کراچی… مسافر کوچ میں دھماکا
کراچی میں دہشت گردی کرنا مشکل کام نہیں دہشت گرد کسی بھی بس اڈے یا ریلوے اسٹیشن تک جا سکتاہے۔
کراچی کینٹ اسٹیشن کے مرکزی گیٹ کے سامنے سرگودھا جانے والی ایک مسافرکوچ میں بم دھماکے کے نتیجے میں ایک معصوم بچے سمیت چھ افراد جاں بحق جب کہ 50 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔ میڈیا کے حوالے سے جو اطلاعات سامنے آئی ہیں' ان کے مطابق دھماکے سے بس کی چھت اڑکر ونڈ اسکرین کے سامنے آگری۔ دھماکے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قریب کھڑی ہوئی ٹیکسی ، موٹر سائیکل اور بس اڈے کے دفاتر و ہوٹل تباہ ہوگئے، مختلف تحقیقاتی ٹیموں کے دھماکے کے حوالے سے متضاد بیانات آتے رہے۔
ایک ٹیم کا سربراہ کچھ بیان دیتا تو دوسری کا کچھ۔ شروع میں دھماکے کو بس کے سی این جی سلنڈر اور پھر ائر کنڈیشنر کے کمپریسر کا دھماکا قرار دیا گیا تاہم بعد میں تسلیم کر لیا گیا کہ یہ بم دھماکا تھا۔ خفیہ اداروں نے جمعہ کو اطلاع دے رکھی تھی کہ کراچی میں دہشت گردی ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں موبائل فونز سروس بھی چند گھنٹوں کے لیے بند کی گئی تھی۔ خفیہ اداروں کی رپورٹس کے باعث شہر میں ہائی الرٹ تھا۔ کراچی کینٹ اسٹیشن کے باہر اندرون ملک جانیوالی بسوں کے اڈے کثیر تعداد میں موجود ہیں،جس کے باعث وہاں پر مسافروںکا اژدھام رہتا ہے لیکن سیکیورٹی کے حوالے سے یہاںکسی بھی قسم کے حفاظتی اقدامات موجود نہیں ہیں ۔
نہ تو مسافروں کا سامان چیک کرنے کے لیے جدید آلات موجود ہیں اور نہ ہی کنڈیکٹرز اور دیگر ورکروں کو اس کی تربیت دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد باآسانی دھماکے کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے ۔ محکمہ پولیس کے افسران بالا تو ایسے مواقعے پر روایتی بیانات دے کر خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں ۔جب کہ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ کراچی میں دہشت گردی کرنا مشکل کام نہیں ہے۔ دہشت گرد کسی بھی بس اڈے تک جا سکتاہے ، اسے ریلوے اسٹیشن جانے میں کوئی مشکل نہیں ہے ۔ ادھر مسافر بس کے دھماکے میں جاں بحق وزخمی ہونے والے افراد کے لواحقین کے لیے حکومتی سطح پر امداد کا اعلان بھی نہیں کیا گیا ہے ۔
صدرآصف علی زرداری نے سندھ حکومت سے فوری طور پر واقعے کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو ہدایت کی ہے کہ کراچی میں قیام امن کے لیے سخت ترین اقدامات کیے جائیں اور دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی عمل میں لائی جائے۔ صدر نے واقعے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے اور واقعے میں زخمی ہونے والے افراد کو ہر ممکن طبی امداد فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی ۔ وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے بھی کراچی بم دھماکے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ایسے واقعات سے حکومت اور پاکستانی قوم کے حوصلے کم نہیں کیے جاسکتے، حکومت دہشت گردی کے خلاف بھرپور کارروائی جاری رکھے گی۔
صدر اور وزیراعظم کے بیانات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ صورتحال کی سنگینی کا انھیں پوری طرح احساس ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں محض باتوں یا اعلانات سے امن قائم نہیں ہو سکتا' میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق کراچی میں ہونے والے دھماکے کی ذمے داری لشکر بلوچستان نامی تنظیم نے قبول کی ہے' اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی میں ایک یا دو نہیں کئی گروہ سرگرم عمل ہیں' انتشار اور بدامنی کی آڑ میں ملک دشمن اور جرائم پیشہ گروہ بے گناہ انسانوں کا خون بہا رہے ہیں اور ملک کے اکنامک کیپیٹل کو مفلوج کرنے کے ایجنڈے پر کاربند ہیں۔کراچی میں امن واپس لانے کے لیے سیاسی قوتوں کو اپنے باہمی تنازعات کو بالائے طاق رکھ کر دہشت گردوں اور جرائم پیشہ گروہوں کے خاتمے کے یک نکاتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔
ایک ٹیم کا سربراہ کچھ بیان دیتا تو دوسری کا کچھ۔ شروع میں دھماکے کو بس کے سی این جی سلنڈر اور پھر ائر کنڈیشنر کے کمپریسر کا دھماکا قرار دیا گیا تاہم بعد میں تسلیم کر لیا گیا کہ یہ بم دھماکا تھا۔ خفیہ اداروں نے جمعہ کو اطلاع دے رکھی تھی کہ کراچی میں دہشت گردی ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں موبائل فونز سروس بھی چند گھنٹوں کے لیے بند کی گئی تھی۔ خفیہ اداروں کی رپورٹس کے باعث شہر میں ہائی الرٹ تھا۔ کراچی کینٹ اسٹیشن کے باہر اندرون ملک جانیوالی بسوں کے اڈے کثیر تعداد میں موجود ہیں،جس کے باعث وہاں پر مسافروںکا اژدھام رہتا ہے لیکن سیکیورٹی کے حوالے سے یہاںکسی بھی قسم کے حفاظتی اقدامات موجود نہیں ہیں ۔
نہ تو مسافروں کا سامان چیک کرنے کے لیے جدید آلات موجود ہیں اور نہ ہی کنڈیکٹرز اور دیگر ورکروں کو اس کی تربیت دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد باآسانی دھماکے کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے ۔ محکمہ پولیس کے افسران بالا تو ایسے مواقعے پر روایتی بیانات دے کر خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں ۔جب کہ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ کراچی میں دہشت گردی کرنا مشکل کام نہیں ہے۔ دہشت گرد کسی بھی بس اڈے تک جا سکتاہے ، اسے ریلوے اسٹیشن جانے میں کوئی مشکل نہیں ہے ۔ ادھر مسافر بس کے دھماکے میں جاں بحق وزخمی ہونے والے افراد کے لواحقین کے لیے حکومتی سطح پر امداد کا اعلان بھی نہیں کیا گیا ہے ۔
صدرآصف علی زرداری نے سندھ حکومت سے فوری طور پر واقعے کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو ہدایت کی ہے کہ کراچی میں قیام امن کے لیے سخت ترین اقدامات کیے جائیں اور دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی عمل میں لائی جائے۔ صدر نے واقعے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے اور واقعے میں زخمی ہونے والے افراد کو ہر ممکن طبی امداد فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی ۔ وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے بھی کراچی بم دھماکے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ایسے واقعات سے حکومت اور پاکستانی قوم کے حوصلے کم نہیں کیے جاسکتے، حکومت دہشت گردی کے خلاف بھرپور کارروائی جاری رکھے گی۔
صدر اور وزیراعظم کے بیانات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ صورتحال کی سنگینی کا انھیں پوری طرح احساس ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں محض باتوں یا اعلانات سے امن قائم نہیں ہو سکتا' میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق کراچی میں ہونے والے دھماکے کی ذمے داری لشکر بلوچستان نامی تنظیم نے قبول کی ہے' اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی میں ایک یا دو نہیں کئی گروہ سرگرم عمل ہیں' انتشار اور بدامنی کی آڑ میں ملک دشمن اور جرائم پیشہ گروہ بے گناہ انسانوں کا خون بہا رہے ہیں اور ملک کے اکنامک کیپیٹل کو مفلوج کرنے کے ایجنڈے پر کاربند ہیں۔کراچی میں امن واپس لانے کے لیے سیاسی قوتوں کو اپنے باہمی تنازعات کو بالائے طاق رکھ کر دہشت گردوں اور جرائم پیشہ گروہوں کے خاتمے کے یک نکاتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔