یہ بھی جمہوریت ہی ہے

جمہوریت سے اگر عوام مطمئن ہوتے تو آج ان کے لبوں پر یہ نہ ہوتا کہ ’’مشرف کا دور اس جمہوریت سے بہت اچھا تھا‘‘۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی پانچویں برسی پر صدر مملکت آصف علی زرداری جب خطاب کرنے آئے تو اس ایک نعرے سے فضا گونج اٹھی کہ ''اگلی باری پھر زرداری'' صدر زرداری نے بھی اس موقعے پر کہا کہ ہم نے اپنے پانچ سالوں میں جمہوریت کو مضبوط کرکے محترمہ کی شہادت کا انتقام لے لیا ہے۔ صدر پہلے بھی کہتے رہے ہیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے، صدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ پہلی بار ملک میں جمہوری حکومت اپنی مدت مکمل کرنے جارہی ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔کیونکہ پیپلزپارٹی کے بانی اور پی پی کے پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے اپنی مدت پوری کی تھی اور وزیر اعظم بھٹو نے خود ہی 1977 میں عام انتخابات کرائے تھے۔

موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے میں ڈھائی ماہ باقی رہ گئے ہیں اور پیپلز پارٹی کے منتخب صدر سمیت تمام رہنماؤں کو اس بات کی بہت زیادہ خوشی ہے کہ ان کی جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کر رہی ہے۔

بلاشبہ پیپلز پارٹی کی یہ پہلی حکومت ہے جس کے پہلے وزیر اعظم گیلانی نے متفقہ طور پر وزارت عظمیٰ حاصل کی تھی اور پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں نے انھیں اپنے مکمل اعتماد کا ووٹ دیا تھا۔ پہلی بار مسلم لیگ کے تمام دھڑوں نے پیپلز پارٹی کا وزیراعظم منتخب کرایا تھا۔ پارلیمنٹ سے باہر موجود تمام سیاسی جماعتوں نے پی پی اور مسلم لیگ کی مشترکہ حکومت سے تعاون کیا تھا اور قوم سمیت تمام جماعتوں کو آصف علی زرداری، نواز شریف اور یوسف رضاگیلانی سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کیں تھیں مگر چند ہی ہفتوں بعد نواز شریف کی مسلم لیگ آصف علی زرداری کے وعدے پورے نہ ہونے پر حکومت سے باہر آگئی، مگر وہ فرینڈلی اپوزیشن بنی رہی۔


پی پی حکومت نے جمہوری روایت کے مطابق متحدہ، اے این پی، جے یو آئی، فاٹا، فنکشنل لیگ کو اپنے ساتھ ملالیا اور مسلم لیگ (ن) اور (ق) بھی پی پی حکومت کے لیے مسئلہ نہیں بنے اور پی پی حکومت اپنی اکثریت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی اور بعد میں جمہوریت ہی کے نام پر پی پی حکومت کو متحدہ کے حکومت چھوڑنے کی دھمکیوں اور جے یو آئی کے حکومت چھوڑ جانے کے باعث مسلم لیگ (ق) کو مشروط طور پر اپنے ساتھ ملانے پر مجبور ہونا پڑا۔ جس پر سیاسی حلقوں کو حیرانگی تھی مگر جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے، کبھی جمہوریت اپنوں کو غیر بنادیتی ہے،کبھی دشمنوں کو دوست۔ یہ جمہوریت ہی ہے کہ سیاسی مفاد کی خاطر اپنے قابل اعتماد گورنر پنجاب کو اچانک ہٹاکر مسلم لیگ (ف) کے پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود کو مسلم لیگ میں رہتے ہوئے پنجاب جیسے اس صوبے کا گورنر بنادیا جاتا ہے جہاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے، جس نے چند ماہ قبل پی پی کے وزیروں کو پنجاب حکومت سے نکال دیا تھا اور مسلم لیگی گورنر پنجاب کہتے ہیں کہ مسلم لیگی رہوں گا اور پیپلز پارٹی کو فائدہ پہنچاؤں گا۔

یہ بھی جمہوریت ہے کہ حکومتی حلیف اے این پی سندھ میں حکومت سے ایک غیر ضروری ایشو پر الگ ہوجاتی ہے، مگر مرکز اور صوبے کے پی کے میں پی پی کی حلیف ہے۔ جس متحدہ کے باعث اے این پی سندھ میں حکومت چھوڑتی ہے اسی متحدہ کے ساتھ اے این پی وفاق میں متحدہ کے وزیروں کے ساتھ بیٹھی ہے۔ یہ بھی جمہوریت ہے کہ جس مسلم لیگ (ن) کو آصف زرداری نے قاتل لیگ قرار دیا تھا وہ آج پی پی کے ساتھ ہے اور ان کا ایک وزیر آئین میں گنجائش نہ ہونے کے باوجود ڈپٹی وزیر اعظم کہلارہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) ، جے یو آئی اور فنکشنل لیگ تین ایسی پارٹیاں ہیں جو پی پی حکومت سے الگ ہوئیں مگر جے یو آئی اب بھی بلوچستان میں پی پی کی حکومت میں شامل ہے۔

جمہوریت ہی میں یہ ہوتا ہے کہ کوئی حکومت ہو یا کوئی عوامی ادارہ وہاں جمہوریت کے نام پر الیکشن میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور پھر اپنے اقتدار اور اپنے اختیارات کے ذریعے من مانی ترامیم کے ذریعے اپنی راہ میں آنے والی پابندیاں، مرضی کے اکاؤنٹ آڈٹ، اپنے شاہانہ اخراجات کی منظوری جیسے فیصلے کرالیے جاتے ہیں اور مخالفین کو جمہوریت کے نام پر محدود کرکے، ان کے لوگوں کو نیا ممبر نہ بناکر اپنے اقتدار میں مستقل رہنے کی راہ ہموار کرلی جاتی ہے۔ چھوٹے اداروں میں جمہوریت کے نام پر یہ ہورہا ہے تو حکومتی سطح پر اپنے حلیفوں اور ارکان کو خوش رکھنے کے لیے انھیں من مانیاں کرنے کی کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے اس کے نتیجے میں کرپشن اور لاقانونیت بڑھے یا سرکاری ادارے تباہ ہوں۔

صدر، وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کا کام خاموش رہ کر تماشا دیکھتے رہنا رہ گیا ہے جس کی ایک واضح مثال محکمہ ریلوے کی ہے جس کی بہتری کے لیے صدر اور وزیر اعظم ریلوے کی تباہی دیکھ کر بھی چپ ہیں اور وزیر ریلوے یا کسی اور محکمے کے وزیر کو بدل نہیں سکتے کہ کہیں حلیف ناراض نہ ہوجائیں۔ جنرل مشرف کی آمریت کے بعد آنے والی جمہوریت نے پونے پانچ سالوں میں مہنگائی، لاقانونیت، کرپشن، اقربا پروری، دوست نوازی اور سیاسی مفادات کے حصول کے نئے ریکارڈ قائم کردیے ہیں۔ معیشت تباہ ہوگئی، غیر ملکی قرضے بڑھ گئے، مگر حکمران خوش اور مطمئن ہیں کہ 4 سال سے ملک میں جمہوریت قائم اور مستحکم ہورہی ہے۔ اس جمہوریت سے اگر عوام مطمئن اور خوش ہوتے تو آج ان کے لبوں پر یہ نہ ہوتا کہ ''مشرف کا دور اس جمہوریت سے بہت اچھا تھا''۔
Load Next Story