شہر قائد اور قائداعظم آخری حصہ
شہر قائد میں پانی کا مسئلہ بھی روز بروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔۔۔
بچوں کی تفریح طبع کے لیے زولوجیکل گارڈن بھی کراچی کے منظرنامے میں شامل ہوگیا۔ کراچی کو بنیادی سہولتیں حاصل ہوجانے کے بعد بھی سیاستدان اور حکمران ملک کو ترقی کی راہوں پر نہ چلاسکے، بلکہ نفرت، تعصب، اقربا پروری، مفاد پرستی کے ایسے بیج بوئے جس کے پھل زہریلے اور خاردار نکلے اور ان جان لیوا پھلوں کو کھانے پر بے شمار لوگ مجبور ہوئے اور قائداعظم کی سوچ، ان کے افکار کے برعکس امور انجام دینے والوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
قائداعظم نے اپنے ایک انٹرویو میں، جو تحریک پاکستان کے کارکن ڈاکٹر سید بدرالدین نے لیا تھا، فرمایا تھا، جو ہفت روزہ ''چٹان''میں 9 فروری 1970ء کو شایع ہوا تھا۔ قائداعظم نے ایک سوال کے جواب میں قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ:
''مسٹر بدر! میں مطمئن ہوں کہ قرآن و سنت کے زندہ جاوید قانون پر مبنی ریاست (پاکستان) دنیا کی بہترین اور مثالی سلطنت ہو گی، یہ اسلامی ریاست اسی طرح سوشلزم، کمیونزم، مارکسزم، کیپٹل ازم کا قبرستان بن جائے گی جس طرح سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مدینہ اس وقت کے تمام فرسودہ نظام کا گورستان بنا، پاکستان میں اگر کسی نے روٹی کے نام پر اسلام کے خلاف کام کرنا چاہا یا اسلام کی آڑ میں کیپٹل ازم، سوشلزم، کمیونزم یا مارکسزم کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو پاکستان کی غیور قوم اسے کبھی برداشت نہیں کرے گی۔ یاد رکھو کہ میں نہرو نہیں ہوں کہ وہ کبھی سیکولرسٹ بنتے ہیں، کبھی مارکسٹ، میں تو اسلام کے کامل نظام زندگی، خدائی بادشاہت پر ایمان رکھتا ہوں، انھوں نے مزید کہا کہ خلافت راشدہ نے جو نظام مالیات قائم کیا تھا، وہ ہر شخص کی خوشحالی اور فارغ البالی کی ضمانت دیتا ہے اور آج بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ کوئی نظام معیشت اس سے بہتر نہیں۔''
قائداعظم نے اتحاد، تنظیم اور اخوت و بھائی چارہ قائم کرنے پر زور دیا تھا لیکن معاملات بالکل پلٹ چکے ہیں، قائداعظم کی تحریر و تقریر سے اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ سچے مسلمان تھے، قرآن کی تعلیم پر عمل پیرا۔ انھیں اس بات کا اندازہ ہرگز نہ تھا کہ پاکستان کے مقتدر حضرات تعلیمی و معاشرتی ڈھانچے کو اپنی منفی سوچ کے تحت شکستہ کر دیں گے۔ تعلیم نہ ہونے کی ہی وجہ سے معاشرہ انارکی کا نقشہ پیش کر رہا ہے، پاکستان کا ہر صوبہ تعصب و لسانی تفریق کی آماجگاہ بن چکا ہے، نہ مسلمان اور نہ پاکستانی ہونے کا حق ادا کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے ترقی کی راہیں مسدود ہوچکی ہیں اور وہ کراچی جو پاکستان کا دل ہے، اس دل پر اپنوں ہی کے ہاتھوں کاری ضرب لگی ہے۔ کسی زمانے میں پاکستان کا دارالحکومت کراچی تھا لیکن صدر جنرل ایوب اسے پنڈی لے گئے۔ اس وقت اسلام آباد نہیں بنا تھا۔ کراچی روز اول سے ہی بہت سی مشکلات اور محرومیوں کا شکار رہا ہے۔ قابل اجمیری نے بڑا اچھا شعر تخلیق کیا تھا، جوکہ مذکورہ حالات پر پورا اترتا ہے کہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ہر دور میں سازش ہوتی ہے اور سازش کے ہی تحت کراچی کو بے یار و مددگار کیا گیا، رہی سہی کسر حکومت نے پوری کر دی۔ تعلیمی نظام کو تباہ و برباد کرنے میں غیروں کا نہیں اپنوں کا ہی ہاتھ رہا ہے۔ کراچی کے نظام تعلیم کو مختلف خانوں میں بانٹ دیا گیا ہے، یہاں میٹرک کی سطح پر پانچ قسم کے تعلیمی بورڈ کام کرتے ہیں، کراچی بورڈ، ''او'' اور ''اے'' لیول بورڈ، فیڈرل بورڈ، آغا خان بورڈ، کیتھولک سسٹم۔ ''او'' لیول کے امتحانات آکسفورڈ سے، کیمبرج کے لندن سے، فیڈرل بورڈ کے امتحانات اسلام آباد سے ہوتے ہیں، آغا خان بورڈ کے تحت بھی اسکول کھولے گئے ہیں اور ان میں باقاعدہ تعلیم دی جا رہی ہے، لیکن ان اداروں کا مختلف طریقوں پر مبنی تعلیم نے سرکاری اسکولوں کے بچوں میں احساس کمتری پیدا کردیا ہے۔
سرکاری اسکولوں میں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے، گھوسٹ اساتذہ اور ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کی ملی بھگت سے طلبا کے مستقبل تاریک ہوگئے ہیں، اس کے برعکس پرائیویٹ اسکولوں میں نصابی و غیرنصابی سرگرمیاں عروج پر ہوتی ہیں، موسیقی، ناچ گانا، اداکاری بھی سکھائی جاتی ہے اس طریقہ واردات سے مسلمان گھرانوں میں ایک غیر ملکی ادارہ کام کر رہا ہے، اس کا مقصد روشن پاکستان کی تعمیر ہے، افسوس تعمیر تو نہ ہوسکی، البتہ تخریبی سرگرمیوں نے پاکستان کو تاریک کرنے کی کوشش کی۔
پاکستان میں کیتھولک سسٹم کے تحت جو اسکول خدمات انجام دے رہے ہیں ان میں سینٹ پیٹرک، سینٹ جوزف، سینٹ لارنس اسکول اپنی تعلیمی کارکردگی کی وجہ سے نمایاں ہیں، ماما پارسی اسکول بھی تعلیمی حوالے سے شاندار اور قابل تعریف کردار ادا کر رہا ہے۔ لیکن کراچی کے بڑے اسکولوں میں فیسیں بہت زیادہ ہیں، غریب بچے یہاں تعلیم حاصل کرنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے ہیں، انھیں معلوم ہے کہ ان کے والدین کی اتنی بساط نہیں ہے۔
اگر حکومت اپنے ملک اور ملک کے لوگوں سے مخلص ہوتی تو تمام تعلیمی اداروں میں نظام تعلیم اور ماہانہ فیس یکساں ہوتی تب نہ تخریب کار جنم لیتے اور نہ دہشتگرد۔ تعلیم مہنگی، طریقہ تدریس میں تفریق ہونے کی وجہ سے یتیم و بے سہارا، مفلوک الحال بچے محنت مزدوری یا بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ یہ معصوم بچے بری صحبت میں پڑ جاتے ہیں، اور پھر کچھ جرائم میں حصہ لیتے ہیں اور کچھ کو جرائم پیشہ افراد اغوا کرکے خودکش بمبار بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
کراچی کی آبادکاری کسی خاص منصوبے کے تحت عمل میں نہیں آئی اسی وجہ سے روز اول سے پیدا ہونے والے مسائل آج بھی جوں کے توں ہیں۔ صوبائی حکومتیں اپنی ذمے داری سے چشم پوشی کرتی ہیں۔ پسماندہ علاقوں میں نکاسی آب کا معقول انتظام نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے رہائشی کوڑا کرکٹ بھی گندے نالوں میں پھینک دیتے ہیں، گٹر، ڈھکنوں سے اور نالے اپنی چھتوں سے محروم ہیں انھیں پاٹنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ اس لاپرواہی اور سفاکی نے بے شمار ننھے بچوں کی جان لے لی ہے، آئے دن بچے اور بعض اوقات بڑے بھی گٹروں میں گر کر لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
شہر قائد میں پانی کا مسئلہ بھی روز بروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، کسی بھی ادارے میں مخلص اور ایمان دار کارکنان موجود نہیں ہیں، واٹر بورڈ کے محکمے کا بھی یہی حال ہے رشوت لے کر شہریوں کے حصے کا پانی ٹینکر مافیا کو دے دیا جاتا ہے اس طرح سے دونوں ہاتھوں سے شہریوں کو لوٹا جا رہا ہے۔ K-4منصوبے کا بھی آغاز کیا گیا ہے لیکن ابھی تک مثبت نتائج موصول نہیں ہوسکے ہیں۔
S-3 منصوبہ بھی زیر غور ہے لیکن پانی کا بحران آج بھی اپنے شباب پر ہے، لوگ ٹینکر کا پانی خریدتے ہیں، ٹیکس پابندی سے ادا کرتے ہیں اور ساتھ میں سیوریج کا گندہ اور شفاف ملا جلا پانی بھی استعمال کرتے ہیں کہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کراچی کی عوام مجبور و بے کس ہوچکی ہے۔ علاج معالجہ، تعلیم، روزگار سے محروم ہے، چھت چھپانے کی جگہ میسر نہیں جب کہ پیپلز پارٹی نے روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ لگا کر ووٹ حاصل کیے تھے، لیکن آج دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی علیحدہ ہوچکا ہے۔
قائداعظم نے اپنے ایک انٹرویو میں، جو تحریک پاکستان کے کارکن ڈاکٹر سید بدرالدین نے لیا تھا، فرمایا تھا، جو ہفت روزہ ''چٹان''میں 9 فروری 1970ء کو شایع ہوا تھا۔ قائداعظم نے ایک سوال کے جواب میں قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ:
''مسٹر بدر! میں مطمئن ہوں کہ قرآن و سنت کے زندہ جاوید قانون پر مبنی ریاست (پاکستان) دنیا کی بہترین اور مثالی سلطنت ہو گی، یہ اسلامی ریاست اسی طرح سوشلزم، کمیونزم، مارکسزم، کیپٹل ازم کا قبرستان بن جائے گی جس طرح سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مدینہ اس وقت کے تمام فرسودہ نظام کا گورستان بنا، پاکستان میں اگر کسی نے روٹی کے نام پر اسلام کے خلاف کام کرنا چاہا یا اسلام کی آڑ میں کیپٹل ازم، سوشلزم، کمیونزم یا مارکسزم کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو پاکستان کی غیور قوم اسے کبھی برداشت نہیں کرے گی۔ یاد رکھو کہ میں نہرو نہیں ہوں کہ وہ کبھی سیکولرسٹ بنتے ہیں، کبھی مارکسٹ، میں تو اسلام کے کامل نظام زندگی، خدائی بادشاہت پر ایمان رکھتا ہوں، انھوں نے مزید کہا کہ خلافت راشدہ نے جو نظام مالیات قائم کیا تھا، وہ ہر شخص کی خوشحالی اور فارغ البالی کی ضمانت دیتا ہے اور آج بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ کوئی نظام معیشت اس سے بہتر نہیں۔''
قائداعظم نے اتحاد، تنظیم اور اخوت و بھائی چارہ قائم کرنے پر زور دیا تھا لیکن معاملات بالکل پلٹ چکے ہیں، قائداعظم کی تحریر و تقریر سے اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ سچے مسلمان تھے، قرآن کی تعلیم پر عمل پیرا۔ انھیں اس بات کا اندازہ ہرگز نہ تھا کہ پاکستان کے مقتدر حضرات تعلیمی و معاشرتی ڈھانچے کو اپنی منفی سوچ کے تحت شکستہ کر دیں گے۔ تعلیم نہ ہونے کی ہی وجہ سے معاشرہ انارکی کا نقشہ پیش کر رہا ہے، پاکستان کا ہر صوبہ تعصب و لسانی تفریق کی آماجگاہ بن چکا ہے، نہ مسلمان اور نہ پاکستانی ہونے کا حق ادا کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے ترقی کی راہیں مسدود ہوچکی ہیں اور وہ کراچی جو پاکستان کا دل ہے، اس دل پر اپنوں ہی کے ہاتھوں کاری ضرب لگی ہے۔ کسی زمانے میں پاکستان کا دارالحکومت کراچی تھا لیکن صدر جنرل ایوب اسے پنڈی لے گئے۔ اس وقت اسلام آباد نہیں بنا تھا۔ کراچی روز اول سے ہی بہت سی مشکلات اور محرومیوں کا شکار رہا ہے۔ قابل اجمیری نے بڑا اچھا شعر تخلیق کیا تھا، جوکہ مذکورہ حالات پر پورا اترتا ہے کہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ہر دور میں سازش ہوتی ہے اور سازش کے ہی تحت کراچی کو بے یار و مددگار کیا گیا، رہی سہی کسر حکومت نے پوری کر دی۔ تعلیمی نظام کو تباہ و برباد کرنے میں غیروں کا نہیں اپنوں کا ہی ہاتھ رہا ہے۔ کراچی کے نظام تعلیم کو مختلف خانوں میں بانٹ دیا گیا ہے، یہاں میٹرک کی سطح پر پانچ قسم کے تعلیمی بورڈ کام کرتے ہیں، کراچی بورڈ، ''او'' اور ''اے'' لیول بورڈ، فیڈرل بورڈ، آغا خان بورڈ، کیتھولک سسٹم۔ ''او'' لیول کے امتحانات آکسفورڈ سے، کیمبرج کے لندن سے، فیڈرل بورڈ کے امتحانات اسلام آباد سے ہوتے ہیں، آغا خان بورڈ کے تحت بھی اسکول کھولے گئے ہیں اور ان میں باقاعدہ تعلیم دی جا رہی ہے، لیکن ان اداروں کا مختلف طریقوں پر مبنی تعلیم نے سرکاری اسکولوں کے بچوں میں احساس کمتری پیدا کردیا ہے۔
سرکاری اسکولوں میں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے، گھوسٹ اساتذہ اور ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کی ملی بھگت سے طلبا کے مستقبل تاریک ہوگئے ہیں، اس کے برعکس پرائیویٹ اسکولوں میں نصابی و غیرنصابی سرگرمیاں عروج پر ہوتی ہیں، موسیقی، ناچ گانا، اداکاری بھی سکھائی جاتی ہے اس طریقہ واردات سے مسلمان گھرانوں میں ایک غیر ملکی ادارہ کام کر رہا ہے، اس کا مقصد روشن پاکستان کی تعمیر ہے، افسوس تعمیر تو نہ ہوسکی، البتہ تخریبی سرگرمیوں نے پاکستان کو تاریک کرنے کی کوشش کی۔
پاکستان میں کیتھولک سسٹم کے تحت جو اسکول خدمات انجام دے رہے ہیں ان میں سینٹ پیٹرک، سینٹ جوزف، سینٹ لارنس اسکول اپنی تعلیمی کارکردگی کی وجہ سے نمایاں ہیں، ماما پارسی اسکول بھی تعلیمی حوالے سے شاندار اور قابل تعریف کردار ادا کر رہا ہے۔ لیکن کراچی کے بڑے اسکولوں میں فیسیں بہت زیادہ ہیں، غریب بچے یہاں تعلیم حاصل کرنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے ہیں، انھیں معلوم ہے کہ ان کے والدین کی اتنی بساط نہیں ہے۔
اگر حکومت اپنے ملک اور ملک کے لوگوں سے مخلص ہوتی تو تمام تعلیمی اداروں میں نظام تعلیم اور ماہانہ فیس یکساں ہوتی تب نہ تخریب کار جنم لیتے اور نہ دہشتگرد۔ تعلیم مہنگی، طریقہ تدریس میں تفریق ہونے کی وجہ سے یتیم و بے سہارا، مفلوک الحال بچے محنت مزدوری یا بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ یہ معصوم بچے بری صحبت میں پڑ جاتے ہیں، اور پھر کچھ جرائم میں حصہ لیتے ہیں اور کچھ کو جرائم پیشہ افراد اغوا کرکے خودکش بمبار بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
کراچی کی آبادکاری کسی خاص منصوبے کے تحت عمل میں نہیں آئی اسی وجہ سے روز اول سے پیدا ہونے والے مسائل آج بھی جوں کے توں ہیں۔ صوبائی حکومتیں اپنی ذمے داری سے چشم پوشی کرتی ہیں۔ پسماندہ علاقوں میں نکاسی آب کا معقول انتظام نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے رہائشی کوڑا کرکٹ بھی گندے نالوں میں پھینک دیتے ہیں، گٹر، ڈھکنوں سے اور نالے اپنی چھتوں سے محروم ہیں انھیں پاٹنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ اس لاپرواہی اور سفاکی نے بے شمار ننھے بچوں کی جان لے لی ہے، آئے دن بچے اور بعض اوقات بڑے بھی گٹروں میں گر کر لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
شہر قائد میں پانی کا مسئلہ بھی روز بروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، کسی بھی ادارے میں مخلص اور ایمان دار کارکنان موجود نہیں ہیں، واٹر بورڈ کے محکمے کا بھی یہی حال ہے رشوت لے کر شہریوں کے حصے کا پانی ٹینکر مافیا کو دے دیا جاتا ہے اس طرح سے دونوں ہاتھوں سے شہریوں کو لوٹا جا رہا ہے۔ K-4منصوبے کا بھی آغاز کیا گیا ہے لیکن ابھی تک مثبت نتائج موصول نہیں ہوسکے ہیں۔
S-3 منصوبہ بھی زیر غور ہے لیکن پانی کا بحران آج بھی اپنے شباب پر ہے، لوگ ٹینکر کا پانی خریدتے ہیں، ٹیکس پابندی سے ادا کرتے ہیں اور ساتھ میں سیوریج کا گندہ اور شفاف ملا جلا پانی بھی استعمال کرتے ہیں کہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کراچی کی عوام مجبور و بے کس ہوچکی ہے۔ علاج معالجہ، تعلیم، روزگار سے محروم ہے، چھت چھپانے کی جگہ میسر نہیں جب کہ پیپلز پارٹی نے روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ لگا کر ووٹ حاصل کیے تھے، لیکن آج دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی علیحدہ ہوچکا ہے۔