تاریخ کا انوکھا باب جب بھارت نے پاکستان کی بارشیں چوری کرنا چاہیں
کروڑوں پاکستانیوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دینے والے ایک خفیہ پروجیکٹ کی داستان
یہ جنوری 1967ء کی صبح تھی جب ایک دیوہیکل امریکی جنگی جہاز بھارتی دارالحکومت، نئی دہلی کے ہوائی اڈے پر اترا۔ جنگی جہاز کے پروں پر عجیب و غریب ٹینکیاں نصب تھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ جہاز بھارتی سرزمین پر انوکھے تجربات کرنے آیا تھا۔دراصل 1965ء اور 1966ء کے برس بھارت پر مون سون کے بادل کھل کر نہیں بدلے' لہٰذا کئی ریاستوں میں پانی کی قلت ہو گئی۔ خصوصاً ریاست بہار میں تو کسانوں پر آفت ٹوٹ پڑی جو بارش کی مدد سے چاول اگاتے تھے۔ جب دو سال فصل خراب ہوئی' تو بہار اور دیگر ریاستوں میں چاول نایاب ہو گیا۔ یہ کروڑوں بھارتیوں کا کھاجا تھا، اسی لیے چاول کی کمی سے وہ بھوکے مرنے لگے۔
اس زمانے میں صرف امریکا چاول درآمد کرتا تھا۔ چناںچہ اندرا گاندھی کی حکومت نے امریکا سے بحری جہازوں پر چاول منگوا لیا۔ کمیونسٹ اثرات روکنے کے لیے امریکی بھارت کو اپنے دائرہ اثر میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ اس واسطے انہوں نے خوشی خوشی بھارتی حکومت کو چاول فراہم کر دیا۔اس زمانے کے مورخین لکھتے ہیں کہ جب چاول سے لدے امریکی بحری جہاز بھارتی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہوتے' تو پورے بھارت میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ۔ بازار میں چاول کی قیمت کم ہو جاتی اور عرصے سے بند راشن ڈپوکھل جاتے۔ غرض بھوکے بھارتیوں کے پیٹ بھرنے میں امریکی چاول بہت کام آیا۔ یہی نہیں' امریکی صدر' لنڈن جانسن نے ایک ڈرامائی چال بھی چل دی۔
تب ویت نام میں امریکی جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔ گوریلا لیڈر' ہو چی منہ کے جنگجوؤں کی نقل و حرکت کٹھن بنانے کے لیے امریکیوں نے ایک عجیب ترکیب سوچی ... یہ کہ ان کے علاقوں میں منڈلاتے بادلوں کوہر دم برسنے پر ''مجبور'' کر دیاجائے۔ یوں وہ علاقے پانی میں ڈوبے رہتے اور گوریلوں کو ایک سے دوسری جگہ جانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا۔ بادلوں سے غیر فطری طور پر بارش برسانے کی تکنیک ''صنعت ابرکاری'' (Cloud seeding) کہلاتی ہے۔ تکنیک برتنے کے دوران ہوائی جہاز کے ذریعے بادلوں پر عموماً کیمیکل، سلور آئیوڈائیڈ(silver iodide) ڈالا جاتا ہے۔ یہ کیمیائی مادہ آبی قطروں پر اثر انداز ہو کر انہیں بارش کی صورت برسنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
امریکا میں موسموں میں تغیر و تبدل پیدا کرنے والے تجربات پر پابندی لگی ہوئی تھی۔ لہٰذا امریکی سائنس دانوں کو ویت نام ہی میں صنعت ابرکاری کے تجربے کرنے پڑے۔ اب بھارت میں قحط جیسی صورت حال پیدا ہوئی' تو امریکی وزیر دفاع ' رابرٹ میکنامارا نے یہ تجویز پیش کی کہ ہمارے سائنس دانوں کو بھارتی ریاستوں' بہار اور اتر پردیش میں صنعت ابرکاری کے تجربات کرنے چاہیں۔ امریکی صدر نے یہ تجویز قبول کر لی۔ چناںچہ امریکی حکومت نے یہ تجویز اندرا گاندھی حکومت کے سامنے رکھ دی۔
بھارتی حکومت جان گئی ہو گی کہ امریکی اپنے تجربات پرکھنے کی خاطر بھارت کو ''گنی پگ'' بنانا چاہتے ہیں' مگر وہ دو وجوہ کی بنا پر اس زیادتی کے خلاف احتجاج نہ کر سکی۔ اول یہ کہ اسے امریکی چاول درکار تھا۔ دوم یہ کہ اس کی بھی تمنا تھی کہ بہار اور اتر پردیش میں بارش ہو جائے۔ لہٰذا بھارتی حکومت نے بادلوں سے مصنوعی طور پر بارش برسانے کی امریکی تجویز قبول کرلی تاکہ پریشان کسانوں اور عوام کی تشویش و گھبراہٹ کا سدباب ہو سکے۔
جنوری 1967ء میں صنعت ابرکاری کے تجربات کرنے امریکی ہوائی جہاز بھارت پہنچ گئے ۔یوں بھارت اور امریکا کے مابین ایک نرالے اور خفیہ مشترکہ منصوبے کا آغاز ہوا۔ اندرا گاندھی کو ڈر تھا کہ سویت یونین (روس) کو منصوبے کی بھنک ملی' تو وہ ناراض ہو جائے گا۔ لہٰذااندرا گاندھی کی درخواست پر اسے عسکری نہیں سول منصوبہ لکھا اور بولا گیا۔ اس منصوبے کو ''گرومیت پروجیکٹ'' (Project GROMET) کا نام ملا جس میں امریکی و بھارتی سائنس داں شامل تھے۔
جلدہی منصوبہ ایک مشکل کے باعث ہوا میں لٹک گیا۔ دراصل بہار' اتر پردیش اور پنجاب میں دور دور تک بادلوں کا نام و نشان نہ تھا۔ ظاہر ہے' بارش برسانے کی خاطر ان کی موجودگی ضروری تھی۔ آخر ماہ مارچ میں پنجاب کے آسمان پر بادل نمودار ہوئے۔ مگر وہ پاکستانی سرحد کے بہت قریب تھے۔ چونکہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات ناخوشگوار چلے آ رہے تھے لہٰذا یہ ضروری تھا کہ تجربے کی بابت پاکستانی حکومت کو بھی مطلع کیا جائے مگر اندرا گاندھی نے یہ تجویز مسترد کر دی۔ لہٰذا پنجاب کے بادل بن برسے ہی پاکستان میں داخل ہو گئے۔
ماہ اگست سے مون سون کے بادل برصغیر پاک و ہند میں داخل ہونے لگے اور بارشوں کے سلسلے کا آغاز ہوگیا۔ تبھی اندرا حکومت میں شامل ''عقابوں'' نے ایک نرالی تجویز پیش کی۔ وہ یہ کہ مون سونی بادلوں پر صنعت ابرکاری آزمائی جائے۔ ان پاکستان مخالف بھارتی وزیروں مشیروں کا مقصد یہ تھا کہ اس طریقے سے بادلوں میں موجود ساری نمی نچوڑ لی جائے۔ یعنی بادل ساری بارش بھارت میں برسا جائیں اور جب وہ پاکستان داخل ہوں، تو ان میں بہت ہی کم آبی قطرات موجود ہوں۔گویا یہ پاکستان کو مون سونی بارشوں سے محروم کرنے کا ناپاک و شر انگیز منصوبہ تھا۔ پاکستان کے بہت سے علاقوں میں مون سونی بارشوں کے سہارے ہی کھیتی باڑی ہوتی ہے۔ نیز بارشیں پینے اور روزمرہ استعمال کا پانی بھی فراہم کرتی ہیں۔
انتہا پسند و ہند لیڈر پاکستان کی بارشیں روک کر لاکھوں پاکستانیوں کو قتل کرنا چاہتے تھے۔خوش قسمتی سے امریکا نے مون سون کے بادلوں پر صنعت ابرکاری آزمانے کی تجویز مسترد کردی۔ امریکی سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ مون سونی بادل پہلے ہی آبی قطرات سے لدے پھندے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان پر یہ سائنسی طریقہ آزمانا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اُدھر امریکی حکومت نے یہی عذر پیش کیا کہ اگر سارے مون سونی بادل بھارت ہی میں برس گئے، تو پاکستان کو کہاں سے بارشیں ملیں گی؟
امریکیوں کو یہ بھی احساس تھاکہ پاکستانیوں کو کبھی نہ کبھی پتا چل جائے گا کہ امریکا اور بھارت نے مل کر اسے مون سونی بارشوں سے محروم کردیا، اس کی بارشیں چوری کر لیں۔ جب بھی یہ سچائی سامنے آتی، پاکستانی امریکی حکمران طبقے سے برگشتہ ہوجاتے۔ لہٰذا امریکی حکومت کی مخالفت کے باعث پاکستان دشمن بھارتی لیڈر اپنی تجویز کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے۔
1967ء کے مون سون میں بھارت بھر میں خوب بارشیں ہوئیں۔ اب پروجیکٹ جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا، لہٰذا اسے خاموشی سے ختم کردیا گیا۔ اس منصوبے سے امریکا یا بھارت کو کس قسم کے فوائد ملے، اس بابت زیادہ مواد نہیں ملتا۔ دونوں حکومتوں نے پروجیکٹ سے متعلق دستاویز کلاسیفائیڈ یا عوام و خواص کی نظروں سے پوشیدہ رکھی ہوئی ہیں۔
نصف صدی قبل تب کے پاکستان دشمن بھارتیوں نے پاکستانیوں کی بارشیں چوری کرکے انہیں تباہ کرنا چاہا تھا۔ اب قوم پرست ہندو وزیراعظم، نریندر مودی بھارت سے پاکستان آنے والے دریاؤں کا راستہ روک کر پاکستانیوں کو بوند بوند سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔ بھارتی حکمران طبقہ رفتہ رفتہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے لگا ہے۔ یہ حقیقت ہے، مستقبل میں بھارتی حکمرانوں نے سندھ، چناب یا جہلم دریاؤں کا پانی روکا، تو ان کی اوچھی حرکت پر اگلی پاک بھارت جنگ چھڑسکتی ہے۔ اور یہ ایٹمی جنگ کروڑوں بھارتیوں اور پاکستانیوں کو لقمہ اجل بنادے گی۔ یہ خوفناک ارضی قیامت لانے کے ذمے دار صرف خودسر و مغرور بھارتی حکمران ہوں گے۔
پانی کی جنم لیتی قلت
گزشتہ برس ماہ دسمبر میں مانسہرہ جانا ہوا۔ یہ ایک سرسبز و شاداب علاقہ ہے۔ لیکن اس بار دیکھا کہ درختوں اور پودوں پر مردنی چھائی ہوئی ہے۔ پتے خشک پڑے تھے اور خوبصورت پھولوں کا نام و نشان نہ تھا۔ یہ آفت آنے کی وجہ خطّے میں بارش کا نہ ہونا تھا۔ مقامی افراد نے بتایا کہ خطہ پوٹھوہار میں ماہ اگست سے بارش نہیں ہوئی۔ماہرین موسمیات کے مطابق ایک موسمیاتی عجوبے '' ال نینو'' کی وجہ سے 2016ء میں بھارت اور پاکستان میں کم مون سونی بارش ہوئیں۔ دونوں ممالک میں اکثر علاقے کثیر بارشوں سے محروم رہے، چناں چہ وہاں قحط جیسے حالات پیدا ہوگئے۔ نیز کھیتی باڑی اچھی خاصی متاثر ہوئی۔
بھارت اور پاکستان میں لاکھوں کسان بارشوں کے پانی کی مدد سے گندم، چاول اور دیگر نقد آور فصلیں اگاتے ہیں۔ مگر اس بار پانی کی کمی کے باعث انہیں اپنی زمینوں پر سبزیاں اگانی پڑیں تاکہ کچھ تو آمدن ہوسکے۔ گویا آنے والے دنوں میں گندم اور چاول منڈیوں میں کم آئیں گے اور ان کی قلت جنم لے سکتی ہے۔ یاد رہے، پاکستان میں 90 لاکھ ہیکڑ( دو کروڑ بیس لاکھ ایکڑ) رقبے پر گندم بوئی جاتی ہے۔
اس میں سے 30 فیصد زمین کو بارشوں سے ہی پانی ملتا ہے۔پاکستان اور بھارت میں بڑھتی آبادی، تیزی سے لگتے نئے کارخانوں اور منفی موسمیاتی حالات کے باعث پانی نایاب ہورہا ہے۔ سطح زمین کے اوپر اور نیچے، دونوں جگہ آبی ذخائر میں پانی گھٹ رہا ہے۔ مثلاً 1951ء میں ہر پاکستانی کو ''5260'' کیوبک میٹر پانی میسر تھا۔ اب یہ شرح کم ہوکر صرف ''1000'' کیوبک میٹر رہ گئی ہے۔ بعض پاکستانی ماہرین کا تو دعویٰ ہے کہ اگر اسی شرح سے پانی کم ہوتا رہا، تو 2025ء میں پاکستان میں پانی انتہائی نایاب ہوجائے گا۔ یاد رہے، کئی پاکستانی علاقوں میں ٹیوب ویلوں یا کنوؤں کے ذریعے نیچے سے پانی نکالا جاتا ہے۔
پانی کی قلت دیکھتے ہوئے اب یہ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ یہ آبی دولت سوچ سمجھ کر استعمال کرے۔ ہمارے ہاں دیکھا گیا ہے کہ بہت سے لوگ پانی کی قدروقیمت نہیں سمجھتے۔ راستے میں کوئی نلکا کھلا ہوا ہے، تو اسے بند کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ اسی طرح دفتر یا گھر میں کوئی نلکا خراب ہوجائے، تو اس سے روزانہ کئی لیٹر پانی بہہ کر ضائع ہوجاتا ہے مگر نلکے کی مرمت عرصہ دراز بعد بادل نخواستہ کرائی جاتی ہے۔ پانی کی قدر نہ ہونے کے باعث آبی خزانہ ضائع ہو رہا ہے۔
پاکستان کے تمام بڑے شہر مثلاً کراچی، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان، حیدر آباد وغیرہ پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ ان تمام شہروں کو ڈیموں یا ٹیوب ویلوں سے پانی ملتا ہے۔ ڈیموں میں عموماً پانی کی کمی رہتی ہے۔ جبکہ ٹیوب ویلوں کی کثرت کے باعث زیر زمین پانی کئی فٹ نیچے جاچکا۔ ماضی کی نسبت اب ان شہروں میں مزید تیس چالیس فٹ نیچے بورنگ کرنا پڑتی ہے۔
کراچی میں تقریباً پونے دو کروڑ افراد بستے ہیں۔ شہر میں دس ہزار سے زائد چھوٹے بڑے کارخانے بھی قائم ہیں۔ کروڑوں شہریوں کو اپنی ضروریات کے لیے تقریباً ایک ارب دس کروڑ لیٹر پانی روزانہ درکار ہوتا ہے۔ لیکن انہیں روزانہ زیادہ سے زیادہ ساٹھ تا ستر کروڑ لیٹر پانی ملتا ہے۔ چناںچہ شہری پانی کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔ کراچی کو دریائے سندھ، کینجھر اور ہالیجی جھیلوں اور جب ڈیم سے پانی دیا جاتا ہے۔
ان آبی ذرائع میں پانی کی مقدار گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ جب کراچی میں پانی نایاب ہو، تو ٹینکر مافیا ہزاروں روپے میں فی ٹینکر بیچ کر خوب مال بناتا ہے۔میٹھے پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ایک طریقہ ڈیموں کی تعمیر ہے۔ افسوس کہ پاکستانی حکمرانوں نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ دنیا بھر میں بیشتر ممالک اتنے زیادہ ڈیم بناچکے کہ ہر سال وہاں دریاؤں کا 40 فیصد پانی جمع ہوجاتا ہے مگر پاکستان صرف 163 چھوٹے بڑے ڈیم رکھتا ہے۔ چناں چہ پاکستانی دریاؤں میں بہنے والا صرف ''10 فیصد'' پانی ان میں جمع ہوپاتا ہے۔بقیہ پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ ملک بھر میں نئے ڈیم تعمیر کیے جائیں تاکہ خاص طور پر مستقبل میں پانی کی شدید کمی کے منڈلاتے گھمبیر خطرے سے نمٹا جاسکے۔
بھارت اب تک چھوٹے بڑے ''5102'' ڈیم تعمیر کرچکا۔ چین (23,842ڈیم) اور امریکا (9265ڈیم) کے بعد بھارت ہی میں سب سے زیادہ ڈیم واقع ہیں۔ پھر بھی وہاں تقریباً دس کروڑ بھارتی پانی کی شدید کمی سے دوچار ہیں۔ جاپان، جنوبی کوریا، ترکی اور سپین رقبے میں پاکستان سے چھوٹے ممالک ہیں، مگر وہ بھی بالترتیب 3108، 1306، 1082 اور 972 ڈیم بناچکے۔پاکستانی قوم کو ایک افریقی کہاوت یاد رکھنی چاہیے:
''انسان کو پانی کی قدروقیمت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کنواں خشک ہو جائے۔''
حقیقت یہ ہے کہ یہ جہاز بھارتی سرزمین پر انوکھے تجربات کرنے آیا تھا۔دراصل 1965ء اور 1966ء کے برس بھارت پر مون سون کے بادل کھل کر نہیں بدلے' لہٰذا کئی ریاستوں میں پانی کی قلت ہو گئی۔ خصوصاً ریاست بہار میں تو کسانوں پر آفت ٹوٹ پڑی جو بارش کی مدد سے چاول اگاتے تھے۔ جب دو سال فصل خراب ہوئی' تو بہار اور دیگر ریاستوں میں چاول نایاب ہو گیا۔ یہ کروڑوں بھارتیوں کا کھاجا تھا، اسی لیے چاول کی کمی سے وہ بھوکے مرنے لگے۔
اس زمانے میں صرف امریکا چاول درآمد کرتا تھا۔ چناںچہ اندرا گاندھی کی حکومت نے امریکا سے بحری جہازوں پر چاول منگوا لیا۔ کمیونسٹ اثرات روکنے کے لیے امریکی بھارت کو اپنے دائرہ اثر میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ اس واسطے انہوں نے خوشی خوشی بھارتی حکومت کو چاول فراہم کر دیا۔اس زمانے کے مورخین لکھتے ہیں کہ جب چاول سے لدے امریکی بحری جہاز بھارتی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہوتے' تو پورے بھارت میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ۔ بازار میں چاول کی قیمت کم ہو جاتی اور عرصے سے بند راشن ڈپوکھل جاتے۔ غرض بھوکے بھارتیوں کے پیٹ بھرنے میں امریکی چاول بہت کام آیا۔ یہی نہیں' امریکی صدر' لنڈن جانسن نے ایک ڈرامائی چال بھی چل دی۔
تب ویت نام میں امریکی جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔ گوریلا لیڈر' ہو چی منہ کے جنگجوؤں کی نقل و حرکت کٹھن بنانے کے لیے امریکیوں نے ایک عجیب ترکیب سوچی ... یہ کہ ان کے علاقوں میں منڈلاتے بادلوں کوہر دم برسنے پر ''مجبور'' کر دیاجائے۔ یوں وہ علاقے پانی میں ڈوبے رہتے اور گوریلوں کو ایک سے دوسری جگہ جانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا۔ بادلوں سے غیر فطری طور پر بارش برسانے کی تکنیک ''صنعت ابرکاری'' (Cloud seeding) کہلاتی ہے۔ تکنیک برتنے کے دوران ہوائی جہاز کے ذریعے بادلوں پر عموماً کیمیکل، سلور آئیوڈائیڈ(silver iodide) ڈالا جاتا ہے۔ یہ کیمیائی مادہ آبی قطروں پر اثر انداز ہو کر انہیں بارش کی صورت برسنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
امریکا میں موسموں میں تغیر و تبدل پیدا کرنے والے تجربات پر پابندی لگی ہوئی تھی۔ لہٰذا امریکی سائنس دانوں کو ویت نام ہی میں صنعت ابرکاری کے تجربے کرنے پڑے۔ اب بھارت میں قحط جیسی صورت حال پیدا ہوئی' تو امریکی وزیر دفاع ' رابرٹ میکنامارا نے یہ تجویز پیش کی کہ ہمارے سائنس دانوں کو بھارتی ریاستوں' بہار اور اتر پردیش میں صنعت ابرکاری کے تجربات کرنے چاہیں۔ امریکی صدر نے یہ تجویز قبول کر لی۔ چناںچہ امریکی حکومت نے یہ تجویز اندرا گاندھی حکومت کے سامنے رکھ دی۔
بھارتی حکومت جان گئی ہو گی کہ امریکی اپنے تجربات پرکھنے کی خاطر بھارت کو ''گنی پگ'' بنانا چاہتے ہیں' مگر وہ دو وجوہ کی بنا پر اس زیادتی کے خلاف احتجاج نہ کر سکی۔ اول یہ کہ اسے امریکی چاول درکار تھا۔ دوم یہ کہ اس کی بھی تمنا تھی کہ بہار اور اتر پردیش میں بارش ہو جائے۔ لہٰذا بھارتی حکومت نے بادلوں سے مصنوعی طور پر بارش برسانے کی امریکی تجویز قبول کرلی تاکہ پریشان کسانوں اور عوام کی تشویش و گھبراہٹ کا سدباب ہو سکے۔
جنوری 1967ء میں صنعت ابرکاری کے تجربات کرنے امریکی ہوائی جہاز بھارت پہنچ گئے ۔یوں بھارت اور امریکا کے مابین ایک نرالے اور خفیہ مشترکہ منصوبے کا آغاز ہوا۔ اندرا گاندھی کو ڈر تھا کہ سویت یونین (روس) کو منصوبے کی بھنک ملی' تو وہ ناراض ہو جائے گا۔ لہٰذااندرا گاندھی کی درخواست پر اسے عسکری نہیں سول منصوبہ لکھا اور بولا گیا۔ اس منصوبے کو ''گرومیت پروجیکٹ'' (Project GROMET) کا نام ملا جس میں امریکی و بھارتی سائنس داں شامل تھے۔
جلدہی منصوبہ ایک مشکل کے باعث ہوا میں لٹک گیا۔ دراصل بہار' اتر پردیش اور پنجاب میں دور دور تک بادلوں کا نام و نشان نہ تھا۔ ظاہر ہے' بارش برسانے کی خاطر ان کی موجودگی ضروری تھی۔ آخر ماہ مارچ میں پنجاب کے آسمان پر بادل نمودار ہوئے۔ مگر وہ پاکستانی سرحد کے بہت قریب تھے۔ چونکہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات ناخوشگوار چلے آ رہے تھے لہٰذا یہ ضروری تھا کہ تجربے کی بابت پاکستانی حکومت کو بھی مطلع کیا جائے مگر اندرا گاندھی نے یہ تجویز مسترد کر دی۔ لہٰذا پنجاب کے بادل بن برسے ہی پاکستان میں داخل ہو گئے۔
ماہ اگست سے مون سون کے بادل برصغیر پاک و ہند میں داخل ہونے لگے اور بارشوں کے سلسلے کا آغاز ہوگیا۔ تبھی اندرا حکومت میں شامل ''عقابوں'' نے ایک نرالی تجویز پیش کی۔ وہ یہ کہ مون سونی بادلوں پر صنعت ابرکاری آزمائی جائے۔ ان پاکستان مخالف بھارتی وزیروں مشیروں کا مقصد یہ تھا کہ اس طریقے سے بادلوں میں موجود ساری نمی نچوڑ لی جائے۔ یعنی بادل ساری بارش بھارت میں برسا جائیں اور جب وہ پاکستان داخل ہوں، تو ان میں بہت ہی کم آبی قطرات موجود ہوں۔گویا یہ پاکستان کو مون سونی بارشوں سے محروم کرنے کا ناپاک و شر انگیز منصوبہ تھا۔ پاکستان کے بہت سے علاقوں میں مون سونی بارشوں کے سہارے ہی کھیتی باڑی ہوتی ہے۔ نیز بارشیں پینے اور روزمرہ استعمال کا پانی بھی فراہم کرتی ہیں۔
انتہا پسند و ہند لیڈر پاکستان کی بارشیں روک کر لاکھوں پاکستانیوں کو قتل کرنا چاہتے تھے۔خوش قسمتی سے امریکا نے مون سون کے بادلوں پر صنعت ابرکاری آزمانے کی تجویز مسترد کردی۔ امریکی سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ مون سونی بادل پہلے ہی آبی قطرات سے لدے پھندے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان پر یہ سائنسی طریقہ آزمانا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اُدھر امریکی حکومت نے یہی عذر پیش کیا کہ اگر سارے مون سونی بادل بھارت ہی میں برس گئے، تو پاکستان کو کہاں سے بارشیں ملیں گی؟
امریکیوں کو یہ بھی احساس تھاکہ پاکستانیوں کو کبھی نہ کبھی پتا چل جائے گا کہ امریکا اور بھارت نے مل کر اسے مون سونی بارشوں سے محروم کردیا، اس کی بارشیں چوری کر لیں۔ جب بھی یہ سچائی سامنے آتی، پاکستانی امریکی حکمران طبقے سے برگشتہ ہوجاتے۔ لہٰذا امریکی حکومت کی مخالفت کے باعث پاکستان دشمن بھارتی لیڈر اپنی تجویز کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے۔
1967ء کے مون سون میں بھارت بھر میں خوب بارشیں ہوئیں۔ اب پروجیکٹ جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا، لہٰذا اسے خاموشی سے ختم کردیا گیا۔ اس منصوبے سے امریکا یا بھارت کو کس قسم کے فوائد ملے، اس بابت زیادہ مواد نہیں ملتا۔ دونوں حکومتوں نے پروجیکٹ سے متعلق دستاویز کلاسیفائیڈ یا عوام و خواص کی نظروں سے پوشیدہ رکھی ہوئی ہیں۔
نصف صدی قبل تب کے پاکستان دشمن بھارتیوں نے پاکستانیوں کی بارشیں چوری کرکے انہیں تباہ کرنا چاہا تھا۔ اب قوم پرست ہندو وزیراعظم، نریندر مودی بھارت سے پاکستان آنے والے دریاؤں کا راستہ روک کر پاکستانیوں کو بوند بوند سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔ بھارتی حکمران طبقہ رفتہ رفتہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے لگا ہے۔ یہ حقیقت ہے، مستقبل میں بھارتی حکمرانوں نے سندھ، چناب یا جہلم دریاؤں کا پانی روکا، تو ان کی اوچھی حرکت پر اگلی پاک بھارت جنگ چھڑسکتی ہے۔ اور یہ ایٹمی جنگ کروڑوں بھارتیوں اور پاکستانیوں کو لقمہ اجل بنادے گی۔ یہ خوفناک ارضی قیامت لانے کے ذمے دار صرف خودسر و مغرور بھارتی حکمران ہوں گے۔
پانی کی جنم لیتی قلت
گزشتہ برس ماہ دسمبر میں مانسہرہ جانا ہوا۔ یہ ایک سرسبز و شاداب علاقہ ہے۔ لیکن اس بار دیکھا کہ درختوں اور پودوں پر مردنی چھائی ہوئی ہے۔ پتے خشک پڑے تھے اور خوبصورت پھولوں کا نام و نشان نہ تھا۔ یہ آفت آنے کی وجہ خطّے میں بارش کا نہ ہونا تھا۔ مقامی افراد نے بتایا کہ خطہ پوٹھوہار میں ماہ اگست سے بارش نہیں ہوئی۔ماہرین موسمیات کے مطابق ایک موسمیاتی عجوبے '' ال نینو'' کی وجہ سے 2016ء میں بھارت اور پاکستان میں کم مون سونی بارش ہوئیں۔ دونوں ممالک میں اکثر علاقے کثیر بارشوں سے محروم رہے، چناں چہ وہاں قحط جیسے حالات پیدا ہوگئے۔ نیز کھیتی باڑی اچھی خاصی متاثر ہوئی۔
بھارت اور پاکستان میں لاکھوں کسان بارشوں کے پانی کی مدد سے گندم، چاول اور دیگر نقد آور فصلیں اگاتے ہیں۔ مگر اس بار پانی کی کمی کے باعث انہیں اپنی زمینوں پر سبزیاں اگانی پڑیں تاکہ کچھ تو آمدن ہوسکے۔ گویا آنے والے دنوں میں گندم اور چاول منڈیوں میں کم آئیں گے اور ان کی قلت جنم لے سکتی ہے۔ یاد رہے، پاکستان میں 90 لاکھ ہیکڑ( دو کروڑ بیس لاکھ ایکڑ) رقبے پر گندم بوئی جاتی ہے۔
اس میں سے 30 فیصد زمین کو بارشوں سے ہی پانی ملتا ہے۔پاکستان اور بھارت میں بڑھتی آبادی، تیزی سے لگتے نئے کارخانوں اور منفی موسمیاتی حالات کے باعث پانی نایاب ہورہا ہے۔ سطح زمین کے اوپر اور نیچے، دونوں جگہ آبی ذخائر میں پانی گھٹ رہا ہے۔ مثلاً 1951ء میں ہر پاکستانی کو ''5260'' کیوبک میٹر پانی میسر تھا۔ اب یہ شرح کم ہوکر صرف ''1000'' کیوبک میٹر رہ گئی ہے۔ بعض پاکستانی ماہرین کا تو دعویٰ ہے کہ اگر اسی شرح سے پانی کم ہوتا رہا، تو 2025ء میں پاکستان میں پانی انتہائی نایاب ہوجائے گا۔ یاد رہے، کئی پاکستانی علاقوں میں ٹیوب ویلوں یا کنوؤں کے ذریعے نیچے سے پانی نکالا جاتا ہے۔
پانی کی قلت دیکھتے ہوئے اب یہ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ یہ آبی دولت سوچ سمجھ کر استعمال کرے۔ ہمارے ہاں دیکھا گیا ہے کہ بہت سے لوگ پانی کی قدروقیمت نہیں سمجھتے۔ راستے میں کوئی نلکا کھلا ہوا ہے، تو اسے بند کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ اسی طرح دفتر یا گھر میں کوئی نلکا خراب ہوجائے، تو اس سے روزانہ کئی لیٹر پانی بہہ کر ضائع ہوجاتا ہے مگر نلکے کی مرمت عرصہ دراز بعد بادل نخواستہ کرائی جاتی ہے۔ پانی کی قدر نہ ہونے کے باعث آبی خزانہ ضائع ہو رہا ہے۔
پاکستان کے تمام بڑے شہر مثلاً کراچی، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان، حیدر آباد وغیرہ پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ ان تمام شہروں کو ڈیموں یا ٹیوب ویلوں سے پانی ملتا ہے۔ ڈیموں میں عموماً پانی کی کمی رہتی ہے۔ جبکہ ٹیوب ویلوں کی کثرت کے باعث زیر زمین پانی کئی فٹ نیچے جاچکا۔ ماضی کی نسبت اب ان شہروں میں مزید تیس چالیس فٹ نیچے بورنگ کرنا پڑتی ہے۔
کراچی میں تقریباً پونے دو کروڑ افراد بستے ہیں۔ شہر میں دس ہزار سے زائد چھوٹے بڑے کارخانے بھی قائم ہیں۔ کروڑوں شہریوں کو اپنی ضروریات کے لیے تقریباً ایک ارب دس کروڑ لیٹر پانی روزانہ درکار ہوتا ہے۔ لیکن انہیں روزانہ زیادہ سے زیادہ ساٹھ تا ستر کروڑ لیٹر پانی ملتا ہے۔ چناںچہ شہری پانی کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔ کراچی کو دریائے سندھ، کینجھر اور ہالیجی جھیلوں اور جب ڈیم سے پانی دیا جاتا ہے۔
ان آبی ذرائع میں پانی کی مقدار گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ جب کراچی میں پانی نایاب ہو، تو ٹینکر مافیا ہزاروں روپے میں فی ٹینکر بیچ کر خوب مال بناتا ہے۔میٹھے پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ایک طریقہ ڈیموں کی تعمیر ہے۔ افسوس کہ پاکستانی حکمرانوں نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ دنیا بھر میں بیشتر ممالک اتنے زیادہ ڈیم بناچکے کہ ہر سال وہاں دریاؤں کا 40 فیصد پانی جمع ہوجاتا ہے مگر پاکستان صرف 163 چھوٹے بڑے ڈیم رکھتا ہے۔ چناں چہ پاکستانی دریاؤں میں بہنے والا صرف ''10 فیصد'' پانی ان میں جمع ہوپاتا ہے۔بقیہ پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ ملک بھر میں نئے ڈیم تعمیر کیے جائیں تاکہ خاص طور پر مستقبل میں پانی کی شدید کمی کے منڈلاتے گھمبیر خطرے سے نمٹا جاسکے۔
بھارت اب تک چھوٹے بڑے ''5102'' ڈیم تعمیر کرچکا۔ چین (23,842ڈیم) اور امریکا (9265ڈیم) کے بعد بھارت ہی میں سب سے زیادہ ڈیم واقع ہیں۔ پھر بھی وہاں تقریباً دس کروڑ بھارتی پانی کی شدید کمی سے دوچار ہیں۔ جاپان، جنوبی کوریا، ترکی اور سپین رقبے میں پاکستان سے چھوٹے ممالک ہیں، مگر وہ بھی بالترتیب 3108، 1306، 1082 اور 972 ڈیم بناچکے۔پاکستانی قوم کو ایک افریقی کہاوت یاد رکھنی چاہیے:
''انسان کو پانی کی قدروقیمت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کنواں خشک ہو جائے۔''