے کو نافذ کریں گے؟ بھارت کی حکمراں جماعت کانگریس بھی مودی نواز اس لابی کی اعصابی سیاسی جنگ کے آگے مغلوب نظر آ رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی اور منفی سیاست کے رجحان سے گھبراہٹ میں مبتلا ہیں۔ کانگریس گجرات میں مودی کی منفی اور نفرت پر مبنی سیاست کا منہ توڑ جواب دینے کے بجائے اسی کے پیرائے میں خود کو پیش کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ منفی سیاست اور مذہب پر مبنی قوم پرستی بھارت کی سیکولر جمہوریت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ مودی اسی جمہوریت کی پیداوار ہیں لیکن وہ بلاشبہ جمہوری اصولوں پر یقین نہیں رکھتے۔ گجرات میں مودی کی جیت اور قومی سطح پر ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت تمام جمہوریت پسندوں کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔''
نریندر مُودی بظاہر تو ''انکساری'' کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے مرکزی حکومت کی عنان سنبھالنے کا کوئی شوق نہیں لیکن بی جے پی کے کارکنان اُس کے حق میں بھارت کا آیندہ وزیرِ اعظم ہونے کے نعرے لگاتے ہیں تو مُودی کی چھاتی مزید چوڑی ہو جاتی ہے اور بھارتی گجرات کے مسلمانوں کے دل مزید بیٹھ جاتے ہیں۔ گجرات کا چوتھی بار وزیرِ اعلیٰ بننے کے بعد مودی کے کبرو غرور میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ اِسی تکبر کے موجب وہ بھارتی وزیرِ اعظم من موھن سنگھ کے لتّے لیتا ہوا بھی نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر چوتھی بار انتخابی فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد مودی 26 دسمبر 2012ء کو نئی دہلی میں ہونے والی ایک قومی کانفرنس، جس کی صدارت من موھن کر رہے تھے، میں شریک ہوا تو سیکڑوں سینئر سامعین کی موجودگی میں اُس نے بھارتی وزیرِ اعظم کو ''نالائق اور معیشت کی مبادیات سے محض نابلد'' قرار دے ڈالا۔
مودی نے کہا: ''بھارتی معیشت میں خرابی آئی ہے تو اِس کی بنیادی وجہ مرکزی رہنمائوں کی معیشت سے لاعلمی اور اُن کی پست خیالی ہے۔'' مودی کا اشارہ براہِ راست وزیرِ اعظم سنگھ اور اُن کی کابینہ کی طرف تھا۔ اِس بیان کو بھارت بھر میں بڑے اچنبھے سے دیکھا اور سُنا گیا ہے کیونکہ مسٹر سنگھ خود بھی اعلیٰ درجے کے ماہرِ اقتصادیات کہے جاتے ہیں لیکن اِس کا کیا کِیا جائے کہ مُودی ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر کسی کو خاطر میں نہیں لا رہا۔ اوپر سے دلّی میں بی جے پی کے کارکنوں نے مُودی کے بارے میں پُرکشش نعرے لگائے تو اُس کا غرور آسمان کو چھونے لگا۔ 26 دسمبر کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکن نعرے لگا رہے تھے: ''دیش کا نیتا کیسا ہو، نریندر مُودی جیسا ہو۔'' اِس پس منظر میں برطانوی نشریاتی ادارے کا یہ کہنا نہایت موزوں اور بجا لگتا ہے کہ بھارت میں قومی سطح پر مودی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت تمام جمہوریت پسندوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
آزاد ذرایع کی رپورٹوں کی رو سے یہ تعداد دو ہزار سے زائد ہے۔ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ جنھیں ان کے گھروں سے نکال دیا گیا، اب پناہ گزیں کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ دو سو چالیس درگاہوں اور ایک سو اسی مسجدوں کو تباہ کیا گیا۔ احمد آباد میں اردو غزل کے بانی ولی گجراتی کے مزار کو مسمار کر کے رات بھر میں اس کے اوپر ایک سڑک تعمیر کر دی گئی۔ موسیقار استاد فیاض علی خاں کے مزار کی بے حرمتی کی گئی۔مسلمانوں کی دکانوں،مکانوں،ہوٹلوں، ٹیکسٹائل ملوں، بسوں اور پرائیویٹ کاروں کو آگ لگائی گئی اور انھیں لوٹاگیا۔ ایک ہجوم نے سابق ممبر پارلیمنٹ اقبال احسان جعفری کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ ہجوم مکان میں گھس آیا۔ انھوں نے جعفری کی بیٹیوں کو زندہ جلا دیا۔ پھر انھوں نے جعفری کا سر کاٹا اور ان کے جسم کے ٹکڑے کر دیے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ فروری 2002ء میں راجکوٹ میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں گجرات کے وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی کی مہم کے دوران جعفری نے اس پر سخت تنقید کی تھی۔'' (بحوالہ ''آج'' نمبر 36 )
نریندر مُودی کے بارے میں عالمی میڈیا بھی تحفظات لیے ہوئے ہے۔ یہ شخص، جو خود کو ہندوستان کا اگلا وزیرِ اعظم بنتے دیکھ رہا ہے۔ پندرہ دسمبر 2012ء کو برطانوی نشریاتی ادارے ''بی بی سی'' نے مودی کی شخصیت اور عزائم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ''کچھ عرصے سے بھارت کے چند صنعت کار، میڈیا کا ایک بڑا حصہ اور بعض تجزیہ کار یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ گجرات کے وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی ایک بہتر منتظم، انتہائی ایماندار اور ایک فیصلہ کن ذہنیت کے سیاسی رہنما ہیں۔ بہت دنوں سے یہ چرچا عام ہے کہ مودی ہی بھارت کا بیڑہ پار کریں گے۔ مودی گجرات میں 2002ء کے قتلِ عام اور اُس کے بعد ریاست کے مسلمانوں کو ریاست کے اصل دھارے سے الگ کرنے سے قبل ایک اوسط درجے کے غیر محسوس سیاستدان تصور کیے جاتے تھے لیکن ایک بار اقتدار ملنے کے بعد مودی نے بڑی چالاکی کے ساتھ پورے نظام پر اپنی آہنی گرفت مضبوط کی۔
مودی نے بھارتی معاشرے اور بھارت کی سیاست میں ہندو قوم پرستی کو بہت برجستہ اور کھل کر فروغ دیا۔ ان کی اقتصادی ترقی کی بنیاد نفرتوں پر قائم رہی ہے۔ مودی کی سیاست کا محور نفرت ہے۔ یہ نفرت کبھی سیکولر سیاسی نظام کے خلاف نظر آتی ہے تو کبھی بھارت کی مذہبی اقلیتوں کے خلاف۔ مودی کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ کوئی بھی تقریر، کوئی بھی بیان کسی کو نشانہ بنائے بغیر پورا نہیں ہوتا۔ نریندر مودی کی مذہبی نفرت کی سیاست سے کانگریس اس قدر خوفزدہ رہی ہے کہ اُس نے گزشتہ دس برس سے انتخابات میں اپنے مسلم رہنمائوں کو انتخابی مہم تک کے لیے نہیں اتارا ہے۔ نریندر مودی کا ہندو نظریاتی غرور اس حقیقت سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ان کی موجودہ کابینہ میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے اور اسمبلی کے انتخابات میں ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا ہے۔
بھارت میں بحث اس وقت اس بات پر ہو رہی ہے کہ کیا مودی ملک کے اگلے وزیرِ اعظم بنیں گے؟ کیا وہ وزیرِ اعظم بننے کے بعد پورے ملک میں ہندوئیت کے اپنے نظریے کو نافذ کریں گے؟ بھارت کی حکمراں جماعت کانگریس بھی مودی نواز اس لابی کی اعصابی سیاسی جنگ کے آگے مغلوب نظر آ رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی اور منفی سیاست کے رجحان سے گھبراہٹ میں مبتلا ہیں۔ کانگریس گجرات میں مودی کی منفی اور نفرت پر مبنی سیاست کا منہ توڑ جواب دینے کے بجائے اسی کے پیرائے میں خود کو پیش کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ منفی سیاست اور مذہب پر مبنی قوم پرستی بھارت کی سیکولر جمہوریت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ مودی اسی جمہوریت کی پیداوار ہیں لیکن وہ بلاشبہ جمہوری اصولوں پر یقین نہیں رکھتے۔ گجرات میں مودی کی جیت اور قومی سطح پر ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت تمام جمہوریت پسندوں کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔''
نریندر مُودی بظاہر تو ''انکساری'' کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے مرکزی حکومت کی عنان سنبھالنے کا کوئی شوق نہیں لیکن بی جے پی کے کارکنان اُس کے حق میں بھارت کا آیندہ وزیرِ اعظم ہونے کے نعرے لگاتے ہیں تو مُودی کی چھاتی مزید چوڑی ہو جاتی ہے اور بھارتی گجرات کے مسلمانوں کے دل مزید بیٹھ جاتے ہیں۔ گجرات کا چوتھی بار وزیرِ اعلیٰ بننے کے بعد مودی کے کبرو غرور میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ اِسی تکبر کے موجب وہ بھارتی وزیرِ اعظم من موھن سنگھ کے لتّے لیتا ہوا بھی نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر چوتھی بار انتخابی فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد مودی 26 دسمبر 2012ء کو نئی دہلی میں ہونے والی ایک قومی کانفرنس، جس کی صدارت من موھن کر رہے تھے، میں شریک ہوا تو سیکڑوں سینئر سامعین کی موجودگی میں اُس نے بھارتی وزیرِ اعظم کو ''نالائق اور معیشت کی مبادیات سے محض نابلد'' قرار دے ڈالا۔
مودی نے کہا: ''بھارتی معیشت میں خرابی آئی ہے تو اِس کی بنیادی وجہ مرکزی رہنمائوں کی معیشت سے لاعلمی اور اُن کی پست خیالی ہے۔'' مودی کا اشارہ براہِ راست وزیرِ اعظم سنگھ اور اُن کی کابینہ کی طرف تھا۔ اِس بیان کو بھارت بھر میں بڑے اچنبھے سے دیکھا اور سُنا گیا ہے کیونکہ مسٹر سنگھ خود بھی اعلیٰ درجے کے ماہرِ اقتصادیات کہے جاتے ہیں لیکن اِس کا کیا کِیا جائے کہ مُودی ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر کسی کو خاطر میں نہیں لا رہا۔ اوپر سے دلّی میں بی جے پی کے کارکنوں نے مُودی کے بارے میں پُرکشش نعرے لگائے تو اُس کا غرور آسمان کو چھونے لگا۔ 26 دسمبر کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکن نعرے لگا رہے تھے: ''دیش کا نیتا کیسا ہو، نریندر مُودی جیسا ہو۔'' اِس پس منظر میں برطانوی نشریاتی ادارے کا یہ کہنا نہایت موزوں اور بجا لگتا ہے کہ بھارت میں قومی سطح پر مودی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت تمام جمہوریت پسندوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔