2016 تاریخ کا گرم ترین سال

کرۂ ارض کا ہر خطہ 2016ء میں بھی شدید موسموں کی زد میں رہا۔۔۔

ISLAMABAD:
دنیا کے ملکوں نے تجربے سے یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ اگر وہ کرۂ ارض کو انسانوں کے رہنے کے قابل بنانا چاہتے ہیں اور انھیں معاشی اور معاشرتی طور پر ترقی کی منازل طے کرنی ہیں تو ان کو ہر قیمت پر فطرت سے ٹکرانے کا پرانا رویہ ترک کرکے فطرت کے اصولوں سے خود کو ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ فطرت سے لڑنے اور محاذ آرائی کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ 1750ء کے بعد سے شروع ہونے والی صنعتی ترقی کا بے محابہ عمل آنے والی صدیوں میں کرۂ ارض کے ماحول کو کس قدر آلودہ کردے گا اس کی نشاندہی 18 ویں صدی کی ابتدا سے ہی سائنسدانوں نے کرنی شروع کردی تھی۔

موسمیاتی تبدیلی اور درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے کے نتیجے میں دنیا بھر میں شدید موسمی واقعات جن میں سیلاب، سمندری طوفان، شدید بارشیں اور برفباری، شدید آندھیاں، سردی اور گرمی کی بار بار شدید لہر، خشک سالی، گلیشیئر کا پگھلاؤ اور سمندروں کی سطح میں اضافہ شامل ہیں، اب معمول بن چکے ہیں۔ آج دنیا کے معتبر ترین ادارے چاہے وہ ناسا ہو، بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی ہو، عالمی موسمیاتی تنظیم، نیشنل اوشیانک ایٹماسفیرک ایڈمنسٹریشن ہو، جاپانی موسمیاتی تنظیم، بارکلے ارتھ گروپ ہو یا ہیڈے سینٹر یوکے، یہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ کرۂ ارض کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

صنعتی طور پر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں نے فضا میں زہریلی گیسوں، خصوصاً کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کس تیزی سے کیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی درجہ حرارت 134 برسوں میں اعشاریہ 87 سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے اور یہ اضافہ مسلسل جاری ہے۔ اگر اعداد و شمار کی بات کی جائے تو 1990ء سے 2015ء تک صرف 25 برسوں میں اعشاریہ 43 یعنی نصف کا اضافہ ہوا ہے۔ زہریلی گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شرح گذشتہ 10/12 سال میں 383 سے بڑھ کر 403 پی پی ایم تک پہنچ چکی ہے، جب کہ میتھین گیس سمیت دیگر زہریلی گیسوں کے اخراج میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔

حال ہی میں عالمی ادارے اوشیانک اینڈ ایٹماسفیرک ایڈمنسٹریشن کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق، جسے مرتب کرنے کے لیے رپورٹ کے مرکزی مصنف کارل تھامس اور ان کی ٹیم نے دنیا کے 116 سائنسدانوں کے علاوہ اعداد و شمار سمیت سپر کمپیوٹرز اور دیگر متعدد ذرائع دے مدد لی، 2015ء میں امریکا کنیڈا، یورپ، الاسکا، چین، جاپان، انڈونیشیا، جنوبی افریقہ، ایتھوپیا، مصر، سری لنکا، بھارت اور پاکستان میں موسمیاتی شدت کے شدید واقعات رونما ہوئے۔ واضح رہے کہ 2015ء کو تاریخ کا گرم ترین سال قرار دیا گیا۔

کرۂ ارض کا ہر خطہ 2016ء میں بھی شدید موسموں کی زد میں رہا۔ شدید بارشیں، سیلاب، طوفان، خشک سالی اور گرمی کی شدت ہر ذی روح کے ہوش اڑاتی رہی۔ اکتوبر تک کیے جانے والے عالمی تجزیوں میں میں بتایا گیا کہ 2015ء کے مقابلے میں 2016ء کو زیادہ گرم سال قرار دیا جاسکتا ہے۔ ناسا کے زمینی درجہ حرارت کو ریکارڈ کرنے والے ڈویژن نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ ریکارڈ شدہ تاریخ کا سب سے گرم ترین مہینہ فروری 2016ء رہا، جب کہ مئی اور جون ریکارڈ کیے جانے والے مئی اور جون کے تمام مہینوں میں سب سے زیادہ گرم ماہ رہے۔


عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کرنے والی گرین ہاؤس گیسز کی شرح میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا۔ عالمی موسمیاتی تنظیم نے گزرے سال بتایا کہ عالمی درجہ حرارت کے تمام پرانے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں جب کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 400 پی پی ایم کا ہندسہ عبور کرچکی ہے۔ 2016ء میں کویت کے علاقے ''مطربہ'' میں تاریخ کا سب سے زیادہ درجہ حرارت 54 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا جب کہ دوسرا درجہ حرارت جولائی میں ہی عراق کے جنوبی شہر بصرہ میں 53.9 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ اور تیسرا پاکستان کے علاقے لاڑکانہ میں 52 ڈگری سینٹی گریڈ مئی 19 کو ریکارڈ کیا گیا۔ ہندوستان میں تاریخ کی سب سے زیادہ گرمی ریکارڈ ہوئی۔

گزرے سال چین سیلابوں کا مرکز رہا اور سب سے زیادہ سیلاب چین میں آئے، جس کے نتیجے میں سیکڑوں ہلاکتیں ہوئیں، جب کہ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔ مجموعی طور پر چین کو 5.73 ارب ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ سب سے بڑا سمندری طوفان فلوریڈا میں آیا، جہاں 900 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ آرکیٹیک کی برف میں تاریخ کی ریکارڈ کمی دیکھی گئی جب کہ کئی افریقی ممالک اور پاکستان کے کئی حصے شدید خشک سالی کی لپیٹ میں رہے۔ پاکستان کے صوبے پنجاب میں آنے والی فوگ جو اب اسموگ میں تبدیل ہوچکی ہے، کی وجہ سے اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ 4 نومبر کا تاریخی دن بھی 2016ء میں ہی آیا، جب دنیا کے وہ 55 ممالک جو زہریلی گیسوں کے اخراج میں 55 فیصد کے ذمے دار ہیں، کے ساتھ دنیا کے تمام ملکوں نے عالمی ماحولیاتی معاہدہ کی توثیق کر دی، اب یہ معاہدہ نافذالعمل ہوچکا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر موسمیاتی تبدیلیوں کا یہ عمل موجودہ صدی کے آخر تک جاری رہتا ہے تو اوسط عالمی آمدنی میں 23 فیصد کمی واقع ہوجائے گی۔ اس کی ایک جھلک 4 نومبر 2017ء کو جاری ہونے والی ایک نئی رپورٹ میں نظر آئی، جس میں بتایا گیا ہے کہ معاشرے کو تحفظ دینے والی انشورنس کی صنعت کو موسمیاتی تبدیلی سے شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی 29 انشورنس کمپنیوں کی جانب سے بنائے جانے والے اتحاد جسے ''کلائمیٹ وائس'' کا نام دیا گیا ہے، نے اس رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قدرتی آفات کے اخراجات اور بیمہ شدہ رقم کے درمیان ہونے والے فرق میں 1980ء سے ہر سال 100 بلین ڈالر یعنی چار گنا کا اضافہ ہوچکا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاشرے کو سیلاب، طوفان او رگرمی کی شدید لہر سے بچانے کے لیے مزید 30 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ رپورٹ کے مطابق انشورنس کی صنعت کو اپنی رسک مینجمنٹ کی صلاحیتوں کو استعمال میں لاتے ہوئے سرکاری اور نجی شعبے کے پالیسی سازوں کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فوری ایکشن پر آمادہ کرنا ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق 1980ء کے بعد سے ان کے نقصانات میں اب تک تقریباً 170 بلین ڈالر یعنی 5 گنا اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی براہ راست زد میں ہے۔ سمندری طوفان کے خطرات، خشک سالی، سیلاب، گرمی کی شدید لہر، لینڈ سلائیڈنگ، گلیشیئر کے پگھلاؤ جیسے شدید موسمی سانحات کے نتیجے میں ہونے والے معاشی نقصانات ہم گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل بھگت رہے ہیں۔ معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والا معاشی نقصان 400 ارب روپے سالانہ سے تجاوز کرچکا ہے۔ آنے والے وقتوں میں ان نقصانات میں اضافہ ہی ہوگا۔ پاکستان کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو موسمیاتی مسائل پر خصوصی توجہ دینا ہوگی، کیونکہ ملک کے کروڑوں لوگ ان کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ ان مسائل کے حوالے سے عوامی آگہی کا شدید فقدان ہے حتیٰ کہ ہماری اشرافیہ بھی ان مسائل کو کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ پاکستان میں ماحولیاتی مسائل پر کام کرنے والی سماجی تنظیموں کی اکثریت کارپوریٹ کلچر کا شکار ہوچکی ہے، جس کے نتیجے میں ان کا عوام سے رابطہ منقطع ہوچکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ملک کی سیاسی جماعتیں بھی موسمیاتی آگہی کو اپنے پروگرام کا حصہ بنائیں تاکہ ملک کی عوام براہ راست ان مسائل کو حل کرنے میں مدد گار بن سکیں، وگرنہ ملک میں ہونے والی معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ موسمیاتی و ماحولیاتی مسائل ہی ہوں گے۔
Load Next Story