خواتین کی لٹھ بردار گلابی فوج

گلابی دستے کی شہرت اتنی پھیلی کے کان پور میں اس طرز پر ایک لٹھ بردار نیلا جتھا بھی وجود میں آیا۔

گلابی فوج کی سربراہ سمپت پال دیوی کو سسرال میں سخت مظالم کا سامنا کرنا پڑا جو گلابی فوج کے قیام پر منتج ہوا۔ فوٹو: فائل

GUANTANAMO BAY:
حقوق نسواں کا تصور ذہن میں آتے ہی انسانی حقوق کی ایسی تنظیموں کا خیال آ جاتا ہے جو قانونی مہذب اور جمہوری طریقہ کار کے تحت صنف نازک کے سلب شدہ حقوق کی جدوجہد کرتی ہیں۔

لیکن اگر حقوق نسواں کے لیے خواتین کی کوئی لٹھ بردار تنظیم سامنے آجائے جو طاقت کے ذریعے اپنے غصب شدہ حقوق کے لیے تحریک چلائے تو یقیناً یہ اچنبھے کی بات ہوگی، لیکن ہندوستانی ریاست اتر پردیش سے تعلق رکھنے والی 54 سالہ سمپت پال دیوی نے گزشتہ چھ سال سے ایک ایسی زنانی فوج قایم کر رکھی ہے جو ''گلابی گینگ'' کے نام سے جانی جاتی ہے۔

گلابی ساڑیوں میں ملبوس یہ ڈنڈا بردار دستے معاشرے میں خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف عملی جدوجہد کرتے ہیں اور انہیں گھریلو تشدد سے لے کر معاشرتی دبائو سے نجات دلاتی ہے۔ اس گروہ کی ارکان کو باقاعدہ ان لاٹھیوں سے لڑنے کی تربیت دی جاتی ہے، تاکہ وہ مکمل مہارت حاصل کرنے کے بعد کام یابی سے اس منظم فوج کا حصہ بن سکیں۔

اپنی نوعیت کی یہ منفرد خواتین فوج کسی ظلم پر براہ راست ڈنڈے لیے نہیں چڑھ دوڑتی بلکہ شکایت ہونے پر پہلے مرحلے میں صرف زبانی کلامی باز رہنے کا اذن دیا جاتا ہے، پھر بھی بات نہ بنے تو ذرا سختی اختیار کر کے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اگر معاملہ پھر بھی حل نہ ہو تو پھر آخری مرحلہ طاقت کا استعمال ہوتا ہے جس کے ذریعے اپنے تئیں خواتین کو اس مسئلے سے نجات دلائی جاتی ہے۔

حقوق نسواں کی عَلم بردار خواتین کا یہ انوکھا لٹھ بردار گروہ سمپت پال دیوی نے 2006ء میں خواتین پر گھریلو تشدد کے خاتمے کے لیے تشکیل دیا۔ جس میں 22 تا 50 سال کی عمر کی خواتین شامل ہیں۔ ان کی تعداد بڑھتے بڑھتے اب 10ہزار تک جاپہنچی ہے۔ یہ خواتین صنف نازک پر ہونے والے کسی بھی قسم کے ظلم کے خلاف بلا تفریق رنگ ونسل اٹھ کھڑی ہوتی ہیں اور اس کے لیے اپنی خصوصی تربیت کو بھی بروئے کار لاتی ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ریاست کے اندر ریاست کا سا تصور دینے والی اس فوج کو حکومت کی جانب سے بھی چھوٹ حاصل ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ انہوں نے حقوق نسواں کے لیے وہ کام انجام دیے ہیں جو شاید ریاست کے بھی بس کی بات نہ تھی۔ اس فوج نے اپنے قیام کے بعد نہ صرف خود ارد گرد کی خواتین پر ہونے والے مظالم پر نظر رکھی بلکہ بہت سی ظلم کی ستائی خواتین نے باقاعدہ خود اپنی شکایت درج کرانے کے لیے ان سے رابطہ بھی کیا، جس سے ان کی اثر پذیری یا کام یابی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔



ہندوستانی خواتین کی اس فوج کی سربراہ سمپت پال دیوی کم عمری میں شادی کے بعد دوسرے گھر گئی تو وہاں سخت مظالم مشاہدے میں آئے، جس نے اس کے ذہن وقلب پر گہرا اثر ڈالا جو بالآخر گلابی فوج کے قیام پر منتج ہوا۔ طاقت کے ذریعے مسئلے کے حل کی سوچ کا آغاز اس وقت ہوا جب اس نے ایک خاتون خانہ کو سخت گھریلو مسائل سے نجات دلانے کی خاطر پہلی بار ڈنڈے اٹھائے اور اپنی پانچ سہیلیوں کو ساتھ لیا اور مسئلہ حل کرایا۔ اس کے بعد گویا یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ گائوں بھر میں ان کا رعب بیٹھ گیا، برادری کی جانب سے بھی ان کی سخت مزاحمت کی گئی، نتیجتاً انہیں علاقہ چھوڑنا پڑا۔ دوسرے قصبے میں انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ چائے کی دکان کھول لی۔

ساتھ ہی باقاعدہ لٹھ بردار خواتین کو منظم کرنے کے لیے سوچ بچار شروع کی۔ ظالم معاشرے اور اس کی غیر انسانی رسومات کے خلاف نیم مسلح جدوجہد ہی اس کا مقصد تھا۔ آخر کار طے ہوا کہ اس باقاعدہ دستے کے لیے ایک علیحدہ لباس ہو تاکہ جداگانہ شناخت مل سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے پہلے پہل ادھر ادھر سے چندہ جمع کر کے کان پور سے گلابی رنگ کی ساڑیاں خریدی گئیں۔ نیزے بازی کی طرح ان لاٹھیوں کے وار کرنے کی باقاعدہ تربیت اس کا دوسرا اہم حصہ تھا، جس کے لیے شامل ہونے والی خواتین کو لازمی تربیت دی جاتی تاکہ یہ گھریلو سی خواتین اس نوعیت کی کسی بھی قسم کی لڑائی کے لیے تیار ہو سکیں۔ باقاعدہ شناخت اور کارروائیوں کا ہونا تھا کہ ان کی شہرت کے چرچے دور دور تک ہونے لگے۔ حتیٰ کہ انہیں ہندوستان کی ایک بڑی باغی تحریک نکسل سے تشبیہ دے دی گئی جس پر شدید احتجاج کیا گیا بالآخر اس بیان کو واپس لینا پڑا۔

وقت گزرنے کے ساتھ اس گلابی دستے کی شہرت اتنی پھیلی کے کان پور میں اس طرز پر ایک لٹھ بردار نیلا جتھا بھی وجود میں آیا جس نے اگرچہ نہایت جوش وخروش سے کام شروع کیا لیکن گلابی فوج کی طرح زیادہ کام یاب ثابت نہ ہو سکا۔ اس نیلی فوج نے بھی گلابی ساڑی والیوں کی طرح ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے جوئے اور شراب خانوں کو نشانے پر رکھا کیوں کہ انہی دو چیزوں کے عادی مرد اپنی خواتین پر جبر کے پہاڑ توڑتے تھے۔ جوئے اور شراب کے اڈوں کے خلاف جنگ کے ساتھ انہوں نے بندیل کھنڈ کے ''ددوا ڈاکو''سے بھی ٹکر لی کہ جن کی مرضی کے بغیر کوئی عوامی نمائندہ بھی منتخب ایوانوں تک نہیں جا سکتا تھا۔


دوا ڈاکو کی موت کے بعد اس کی جگہ دوسرے ڈاکو نے لے لی، بعد ازاں گلابی فوج نے اس کے خلاف جدوجہد جاری رکھی۔ اس سے قبل 1984ء میں بھی نشے کے عادی شوہروں کے خلاف ایسی ہی ایک تحریک چلائی گئی، جو سارا دن نشے کی حالت میں گھر پر پڑے رہتے اور اپنی نصف بہتر پر گھر میں پیسے لانے کے لیے وحشیانہ تشدد کرتے۔ مردوں کے اس ہی جبر کے خلاف ہندوستانی خواتین نے ایک منظم اور مورچہ بند جدوجہد ''نشہ نہیں روزگار دو'' کا آغاز کیا، اس منفرد تحریک کی بازگشت بھی بہت دنوں تک سنی جاتی رہی، تاہم گلابی پیرہن والیوں جتنی مقبولیت اور کام یابی انہیں بھی نہ مل سکی۔

گلابی فوج کی قاید سمپت پال دیوی کا دبدبہ پولیس سے لے کر اعلا افسران تک قائم ہے۔ یہ اگرچہ بنیادی طور پر خواتین پر ہونے والے ظلم وجبر کے خلاف نبرد آزما ہیں لیکن رشوت خوری اور بدعنوانی پر بھی کسی کی جاں بخشی نہیں کرتیں۔ ایک مرتبہ گیہوں سے بھری تین گاڑیوں کو جب سرکاری اہلکاروں نے روک لیا تو گلابی فوج نے اس اقدام پر اہلکاروںکو بھی آڑھے ہاتھوں لیا اور وردی والوں کی بھی خوب ''تواضع'' کی۔

جب کسی علاقے میں کسی کی بھی شخصیت کی شہرت، مقبولیت یا دبدبہ اتنا بڑھ جائے تو طاقت کے طالب سیاسی گروہوں کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح بہلا پھسلا کر انہیں اپنا ہم نوا بنا لیا جائے اور پھر ان سے فوائد حاصل کیے جائیں، بالکل اس ہی طرح گلابی فوج کی بڑھتی ہوئی شہرت کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں نے چاہا کہ ان کی سرغنہ سمپت پال سے کسی طرح مفاہمت کرلی جائے لیکن تاحال انہوں نے کسی سیاسی جماعت سے اتحاد نہیں کیا۔

سمپت پال دیوی

سمپت پال دیوی 1958ء میں باندھ (اتر پردیش) میں ایک غریب چرواہے کے گھر پیدا ہوئیں۔ انہیں اسکول بھیجنے کے بجائے بکریوں اور دیگر مویشیوں کے چراہنے کے کام میں لگا دیا گیا، البتہ انہوں نے اسکول جانے والے اپنے بھائی کی مدد سے لکھنا پڑھنا سیکھا۔ ان کے اس جوش اور دل چسپی کو دیکھتے ہوئے ان کے ایک قریبی رشتے دار نے انہیں ایک اسکول میں داخل کرا دیا، تاہم اس دوران ہی پھر ان کی شادی کر دی گئی جس کے باعث ان کی تعلیم مکمل نہ ہو سکی۔ کم عمری میں بیاہنے کے بعد بال بچوں کی ذمہ داری نباہنے کے ساتھ وہ صحت عامہ کے سرکاری شعبے میں بھی کارکن رہیں۔ سمپت پال اپنی اس جدوجہد کو مزید وسیع کرنا چاہتی ہیں، اپنے پیادوں کے لیے ''گلابی گینگ'' کے خطاب پر سمپت پال دیوی کہتی ہیں کہ ''ہمارا تعلق مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے گینگ سے قطعی نہیں جیسا کہ گینگ کا عام مطلب لیا جاتا ہے۔ ہم انصاف لینے والے گینگ ہیں۔''

خدمات کا اعتراف

گلابی فوج کے قیام کے بعد سمپت پال دیوی کی شہرت ہندوستانی سرحدیں پھلانگ کر مغرب تک پہنچ چکی ہے۔ دورہ فرانس میں ان کی اس جدوجہد نے انہیں ایک بھرپور شناخت دی اور وہاں ان کی خوب پذیرائی کی گئی۔ ان کی جدوجہد کو تحقیق کا موضوع بھی بنایا گیا اور کتابیں بھی لکھی گئیں۔ ریاست اترپردیش، اتر کھنڈ اور دہلی کی جانب سے انہیں ان کی دلیرانہ خدمات پر Godfrey Phillips بہادری ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے علاوہ فروری 2012 ء میں انہیں The Kelvinator 11th GR8! Women Award دیا گیا۔

بہت سے مرد بھی ہم نوا!

گلابی فوج ابتداً شوہر، باپ، بھائی اور دیگر گھریلو مظالم کے خلاف سرگرم تھی، اس لیے یہ گویا عورت کو مخالف جنس کی زیادتیوں سے بچانے کے لیے براہ راست اس سے نبرد آزما تھی لیکن آج اسے بہت سے مردوں کی بھی حمایت حاصل ہے، اور اس گلابی فوج کی جدوجہد کا دائرہ بھی وسیع ہوگیا ہے اور یہ اب معاشرے میں رائج ذات پات کی تقسیم، فرسودہ رسوم ورواج، خواتین کی جہالت، گھریلو تشدد، جبری مشقت، بچپن کی شادی اور جہیز کے مطالبوں کے خلاف نبرد آزما ہے۔ سطح غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کو غذا کی فراہمی، ریٹائر ہونے والوں کو پنشن کی ادائیگی، خصوصاً ان بیوہ خواتین کو جن کی عمر کے تعین کے لیے پیدائش کے وقت سرٹی فکیٹ بنوانے کی بھی زحمت نہیں کی گئی۔ خواتین اور بچوں کے استحصال وغیرہ کے روک تھام کے لیے جدوجہد کرنا شامل ہے تاکہ خواتین کے مکمل انسانی حقوق بحال کیے جاسکیں۔
Load Next Story